گُذشتہ سے پیوستہ
دُعا سے فارغ ہُوکر فرقان نے حَسّان صاحب کے ہاتھوں کو بُوسہ دیتے ہُوئے
اجازت طلب کی اور پھر اپنی گاڑی میں سوار ہُوکر گھر کی جانب چل دِیا گھر کے
مین گیٹ پر پُہنچ کر فرقان نے جونہی کار کا ہارن بجایا۔ چند ہی لمحوں میں
چُوکیدار نے مین گیٹ کھول دِیا۔ مگر جیسے ہی فرقان کار پُورچ میں دَاخِل
ہُوا تُو اُسے نعمان کی کار پہلے سے وہاں کھڑی نظر آئی۔
فرقان جونہی کار سے نِکلا تُو چُوکیدار نے اُسے اطلاع دِی کہ نُعمان صاحب
پِچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے ڈرائینگ رُوم میں بڑی بے چینی سے اُسکا انتظار کر رہے
اور کافی مرتبہ آپکو کال بھی مِلا چُکے ہیں مگر آپکا فون تب سے بند مِل رہا
ہے۔ تب فرقان کو یاد آیا کہ اُس نے نماز کے بعد سے اپنا موبائیل فُون ابھی
تک آن نہیں کیا ہے۔
وہ ڈرائینگ رُوم کی جانب بڑھتے ہُوئے یہی سُوچ رہا تھا ۔ اللہ خیر کرے۔
کہیں وہ بالکل ہی تمام ناطے تُو ختم کرنے نہیں چلا آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَب مزید پَڑھیئے۔
فُرقان نے ڈرائینگ رُوم میں نُعمان کو دِیکھا۔ جُو آنکھیں بند کئے صوفے پر
نیم دَراز تھا۔ فرقان نے قریب جاکر آہستہ سے سلام کیا۔ نُعمان نے فُرقان کی
آواز سنتے ہی اپنی آنکھیں کُھول دِیں ۔ اور فرقان پر نِگاہ پڑتے ہی سلام کا
جواب دیتے ہُوئے مُصافحے کیلئے اُٹھ کھڑا ہُوا۔
فرقان نے مُسکراتے ہُوئے نُعمان کی خیریت دریافت کی۔ جِسکے جواب میں نُعمان
صرف اتنا ہی کہہ پایا ،، میری خیریت کیا دریافت کرتے ہُو ۔۔۔؟ میرے بھائی
کیا میرا چہرہ اور میری آنکھیں تُم سے یہ نہیں کہہ رہیں کہ میں تُم سے بُہت
شرمندہ اور نہایت پَشیمان ہُوں۔ اپنی اُن باتُوں کیلئے جو میں نے نجانے کِس
حال میں تُجھ سے کہہ ڈالیں۔ فرقان میرا یقین کرو۔ میرا ہرگز ایسا کوئی
اِرادہ نہیں تھا کہ میں تُم کو اِیذا پُہنچاؤں ۔ میں تُم سے جُدا ہُونے کا
تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مگر نجانے اُس وقت کِس طرح میری زُبان سے وہ جُملہ
نِکل گیا۔۔۔ جو کہ دَرحقیقت نہیں نِکلنا چاہیئے تھا۔۔۔ دراصل وہ کِسی اور
کا اندیشہ تھا۔ وہ کِسی اور کے خیالات کی بازگشت تھی۔ جُو نجانے کِسطرح
میری زُبان پر جاری ہُوگئی۔ پشیمانی و شرمندگی کا اِحساس نُعمان کے ہر ایک
جُملے سے عَیاں تھا۔
بس کر میرے یار۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا بھائیوں جیسا دُوست کوئی ایسا کام
نہیں کرے گا ۔جِسکے سبب ہمارے درمیان کوئی نادیدہ فاصِلہ حائل ہُوجائے۔
فرقان نے نُعمان کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگاتے ہُوئے کہا۔ اور ہاں۔ ایسے
لوگوں سے ہمیشہ دُور ہی رِہنے میں عافیت ہے۔ جنکی باتوں سے اپنوں میں جدائی
پیدا ہُوجائے۔ کیونکہ حَسَّان صاحب کہتے ہیں کہ دُنیا کے بدترین انسانوں
میں سے ہے وہ اِنسان ،،جو دُوستوں اور میاں بیوی ،،میں جُدائی پیدا کرنے کی
کُوشش کرتا ہے۔
چھوڑ۔نا۔ یار ۔۔ ایک تُو آجکل تُم ہر ایک بات میں اُس پروفیسر کو ضرور
گھسیٹ کر لے آتے ہُو۔۔۔ کیا ہم اُس پَروفیسرکے ذکر کے بغیر اپنی گُفتگو
مکمل نہیں کرسکتے۔۔۔! یہ جُملہ اگرچہ نعمان نے ہنسی میں اُڑاتے ہُوئے کہا
تھا۔ لیکن فرقان نے لہجے میں چھپے نُعمان کے طنز کو بخوبی مِحسوس کرلیا
تھا۔نُعمان چند لمحوں کیلئے خاموش ہُو کر سگریٹ سُلگانے لگا ۔ جبکہ فُرقان
خاموشی سے سُوچنے لگا کہ کیوں بھلا نُعمان ۔۔حَسَّان صاحب کے ذکر سے اسقدر
چڑنے لگاہے۔۔۔؟
حالانکہ یہ حَسَّان صاحب ہی تھے کہ جِنہوں نے فرقان کو تیرگی کے بحرِ
بیکراں سے روشنیوں کی جانب کھینچ لیا تھا ۔ وہ نہ صرف شریعت کے پابند تھے
بلکہ اُنکی زندگی کا مِحور ہی اتباعِ سُنت تھا۔وہ ہر ایک کام میں رضائے حق
کے مُتلاشی تھے۔اُنکا کوئی عَمل مُحبت رسول ﷺ سے مستشنیٰ نہیں تھا۔ وہ تُو
اُس مینار کی مانند تھے ۔ جُو تاریک اور سنسان راہوُں پر رنگ و نُور پھیلا
کر ماحُول پر طاری وحشت کو ختم کرنے کی سعی میں مصروفِ با عمل رِہتا ہے ۔
وہ تُو اُمید ِ سحر ہیں۔ وہ تُو سراپا مُحبت ہیں۔ اور مُحبت اور علم لازِم
و ملزُوم ہیں۔ اِسی لئے شائد مُحبت کا دوسرا نام روشنی بھی ہے۔ اور روشنی
سے نفرت صِرف وہی کرسکتا ہے جِسے اندھیرے پسند ہُوں۔ اور اندھیرا جِہل ہی
کا تُو دُوسرا نام ہے۔ اور جِہل شیطان سے ہے۔ یعنی تاریکی اور جہل کو پسند
کرنے والا شیطان کا ساتھی ہوا ۔۔۔۔۔! تُو کیا نعمان بھی اُس شیطانِ لعین کے
سحر میں اس حد تک گرفتار ہُو چُکا ہے کہ اُسے روشنی سے نفرت ہُونے لگی
ہے۔۔۔؟
فُرقان اپنی سُوچوں میں گُم تھا۔کہ اچانک نعمان نے فرقان کے ایک ہاتھ کو
اپنے ہاتھوں میں لیتے ہُوئے کہا،، یار فرقان اگر تُم ناراض نہ ہُو تُو تُم
سے ایک بات پُوچھنا چاہتا ہُوں ۔کہ آخر تُم بنک لُون کے ذکرپر اتنے جذباتی
اور متشدد کیوں ہُوجاتے ہُو۔۔۔؟
فُرقان نے چُونک کر نُعمان کی طرف دِیکھتے ہُوئے کہا۔ضرور نُعمان ! میں
تُمہیں ضرور بتاؤں بتانا چاہُوں گا ۔کہ مجھے اِس مُروجہ بنک سسٹم سے آخر
اتنی نفرت کیوں ہے ۔ نُعمان میرے بھائی مجھے بنک کے قرضوں سے اُس وقت بھی
نفرت تھی جب مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اِس سسٹم اور اسکے طریقہ کار کی
اللہ کریم نے واضح الفاظ میں قُرانِ مجید میں ُمُذمت بیان فرمائی ہے۔ میرے
بھائی اِس سے پہلے کہ میں تُمہارے سَوال کا مزید جواب دُوں۔ میں تُم سے ایک
اُور بات بھی کہنا چاہتا ہُوں۔ اور وہ بات شائد تُم بھی نہیں جانتے ۔کہ اِس
بھری دُنیا میں تُم ہی میرے واحد دوست کیوں ہُو۔۔۔!تُو میرے دُوست میں
تُمہیں آج بتانا چاہتا ہُوں ۔کہ تُم نے کبھی میرے ماضی کو نہیں ٹٹولا ۔اور
نہ ہی کبھی تُم نے میری ذاتی زندگی میں خُود سے جھانکنے کی کوئی کوشش کی
ہے۔ اُور تُمہاری یہی عادت مجھے تُمہارے قریب لانے کا باعث بنی ہے۔
نُعمان میرے بھائی تقریباً ہر انسان کی زندگی میں اُسکے ماضی کےکُچھ ایسے
واقعات ضرور ہُوتے ہیں جو اُسکی رُوح پر زَخموں کے نِشانات چھوڑ دیتے ہیں۔
اور جب جب اُن واقعات کی یاد تازہ کی جاتی ہے وہ زُخم جو کہ مُندمِل ہُونے
کے قریب ہُوتے ہیں پھر سے ہرے ہُوجاتے ہیں۔ ایسے ہی کُچھ تکلیف دَہ زَخموں
کے نِشان میری قرطاس رُوح پر بھی ثبت ہیں ۔ جنہیں میں لاکھ بُھلانے کی
کُوشش کرتا ہُوں۔ لیکن یہ زَخم ہیں کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتےَ۔
میرے بھائی جِس وقت میرے والد نے میری والدہ اور ہم دُو بہن بھائیوں کیساتھ
فیصل آباد سے سندھ کی طرف ہجرت کی تھی تب میں عُمر کے پندرہویں برس میں قدم
رکھ رَہا تھا ۔اُور میری اکلوتی بِہن کی عُمر صرف دَس برس رہی ہُوگی۔ اور
مجھے آج تک وہ دِن اچھی طرح سے یاد ہیں۔ کیونکہ اُن دِنِوں میرے والد کا
بال بال قرض میں جکڑا ہُوا تھا۔ اور قرض خواہُوں کے دِن رات کے تقاضوں کے
سبب ہی ہم پنجاب سے ہجرت کرنے پر مجبور ہُوئے تھے۔ اُن دِنوں کئی مہینوں تک
ہمیں کبھی پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہُوپاتا تھا۔ کئی ماہ کی کوششوں
کے بعد ابا جان کو ایک گارمینٹس فیکٹری میں سپروائزر کی جاب مِل سکی تھی۔
جِس سے بمشکل ہم سانسوں کا رِشتہ جِسم سے قائم رکھ پاتے ۔یا بُہت کھینچ تان
کرگھر کا کرایہ ادا کرپاتے تھے۔ اسکے سِوا اور کوئی خُوشی کا موقع ہمیں
نصیب نہ ہُوپاتا۔
میری تُم سے مُلاقات بھی اُنہی دِنوں میں ہُوئی تھی میں اپنے ہم عُمر
بچَّوں سے گُریزاں رَہا کرتا تھا۔ لیکن تُمہاری خُوش اِخلاقی اور دوست
پروری سے میں نہایت مسرور تھا۔لیکن مجھے ہمیشہ ایک دھڑکا سا لگا رہتا تھا۔
کہ تُم بھی دوسروں کی طرح کب میری زندگی کے اُن صفحات میں دلچسپی ظاہر کرتے
ہُو ۔ جَن پر نِگاہ پڑتے ہی میں ہمیشہ وِحشت زدہ ہُوجاتا ہُوں۔ لیکن تُم نے
کبھی میرے ماضی کو ٹٹولنے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ میں اُس آزار کے
جنگل سے نِکل آیا۔
میرے دُوست تُم سُوچ رہے ہُونگے کہ میں تُمہارے سوال کے جواب میں یہ کونسی
کہانی سُنانے بیٹھ گیا ہُوں۔ لیکن درحقیت اِس تمہید کے بغیر شائد تُم میری
تکلیف کو سمجھ ہی نا پاتے اسلئے میں نے تُمہیں اپنی سابقہ زندگی کا ایک ورق
پڑھ کر سُناناضروری سمجھا۔
نہیں فرقان ایسی کوئی بات نہیں میں دِلچسپی سے تُمہاری تمام باتیں سُن رہا
ہُوں۔ اور میں جاننا چاہتا کہ وہ کونسی دلیل ہے جو تُمہیں زندگی میں آگے
بڑھنے سے رُوک رہی ہے۔ نُعمان نے سگریٹ کا دُھواں فِضا میں بکھیرتے ہُوئے
کہا۔
میرے خیال میں جِسے تُم زندگی میں آگے بڑھنا سمجھتے ہُو ۔ وہی بات میرے
نزدیک پستی اور تنزلی کا باعث ہے ۔اور میری مُکمل گُفتگو سُننے کے بعد
انشاءَاللہ تُم بھی میری بات سے متفق ہُوجاؤ گے فرقان نے دُوبارہ گُفتگوکے
سلسلے کو آگے بڑھاتے ہُوئے کہا۔
ہاں تُو میں تُمہیں بتا رہا تھا کہ کس کسمپرسی کی زندگی ہم پنجاب سے ہجرت
کرنے کے بعد سندھ میں گُزار رہے تھے۔لیکن میرے دُوست ہمارے ہمیشہ سے ایسے
حالات نہیں تھے ۔ اَمَّاں بتاتی تھیں کہ جس وقت میری عُمر پانچ یا چھ سال
کی تھی۔ اُس وقت میرے والد صاحب کا شُمار پنجاب کے بڑے زمینداروں میں ہُوتا
تھا۔ جھنگ کے نزدیک ہماری ایک سو ایکڑ سے زائد زمینیں تھی۔ گھر میں نوکر
چاکروں کی اِک فوج ہماری خِدمت کیلئے ہمیشہ ہمہ تن گُوش رَہا کرتی تھی۔
لیکن میرے والد صاحب کو زمینداری پسند نہیں تھی۔ کیونکہ اِسمیں اکثر جھگڑے
فساد کا احتمال رہتا تھا۔ ایک ایسے ہی جھگڑے میں میرے والد کے دُو سگے
بھائی کام آچُکے تھے۔ اَمَّاں کو بھی ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا تھا۔ پھر میرے
ایک چچا نے اپنے دُو بھائیوں کا بدلہ لینے کیلئے دُشمنوں کے تین سگے
بھائیوں کو سرعام رُوڈ پر گُولیاں مار کر ہلاک کرڈالا۔
جسکے بعد برادری میں فیصلہ ہُوا کہ ہمیں اپنی کُچھ زمین مقتولین کے ورثا کو
دینی ہُونگی۔ حالانکہ جب اُنہوں نے میرے دُو چچا قتل کئے تھے تب برادری نے
ہمیں کوئی تاوان نہیں دِلوایا تھا۔ اور اِس فیصلے کی شائد ایک وجہ یہ بھی
تھی کہ مقتولین بہرحال ہمارے خاندان والوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ پھر نجانے
کیا ہُوا کہ ایکدن میرے آخری چچا کا انتقال ایک رُوڈ ایکسیڈنٹ میں ہُوگیا۔
کہنے والے کہتے تھے کہ وہ ایکسیڈنٹ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ بلکہ میرے
چچا کو نِشانہ بنا کر ٹرک سے کُچل کر بڑی بیدردی سےقتل کیاگیا تھا۔ اِس
واقعہ کے بعد میرے والد کی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی اور میرے ابا جھنگ کا
علاقہ چُھوڑ کر فیصل آباد چلے آئے۔
فیصل آباد میں شفٹ ہونے کے بعد ابا نے تمام زمینیں اُونے پُونے داموں میں
فروخت کرڈالیں۔ اور زمینوں سے حاصِل ہُونے والی تمام رقم سے اپنے تین
دوستوں کی شراکت سے ایک کپڑے کی مِل لگا ڈالی ۔ابتدائی دُو سال تُو بخیر و
عافیت گُزر گئے لیکن تیسرے سال اُس فیکٹری میں آتشزدگی کے ایک واقعہ نے ہم
سب کو دِہلا کر رکھ دِیا۔ فیکٹری کا انشورنس نہ ہُونے کی وجہ سے تمام خسارہ
چاروں پارٹنرز کے حصے میں آیا۔ اور فیکٹری شدید مشکلات کا شِکار ہُوگئی۔
یہانتک کہ فیکٹری کو چلانے کیلئے جو خام مال درکار تھا اُسکی خریداری کے
لئے بھی سرمایہ نہ بچا۔ دھیرے دھیرے فیکٹری مقروض ہُوتی چلی گئی۔
فیکٹری چلانے کیلئے بنک سے قرض حاصل کیا گیا ۔ تاکہ فیکٹری کو چلایا
جاسکے۔لیکن بقول کِسے،، مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی ،، کے مِصداق قرض
بڑھتا ہی چلا جارہا تھا ۔ خسارے کو پُورا کرنے کیلئے چاروں دوستوں نے مزید
رقم فیکٹری میں شامل کرنے کا پروگرام بنایا جسکی وجہ سے میرے والد اور
اُنکے ایک دوست نے اپنا مکان تک بیچ ڈالا جبکہ دُو دُوستوں نے اتنی ہی رقم
دوسرے ذرائع سے کاروبار میں شامل کردی ۔لیکن کوئی فائدہ حاصل نہ ہُوسکا صرف
چار برس میں بنک کا قرض دُو گُنا ہُوگیا۔ جُو کہ فیکٹری کی کُل مالیت سے
بھی زائد تھا ۔جِسکو ادا کرنے کی کوئی سبیل بھی اب نظر نہیں آرہی تھی۔جبکہ
بنک کا تقاضہ رُوز بروز بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔
تبھی والد صاحب اور اُنکے دوستوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ پرایئویٹ سیکٹر
سے قرض حاصِل کیا جائے لہذا کئی لوگوں کو بطور انویسٹر فیکٹری میں پارٹنر
شپ دی گئی ۔لیکن یہ سرمایہ بھی فیکٹری کی ساکھ کو نہیں بچا پایا ۔اور
بِلاآخر بنک اکاونٹ میں موجود تمام سرمائے کو اچانک ایکدِن بنک نے سُود کی
مَد میں جمع کرلیا۔ اور بنک نے عدالت سے فیکٹری کی قُرقی کے احکامات بھی
حاصِل کرلئے ۔ اس تمام معاملے کی بھنک جب انویسٹرز تک پُہنچی تُو اُنہوں نے
میرے والد سمیت چاروں دوستوں کا جینا دُوبھر کردِیا۔ اُنہی لُوگوں میں ایک
شخص نے اپنی زندگی کی تمام پُونجی بطور انویسٹر اس فیکٹری میں سہانے مستقبل
کی خاطر لگائی تھی۔ جب اُسے فیکٹری کی قُرقی سے متعلق خبر مِلی تو اُسے
ہارٹ اٹیک نے آلیا ۔جس کے بعد وہ جانبر نہ ہُوسکا۔
اور اسطرح میرے دُوست( سُود ۔در۔ سُود) کے اس نظام نے نہ صرف میرے والد اور
اُنکے تین دُوستوں کی زندگی سے ہمیشہ کیلئے خُوشیاں چھین لیں۔ بلہن کئی اور
لوگوں کو بھی اپنے ظُلم کا نِشانہ بناڈالا۔ جنکا قصور شائد صرف اتنا تھا کہ
وہ اپنی زندگی میں کُچھ آسانیاں تلاش کرنے کیلئے کوئی آسان راستہ ڈھونڈ رہے
تھے ۔ جبکہ درحیقت اُن لوگوں کا بنک سے کوئی معاملہ ہی نہیں تھا۔ اور بنک
کو بھی یہ بات معلوم تھی ۔اور اُنہوں نے انویسٹرز والے آئڈئیے کی منظوری
دیتے ہُوئے میرے والد اور اُنکے دوستوں کو یقین دِہانی کرائی تھی ۔کہ اگر
کبھی بنک کاروائی ہُوئی بھی تُو اِن انویسٹرز کا بہرحال خیال رکھا جائے
گا۔فرقان کی آواز آخری جُملے ادا کرتے ہُوئے بَھرَّا سی گئی تھی۔
لیکن فرقان اس تمام مُعاملے میں مجھے بنک سے زیادہ تُمہارے والد اور اُنکے
ساتھیوں کی غلط پلاننگ نظر آرہی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ جُو غلطی تُمہارے والد
نے کی تھی۔ ہم بھی اُسی غلطی کو دُھرائیں۔۔۔؟ نعمان نے تمام گُفتگو سننے کے
بعد اپنی رائے دیتے ہُوئے کہا۔
نُعمان کی بات سُن کر فرقان کا مُنہ حیرت سے کُھلا کا کُھلا رِہ گیا۔۔۔۔
اُسے ہرگز توقع نہیں تھی۔ کہ نُعمان اُسکی داستان سننے کے بعد بھی بنک لُون
کی حمایت میں کُچھ کہہ سکتا ہے۔
(جاری ہے) |