عامِل کامِل اور اَبو شَامِل قسط٣

گُزشتہ سے پیوستہ

پھر اَماں نے جیسے تیسے کوشش کر کے کامل کو ہائی اسکول میں نئی یونیفارم اور نئی کاپی کتابوں کیساتھ داخل کرا دِیا۔ وقت گُزرتا رہا اور ایک دِن اسکول سے واپس گھر آتے ہُوئے کامل کو معلوم ہُوا کہ مُحلے کی واحد مسجد کے اِمام رمضان صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ مُحلے کے سبھی لوگ آہستہ آہستہ امام صاحب کے گھر کے باہر شامیانے میں جمع ہورہے تھے۔ کامل لمبے لمبے قدم بھرتا جُونہی اپنے گھر کے نذدیک پُہنچا ۔ اُس کی نظر گھر سے کُچھ فاصلے پر کھڑے اُسی نوجوان پر پڑی جو اُس دِن اِنکے گھر سے نِکل کر بھاگا تھا۔

اب مزید پڑھیئے۔

کامل نے گھر کی دہلیز پر پُہنچ کر بدحواسی میں جلدی سے دروازے پر نصب کُنڈی کو تیز تیز بجانا شروع کردیا۔ اَمّاں نے دروازے کے جھروکے سے جُونہی کامل کو دیکھا تو فوراً دروازہ کھول دِیا ۔ کامل نے اندر داخِل ہُوتے ہی فوراً دروازے کو بند کیا اور خُوف سے اَمّاں سے لپٹ گیا۔ اماں بھی کامل کی بدحواسی سے کُچھ پریشان نظر آنے لگی تھیں۔ اُنہوں نے کامل کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا ،، ماں صدقے تجھے آج ہُوا کیا ہے،، کیا کوئی تیرا پیچھا کررہا ہے؟ یا تجھے کِسی نے مارا ہے۔۔۔؟

اَمّاں آج پھر وہی آدمی ہمارے گھر کے باہر کھڑا ہے جو اُس دِن ہمارے گھر میں گُھس آیا تھا۔ کامل نے بمشکل ہکلاتے ہُوئے جملہ مکمل کیا!

اُسکی یہ جُرات کہ اب وہ بار بار میرے گھر کے چکر لگانے لگا ہے۔ اب میں اُسے مزید اپنے بچے اور خُود کو ہراساں کرنے کی قطعی اِجازت نہیں دُونگی یہ کہتے ہُوئے اَمّاں نے کامِل کو خُود سے جُدا کیا اور اپنی چادر سمیٹتے ہُوئے دروازے کی کُنڈی کھولنے لگی۔

کامل اَمّاں کے بدلتے تیور اور آنکھوں میں بھری چنگاریاں دیکھ کر مزید سِہمتے ہُوئے ایکبار پھر اَماں سے چمٹ گیا۔ اماں رہنے دو،، وہ،، کہیں تمہیں نقصان نہ پُہنچادے۔ اب تُمہارے سِوا میرا دُنیا میں اور کُون ہے۔ کامل بلک بلک کر اَمّاں سے فریاد کررہا تھا۔

لیکن آج تو اَمّاں کے تیور ہی کُچھ اور نظر آرہے تھے وہ اُس ہرنی کی مانند نظر آرہی تھی جسکا بچہ کِسی بھیڑئے نے فخر سے گھیر لیا ہُو۔ اور حقارت سے اُس ہرنی سے کہہ رَہا ہو کہ اگر تیرے بس میں ہُو۔ تو آ مجھ سے اپنا بَچَّہ چھڑا لے۔ اور وہ ہرنی اپنی جان کی قیمت پر اُس بھیڑیئے سے نبرد آزما ہُونے جارہی ہُو۔

نہیں میرے بچے اگر آج میں اُسے روکنے کیلئے نہیں نِکلی تو اس ظالم بھیڑیئے کا حُوصلہ مزید بُلند ہُو جائے گا مجھے جانے دے۔ میں تُجھ سے وعدہ کرتی ہُوں کہ میں واپس لُوٹ کے آؤں گی اور مجھے کوئی گُزند نہیں پُہنچائے گا کہ جو جتنا بڑا ظالم ہُوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ بزدل بھی واقع ہُوتا ہے۔ اگر آج میں نے اُسے معاف کردیا تو پھر خُود کو کبھی مُعاف نہیں کرپاؤں گی۔ یہ سمجھاتے ہُوئے اَمّاں نے کامل کی آنکھوں سے آنسو پُونچھتے ہُوئے کامل کو صحن میں بِچھی چارپائی پر بِٹھایا اور دروازے کی جانب بڑھ گئی۔

اَمّاں جُونہی چادر لپیٹ کر دروازے سے باہر نِکلی۔ کامِل بھی دروازے کی اُوٹ سے باہر کا منظر دیکھنے لگا وہ شخص ابھی تک سامنے چند مکان دُور دیوار سے ٹیک لگائے بظاہر ایسے کھڑا تھا جیسے کِسی شناسا کا انتظا ر کر رہا ہُو ۔ اُس نے جُونہی اَمّاں کو دِیکھا اُسکی باچھیں کُھلنے لگی تھیں۔ اَمّاں کے چہرے پر موجود نِقاب کے باعث شائد وہ اُس افتاد سے بے خبر تھا جُو اُس پر نازل ہُونے والی تھی۔

حُسنِ اتفاق سے جونہی اَمّاں گھر سے باہر نِکلی۔ سامنے سے نرگس کے ابا ۔چاچا ارشد بھی ہاتھ میں پھولوں کا ٹوکرا۔ اور کفن دفن کا سامان لئے آرہے تھے اُنکے ساتھ محلے کے دو تین ادھیڑ عمر ساتھی بھی موجود تھے۔ جب اَمّاں اُس نوجوان کے کُچھ قریب پُہنچیں تب تک چاچا ارشد بھی اُس نوجوان کے کافی قریب پُہنچ چُکے تھے اَمّاں کو دیکھتے ہی چاچا ارشد اور باقی لوگوں نے اپنی نِگاہوں کو جُھکا لیا تھا۔ لیکن اُس نوجوان کے گال پر اَمّاں کے پڑنے ولے طمانچے کی گُونج نے چاچا ارشد کو واپس گھومنے پر مجبور کردِیا تھا۔ چاچا ارشد کی موجودگی سے کامِل کی بھی ہمت بندھی اور وہ چاچا ارشد کی جانب یہ کہتے ہُوئے لپکا۔ چاچا میری اَمّاں کو یہ آدمی بُہت دِنوں سے تنگ کررہا ہے۔

کامل کے جُملے اور اَمّاں کےطمانچے کی گُونج سے چاچا ارشد کی سمجھ میں تمام بات واضح طور پر آگئی۔ اُس وقت شائد چاچا ارشد کے ہاتھ میں میت کے سامان کے علاوہ کوئی اور شئے ہوتی تو وہ اُسے پھینک کر اُس شخص پر ٹوٹ پرتے لیکن میت کے سامان کے احترام کی وجہ سے اُنہوں نے سامان کو ایک طرف رکھتے ہُوئے دِہاڑ کر اُس نوجوان کو رُکنے کا کہا۔ لیکن اِس سے پہلے کہ چاچا ارشد اور اُنکے ساتھی اُس نوجوان کو قابو کرتے اُس نوجوان نے وہاں سے دُوڑ لگانے میں ہی عافیت جانی۔ چاچا ارشد اور اُنکے ساتھیوں نے کافی دُور تک اُس نوجوان کا تعاقب جاری رکھا۔ لیکن وہ نوجوان کِسی چھلاوے کی مانند دوڑتا ہُوا بستی کی گلیوں میں گُم ہُو چُکا تھا۔

اَمّاں کامِل کا ہاتھ تھام کر گھر کی طرف چلنے لگی تُو کامِل نے اَمّاں سے کہا کہ اَمّاں چاچا ارشد کو تُو آلینے دُو۔ وہ اپنا سامان یہیں چھوڑ گئے ہیں۔ اَمّاں کامل کا ہاتھ چھوڑ کر یہ کہتی ہُوئی دروازے کی اُوٹ میں چلی گئیں کہ آج جو سبق میں نے اُس کمینے کو سکھایا ہے اُسکے بعد وہ ہمیں تُو کیا دُنیا کی کسی بھی عورت کو نہیں ستائے گا۔ نہ جانے کیوں ہمارے معاشرے میں مرد عورت کی شرافت اور خَاموشی کو رضامندی سے ہی تعبیر کرتے ہیں ۔۔۔؟

تھوڑی دیر بعد چاچا ارشد اپنے ساتھیوں کیساتھ واپس لُوٹ آئے۔ وہ کامل کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہنے لگے بیٹا اپنی اَمّاں سے کہنا کہ بالکل نہ گھبرائے اور نہ ہی وہ خُود کو تنہا سمجھے جب تک میں زندہ ہُوں کوئی تُمہاری طرف میلی نِگاہ سے بھی دیکھے گا تو قسم خُدا کی اُسکا وہ انجام کروں گا کہ لوگ اُسکی بدحالی کی مِثالیں دِیا کریں گے۔ اور ہاں اپنی اَمّاں سے کہنا کہ میں میت سے فارغ ہُو کر تُمہاری چچی کیساتھ شام کو تُمہارے گھر آکر تفصیل سے بات کرونگا یہ کہتے ہُوئے چاچا ارشد سامان سنبھالتے ہُوئے دوبارہ مولوی رمضان کے گھر کی جانب روانہ ہُوگئے۔

گھر میں داخِل ہُوتے ہُوئے کامِل کی نِگاہ اَمّاں پر پڑی جو دروازے کی اُوٹ میں کھڑی تھی ۔ اَمّاں کیا تُم نے چاچا کی بات سُن لی یا میں بتاؤں ! کامل کے استفسار پر اَمّاں نے فقط اتنا ہی کہا۔ میں سب سُن چُکی ہُوں اللہ تعالیٰ ارشد بھائی کا سایہ اُنکے بچوں پر ہمیشہ سلامت رکھے اُنکے پڑوسی ہونے سے بُہت ڈھارس سی رہتی ہے مجھے۔

شام کو حسبِ وعدہ ارشد چاچا اورچاچی کامل کے گھر آگئے ۔چاچا ارشد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی اَمّاں نے چائے کی دیگچی چُولہے پر چڑھا دی کامِل کو اَماں نے خاموشی سے کُچھ پیسے اپنے دوپٹہ سے نکال کر دیئے جن سے کامل بیکری سے تازہ تازہ بسکٹ خرید لایا۔ چائے پیتے پیتے نرگس بھی چاچی کو ڈھونڈتے ہُوئے کامِل کے گھر آگئی ۔اَمّاں نے نرگس اور کامل کو بھی دیگچی سے گرما گرم چائے نکال دی۔ وہ دونوں چائے پینے کے بعد صحن میں ہی کھیلنے لگے اور چاچا ارشد، اَمّاں اور چاچی آپس میں باتیں کرنے لگے کُچھ ہی دیر گُزری تھی کہ اچانک کامل کو محسوس ہُونے لگا کہ اچھے بھلے خُوشگوار ماحول میں اَمّاں کے لہجے میں تلخی عود کر آئی تھی۔ کامِل کے ننھے دِماغ نے اُسے خبردار کیا کہ ضرور کُچھ گَڑ بڑ ہُوگئی ہے۔ ورنہ اَمّاں کا لہجہ کبھی بھی چاچا ارشد کے سامنے تلخی سے بھرا نہیں ہُوسکتا تھا۔

کامل نے اپنے کان غیر ارادی طور پر اُنکی ہُونے والی گُفتگو کی جانب لگادیئے۔ اَمّاں بڑے سخت لہجے میں چاچا ارشد سے مخاطب ہُوتے ہُوئے کہہ رہی تھیں بھائی جان آپ نے یہ سُوچ بھی کیسے لیا کہ میں کامل کی موجودگی میں دوسری شادی کا تصور بھی کرسکتی ہُوں۔ میں اپنی خُوشی کی قیمت پر اپنے بَچے کی خُواہشات کا گلا کیسے گھونٹ سکتی ہُوں میری زندگی کا تُو بس اب ایک ہی مقصد ہے ۔کہ کامل کی تربیت اتنے اچھے انداز سے کروں کہ کل مِحشر میں مجھے کامل کے ابّا کے سامنے شرمندہ نہ ہُونا پڑے۔ اَمّاں کا لہجہ اگرچہ دھیما تھا مگر لہجے کی سختی نے اُنکی آواز کو بُلند کردیا تھا۔

چاچا ارشد اَمّاں کو سمجھا رہے تھے کہ ضیاالدین صاحب بُہت نفیس انسان ہیں۔ اور وہ میرے سابقہ بہنوئی بھی ہیں۔ میری بہن کے انتقال کے بعد تنہا زندگی گُزار رہے ہیں۔ چار سالہ ازدواجی زندگی گُزارنے کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم رہے ہیں۔ پاکستان کے کئی شہروں میں اُنکا کاروبار پھیلا ہے اور اب ایک برس ہُوگیا ہے۔ وہ میری بہن کے انتقال کے بعد سے کینڈا میں مقیم ہیں۔ اور میرے بُہت سمجھانے پر دوسری شادی کیلئے راضی ہُوئے ہیں۔ اور مجھے ضیاالدین بھائی کی فِطرت خُوب معلوم ہے وہ کبھی کامل کو اپنے باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔ بلکہ بالکل اپنی اولاد کی طرح کامل کی پرورش کریں گے۔ چاچا ارشد کے لاکھ اِصرار کے باوجود اَمّاں کی ناں اقرار میں نہیں بدلی۔ اسکے بعد چاچا ارشد اِجازت لیکر واپس پلٹ گئے اگر چہ اُنکے چہرے پر معمول کی مسکراہٹ تھی لیکن کامل اُس مسکراہٹ کے پیچھے چُھپے تناؤ کو صاف مِحسوس کرسکتا تھا ۔ چاچا ارشد کے جانے کے بعد کامل اَمّاں کے پاس بیٹھ کر نہایت افسردہ لہجے میں پُوچھنے لگا۔ اَمّاں کیا تُم دوسری شادی کررہی ہو۔۔۔؟ اور کیا اُسکے بعد نئے اَبّا مجھے گھر سے نِکال دیں گے۔۔۔ ؟

کامِل کے معصوم سوال سُن کر اَمّاں کی آنکھیں مزید نم ہوگئیں اُنہوں نے کامل کو بھینچ کر اپنے سینے سے لگاتے ہُوئے کہا ،، میں نہ ہی دوسری شادی کررہی ہُوں اور نہ ہی دُنیا کی کوئی طاقت تجھے مجھ سے جُدا کرنے کا حُوصلہ رکھتی ہے ِس واقعہ کو ایک مہینہ بھی نہیں گُزرا تھا۔ کہ ایک رات سُوتے ہُوئے اچانک کِسی دھمک کی آواز کے سبب کامِل کی آنکھ کُھل گئی کامل کی نِگاہ سب سے پہلے اَماں پر پڑی جو ہُونٹوں پر انگلی رکھے خاموشی سے کامل کو کمرے کے کُونے میں رکھی الماری کے پیچھے جانے کا اِشارہ کر رہی تھیں۔ دروازہ اگرچہ اندر سے بند تھا لیکن کامل کو الماری کے پیچھے جاتے ہُوئے کھڑکی کے شیشے سے تین آدمیوں کا ھیولا نظر آرہا تھا ۔جو صحن سے اُنکےکمرے کے دروازے کی جانب ہی بڑھ رہے تھے ۔

(جاری ہے)
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1096044 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More