علم حدیث کی تدوین پہلی صدی کے
آخرمیں ا شروع میں ہوئی ، مطلب یہ نہیں کہ پہلے اہتمام نہ تھا بلکہ حضور ﷺ
سے لے کر مصنفین تک لکھنے کا اہتمام تھا مگریہ اہتمام ایک خاص نقطہ نظر سے
تھا وہ خاص نقطہ نظر یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم یاد بھی کرتے تھے
اور لکھتے بھی تھے، ہر ایک کے پاس اپنے صحیفے تھے جیسے حضرت عائشہ رضی اﷲ
عنہا اور عمر بن عاص رضی اﷲ وغیرہ وغیرہ ان کے پاس اپنے صحیفے تھے۔سب سے
پہلے ابوبکر محمد بن عمر و بن حزم الانصاری رضی اﷲعنہ نے حدیث کو ایک جگہ
جمع کیا، پھر سرکاری طور پر عمر بن عبدالعزیز نے حدیث کو جمع کرنے کی
ابتداءکی ۔جمہورکہتے ہیں کہ مدوّن اوّل ابن شہاب زھری ہے،تطبیق کی صورت یہ
ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے حدیث کے جمع کرنے کا فرمان ابن شہاب زھری اور
قاضی ابوبکر بن محمدبن حزم دونوںکو جاری کروایا۔ لیکن سب سے پہلے ابن شہاب
زھری نے جمع کر کے عمر بن عبدالعزیز کو بھیجوایا اور اسے نافذکیا۔ قاضی ابو
بکر بن محمد بن حزم نے بھی جمع کیا لیکن بھیجنے سے پہلے ہی عمر بن
عبدالعزیز کا انتقال ہو چکاتھا۔اس تمھید کے بعد منکرین حدیث کے اعتراضات
اور جوابات کی طرف آتے ہیں۔
سوال۔ ایک صدی گزرنے کے بعدحدیث کے جمع کا اہتمام کیوں کیا گیا اس سے پہلے
کیوں نہیں کیا گیا؟
جواب۔حضرت ابو بکررضی اﷲ عنہ نے قرآن کو جمع کیا وہ زیادہ ضروری تھا اور
منکرین زکوٰة کے خلاف جہاد میں بھی مشغول تھے، پھرحضرت عمر رضی اﷲعنہ کا
دور آیااس نے بھی ارادہ کیا جمع کرنے کا لیکن جو وجوہات رسول اﷲﷺ کے زمانے
میں حدیث کو جمع نہ کرنے کی تھی وہ وجو ہات حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانے میں
بھی تھے،وہ زمانہ جمع القرآن کا تھا اوراگر حدیث کو بھی جمع کرتے تو التباس
لازم آنے کا خدشہ تھا،اور اس کے ساتھ دونوں میں فرق مراتب بھی باقی نہیں
رہتا۔ یہی صورت حال حضرت عثمان رضی اﷲعنہ کے دور میں بھی تھی وہ قریش کی
لغت میں قرآن جمع کرنے میں مصروف تھے۔ اورحضرت علی رضی اﷲ عنہ خوارج کے
خلاف جہاد میں مصروف تھے ۔اب 99 ہجری کے بعد حدیث کے جمع کرنے کا اہتمام
ہوا۔
ابن شھاب زہری 51ہجری میں پیدا ہوئے ،بچپن میں ہی والد وفات پاگئے تھے،
10صحابہ کرام سے ملاقات کی اور علم حاصل کیا، 125ھ میں اس کی وفات ہوئی۔
سوال۔ابو سعید خدری رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھ سے
قرآن کے علاوہ میں کچھ نہ لکھو،اور جو لکھا ہے اسے مٹادو۔یہاں صراحتا موجود
ہے کہ قرآن کے علاوہ لکھنے سے منع فرمایاہے اور جو لکھا ہے اسے مٹانے کا
حکم ہے، پھر عمر بن عبد العزیز نے کیوں لکھنے کا حکم دیا؟
جواب۔اس روایت کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوعاً معلول
ہے لیکن موقوفاً صحیح ہے کیونکہ مرفوعاً سند سے بصراحت حضورﷺسے کتا بت حد
یث کا جواز ہے ۔امام بخاری ؒنے کتاب العلم میںایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت
عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ حضور ﷺ کی ہر بات لکھتے تھے،ایک مرتبہ صحابہ
کرام نے ڈانٹا کہ آپ ﷺ بعض اوقات حالت غضب میں ہو تے ہیں کبھی کس حالت میں
اور کبھی کس حالت میں، تو ہر بات نہ لکھا کرو۔ میں نے اس کا ذکر آپ ﷺ سے
کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر حال میں لکھومیر ی زبا ن سے حق کے سواہ دوسری
بات نہیں نکلتی ۔ اور آپ ﷺ نے خودا س صحیفے کا نام "الصحیفہ الصادقہ " رکھا۔
ابن قتیبہ فرماتے ہیں کہ منع کی روایات سے مراد یہ ہے کہ جہاں قرآن لکھا ہو
وہاں نہ لکھو ،تاکہ التباس لازم نہ آئے یا مطلب یہ ہے کہ جنھیں اپنے حافظے
پر اعتماد ہو وہ نہ لکھے۔ امام ابوحنیفہ ؒ اپنے شاگردوں سے فرماتے تھے کہ
بڑا بڑا لکھا کرو،بعد میں بوڑھا ہونے پر بھی پڑھنے میں آسانی ہوگی۔
ابن حجر، امام طہاوی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ سلف میں اختلاف تھا لیکن
بعدوالوں میں اجماع ہے کہ لکھناجائز ہے۔ احتیاط کے پہلو کو سامنے رکھتے
ہوئے لکھنا ضروری ہے۔
سوال ۔قرآن میں ہے کہ ہم نے قرآن کو نازل کیا جس میں ہر چیز کی وضاحت ہے تو
پھر احادیث کے جمع کا اہتمام کیوں کیا گیا؟
جواب۔ہر چیز کا بیان قرآن میں ہے لیکن اس کو بیان کرنا اور سمجھنا ہر کسی
کا کام نہیں اس کے لئے خاص فہم اور ذکاوت کی ضرورت ہے اور وہ فہم حضرت محمد
ﷺ کے پاس تھی اور آپ ﷺ نے قرآن کی تفسیر اپنے احادیثوں میں فرمائی ہے۔امام
شافعی نے فرمایا کہ جو کچھ رسولﷲﷺ نے فرمایا ہے وہ قرآن کا بیان ہے اس لئے
ثابت ہوا کہ جو کام آپ ﷺ نے کیا وہ قرآن کی تفسیر ہے قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے
۔ ایک قواعد کے اصول و جزئیات ہوتے ہیں،اب ہر ایک ان چیزوں کو نہیں سمجھ
سکتا ،اس لیے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا ، کیونکہ استنباط یا تو نبی کا کام ہے
یا نبی کے راستے پے چلنے والوں کا کام ہے،یعنی علماءکرام ۔قرآن میں کلی طور
ہر چیز موجود ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے احادیث کی ضرورت پڑتی ہے لہذا اس
بناءپر احادیث کا جمع کرنا ثابت ہوا۔
سوال ۔احادیث کی جمع قابل اعتبارنہیں اس لئے کہ تدوین0 10سال بعد ہوئی اس
میں تغیرات بھی تو آسکتے ہیں ؟
جواب۔جہاں تک حفاظت کا تعلق ہے اس کا اندازہ اس خط سے لگایا جا سکتا ہے
جوشاہ مصر کی طرف حاتم ابن ابی بلتعہ کو دیاگیا تھااصل خط اب بھی کتابوں
میں مذکورہ ہے ایک حرف کی غلطی بھی نہیں ہے، بلکہ جتنے بھی خطوط حضور ﷺ نے
بھیجے ہیں اکثر کتابوں میں صحیح سالم موجود ہے۔ یہ اعتراض ایک صدی کے بعد
جمع کرنے کی کررہے ہیں حالانکہ اس صدی میں صحابہ کرام بھی موجود تھے آخری
صحابی عامر بن واصلہ ابی الطفیل ہے۔ وھب بن جریر فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں
تھا کہ ایک جنازہ آیا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو میرے
والد نے فرمایا کہ یہ ابوالطفیل ہے۔یہ 110ہجری کا واقعہ ہے۔مطلب یہ کہ اس
وقت بھی صحابہ موجود تھے اور یہ کام ابن شھاب زھری کررہے تھے جو عامر ابن
واصلہ ابی الطفیل کے شاگرد ہیں،تو اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کی موجودگی
میں احادیث کا جمع کرنا شروع ہوا۔
سوال ۔حاکم ابو عبد اﷲنیشاپوری نے احادیث کے متن کی تعداد پچاس ہزار نقل کی
ہیں ،جن میں اصح کی تعداد دس ہزارہیں اور باقی صحیح لغیرہ اور حسن وغیرہ
ہیںاس طرح ان سب کو ملاکر تعداد پچاس ہزار تک بنتی ہیں۔اب تم کہتے ہو کہ
امام بخاری اور مسلم کو تین تین لاکھ احادیث یاد تھے ۔تو یہ لاکھوں کے دعوے
کہاں سے آگئے ؟احادیث تو اتنے نہیں جتنا تم دعوے کرتے ہو۔
جواب۔شیخ ابو غدہ نے قیمت الزمن میں صفحہ 35میں فرمایا ہے کہ یعدو المحدثون
کل کلمة وکل کلام من کلام الرسول ﷺ او من کلام الصحابة اور من کلام التابعی
او التفسیر بلفظ صحیح او نحو ذالک اذا روی بالسندحدیثاً۔ اگر ان سب باتوں
کو اگر کوئی محدث سند کے ساتھ بیا ن کرے تو وہ حدیث کہلاتا ہے،محدیثین کے
ہاں طرق وسند کا اعتبار ہوتا ہے،متن کا نہیں۔اب انماالاعمال بالنیات، یہ
ایک متن ہیں لیکن نقل کرنے والے سات سو تک ہیں ۔علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں
اس حدیث کے نقل کرنے والے تقریبا سو تک ہیں تو یہ سو احادیث ہوگئے۔
سوال ۔سو کیوں کہتے ہو ایک کیوں نہیں کہتے ؟
جواب۔ایک آدمی ساٹھ طلباءکرام کو کہے کہ ہر طالب علم ایک قرآن پڑھے ، سارے
طلباءکرام نے ایک ایک قرآن پڑھا اب بتاؤ کہ ان سب کو ایک شمار کریں گے یا
ساٹھ ،تو یقینا ساٹھ شمار ہونگیں اسی طرح احادیث میں بھی سند و طرق کا
اعتبار ہوتا ہے۔
س۔ قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو اﷲ عزوجل نے لیا ہے لیکن احادیث کا تو نہیں
لیاہے؟
جواب۔قرآن مجید میں احکام ہیں اور اس کی تفصیل احادیث میں مذکور ہیں ،تو
لازمی امر ہے کہ جب قرآن کا ذمہ اﷲ عزوجل نے لیا ہے تو پھر بطرق اولی
احادیث بھی حفاظت میں داخل ہیں۔
اﷲ عزوجل ہمیں ہر فتنے سے بچائے۔آمین |