بیانوے ہزار

میں لمبی چھٹیاں گزارنے کے بعدگاﺅں سے واپس ڈیوٹی پر واپس جارہا تھا۔ جب پشاور ریلوے سٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ گاڑی کے روانہ ہونے میں ابھی تیس منٹ سے زائد کا وقت رہتاہے ۔سٹیشن پر کافی رش تھا اس لئے میں نے رش میں پھرنے کے بجائے اپنی سیٹ پر جاکر کتاب کی ورق گردانی کا فیصلہ کیا۔ کیبن میں میرے ارد گرد کی سیٹیں خالی تھیں ، اس لئے میں نے اپنا بیگ بھی سامنے والی سیٹ پر رکھا اور پیر پھیلا کر کتاب کی ورق گردانی شروع کردی۔گاڑی اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوئی ،مسافر ٹکٹیں لئے میرے پاس آتے کھڑکی کی طرف جھکتے سیٹ نمبر دیکھتے اور سر نفی میں ہلا کرگشت جاری رکھتے۔ جب گاڑی اگلے سٹیشن پر رُکی تو میری کیبن میں بھی کچھ مسافر آکر بیٹھ گئے۔نووارد مسافروں میں دو لڑکے اور ایک دس گیارہ سالہ بچی تھی۔لڑکوں کی عمریں باالترتیب چودہ اور تیس سال معلوم ہو رہی تھیں ۔میں نے انکا سرسری سا جائزہ لیا اور پھر سے ورق گردانی کرنے لگا۔مگر چند لمحوں بعد اُنکی گفتگو سے چونک گیا۔ وہ لڑکی اُس بڑے لڑکے کو ابا کہہ رہی تھی اور وہ پشتون تھی لیکن وہ دونوں لڑکے پنجابی۔ بندھن کچھ سمجھ سے بالا تر لگ رہا تھا،کیونکہ اُس بچی کا البیلا پن دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی اپنے کھلونے پٹاری میں بند کرکے سستانے بیٹھی ہے۔اُسے عورتوں کے سلیقے کا ابھی کوئی ادراک نہ تھا،کہ پرائے مردوں سے دور بیٹھنا چاہیے ،اُن کے سامنے نہ ہنسنا چاہیے اور نہ بولنا۔بلکہ چادر لپیٹ کر کسی کونے میں بوری کی طرح بے حس و حرکت پڑے رہنا چاہیے۔ادھر اُدھر دیکھنا اور اور بار بار سیٹ سے اُٹھنا تو زہرِ قاتل ہے کیونکہ گاہک قسم کے مرد اسے اخلاقی زوال پر قیاس کرتے ہیں اور دورانِ سفر باعثِ آزار ثابت ہوتے ہیں۔

مگر یہ البیلی ان تمام باتوں اور تکلفات سے نابلد تھی۔پہلے تومیرے سامنے والی سیٹ کے پہلوٹی شیشے سے دھینگا مشتی کرنے لگی اور پھر اُس چودہ سالہ لڑکے سے اسے کھولنے کی التجا کی۔اُسکا ابا میرے پہلو سے اُٹھ کر ٹرین میں پھرنے گیا تھا، اور میں کتاب پڑھنے میں مصروف تھا اس لیے جب اُس نے چھولے فروش کو دیکھا تو دور سے آواز دی۔" روریالِگ خو دا کھلاﺅکا کنہ" (بھا ئی زرا، اسے کھول دو !)۔ چھولے والے نے جواب دیا کیوں کھولتی ہو، اس سے گردو غبار آئے گا!۔۔ اُس نے جھٹ سے کہا خیر ہے !۔۔۔۔ ٹھنڈی ہوا بھی تو آئے گی نا!۔۔چھولے والے نے بھی آکر زور آزمائی شروع کر دی۔۔لیکن ریل کا جودروازہ بند ہوجائے وہ کھلتا نہیں اور جو کُھل جائے اُسے کوئی مائی کا لال بند نہیں کرسکتا۔۔۔ میرے سائیڈ پر لگا ہوا شیشہ کُھلا تھا جسے اُس نے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا لیکن میں نے وہ سیٹ دینے کی آفر نہ کی،اور ماحول سے انجان بن کر صفحے اُلٹاتا رہا۔وہ چند لمحے مسافروں پر نظریں ڈالتی رہی اور پھر منہ پُھلا کر اس طرح بیٹھ گئی جیسے کوئی ننھی سی بچی اپنی گڑیا باہر کھیلتے ہوئے اپنی غلطی سے گم کردے ۔اور پھرنہ کسی کو بتا سکے اور نہ کھل کر رو سکے۔لیکن جب چھولے والے نے دوسرا پھیرا لگایا ،تو چہک کر آواز دی " یو پلیٹ خو تری نا راکہ،خدائی دے دا ریل تباہ کی،چی کڑکی یے نہ کھلاویگی" (ایک پلیٹ تو دے دو! ۔۔ اللہ اس ریل کو تباہ کرے جسکی کھڑکیاں نہیں کھلتیں)۔اور پھر تیزی سے چھولے کھانے میں لگ گئی۔۔۔۔۔اسی اثناءمیں اُسکا ابا ّبھی آگیا اور مجھ سے کاندھا ملاکر بیٹھ گیا۔۔۔۔اس نے وقت بیتانے کے لئے رسمی سا سوال کیا۔۔ بھائی آپ کو کدھر جانا ہے؟۔۔ میرے ذہن میں ویسے بھی ہزاروں سوال مچل رہے تھے ۔۔ اوراُس اللہ کے بندے نے موقع بھی خود یا تھا۔۔میں نے بھی کتاب بند کرتے ہوئے جواب دیا میں تو اپنی ڈیوٹی پر بسال جارہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ کہاں جارہے ہیں؟ ۔۔ اُس نے کہا!۔۔۔ہم تو اپنے گاﺅں منکالہ جارہے ہیں۔اسے لائے تھے۔اُس نے بچی کی طرف اشارہ کیا۔۔ ۔۔ اس کی بہن کا خاوند قتل ہوا ہے ، اس لیے دُعا کے لیے لائے تھے۔۔ میں نے کہا اس بچی کو۔۔۔۔۔۔اور اس نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا۔۔۔۔۔یہ تو پشتون ہے نا! ۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اُنکی طرف دیکھا۔۔جی ہاں اُس کا جواب انتہائی مختصر تھا جس سے میری تسکین نہ ہوئی۔۔۔میں نے پھر سوال کیا۔۔مگر آپ تو پنجابی لگ رہے ہیں بات کچھ سمجھ میں نہیں آرہی؟۔۔۔انھوں نے کہا!۔۔ جی یہ پشتون بھی ہے اور اسکا تعلق زاہدوکلی ۔۔۔۔ایجنسی سے ہے۔۔مگر اب رہائش پشاور میں رکھی ہے۔۔۔مگر آپکے ساتھ؟ ۔۔ میں نے پھر سوال کیا۔۔۔" اے میڈی نو اے صاب" ( صاحب یہ میرے بہو ہے)۔۔ میں ایک بار پھر چونکا ۔۔اور بے اختیار منہ سے نکلا یہ بچی۔۔آواز کی اونچائی اختیا ر میں نہ رہی اس لیے وہ بچی بھی متوجہ ہوئی اور باقی مسافروں نے بھی ملتجی نظروں سے دیکھا ۔۔ جن سے کافی خفت ہوئی لیکن جلد ہی اوسان بحال کرلیے۔۔ مگر آپ تو ابھی ۔۔نوجوان ہی لگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا! ۔۔۔۔آپ کی بات درست ہے مگر ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ جونہی لڑکا لڑکی جوان ہوتے ہیں ۔۔اُن کا بیا ہ کر لیا جاتا ہے۔۔۔ اُس نے باتوں باتوں میں اپنی عمر پینتیس سال بتائی جو میرے اندازے سے چند سال اوپر تھی لیکن یہ اُنکے ہلکے پھلکے بدن کی کارستانی تھی میرے اندازے کی غلطی نہیں۔اور بقول اسکے اُس نے نویں جماعت میں شادی کی تھی۔۔۔۔اور ساتھ والا لڑکا اسکا بیٹا اور لڑکی کا دیور تھا۔۔ اُس نے کہا !۔۔ میری بیوی بھی پشتون ہے اور اُسکا تعلق بھی اسی گاﺅں سے ہے۔ ۔جسے میرے ماں باپ نے پچیس ہزار روپے میں خریدا تھا۔۔۔ میں نے کہا! کیا؟۔۔ لڑکی خریدی تھی!۔۔۔اُس نے ایک مرتبہ پھرسر سے زبان کا کام لیا اور اثبات میں ہلادیا۔۔۔۔ میرا بڑا بیٹا بھی ضد کر رہا تھا کہ میں بھی پٹھانی سے شادی کروں گا۔۔۔۔ میرا سلوک چونکہ بیوی کے ساتھ اچھا تھا۔اور اُسے ہر سال میکے کا ایک چکر بھی لگواتا تھا اس لیے ظہیرہ کے گھر والوں نے اسے سستے داموں ہمارے ہاتھ بیچ دیا۔۔۔ میں نے کہا اس بچی کا نام ظہیرہ ہے ۔۔ تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔۔۔ یہ آپ بار بار کیوں بچی کہہ رہے ہیں اس کی عمر بارہ سال ہے اور شادی کو نو مہینے ہو چکے ہیں ۔۔۔میں نے دل میں اسے کوسنا شروع کیا ۔۔کہ اس کے تو ابھی کھیلنے کے دن تھے یہ کس بدبخت نے اس کی قسمت خراب کردی۔۔۔ یہ بیچاری تو ابھی آدابِ جوانی سے بھی ناواقف ہے۔ ۔۔ بات زبان تک آگئی تھی ، لیکن اندیشہ فساد کی بنا پر لبوں تک نہ پہنچی ۔۔۔۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھی۔۔ظہیرہ کے بھائی تو پہلے ایک لاکھ روپے مانگ رہے تھے۔۔ لیکن بعد میں بیانوے ہزار میں بات پکی ہوئی، کیونکہ ہمارا خاندان اچھاہے اور ہم عورتوں پر ظلم بھی نہیں کرتے۔ ورنہ تو ڈیڑھ دو لاکھ تک بات پہنچ جاتی ہے۔ میں نے پھر سوال کیا ۔۔کہ کیا ظلم و ستم کا ادراک ہونے کے باوجود بھی سودہ ہوتا ہے لیکن فرق صرف بولی پر پڑتا ہے،فیصلے پر نہیں۔۔انھوں نے پھر معصومیت سے جواب دیا ۔۔جی ہاں ۔۔۔لڑکی تو دیتے ہیں لیکن جو بندہ دولاکھ خرچ کرے وہ روز میکے کے چکر تو نہیں لگواتا۔۔۔یہ تو ہم ہیں کہ خریدنے کے باوجود بھی اسے اللہ کی مخلوق سمجھ کر اسے میکے پھراتے ہیں۔۔۔ دیکھو جی !۔۔چوبیس گھنٹے کا سفر کرکے اسے پشاور لائے اور اب نجانے واپس جانے میں ٹرین کتنے گھنٹے لگائے ۔۔اور پھر روڈ کا سفر ۔۔۔اُف آفت ہے۔۔ لیکن اس کا دل رکھتے ہیں۔۔۔۔اب اُنھیں منہ پر کیا کہتا کہ انسانی خرید و فروخت میں ملوث ہوکر بھی خود کوبری الزمہ قرار دیتے ہو۔۔۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی اُسکی تعریف کی کہ تم تو بہت ثواب کا کام کرتے ہو ۔۔۔کہ خریدی ہوئی عورت کو انسان سمجھتے ہو ۔۔۔وہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہا تھا۔۔ اور پھر اُس نے خود کو جنتی ثابت کرنے کے لئے اپنی پر ہیزگاری اور بھلائی کی کہانیاں شروع کردیں۔۔۔اس نے اپنی دین داری جتانے کے لئے ٹریں میں ایک مرتبہ وضو بھی کیا اور گیلی آستینیں میرے پاس آکر خشک کیں ۔۔۔لیکن کیا فائدہ۔۔۔۔۔! نمازاور روزے کی پابندی تو وہ پشتون بھی کرتے ہیں جو ظہیرہ جیسی معصوم کلیاں بیچنے کا دھندہ کرتے ہیں۔۔۔ ظہیرہ حسبِ عادت ہنس رہی تھی اور اُس لڑکے سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔ اُسے انسانی اور غیر انسانی افعال کا کیا پتہ تھا۔۔

اسکے اباّ نے بات جاری رکھی۔۔ہماری بہو بڑی اچھی ہے ۔نہ سکول گئی اور نہ کتابیں پڑھیں ۔۔پکی نمازی اور روزہ دار ہے۔۔۔ادھر اسکا ا باّاُسکی دینداری کی رام کتھا سنا رہا تھا اور اُدھر اُس نے اپنے دیور کے ہاتھ پر جھپٹ کر اُس سے چونگم چھین لی۔ جسے کاغذ سمیت منہ میں رکھ کر زبان سے ریپر ہٹانے کے لئے منہ کے مختلف سٹائل بناتی رہی ۔دیور پنجابی میں ناراض ہو رہا تھا اور وہ معصومیت کی زبان میں ہنس رہی تھی اور ٹوٹی پھوٹی اُردو میں اسے چِڑھا رہی تھی۔۔۔۔ کبھی وہ بندشیشے سے اشارہ کر کے اسے علاقوں کے غلط نام بتاتی اور کبھی مناظر کی طرف متوجہ کر تی ۔ ۔ وہ کئی مرتبہ ریل سے سفر کر چکی تھی اور اُسکا دیور پہلی بار سفر کر رہا تھا، اس لئے خود کو جہاندیدہ ثابت کرنے کے لئے وہ اُسے گائیڈ کر رہی تھی اور اُسکا دیور اُسکی طرف جھک جھک کر ہوں ہاں کر رہا تھا۔۔۔۔۔

اندھیرا بڑھ رہا تھا اور گاڑی میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھپ اندھیرا تھا۔۔۔ اس نے چپل نکال کر پیر سیٹ کے اوپر رکھے اور شیشے سے ٹیک لگا کر بے دھڑک سو گئی۔۔۔ جب باہر سے آنے والی روشنی اُس کے دودھ جیسے سفید گالوں اور بچوں جیسے معصوم چہرے سے ٹکراتی تو میرے ذہن میں بیانوے کا ہندسہ گردش شروع کر دیتا۔۔۔ اور جب میری جانب کھلی کھڑکی سے شوخ ہوا کا کوئی جھونکا اُس کے سنہرے کاکل سے چھیڑخانی کرتا ۔۔ تو پھر سے بیانوے کا وہ ہندسہ میرے ذہن میں جگمگانے لگتا ۔ بلکل اُسی طرح جس طرح جشنِ آزادی کے موقع پر جلتی بجھتی روشنیوں سے شہر کی اہم عمارتوں پرچودہ اگست لکھا جاتا ہے۔۔ مگر میرے ذہن میں چودہ اگست کی لکھائی مغلوب ہو رہی تھی اور بیانوے ہزار غالب ہو رہا تھا۔۔۔ اور آزادی و غلامی کے فلسفوں سے آزاد پنچھی میرے سامنے والی سیٹ پر دنیا ومافیہا سے بے خبر نیند کی اتاہ گہرائیون میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔

اُترنے سے پہلے ظہیرہ کے اباّ سے ہاتھ ملایا، اور دھیمے سے لہجے میں کہا ! ظہیرہ کا خیا ل اسی طرح رکھنا۔۔۔ کیونکہ بہو بیٹیاں اللہ کی امانت ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ بیچاری اس چھوٹی سی عمر میں ماں باپ سے بھی دور ہے۔ اس سے اچھے سلوک پر اللہ تعالٰی تمہیں یقیناََ جنت عطا کرے گا۔۔۔ انھوں نے جنت کے ذکر پر چہک کر کہا ہاں صاب ہم خیال رکھتا ہے اور آگے بھی رکھے گا۔۔۔اور مجھے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ رخصت کیا۔۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ جنت کسے ملے گی اور کسے نہیں۔ مگر ایک لالچ تھی جو میں نے ایک نمازی بندے کے دل میں ڈال دی ۔۔ اور صرف اس آس پر کہ اس لالچ کے بعد شاید وہ ظہیرہ کا زیادہ خیال رکھے۔۔۔ اب اس سے زیادہ ایک مسافر دوسرے مسافر کودے بھی کیا سکتا ہے ۔۔۔اور اُس مسافر کو جسے جنم دینے والوں نے چندسکوں کے عوض بیچ دیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 35856 views I am a realistic and open minded person. .. View More