کمرے کا دروازہ خفیف سی چرچراہٹ
سے کھلا اور خراما خراما قدموں کی چھاپ قریب آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ
دروازے کی طرف پیٹھ پھیرے،اور سر گھٹنوں پر رکھے ایک گھٹڑی کی طرح سمٹ کر
بیٹھی تھی۔اُس کے کاندھے سے اُنگلیاں مَس ہوئیں اور ایک بھاری بھر کم آواز
اُن کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔ جانو بات تو کرو۔۔۔۔۔۔نا۔۔۔
رفعت گھر میں سب سے چھوٹی اور دوبھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔اس لئے گھر کا
سارا لاڈ پیا ر اُسکے حصے میں آیا تھا۔اُنکے والدجعفر خان ایک نامی گرامی
بینک میں کیشئیر تھے، اور نوکری کے سلسلے میں مختلف شہروں کی ہوا کھائی تھی
۔ جعفر خان نے نوکری کے دوران اپنی فیملی کو اپنے پاس رکھا اور بچوں کی
اچھی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔۔اُنکا گھرانہ ایک خوشحال گھرانہ تھا اور
پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔رفعت نے مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کی لیکن ابو
کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے علاقے کے سکول میں پڑھ رہی تھی۔وقت پر لگا کر
اُڑنے لگا اور رفعت جوانی کی منزلیں طے کرتی ہوئی کالج میں جا پہنچی۔سکول
میں اُن کی صرف ایک ہی قابلِ اعتماد سہیلی تھی ،، راحیلہ۔۔۔ ۔ راحیلہ اور
رفعت دوقالب ایک جان والی مثال پر پورا اُتر تی اور سکول سے کالج تک کا سفر
اکھٹے طے کیا۔اُن دونوں کی قابلیت پورے سکول میں مشہور تھی اور دونوں نے
فرسٹ ائیر پری میڈیکل میں داخلہ لیا، تو لڑکیا ں اُنکی قابلیت پر رشک کرنے
لگیں۔ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا رفعت کا خواب تھا اور راحیلہ بھی
رفعت سے الگ کوئی دوسر ا خواب دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔بس ایک خواب تھا اور
پورا کرنے کی جستجو دونوں کو تھی۔رفعت کے دونوں بھائی جو عمر میں اُن سے
کافی بڑے تھے، اُسی بینک میں بڑی پوسٹوں پر لگ گئے ۔بھائیوں نے اپنے گھر
نہیں بسائے اس لئے وہ رفعت کے ناز نخرے اُٹھانے کے لئے ہمہ وقت حاضر رہتے۔۔
رفعت ابھی کالج میں تھی لیکن شموخالہ اور ظہرہ پھوپھی نے اُس میں دلچسپی
ظاہر کی تھی۔لیکن دونوں کو ایک ہی جواب ملا تھا" ابھی وہ پڑھ رہی ہے"
آجکل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اِس علاقے میں بھی موبائل ٹیکنالوجی
پہنچ چکی ہے۔۔ اب تو چائنا والوں کی مہر بانی سے موبائل سیٹ ہر ایرے غیرے
کے ہاتھ میں پہنچ گیاہے۔راحیلہ نے بھی ایک عدد موبائل فون لیا تھا، جس سے
رفعت اور وہ یا تو کلاس میں تصویریں کھینچتیں، یا ہینڈ فری کا ایک ائیر پیس
راحیلہ کے کان میں اور دوسرا رفعت کے کان میں ہوتا اور وہ فارغ اوقات میں
گانے سُنتیں۔میڈ م اور استانیاں آئے روزنصیحتیں کرتیں ، اور موبائل فون کی
قباحتیں بیان کرتیں، لیکن اُنکی پرسوں میں بھی یہ قباحت موجود ہوتی ۔ اور
وہ نصیحت ہی کیا کہ دوسرے کو نصیحت اور خود میاں فصیحت۔
رفعت نے ایک دن افضال بھائی کو چائے پیش کرتے ہوئے کہا! بھیا آپ تو جانتے
ہیں کہ علاقے کے حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں اور آئے روز لڑکیوں کے سکول
بموں سے اُڑائے جاتے ہیں، اس لئے گھر والوں سے رابطہ نہ ہونا باعثِ پریشانی
ہے۔مجھے بھی ایک موبائل فون لیکر دے دیں۔۔۔ اصل میں بات رقم کی نہیں تھی،
کیونکہ رفعت کا پرس ہر وقت سو اورپانچ سوکے نوٹوں سے بھرا رہتا تھااور وہ
اکثر اپنے پلے سے سہیلیوں کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ کبھی کبھی اُن کی
داخلہ فیس بھی اپنے پلے سے دیتی۔۔لیکن ساری بات علاقے کے رسم و رواج کی تھی،
خواہ اُنکے ابو نے بڑے شہروں میں زندگی گزاری تھی لیکن اپنے علاقے کے رسوم
کا اب بھی اتنا ہی پاس تھا جتنا کسی دیہاتی کو ہوتا ہے۔یہ الگ بات کہ
موبائل ، ڈش انٹینا،ڈی وی ڈی اور کمپیوٹر ہر گھر تک پہنچ گئے ہیں،لیکن آج
بھی پشتون گھرانے ان کا استعمال عورتوں کے لئے ممنوع سمجھتے ہیں۔۔۔ رفعت نے
بھی بھائی کے سامنے اتنی لمبی تمہید صرف اجازت حاصل کرنے کے لئے باندھی
تھی۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ امی سے کہے تو جواب نہیں میں ہوگا اور
بھائی سے بات کرنے سے بھی منع کردے گی۔بھائی نے کہا بات تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔!
اور اس لیکن کے پیچھے پشتون روایات کی موجودہ دور سے گہری کشمکش چھپی تھی
۔۔۔
رفعت نے دوبارہ اصرار نہیں کیا۔ لیکن ایک ہفتے بعد افضا ل بھائی نے دفتر سے
آتے ہوئے رفعت کے ہاتھ پر ایک ڈبہ رکھا، جو یقیناََ موبائل فون کا تھا۔۔
موبائل فون کو دیکھ کر رفعت خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔۔ اُس نے جلدی
جلدی ڈبہ کھولا ،انسٹرکشن بُک پڑھی اور چارجنگ کے لئے سیٹ رکھ دیا۔۔ ابو
اور جمال بھائی کے آنے کے بعدموبائل کو پر کھا گیا اور قیمت پوچھی گئی ، جو
افضال نے پندرہ ہزار بتائی۔ جمال نے افضال کو منع کیا کہ اپنی سم رفعت کو
نہ دیں کیونکہ یہ نمبر تمہارے دوستوں کے پاس بھی ہے، اور اگر وہ بھول کر
بھی کال کریں تو بُرا لگے گا۔سب نے اس تجویز کو منظور کیااور رفعت کے لئے
نئی سم خرید ی گئی۔ رفعت جب موبائل فون سکول لے گئی تو سب سہیلیوں نے نیک
رائے ظاہر کی اور لڑکیوں نے دن کا زیادہ تر حصہ سیٹ پرکھنے میں گزارا۔۔
رفعت اپنی خیر خیریت گھر والوں کو بتاتی اور کبھی کبھی سکول میں کوئی فنکشن
ہوتا تو امی سے اجازت نامہ بھی اسی فون کے ذریعے طلب کرتی۔موبائل فون واقعی
کار آمد ثابت ہورہا تھا۔ ۔۔دن گزرتے گئے، اور فرسٹ ائیر کا رزلٹ نکلا جس
میں رفعت اور راحیلہ کی نمایا ں پو زیشن تھی۔ پھر سیکنڈ ائیر کی کلاسیں
شروع ہوئیں اور سہیلیوں کی محفل پھر سے جمنے لگی۔۔ اُن کا موبائل نمبر
زیادہ تر کلاس فیلوز کے پاس تھا اور وہ اُنھیں فون بھی کرتی تھی۔
ایک رات جب وہ اپنی پڑھائی میں مگن تھی،تو چند میسیج اُن کی موبائل پر آئے
، اور پڑھائی کے بعد جب اُس نے موبائل کی سکرین پر میسیج کھولے تو یہ ایک
غیر مانوس نمبر تھاجس نے انتہائی اعلٰی قسم کے اشعار بھیجے تھے۔ اُسے بھی
شعر و شاعری سے شغف تھا اور یہ بات اُن کی سہیلیوں کو بھی معلوم تھی ۔ رفعت
نے ان اشعار کو سہیلیوں کا تحفہ سمجھا اور اپنی بیاض میں یہ اشعار نوٹ
کیے۔اگلی رات پھر سے اُسی غیر مانوس نمبر سے شعر آیا:
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
اُسے اپنے بدن میں جُھر جُھری محسوس ہوئی اور پھر سے اپنی بیاض کھولی۔اُس
دن کے بعد میسجز کا ایک تانتا بندھ گیا جس میں ادب ، فنونِ لطیفہ اور حال
احوال کے میسجز ہوتے ،اُنھوں نے کئی بار who لکھ کر جواب مانگا لیکن دوسری
طرف سے اسے قابلِ اعتناءنہیں سمجھا گیا۔ رفعت نے اپنی سہیلیوں سے بھی کئی
مرتبہ دریافت کیا کہ یہ شرارت کس کی ہے لیکن وہ انجان بنی رہتیں۔۔پھر ایک
رات اُنھیں اُسی نمبر سے کال آئی، اُنھوں نے کال ریسیو کی لیکن خاموش رہی
۔۔ دوسری طر ف سے ایک مسحور کُن اور مردانہ وجاہت سے بھری ہوئی آواز
آئی۔۔۔جانو۔۔۔جانو۔۔۔بات تو کرو۔۔۔۔نا۔۔۔
علاقے میں پشتو اور ہندکو دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اکثریت پشتو
بولنے والوں کی ہے ، مگر دوسری طرف سے اپنی تعلیم یافتہ ہونے کی دھاگ
بٹھائی جارہی تھی۔رفعت نے فون بند کر دیا لیکن دوسرے لمحے فون کی سکرین پر
ایک میسیج نمودار ہوا"Janu bat tu karo" اور اسکے بعد رجانے کے لئے مختلف
قسم کے میسجز آنے لگے۔۔ چند دن یہ سلسلہ چلتا رہا،اور پھر ایک دن رفعت کے
صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور کافی غصے سے پوچھا ! کیوں کیا بات ہے ۔۔۔کیوں
تنگ کرتے ہو۔۔۔۔۔ دوسری طرف سے معصومیت بھرا جواب آیا کہ میں تمہارے بغیر
نہیں رہ سکتا۔۔ مجھے جو سزا دینا چاہو میں حاضر ہوں اور پھر اپنا نام پتہ
بھی بتا دیا ۔۔۔ اُس کی صاف گوئی نے رفعت کو قائل کر دیا ۔۔ اور پھر آہستہ
آہستہ ،شر م ، جھجک اور پریشانی کی حدیں ختم ہوئیں اور راز و نیاز کی باتیں
شروع ہوئیں۔۔ رازداری بھی ابتدائے عشق کی شرطِ اول ہے لیکن ابتدائے عشق میں
ایک رازدان کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے، جن سے ساری باتیں شیئر کی جاتی ہیں
اور آخر میں ایک معصومانہ فرمائش بھی کی جاتی ہے کہ کسی سے کہنا مت!۔۔۔۔۔
رفعت کے پاس تو راحیلہ پہلے سے موجود تھی۔ اور پھر کالج کے فارغ اوقات میں
رفعت اور راحیلہ سر جوڑ کر رفعت کے من موجی سے باتیں کرنے لگیں۔۔۔ توجہ کا
مرکز بدل گیا اورتعلیم کی جگہ عشق نے پکڑ لی اور پھر یہ آتش تو وہ آتش ہے
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ ۔ باتیں کبھی کالج کی گیلری میں بیٹھ
کر ہوتیں، کبھی نظریں بچاکر واش رومز کی راہ لی جاتی اور کبھی خالی کلاسیں
تنہائی فراہم کرتیں۔۔ رفعت کا من موجی بھی بلا کا شاطر تھا، پیار کے جال
میں پھنسا کر اپنے پیچھے لگا لیا۔ اُسے یہ معلوم تھا کہ وہ رفعت کی زندگی
مقصد بن چکاہے۔
آہستہ آہستہ من موجی کے سارے اخراجات رفعت کے ذمے پڑے ، جس سے وہ بظاہر
انکار کرتا لیکن پھر کہتا کہ تمہارا دل چاہتا ہے، تو میں نہ نہیں کرسکتا۔۔۔
وہ رفعت کی تعریفیں کرتا، اور یہ سچ ہے کہ کسی کی تعریف کرنا، اُسے ایک
ایسا نشہ دینا ہے جس کے خمار سے وہ تمام عمر نہیں نکل سکتا۔رفعت کو بھی یہ
نشہ ملتا رہا اور وہ اس نشے کی اتنی عادی بن گئی کہ جس دن ناغہ ہوتا وہ بے
چینی محسوس کرتی۔۔ رفعت کی تصویر بھی من موجی تک پہنچ گئی تھی۔۔۔سامان ادھر
اُدھر لے جانے کا کام راحیلہ بخوبی انجام دے رہی تھی۔۔ اور جب رفعت کے سونے
کی انگوٹھیاں اور جھمکے گم ہوئے تو ماں کو بھی شک پڑا لیکن بیٹی پر یکدم
وار نہ کرسکی اور پھر رفعت نے زندگی بھر ایسی حرکت بھی نہیں کی تھی اس لیے
ماں نے منہ پر کہنے سے گریز کیا ۔ لیکن راحیلہ سے چوری چپکے بات کردی، جس
سے سب اچھا کی رپورٹ پا کر تھوڑی سی مطمئن ہوگئی۔راحیلہ اپنی سہیلی سے
بھلائی کر رہی تھی یا بُرائی ، یہ الگ بات ہے،لیکن وہ دوستی نبھارہی تھی۔
اُس دن سکول میں مینا بازار کی تقریب تھی جب رفعت اپنے من موجی سے ملاقات
کرنے گئی ،راحیلہ اُس کی رہنمائی کررہی تھی ۔ اور پھر یہ ایک گھنٹے کی
ملاقات رفعت کی زندگی کا حاصل ٹھہرا۔۔ یہ عورت کی فطرت ہے،کہ دل پر دی جانے
والی پہلی دستک ہی دل سے سُنی جاتی ہے۔۔ باقی تو کُنڈی کھڑکانا ہو تا ہے
اور کچھ نہیں۔۔
پہلی پہلی محبتوں میں عدم
کتنا جوش و خروش ہوتا ہے
اسی جوش وہ خروش کی بھٹی میں رفعت بھی دہک رہی تھی ، نہ ماں سے بات کرنے کا
حوصلہ اور نہ اپنے من موجی کو چھوڑنے کی ہمت۔۔اُنھیں اپناملن ناممکن نظر
آرہا تھا، کیونکہ اُن کے من موجی کی ذات پات اور حیثیت انکے برتن مانجھنے
کی بھی نہ تھی۔۔۔ من موجی بھی بات خفیہ رکھنے پر اصرار کر رہا تھا۔
کبھی کبھی روٹھنا منانا بھی ہوتا، جو پیار کو شہہ دیتا ہے۔۔۔لیکن اُسے
منانے کے لئے جب من موجی اپنی مدھور آواز میں کہتا کہ ! جانو۔۔۔۔اب بس بھی
کرو۔۔ناراضگی چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔جانو ۔۔بات تو کرو ۔۔۔نا۔۔میں تمہارے سارے شکوے
دور کردوں گا، تو اُنکا غصہ رفو چکر ہوجاتا۔۔۔ رفعت کو گویا ان الفاظ سے
پیار ہوگیا تھا، اور وہ اکثر راحیلہ سے کہتی کہ دیکھو کتنے نشیلے انداز میں
کہتا ہے ۔۔۔ جانو بات تو کر و ۔نا۔۔ مجھے اِن الفاظ سے پیار ہے ۔
ایف ایس سی کے سالانہ امتحانات شروع ہوگئے تھے اور ایک دن جب پر چہ ختم
ہونے کے بعد رفعت واپس گھر نہ آئی، تو ماں نے فون کرنے کی کوشش کی لیکن فون
بند تھا۔۔۔ راحیلہ کا فون ملایا گیا۔لیکن اُنکا بھی یہی حال تھا۔ رات دونوں
گھروں نے گرم پرات پر کھڑے ہوکر گزاری، اور جب لڑکی گھر سے باہر رات گزار
لے تو اپنے پرائے سب تھو تھو کرنے لگتے ہیں۔۔ ان دونوں گھروں کے ساتھ بھی
یہی ہوا اور برادری میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔۔ لیکن لوگوں کی سمجھ
میں یہ بات بھی نہیں آرہی تھی کہ دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے بھاگ
گئیں۔۔۔ ہزاروں منہ تھے اور ہزاروں باتیں ہوئیں۔۔ لیکن دونوں کا کچھ پتہ نہ
چلا۔ ۔۔ کہیں سے افواہ آتی کہ تاوان کے لئے اغواہ کیا گیاہے ۔۔ کہیں سے
افواہ اُڑتی کہ نہیں رفعت کے پاس جو سونا تھا اُس کے لئے قتل کیا ہے دونوں
کو۔۔۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا۔۔۔ اُن کے من موجی نے اُنھیں خفیہ
ملاقات کے لئے بلایا تھا ، اور دونوں کو نشہ آور مشروب دے کراُن کی عزت پر
ہاتھ صاف کیے تھے۔
رفعت کا تو پورا پورا قصور تھا لیکن راحیلہ دوستی کے بھینٹ چڑھ گئی ۔۔جب
رفعت نے آنکھ کھولی تو لال پیلے پردوں سے سجے ہوئے ایک کمرے میں پڑی تھی
اور اُسکے سرہانے ایک ادھیڑ عمر عورت منہ میں پان رکھے اپنی خون آلودہ زبان
سے نوکروں کو ہدایات دے رہی تھی۔۔ رفعت کو ہوش میں آنے کے بعد اپنی حالت کا
احساس ہوا اور اُن کی ساری خوشیاں آنسو اور چیخیں بن کر اُس کے جسم سے نکل
گئیں۔۔ وہ کچھ ہفتوں میں اُس ماحول کی عادی ہوگئی، لیکن راحیلہ کی یاد
برابر ستاتی رہی۔۔اور وہ سوچتی کہ یہ عشق تھا یا ایک شکاری چڑیا پھنسا کر
بازار میں بیچنے کے لئے لا رہا تھا۔۔ آج اُسکی اونچی بولی لگی تھی۔۔ اور
"رکھو " نائیکہ اُسکے واری جارہی تھی۔ ۔۔
کاندھے سے مس ہوتی ہوئی انگلیوں نے اُس کے سیب جیسے گالوں کو چھوا، اور
اسکا رُخ اپنی طرف پھیر کر کہا ! واہ! کیا روپ دیا ہے اوپر والے نے اور یہ
معصومیت ۔۔ تن من لٹھانے کو جی چاہتاہے۔۔لیکن۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ یہ آنکھیں ۔۔۔۔یہ
آنکھیں اتنی اداس کیوں ہیں؟۔۔۔۔۔۔اور یہ چُپ!۔۔۔بولوجانو؟ ۔۔۔۔۔۔۔بات تو
کرو۔۔ نا۔۔۔۔!
لہجہ اور آواز دونوں غیر مانوس تھے۔۔۔۔ لیکن آج یہ الفاظ رفعت کا کلیجہ
چھلنی کر رہے تھے۔۔۔اور ۔۔وہ چاہتی تھی کہ اپنے ساتھ ساتھ ان الفا ظ کو بھی
دُنیا سے ختم کر دے تاکہ کوئی اور رفعت پیدا نہ ہو۔ |