وکالت ایک مشن یا پیشہ

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے انصاف کے بغیر معاشرہ کبھی پر امن نہیں رہ سکتا ہے ملک کے اندر نظام حکومت کوئی بھی ہو اگر انصاف نہیں ہوگا تو وہ نظام بد ترین ہو گا یہی وجہ ہے کہ اگر جمہوریت جیسے مقبول ترین نظام حکومت میں بھی انصاف نہ ہو تو وہ آمریت سے بھی بد تر ہو گا گویا جس معاشرے میں انصاف ہو گا وہی معاشرہ مثالی ہو گا چہ جائیکہ وہاں طرز حکومت کوئی بھی ہو۔آج دنیا بھر میں سستے اور تیز تر انصاف کی فراہمی پر زور دیا جاتا ہے ترقی یافتہ ممالک اسی وجہ سے ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں انصاف کا حصول انتہائی آسان ہے اور عام آدمی کو بھی انصاف میسر ہے تیسری دنیا کے ممالک کی پسماندگی کی وجہ انصاف کی عدم فراہمی ہے جن معاشروں میں انصاف نہیں ہوتا وہاں ہمیشہ ظلم پروان چڑھتا ہے اور وہ معاشرے بدامنی کا شکار ہوتے ہیں انسان نے انصاف کے حصول کے لیے مختلف طریقے اپنائے انسانی معاشروں میں عدالتوں کے نظام کو متعارف کروایا گیاقدیم تاریخ میں عام آدمی انصاف کے حصول کے لیے حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دیا کرتے تھے یا ان کے مقرر کردہ ججوں سے انصاف کی بھیگ مانگا کرتے تھے اس عمل میں عام آدمی کو کافی مشکلات پیش آتی تھی وہ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے سے ہچکچاتے تھے اسی وجہ سے انگلستان میں طبقہ امراءمیں سے چند افراد نے ان عام آدمیوں کی مدد کا فیصلہ کیا وہ لوگوں کے مسائل کو بادشاہ تک پہنچاتے اور ان کے لیے مرعات اور سہولتیں حاصل کرتے یوں آہستہ آہستہ لوگوں کا انصاف ملنا شروع ہو گیا اور وکالت کا شعبہ متعارف ہونے لگاانگریز جب برصغیر میں آیا تو اس نے عوام اور حکمرانوں میں فاصلہ کم کرنے کے لیے وکالت کا شعبہ متعارف کروایا یہاں بھی ابتداءمیں امراءکا طبقہ اس شعبے سے منسلک تھا ان وکلاءکا کام عام آدمی کی آواز کو حکام بالا تک پہنچانا اور انہیں انصاف دلانا تھا یہ سارا کام بغیر کسی معاوضے اور لالچ کے سر انجام دیا جاتا تھا اور صرف خدمت کے جذبے سر شار ہو کر ہی وکلاءلوگوں کے کام آیا کرتے تھے یہ انتہائی معزز کام تھا جس کی کوئی قیمت ادا نہیں کر سکتا تھا البتہ اگر کوئی اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تووہ وکیل کے پہنے ہوئے گاﺅن کی پشت پر لگی جیب میں ڈال سکتا تھا وکیل کو اس سے کوئی غرض نہ ہوتی کہ اسے کیا دیا جا رہا ہے اسی دوران برصغیر کے مسلمانوں کو قائد اعظم جیسا عظیم وکیل ملا جس نے ان کے الگ ملک کے حصول کے لیے مفت مقدمہ لڑا آپ انتہائی نیک ،دیانت دار اور شریف انسان تھے قیام پاکستان کے بعد بھی اچھے لوگ اس شعبے سے منسلک رہے اور وکالت کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا دنیا بھر میں ڈاکٹرز سمیت تمام شعبوں سے زیادہ باعزت اور باوقار شعبہ وکالت کا ہی ہے یہی مقام اسے پاکستان میں بھی حاصل رہا ہے پاکستان میں وکالت اور بار کونسلوں کے لیے پہلی بار legal practioners and bar councils act انیس سو چوہتر میں متعارف کروایا گیا اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی وکیل فیس طے نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی پیسوں کی وجہ سے مقدمہ لینے سے انکار کر سکتا ہے اس ایکٹ کے مطابق وکیل کے جو اوصاف بیان کیے گے ہیں اگر انہیں مذہبی انداز میں دیکھا جائے تو وہ کسی متقی کے ہی اوصاف ہو سکتے ہیں یعنی وکیل کے لیے انتہائی اعلیٰ کردار کا ہونا ضروری ہے بار کونسلیں بھی اعلیٰ روایات اور اچھے کردار کی حامل رہی ہیں ان میں سے ایک روایت یہ بھی تھی کی بار کونسل کا صدر کبھی ہائی کورٹ کا جج نہیں بنتا تھا مگر اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے اب تو صدر بنا ہی اسی لیے جاتا ہے کہ جج بنا جا سکے وکیل بار کونسلوں کے عہدے حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں صرف لاہور بار کے سیکرٹری کے الیکشن کا خرچہ نصف کروڑ سے زائد ہے اب اگر کوئی شخص وکیل کے خلاف بار میں درخواست لے کر جائے تو اسے دھکے مار کر وہاں سے نکال دیا جاتا ہے کیونکہ انہیں اپنے ووٹ عزیز ہوتے ہیں نہ کہ انصاف۔وکیل کے ذاتی مقدمے میں دوسری طرف سے کوئی وکیل نہیں پیش ہوتا ہے عام آدمی آج انصاف دلانے والوں کے ہاتھوں ہی ذلیل و خوار ہو رہا ہے موجودہ دور میں وکلاءکا طرز عمل اس شعبے کی روایات اور اعلیٰ اقدار کے بالکل منافی ہے اور وہ گھٹیا پن کا مظاہرہ کر رہے ہے کبھی پولیس والوں کو تھپڑ مارے جا رہے ہیں کبھی ججوں کو جوتوں کی سلامی دی جا رہی ہے کبھی عدالتی عملے کے بال نوچے جا رہے ہیں اور کبھی سرکاری اہلکاروں کے کپڑے پھاڑے جا رہے ہیں مرضی کے فیصلے نہ ہونے پر ججوں کو کمروں میں قید کر دیا جاتا ہے جج انہی وکلاءکے خلاف آئے روز سراپا احتجاج ہوتے ہیں سڑکوں بازاروں اور ہوٹلوں میں لوگ ان کی درندگی اور دہشت سے ڈرنے لگے ہیں آج پاکستان میں تمام شعبے تنزلی اور انحطاط کا شکار ہیں رشوت ہر جگہ عام ہے مگر وکالت کی اعلیٰ روایات اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتیں کہ یہ لوگ بھی اس گندے نظام کا حصہ بنیں انہوں نے تو قوم کوبرے نظام سے اچھے نظام کی طرف لے کے جانا ہے جس طرح قائد اعظم نے غلامی سے آزادی کی طرف سفر طے کیا مگر افسوس آج قائد کی تصویر ہر بار کونسل اور وکیل کے دفتر میں لگی ہوئی ہے مگر ان کی روایات دیانت داری اور سب سے بڑھ کر شرافت کہیں بھی نظر نہیں آتی وکلاءکے آئے روز کے جھگڑے رشوت اور بدعنوانی کے پیسے کی غیر مساویانہ تقسیم کی وجہ سے ہو رہے ہیں یہ لوگ اپنا اپنا حصہ بڑھانے کے معاملے پر ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوتے ہیں عدالتی کمیشن میں نام درج کروانے کے لیے بھی پیسے دیے جاتے ہیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈیلر اور وکیل میں کوئی فرق نہیں رہا۔ کیا یہ سب وکیل کی شان کے مطابق ہے مختصر یہ کہ آج کے معاشرے میں وکیل اپنا مقام اور عزت کھو چکا ہے اگرچہ کہ وکلاءاپنے دفاع میں یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس شعبے میں چند لوگوں کہ وجہ سے انہیں ندامت اور شرمندگی کا سامنا ہے درست مگر حالات کو درست کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے کیوں ایسے وکلاءکے لائسنس منسوخ نہیں کیے جاتے محض ووٹ کے حصول کے لیے اتنی شرمندگی مول لی جاتی ہے آج عام آدمی یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ وکیل اب مہذب اور شائستہ کیوں نہیں رہے کیا اب ان کا تعلق معزز اور شریف خاندانوں سے نہیں ہے کیا ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی فرق رہ گیا ہے انہی وکیلوں نے آگے چل کر جج بنناہے یہ کیا انصاف کریں گے ؟ان سوالوں کا جواب تو وکلاءکو ہی دینا ہے مگر یہ بات درست ہے کہ وکالت کا شعبہ پیسہ کمانے کے لیے ہر گز نہیں تھا بلکہ ایک مشن کے طور پر لوگ اس طرف آتے تھے ان کا مقصد نیک اور نیت صاف ہوتی تھی مگر جب سے وکالت کو پیشہ سمجھا جانے لگا ہے اور اسے دولت کمانے کا ذریعہ گردانا جانے لگا ہے تب سے اس میں بیگاڑ پیدا ہوا ہے اور خرابیاں اور کوتاہیاں پیدا ہونا شروع ہوئی ہیں اگر اسے مشن ہی رہنے دیا جاتا تو وکلاءکی آج یوں رسوائی نہ ہوتی جب سے وکالت کو پیشہ بنایا گیا ان کی پہلے جیسی عزت نہیں رہی قائداعظم جیسے لوگوں نے وکالت کو مشن کے طور پر اختیار کیا تھا ایسے وکلاءکا مقام اور رتبہ اب بھی بلند ہے -
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 56018 views i am columnist and write on national and international issues... View More