روئے ارض کے ہر دور میں ماضی اور
تاریخ کو ہمیشہ اہمیت دی گئی۔ ہر قوم چاہے وہ قبل از مسیح کائنات کے کسی
ٹکڑے پر آباد تھی یا بعد از مسیح ۔کو ئی ملک چاہے کالونیل ازم کی چھتر
چھاوں تلے رہا ہویا وہ دور حاظر کا امیر ترین یورپی ملک ہو یا سپر پاور
امریکہ ہی کیوں نہ ہو۔ ان ممالک نے صنعتی دفاعی مالیاتی جنگی میدانوں میں
انقلاب برپا کیا تو ایسی منزل تک رسائی کی خاطر تاریخ کے ہر صفحے پر مغز
خوری کی اپنی اور دوسری اقوام کے ماضی سے نہ صرف کئی سبق آموز درس حاصل کئے
جنکی پیروی نے آج تاریخ نے کسی کو سپرپاور بنادیا تو کسی کو ہوگیو شاویز کے
نام سے شہرت حاصل کی۔ ٹیگور نے سچ ہی تو کہا تھا کہ ماضی پر نظر ڈالے اور
تاریخ سے سبق حاصل کئے بغیر شہرت عظمتٍ کی بلند بانگ چوٹیوں کو نہیں چھو
سکتی۔ تاریخ کی اہمیت اور ماضی کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے قارئین
کی خاطر کچھ ایسا ہی لکھنے کی حماقت کی ہے۔ فوجی قوت کے دبدبے سازشوں کے
ہیر پھیر تمام عالمی اداروں uno سے لیکرimf کی عیارانہ پالیسیوں اور سپر
پاور کے زعم میں وائٹ ہاوس نے لاطینی امریکہ سے لیکر اسٹریا اور براعظم
افریقہ سے امت مسلمہ تک پوری دنیا پر خود ساختہ چوہدراہٹ قائم کررکھی
ہے۔امریکی قوم اپنے آپکو دنیا پر فوقیت دیتی ہے۔ وہ دنیا میں انسانی حقوق
کے چمپین سمجھتی ہے وہ ہاہاکار مچائے رہتے ہیں کہ ہم ہی روئے ارض پر تہذیب
یافتہ انصاف پرور قوم کا درجہ رکھتے ہیں مگر جب امریکی سماج کی ہسٹری پر
ریسرچ کی جا ئے تو گھن آنے لگتی ہے۔15 ویں صدی جبریت و سطوت کا شاہکار تھی
جس میں پاپاہیت کاکروفر جوبن پر تھا۔ عیسائیوں اور چرچ نے حکمرانوں
بادشاہوں کے ناک پر دم کررکھا تھا۔ اٹلی برطانیہ فرانس اور یورپی یونین کی
موجودہ ریاستوں میں انتہاپسند وعیسائی اور چرچز کے پیش اماموں نے گٹھ جوڑ
کرکے متوازی حکومتیں قائم کرلیں۔ گہ کہ پاورز بادشاہ کے سپرد تھیں مگر وہ
کبھی اپنی من مانی کرنے سے قاصر رہے پاورز کے استعمال کے بیش قیمت خذانوں
کی کنجی چرچ کے پاس تھی۔ کالونیل دور میں برطانیہ کا بادشاہ ہنری ششم
بااختیار شہنشاہ تھا۔ اس نے این بولین جو نہ صرف حسن کی دیوی تھی بلکہ اسکی
ادائیں قاتلانہ تھیں۔ شوخ طراز طبعیت رکھنے والی بولین نامی حسینہ کی زلفوں
کا سیر بن بیٹھا مگر جب ملکہ عالیہ نے ہنری ششم کی پہلی بیوی کو طلاق دینے
کا فیصلہ کیا تو پاپائیت کے دیوانے اور فرزانے بیچ پڑ گئے۔ہنری ششم نے چرچ
کی ایڈوائس پرشادی نہ کرنے کے فیصلے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے مگر پوپ کے
فیصلے پر اندر سے تلملا اٹھا۔ ہنری ششم نے1529 تا1935 کے دوران پارلیمنٹ
میں چرچ کی متوازی حکومتوں کا تیانچہ پانچہ کرنے کی خاطر کئی قوانین منظور
کروائے ۔ ہنری ششم نے برطانوی چرچ کی بجائےnational englacan churge چرچ
قائم ہوا جس میں پاپائیت کے ظلم و جبر کا خاتمہ ہوگیا۔ چرچ کا قلعہ ویلنگٹن
کی بجائے برطانوی دارعلوم کا چاند بن گیا۔ ہنری ششم کو لازوال سیاسی فتح
نصب ہوئی کیونکہ اینگ چرچ کی بنیاد انسانی بنیادی حقوق سیاسی و مذہبی
رواداری اور پوپ مخالف جذبات پر مبنی تھی جسے بہت زیادہ سراہا گیا۔ہنری ششم
نے ایک طرف پوپ کو لرزا کر رکھ دیا تو دوسری طرف اس نے 9ویں رومن صدی میں
برطانیہ کی باجگزار ریاستوں میں اسی قانون کو بحال کردیا جو شہنشاہیت کو
پوپ پر اولیت دینے پر مشتعمل تھے مگر ان پر پابندی عائد تھی۔ ہنری نے نویں
صدی میں ان ممالک میں اپنے حلیف و پروردہ بادشاہوں کو پوپ یا چرچ پر فوقیت
دلانے کا قانون منظور کروایا۔ برطانیہ کی نوجوان نسل جو اس وقت اکسفورڈ اور
کیمبرج کی طالبطعم تھی انکی اکثریت نے ہنری ششم کے اقدامات پر داد تحسین کے
ڈونگرے برسائے۔ پاپائیت مخالف اور کیتھولک نظریات کے پجاریوں اور ویلنگٹن
سٹی کے چرچ کے فرزانوں نے ہنری ششم کے خلاف تحریک شروع کردی جس میںمذہبی
رنگ بھی شامل ہوگیا۔ہنری کے خلاف تحریک دھیرے دھیرے چلتی رہی اور پھر اسکی
وسعت کا در وا ہوگیا۔ہنری نے متخالف کیمپ کے تخریب کاروں کے ساتھ آہنی
ہاتھوں سے نمٹنے کی ٹھان لی اس تحریک کے کچھ پیروکار شاہ کی ظلمت سے پیچھا
چھڑانے کی خاطر ہالینڈ میں بس گئے جہاں انہوں نے رابنسن کی قیادت میں چرچ
بنا کر زندگی کا سفر دوباہ شروع کیا۔ برطانیہ نے ہالینڈ کے شہر لیڈن میں
آباد جلاوطنوں پر نہ صرف نظر رکھنے کی خاطر اپنے سفیر کی ڈئیوٹی لگائی بلکہ
حکومت برطانیہ نے جلاوطن برطانیوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لئے ہالینڈ کے
بادشاہ کو رام کرلیا۔ جوں جوں لیڈن کے مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف سختیاں
بڑھتی رہیں تو توں توں لیڈن کے جلاوطن مذہبی رہنما رابنسن نے ہالینڈ سے رخت
سفر باندھنے اور کولمبس کے دریافت کردہ امریکہ میں قسمت آزمائی کی ٹھان
لی۔1617 میں حکومت برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ شہنشاہیت مخالفین جیلوں میں بند
قاتل دہشت گرد شاہی فیملی کے لئے درد سر بنے ہوئے مذہبی دہشت گردوں
سزایافتہ مجرمان اور لیڈن میں پناہ گزین شاہ مخالف مذہبی قبیلوں کو نئے
دریافت کردہ خطے امریکہ جلاوطن کردیا جائے تاکہ حکومت برطانیہ سکون کے ساتھ
اقتدار کے مزے اٹھائے۔ ڈاکٹر تقی حق اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ یہی
جلاوطن موجودہ امریکہ کے معمار اول ہیں جنہوں نے اصل مالکان ریڈ انڈین کی
نسل کشی کا ایسا وحشیانہ سلسلہ شروع کیا کہ انکا تذکرہ صرف تاریخ کی کتابوں
تک رہ گیا۔ امریکہ سامراجیت کا علمبردار عالمی غنڈہ ہے۔ ادم خور اور وہ بھی
خون انسانیت کی چسکیاں لینے والہ عالمی دہشت گرد امریکہ جسکے اصل مالکان
ریڈ انڈینز تھے پر 16 ویںصدی پرتسلط جمانے والے برطانویوں نے قبضے کو
مستحکم کرنے کی خاطر جن غیر انسانی اور حیوانی قتل و غارت کا سلسلہ شروع
کرکے اپنی غنڈہ گردی کا آغاز کیا تھا انکی نئی نسل نے ماشااللہ انکی روایات
کو دنیا بھرکے کونے کونے تک پہنچا دیا۔2۔میکاولی چودہویوں صدی کا عظیم ترین
دانشور تھا وہ1469 میں فلورنس میں پیدا ہوا۔ یہ وہ دور تھا جسے تاریخ میں
آج تک ٹمٹو لاز کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ٹمولاز یہ وہ زمانہ تھا جب
لوگوں میں ایک طرف سیاسی شعور پنپ رہا تھا تو دوسری طرف جمہوریت عوام کی
دلچسپی کا مرکز بننے لگی۔ میکاولے بیوروکریٹ تھا وہ فلورنس کے سیکریٹری کے
عہدہ جلیلہ پر کام کرتے رہے۔ میکاولی ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا وہ بیک وقت
دانشور تجزیہ نگار سیاسی رہنما ڈرامہ نویس اداکار اور پر اثیر مقرر شخص تھا۔
سیاست سے خاصا لگاؤ تھا میکاولی1527 کو عالم بالا کی جانب کوچ کرگیا مگر
اسکی لکھی گئی 14تصانیف میں سے دی پرنس نے اسے رہتی دنیا تک تاریخی
ہیروبنادیا۔ حیرت تو یہ ہے کہ دی پرنس جسکا یونانی نام discrose sporle
cobe the تھا اسکی وفات کے بعد شائع ہوئی اور آج459 سال گزرنے کے باوجود
پرنس کی شہنشاہیت قائم و دائم ہے۔ مغرب میں میکاولے کو سیاسیات کا بانی بھی
کہا جاتا ہے۔ میکاولے کی کتب دنیا کی بڑی درس گاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔
میکاولے کی قابلیت بصیرت اور فراست سے سرموانکار کرناممکن نہیں میکاولے سے
گہرا لگاو اور والہانہ عقیدت رکھنے والوں سے معزرت کے ساتھ ہمیں یہ کہنا
پڑتا ہے کہ میکاولی کی دانشوارانہ خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی
عار نہیں مگر ایک بے ذائقہ سچ تو یہ بھی ہے کہ میکاولی کو نہ تو سیاست کا
بانی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسکا دور دور سے جمہوریت سے کوئی واسطہ تعلق
رہا ہے، میکاولی جمہوریت اور سیاست کا قاتل ہے کیونکہ اس نے اپنی ساری زہنی
توانیاں تجربہ مورثی سیاست کو مضبوط بنانے کے کلیات اور جزیات کی ایجادات
کا کام کرتا رہا۔تھیوری آفrealism کلاسیکل تھیوری اف پالیٹکس اور ریپبلکن
ازم میکاولی کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ میکاولی نے مورثی حکمرانوں کو کئی بیش
قیمت نسخے فراہم کرتا رہا۔ دی پرنس جو دنیا کی چند معروف کتب میں شامل ہے
کا جائزہ لیا جائے تو میکاولی نے صاف صاف لکھا ہے کہ حکمرانوں کو اقتدار کی
طوالت کی خاطر ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
میکاولی کا فلسفہ عام لوگوں پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی فوقیت کے حق
میں تھا۔ میکاولے کی فلاسفی کے مطابق سماج سیاست حکومت پر صرف روئسا کا حق
ہے۔وہ بیانگ دہل کہا کرتا کہ سماج اور معاشرے میں صرف امیر کبیر ہی تزک و
احتشام کا حق رکھتے ہیں جبکہ مظلوم بے سائباں اور بھوکے بے بس و لاچار لوگ
کسی احترام و تکریم کا حق نہیں رکھتے۔ میکاولی دی پرنس میں طبقہ اشراف کو
صلاح دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار اپنی سیاسی میراث اگلی
نسلوں تک لیجانے کی خاطر ریاست کی سرکاری سماجی اور سیاسی سیٹوں پر قابض
ہوجا ئیں۔ میکاولے کے دریدہ دہن فلسفے کا ایک نقطہ نظر یہبھی تھا کہ حکمران
اپنی دولت میں پے درپے اضافہ کرتے رہیں۔ میکاولی کے مشوروں فلسفیانہ
موشگافیوں سے مغرب کے شہنشاہ اس وقت تک تومستفید ہوتے رہے جب تک وہاں
شہنشاہیت اور مذہبی پاپائیت کا راج تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ سمیت
دنیا کے ہرکونے میں جمہوریت نے جلوے دکھائے مغرب نے اسی جمہوریت کی حکمرانی
کے کارن معاشی صنعتی دفاعی انقلابات برپا ہوئے۔ حیرت تو یہ ہے کہ جو مغرب
اپنے شہرہ افاق دانشور کے کلیوں سے خود کو تو دور کردیا مگر ہمیں ایسی گھٹی
پلا گئے کہ ہمارے ہاں میکاولی پرنسسز کی بہتات ہے۔ بھائی ایم این اے ہے تو
باپ منسٹر ماں سینیٹر تو والد محترم ممبر قومی اسمبلی۔عوام پاکستان کو
سوچنا چاہیے کہ کیا ہم عمر بھر میکاولی کے شہزادوں کا ورد کرتے رہیں گے یا
گودے اور وڈیرے کے غلام ابن غلام کا فرض نبھائیں گے۔پاکستانی قوم اگر غربت
استحصال بیروزگاری ناانصافی کی ہتھکڑیوں سے ازاد ہونا چاہتی ہے تو انہیں
میکاولی کے پاکستانی رشتے داروں کا سر قلم کرنا ہوگا۔ |