ٹائی ٹینِک کے اردو میں لغوی
معنی ”زبردست “ کے ہیں۔ اور زبردست کے معنی سے ہماری قوم بخوبی واقف ہے اس
لئے تمہید کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپریل کا مہینہ تو گذر گیا لیکن اگر آپ کے
حواس قائم و دائم ہیں تو میں یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ نے ٹائی
ٹینِک ضرور دیکھی ہوگی ایک بار کیا میرے خیال میں کئی کئی بار دیکھ رکھی
ہوگی۔ تو جنابِ من! اُسی ٹائی ٹینِک کو ڈوبے ہوئے 100سال اپریل میں پورے ہو
گئے اور ہم نے اسے صرف ایک فلم سمجھ کر بھلا دیا۔ لیکن میں اس صد سالہ
غرقابی ٹائی ٹینِک جہاز سے متعلق اپنے ناتواں کاندھوں پر رکھے ہوئے بوجھ کو
آپ سے شیئر shareکرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ناتواں کاندھے پر بوجھ کا ذکر اس
لیئے کیا ہے کہ کالم نگار جو کچھ لکھنے کی سعی کرتا ہے وہ اس کے کاندھے کا
بوجھ ہی تو ہے جسے وہ لفظوں کے پیراہن میں سمو کر آپ تک پہنچاتا ہے ۔
ویسے تو فلم ٹائی ٹینِک نے دنیا بھر میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رکھے
ہیں۔ گیارہ آسکر ایوارڈ حاصل کرنا اس فلم اور اس کے تمام احباب کیلئے تاریخ
کا درجہ بن گئی ہے۔ یہ مہنگی ترین فلم جس کی کہانی ایک بد قسمت جہاز کے گرد
گھومتی تھی ۔ حقیقی زندگی میں اسی ٹائی ٹینِک جہاز کی تباہی کے سو سال پورے
ہونے پر صد سالہ تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ جون ریگمنڈ اگست 1997ءکو
انتقال کر گئی تھیں۔ مگر انہوں نے اپنی وصیت میں ایک آخری خواہش کا ذکر کیا
تھا جس کے مطابق وہ اپنے والد سے بے حد متاثر تھیں ،( ان کے والد بھی ٹائی
ٹینِک جہاز کے سفر میں گذر چکے تھے)وہ چاہتیں تھیں کہ وہ غرقاب جہاز جس میں
ان کے والد ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے اسی مقام پر میرا تابوت رکھا جائے لہٰذا
اس کے بچوں نے اپنی ماں کے جذبات کا احترام کیااور میموریل سروس کے بعد اس
کے تابوت کو ہوائی جہاز کے ذریعے فاﺅنڈ لینڈ اور وہاں سے بحری جہاز کے
ذریعے شمالی بحر اوقیانوس اس مقام پر لے جایا گیا جہاں ٹائی ٹینِک جہاز
ڈوبا تھا وہاں تاروں کی مدد سے صندوق کو سمندر کی تہہ میں پہنچایا گیا۔
15اپریل1912ءکو 2223سے زائد مسافروں کے لیکر ٹائی ٹینِک جہاز اپنے پہلے ہی
سفر میں ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ تاہم کچھ تاریخ دانوں کے
مطابق یہ تعداد 2227تھی۔جس میں تقریباً 1500سو مسافر ہلاک ہوئے ۔اور بحر
اوقیانوس کی تہہ میں تقریباً دو یا تین میل کی گہرائی میں زبانیں خاموش ہو
گئیں تھیں اور یہ جہاز ایک اَن کہی داستان بن گیا۔ٹائی ٹینِک اپنے زمانے کا
سب سے بڑا مسافر بردار بحری جہاز تھا جس پر ایک محتاط اندازے کے مطابق
3600مسافروں کی گنجائش تھی۔ ٹائی ٹینِک کی تعمیر شمالی آئر لینڈ کے بحری
جہازوں کے تعمیراتی مرکز بلفاست میں 1907ءمیں ہوئی۔اور اس جہاز کے متعلق
راز افشانی کرتا چلوں کہ یہ جہاز وائٹ اسٹار لائن کی ملکیت میں تھا۔ اس نے
تین بڑے جہاز اولمپک، ٹائی ٹینِک اور گیگا نٹک بنانے کا آرڈر دے رکھا تھا۔
لیکن بعد میں گیگانٹک جہاز کا نام تبدیل کرکے برٹینِک رکھ دیا گیا تھا۔مگر
بدقسمتی اس جہاز کے بھی تعاقب میں تھی اور یہ جہاز بھی اپنی سمندری زندگی
کے دو سال بعد 1914ءکو ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔
جہاز ”ٹائی ٹینِک“ کے ڈیزائن میں اس پر جان بچانے والی مجموعی طور پر
32کشتیوں کی گنجائش تھی مگر بعد ازاں ٹائی ٹینِک کو بہت محفوظ بحری جہاز کا
درجہ دیتے ہوئے یہ تعداد کم کرکے صرف20کر دی گئی تھی۔ اور کسی رپورٹ میں
بھی شائع ہو چکا ہے کہ کمپنی نے کشتیاں کم کرنے کے لیے قانونی کمزوریوں یا
اس کی سقم سے فائدہ اٹھایا۔لیکن فلم کو بغور دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے
کہ کشتیاں کم کرنے کی ایک خاص وجہ جہاز کے عرشے کی خوبصورتی کو بڑھانا ہو
سکتا ہے۔ابتدائی ڈیزائن کے مطابق جہاز میں چمنیوں کی تعداد تین رکھی گئی
تھیں لیکن اس کی خوبصورتی کے پیشِ نظر بعد میں ایک اور چمنی کا اضافہ کر
دیا گیا جس کے بعد چمنیوں کی تعداد چار ہوگئی تھی۔ٹائی ٹینِک 10اپریل
1912ءکو اپنے وجود کے قائم ہونے کے بعد پہلے اور آخری سفر پر برطانیہ کی
بندرگاہ ساﺅتھ ہمشائر سے نیو یارک کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس جہاز کی
کارکردگی آزمانے کیلئے ماہرینِ وقت نے کچھ وقت اسے سمندر میں چلا کر بھی
دیکھا اور کامیاب سفر کے بعد فٹنس سرٹیفیکیٹ بھی جاری کیاتھا۔اس وقت کے ہی
ایک مؤرخ جوٹریسی نے کہا تھا جہ تجرباتی سفر کے دوران دوربینیں جو جہاز پر
نصب تھیں کہیں ادھر اُدھر ہو گئیں اور جب یہ بد قسمت جہاز ٹائی ٹینِک نیو
یارک کے سفر کے لیے روانہ ہوا تھا تو اس وقت جہاز پر دوربینیں موجود نہیں
تھیں۔جوٹریسی یہ کہنے میں حق بجانب تھا کہ اگر دوربینیں جہاز پر موجود
ہوتیں تو آئس برگ کا پہلے سے پتا چل سکتا تھا اور ممکن تھا کہ تاریخ کی سب
سے زیادہ ہلاکت انگیز ی کا سامنا نہ ہوتا۔ مگر میں جوٹریسی کی اس بات سے
قطعی متفق نہیں ہوں اور وہ بھی اس لیے کہ راقم نے بھی کئی بار یہ فلم دیکھ
رکھی ہے اور فلم کے سین سے جو بات عیاں ہے اگر حقیقت یہی ہے تو دوربین کی
طرف دیکھنے کی فکر ہی کہاں تھی ان لوگوں کو۔ وہ تو ایک تماشہ میں مگن ہو
گئے تھے۔
ٹائی ٹینِک کے سفر کا جب آغاز ہوا تھا تو اس وقت سمندر پُرسکون تھا۔ تاہم
دو دن کے بعد بحر اوقیانوس کے حصے میں رات کو درجہ حرارت صفر سے بھی گر گیا
تھا۔ کہتے ہیں کہ اسی رات ایک اور بحری جہاز نے وائرلیس پر ٹائی ٹینِک کو
سمندر میں تیرتی ہوئی آئس برگ کی اطلاع دی تھی۔ جبکہ تاریخ میں یہ بھی لکھا
پایا گیا ہے کہ اس برفیلی چٹان کے متعلق تقریباً چھ بار اطلاع دی گئی تھی ۔
بدقسمت جہاز پر وائر لیس کا نظم و نسق مارکونی وائر لیس کمپنی کے پاس تھا
اور آپریٹر کو درجہ اول اور دوم کے مسافروں کے پیغامات بھیجنے اور وصول
کرنے سے ہی فرصت نہیں تھی۔ اس نے تو آئس برگ کی اطلاع دینے والے کو ڈانٹ
پلائی تھی۔
بدقسمت جہاز ٹائی ٹینِک کے کپتان Smithکو اس کی اطلاع اس وقت ہوئی جب جہاز
آئس برگ کے انتہائی قریب پہنچ چکا تھا۔ اور وقت یہ جہاز کوئی 25میل فی
گھنٹہ کی رفتار سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف گامزن تھا۔ اسمتھ نے جہاز کا
رُخ بدلنے کیلئے سخت حکم دیا مگرجہاز اپنے رفتار کی وجہ سے اور آئس برگ کا
فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے اس حکم میں کامیاب نہیں ہو سکا اور یہ دیو ہیکل
جہاز آئس برگ کے حصوں سے ٹکرا گیاجس کی وجہ سے جہاز میں بڑا شگاف پڑ گیا
اور یوں جہاز میں تیزی سے سمندری پانی کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ماہرین
سمندر کا کہنا ہے کہ اگر جہاز سیدھے رُخ سے برفانی تودے سے ٹکراتا تو نقصان
کافی کم ہو سکتا تھا اور غالب خیال یہی کیا جاتا ہے کہ شاید جہاز ڈوبنے سے
بچ جاتا۔
آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ٹائی ٹینِک کو مکمل طور پر ڈوبنے میں تقریباً
2گھنٹے 40منٹ صرف ہوئے ۔ جہاز پر موجود 20کشتیوں کے ذریعے 1178افراد کی
جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ مگر قیامتِ صغرا کے ماحول میں جو افرا تفری تھی
اس وقت جب کشتیاں سمندر میں اتارنے کے عمل کا آغاز ہوا تو کشتیوں میں
گنجائش سے کم افراد کو سوار کرایا گیا جبکہ کچھ کشتیاں غفلت کے باعث الٹ
بھی گئیں۔ یوں صرف اور صرف 705سے 700افراد کو ہی زندہ بچایا جا سکا
تھا۔زندہ بچنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہی شامل تھیں۔ اور اُس
وقت بھی یہی کچھ دہرایا گیا جو آج کل غریب کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یعنی اوّل
اور دوئم درجے کے مسافروں کو ہی بچایا گیا اور تیسرے درجے کے مسافروں میں
سے صرف 45خواتین اور بچوں کو ہی بچایا جا سکا اورزیادہ تر اموات تیسرے درجے
کے مسافروں کی ہی ہوئی۔ ٹائی ٹینِک جہاز کے حادثے کی پہلی اطلاع نیو یارک
کے ایک اخبار میں شائع ہوئی جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ جہاز ڈوبنے سے قبل
تمام مسافروں کو بحفاظت بچا لیا گیا ہے۔
ویسے تو ٹائی ٹینِک کو شہرت کی بامِ عروج اس وقت ملی جب اس پر فلم ٹائی
ٹینِک بنی ۔ اس سے نہ صرف نئی نسل کو اس حادثے سے متعلق آگاہی ہوئی بلکہ ہر
طبقہ فکر کے لوگوں کی اس حادثے کی وجہ جاننے کی جستجو رہی اور اسی لئے اس
موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے ۔ اب جبکہ بدقسمت جہاز کی
تباہی کو سو سال پورے ہوگئے ہیں تو یہ جہاز ٹائی ٹینِک ، اور یہ فلم ٹائی
ٹینِک دونوں لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔سمندری تاریخ کے اس بڑے ناگہانی
انسانی المیے پر جو فلم بنائی گئی اس کا نام تو آپ سب کو پتہ ہی ہے ، اس
فلم نے ایک ارب اسّی کروڑ ڈالر کا ریکارڈ منافع حاصل کیا مگر نہ جانے اُس
وقت متاثرہ خاندانوں کو کچھ ملا ہی نہیں ۔بحر حال راقم تو یہاں پرمرتضیٰ
برلاس کے اس شعر کے ساتھ اپنے قلم کے دراز ہونے کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے
مگر ابھی بھی اس کی معلوماتی حیثیت اور اس کے خد و خال کو اجاگر کرنے کی
ضرورت باقی ہے۔
اب نوح کہاں جو ہمیں کشتی پہ بٹھالے
ورنہ کسی طوفان کے آچار تو سب ہیں
اپنا جو نامہ اعمال ہے سب جانتے ہیں
ہاتھ پھر کیسے اٹھیں‘ دل سے دعا کیسے ہو |