کوئی بھی شخص سب کا پسندیدہ
اورمحبوب نہیں ہوسکتا۔عہدحاضر کے حضرت انسان میں کسی نہ کسی حدتک حسد
اورتعصب کامادہ ضرورپایا جاتا ہے ۔بانی پاکستان اوربابائے قوم محمد علی
جناحؒ کی شخصیت پرتنقیدکرنیوالے بھی اس ملک میں اہم عہدوں پربرجمان ہیں
اورقیام پاکستان کے معجزے کوبھی شدیدتنقیدکانشانہ بنایا جاتا
ہے۔ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے دولت کوٹھوکرمارتے ہوئے مادروطن پاکستان کوایٹمی
طاقت بنایااوراس جرم میں فوجی آمر پرویز مشرف کے ہاتھوں توہین اوردماغی
تشدد کاسامناکیامگروہ بھی سب کیلئے محسن پاکستان اورمحبوب نہیں ہیں۔اگرتعصب
کی عینک سے دیکھیں گے توسفیدبھی سیاہ دکھائی دے گا۔ جوشخص ہمارے مفادات
کیلئے رکاوٹ یاخطرہ بنے ہم اس کاوجودمٹانے کے درپے ہوجاتے ہیں۔جوکوئی ہماری
تابعداری اورفرمانبرداری نہیں کر تاتوپھراسے ہمارے شرسے کہیں پناہ نہیں
ملتی ۔ ہمارے ہاں کئی گروہوں اورپارٹیوں نے ریاست کے اندرریاست بنائی ہوئی
ہے ،ان کی نام نہادعدالت میں کسی کو اپنی صفائی پیش یااپیل دائرکرنے کابھی
حق نہیں ملتا۔انصاف پسندناپسندکی بنیادپرنہیں بلکہ سچائی ،حقائق اورٹھوس
دلائل کی روشنی میں ہوتاہے۔جس طرح عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس
افتخارمحمدچودھری کوانصاف کرنے کی پاداش میں پیپلزپارٹی والے اپنا دشمن
اوراپنے سیاسی مفادات کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں اس طرح ڈاکٹرمجاہدکامران بھی
پنجاب یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول،اساتذہ کے احترام اورطلبہ کی کارکردگی
پرسمجھوتہ نہیں کرتے لہٰذا وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نزدیک مختلف بر ائیوں
کامحور ہیں اورجوپروفیسرڈاکٹر احسان شوکت کی طرح اپنے وی سی کاساتھ دیتا ہے
وہ بھی ان کاٹارگٹ بن جاتا ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق مرکزی سیکرٹری
اطلاعات فاروق چوہان نے اپنے حالیہ مضمون''پنجاب یونیورسٹی کاالمیہ۔۔۔۔خوگرحمدسے
کچھ گلہ بھی سن لے '' میں ایسی کوئی خامی یابرائی نہیں جوڈاکرمجاہد کامران
کی ذات سے نہ جوڑی ہو۔مضمون نگارنے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ
سے وابستہ یونین الیکشن میں کامیاب ہونیوالے مختلف صدور کاتذکرہ بھی کیا ہے
لیکن ان میں سے کسی نے پاکستان کیلئے ایٹم بم نہیں بنایا۔ان صدور نے جمعیت
یاجماعت اسلامی کیلئے توقربانیاں دی ہوں گی مگرمادروطن کی جغرافیائی سرحدوں
کے دفاع کیلئے کبھی اپنا خون نہیں بہایا۔ ملک عزیزکے درویش اوردبنگ
دانشورڈاکٹر اجمل نیازی ،حسن نثار،حامد میر،امجداسلام امجد،راجہ
انوراورڈاکٹر مجاہدکامران سمیت ہمارے معاشرے میں ایسے سینکڑوں ممتازلوگ ہیں
جوزمابہ طالبعلمی میں جمعیت کے رفیق یاناظم نہیں رہے مگروہ قدآور لوگ ہیں ۔ڈاکٹرمجاہدکامران
سے میری کوئی دوستی یارشتہ داری نہیں ہے لیکن وہ تعلیم اورطلبہ کی
ویلفیئرکیلئے جوکررہے ہیں میں ان کی شخصیت اور خدمات کامداح ضرور
ہوں۔اگرڈاکٹرمجاہدکامران اسلامی جمعیت طلبہ کے نزدیک ایک ولن ہیں توپھروہ
یقینا ہمارے معاشرے کے ہیروہیں، تعلیم کے خواہاںعام طلبہ وطالبات انہیں
سلیوٹ کرتے ہیں۔کسی استاد کے بارے میں اس سے پڑھنے والے عام طالبعلم سے
زیادہ کسی کی رائے مستندنہیں ہوسکتی۔
دوسروں کی طرح پنجاب یونیورسٹی کے باصلاحیت اورپرعزم وی سی
ڈاکٹرمجاہدکامران میں بھی ضرور کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں مگران کی تعلیم
اورطلبہ کے ساتھ کمٹمنٹ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ان کی دوررس اصلاحات کے
نتیجہ میں پنجاب یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات ترقی کی شاہراہ پرگامزن
ہیں۔مجموعی طورپرپنجاب یونیورسٹی کاماحول تعلیمی ،تخلیقی اورتحقیقی ہے ۔جوطلبہ
تعلیم کی پیاس بجھانے کیلئے پنجاب یونیورسٹی آتے ہیں انہیں خوب سیراب کیا
جاتا ہے اورجواپنے اپنے مختلف شوق پوراکرنے کیلئے آتے ہیں انہیںان میں
مزاآتاہے۔جوعلم کی طلب رکھتے ہیںان کے نزدیک استاد ان کاروحانی باپ ہے
اورجواپنے مخصوص نظریات اورایجنڈے کوفوکس کرتے ہیں ان کے نزدیک ایک استادکی
کوئی اہمیت اورحیثیت نہیں ہوتی ۔جواپنے گھر سے اچھی تربیت لے کرتعلیمی
درسگاہوں کارخ کرتے ہیں ان کے ہاں اساتذہ کااحترام ملحوظ خاطر رکھاجاتا ہے
۔سرورکونین حضرت محمد کافرمان ذیشان ہے ''تمہارے تین والدین ہیں ایک
پیداکرنیوالے ،دوسرے ساس سسر اورتیسرے تمہارے اساتذہ ''۔خلیفہ ہارون الرشید
اپنے استاد کے جوتے اٹھایا کرتے تھے اورآج بھی تاریخ میں ان کانام احترام
سے لیا جاتا ہے۔اساتذہ کیخلاف گھٹیا پروپیگنڈا کرنااورپھریہ کہنا کہ وہ
احترام کے قابل نہیں افسوسناک ہے ۔کہاوت ہے باادب بامراد،بے ادب بے
مراد۔والدین اوراساتذہ کاادب اوراحترام کرنیوالے دنیا کے کسی امتحان میں
ناکام نہیں ہوتے۔جس طرح حق وباطل کے درمیان کسی قیمت پرتوازن نہیں ہوسکتا
اس طرح جامعہ پنجاب کے اساتذہ اورطلبہ کے درمیان حالیہ کشیدگی کاواقعہ
سپردقرطاس کرتے ہوئے توازن برقرارنہیں رکھا جاسکتا ۔سچائی کاعلم
بلندکرنااورجھوٹ پرقلم سے کاری ضرب لگاناناگزیر ہے ۔سچ تو یہ ہے اساتذہ کی
حدودہوتی ہیں جبکہ طلبہ سیاست سے وابستہ نوجوانوں کی کوئی حدود نہیں
ہوتیں۔اساتذہ کے ہاتھوں میں قلم جبکہ طلبہ رہنماﺅں کے ہاتھوں میں خودکار
ہتھیار ہوتے ہیں۔ مہذب اساتذہ اورطلبہ کے درمیان موازنہ کرنا اساتذہ کی
توہین ہے ۔ایک سلجھا ہوااستاد کبھی اپنے سٹوڈنٹ کے مقابلے پراترناپسند نہیں
کرتا ۔
پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مقامی ناظم اویس عقیل کے بہیمانہ
قتل سے پیداہونیوالی کشیدگی اوربلیم گیم کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کے
ایگزیکٹو کلب میں سینئر صحافیوں اورکالم نگاروں کواپنا موقف سنانے کیلئے
مدعوکیا تھا ۔وہ بھی اویس عقیل کے قتل پررنجیدہ اورافسردہ تھے مگرانہیںاپنے
ساتھیوں پرہونیوالے تشددکابھی بیحد غم و غصہ تھا ۔تقریب میںپنجاب یونیورسٹی
کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے منتخب صدرپروفیسرعامرسرور اورسیکرٹری
پروفیسر جاویدسمیع اپنے دوسرے منتخب ساتھیوں،پنجاب یونیورسٹی کی سینڈی کیٹ
کمیٹی کے فعال ممبراورفزکس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹراحسان شوکت ،نائب
صدر(شعبہ سائنس ) ڈاکٹراحسان اشرف ،ایگزیکٹو ممبرڈاکٹررخسانہ چیئرمین
سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ ، یگزیکٹو ممبرڈاکٹرنایاب، ایگزیکٹوممبرملیحہ عاظمی
آغا ،ایگزیکٹو ممبرآمنہ عمرچیمہ انگلش ڈیپارٹمنٹ ، ایگزیکٹوممبرسونیا
عمرسوشل سٹڈی سے تعلق رکھتی ہیں۔اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھوں مبینہ تشدد
کانشانہ بننے والے ممبرسینڈی کیٹ ڈاکٹرشوکت علی، ڈاکٹر احسان شریف اور
ڈاکٹراعجاز بھی تقریب میں شریک تھے اورانہوں باری باری اپنے ساتھ پیش
آنیوالے واقعہ کی رودادسنائی جوسن کرمیراسرشرم سے جھک گیا ۔خواتین ٹیچرز
بھی اپنے ساتھی اساتذہ پرہونیوالے تشددپرانتہائی پریشان اورمضطرب تھیں ۔میں
ذاتی طورپرسمجھتا ہوں کہ اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن والے میڈیا واریابراہ
راست تصادم میںاسلامی جمعیت طلبہ کامقابلہ نہیں کرسکتے ،اسلامی جمعیت طلبہ
کوجماعت اسلامی اورمختلف اداروں میں اہم عہدوں پربیٹھے جماعت اسلامی کے
حامیوں اورہمدردوں کی بھرپورحمایت حاصل ہے ۔پنجاب حکومت بھی مصلحت کے تحت
اسلامی جمعیت طلبہ پر ہرگزہاتھ نہیں ڈالے گی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت
گرینڈ اپوزیشن کے قیام یاانتخابی اتحادبنانے کیلئے جماعت اسلامی کے ساتھ
تناﺅیاتصادم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔اگرڈاکٹرمجاہدکامران کی وفاداریاں پنجاب
حکومت یامسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوتیں توپچھلے دنوں محسن پاکستان
ڈاکٹرعبدالقدیرخان کوپنجاب یونیورسٹی کی تقریب میں مدعونہ کیا جاتاجہاں
انہوںنے مسلم لیگ (ن) کے صدرمیاں نوازشریف کوکچھ مفت مشورے دیے تھے۔ میں نے
کبھی ڈاکٹرمجاہدکامران کو پنجاب حکومت یاوزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے
گیت گاتے نہیں سنا۔
کسی بھی تعلیمی ادارے میں ہولڈرکھنے والی طلبہ تنظیم کے بیس سے پچاس متحرک
عہدیداران اورکارکنان ہوتے ہیں جودوسرے ہزاروں طلبہ کوڈنڈے سے ہانک کراپنے
سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔احتجاجی مظاہروں اورسیاسی پارٹیوں کے
جلوسوںمیں لے جاتے ہیں ۔اساتذہ کی حدود جہاں ختم ہوتی ہیںوہاں سے طلبہ کی
حدشروع ہوتی ہے ۔اساتذہ قلم بردارجبکہ طلبہ تنظیم کے سرکردہ لوگ اسلحہ
بردارہوتے ہیں پھربھی بندوق اوربارود کی طاقت سے قلم کاسرقلم نہیں کیا
جاسکتا۔ کوئی استاداتنا نڈراوربہادر نہیں کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ اورمسلم
سٹوڈنٹس فیڈڑیشن سمیت کسی بھی طلبہ تنظیم کے کارکنوں پرتشدد کاانتہائی قدم
اٹھائے ۔ماضی میں پنجاب یونیورسٹی میں بھرتیاں مخصوص سیاسی نظریات کی بنیاد
پرہوتی تھیں مگراب ایسا نہیں ہوتا لہٰذا ایک طلبہ تنظیم کی پنجاب یونیورسٹی
کے وی سی اوراکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے ساتھ محاذآرائی فطری ری ایکشن ہے ۔پنجاب
یونیورسٹی میں اپنی اجارہ داری خطرے میں دیکھتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ
کاجذباتی ہونا فطری ہے ۔دوسری طرف اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے نمائندے
جوپنجاب یونیورسٹی کے منتخب افراد ہیں ان کاپیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے
اوروہ پنجاب یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کی بہتری کیلئے میدان میں نکل آئے
ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹ یونین کے الیکشن
کاسلسلہ بحال کیا جائے۔سٹوڈنٹ یونین کے انتخابات کیلئے اتفاق رائے کے ساتھ
ایک ضابطہ اخلاق بنایا جائے اورمختلف عہدوں کے امیدواروں سے قرآن پاک پرکسی
سیاسی پارٹی کے ساتھ تعلق نہ ہونے کاحلف لیا جائے۔اوردوسری بار یونین
الیکشن میں امیدوارکی حیثیت سے شرکت کرنے پرپابندی ہونی چاہئے ۔پنجاب
یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کمرے صرف طالبات کوالاٹ کئے جائیں کیونکہ طلبہ ان
کمروں کااپنے سیاسی اورنجی مقاصد کیلئے غلط استعمال کرتے ہیں۔تقریباً گیارہ
بارہ برس قبل ایم اے او کالج لاہور کے ہاسٹل مسمارکردیے گئے تھے اس وقت سے
اب تک وہاں کسی طالبعلم کاقتل نہیں ہوا ۔ماضی گواہ ہے پنجاب یونیورسٹی کے
ہاسٹل میں ہونیوالے آپریشن کے دوران کمروں سے خودکار اسلحہ سمیت
متعددممنوعہ اشیاءبرآمدہوتی رہی ہیں۔اب تک تعلیمی اداروں میں سینکڑوں اویس
عقیل مارے گئے ہیں مگرآج تک کبھی کسی پروفیسر کے ہاتھوں کوئی طالبعلم نہیں
ماراگیا بلکہ طلبہ کے ہاتھوں ہی طلبہ مارے جاتے رہے ہیں۔مختلف سیاسی
پارٹیاں بھی طلبہ کواپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں ۔اگراساتذہ
کوطلبہ پرتشدد کرنے کی اجازت نہیں ہے توطلبہ کواساتذہ کوزدوکوب اوران کی
توہین کرنے کاحق نہیں دیاجاسکتا۔جس طرح کسی طالبعلم کاناحق خون برداشت
اورمعاف نہیں کیا جاسکتا خواہ اس کاتعلق کسی بھی طلبہ تنظیم سے ہو اس طرح
اساتذہ کی توہین پربھی خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔جس طرح اویس عقیل کے
قاتل کی گرفتاری میں کسی قسم کی مجرمانہ غفلت برداشت نہیں کی جاسکتی اس طرح
اساتذہ پرتشدد کرنیوالے عناصر کی سرکوبی بھی ناگزیر ہے۔جس معاشرے میں لوگ
اساتذہ کی عزت اوراپنے بچوں کی تربیت نہیں کرتے وہاں مختلف بگاڑپیداہوتے
ہیں ۔ایک طالب علم کواپنے حقوق کیلئے آوازاٹھانے کی اجازت اورآزادی ہونی
چاہئے مگروہ یہ کام کسی سیاسی جماعت کاآلہ کاربنے بغیر بھی توکرسکتا ہے ۔ |