گُذشتہ سے پیوستہ
اور اسطرح میرے دُوست( سُود ۔در۔ سُود) کے اس نظام نے نہ صرف میرے والد اور
اُنکے تین دُوستوں کی زندگی سے ہمیشہ کیلئے خُوشیاں چھین لیں۔ بلکہ کئی اور
لوگوں کو بھی اپنے ظُلم کا نِشانہ بناڈالا۔ جنکا قصور شائد صرف اتنا تھا کہ
وہ اپنی زندگی میں کُچھ آسانیاں تلاش کرنے کیلئے کوئی آسان راستہ ڈھونڈ رہے
تھے ۔ جبکہ درحیقت اُن لوگوں کا بنک سے کوئی معاملہ ہی نہیں تھا۔ اور بنک
کو بھی یہ بات معلوم تھی ۔اور اُنہوں نے انویسٹرز والے آئیڈئیے کی منظوری
دیتے ہُوئے میرے والد اور اُنکے دوستوں کو یقین دِہانی کرائی تھی ۔کہ اگر
کبھی بنک کاروائی ہُوئی بھی تُو اِن انویسٹرز کا بہرحال خیال رکھا جائے
گا۔فرقان کی آواز آخری جُملے ادا کرتے ہُوئے بَھرَّا سی گئی تھی۔
لیکن فرقان اس تمام مُعاملے میں مجھے بنک سے زیادہ تُمہارے والد اور اُنکے
ساتھیوں کی غلط پلاننگ نظر آرہی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ جُو غلطی تُمہارے والد
نے کی تھی۔ ہم بھی اُسی غلطی کو دُھرائیں۔۔۔؟ نعمان نے تمام گُفتگو سننے کے
بعد اپنی رائے دیتے ہُوئے کہا۔
نُعمان کی بات سُن کر فرقان کا مُنہ حیرت سے کُھلا کا کُھلا رِہ گیا۔۔۔۔
اُسے ہرگز توقع نہیں تھی۔ کہ نُعمان اُسکی داستان سننے کے بعد بھی بنک لُون
کی حمایت میں کُچھ کہہ سکتا ہے۔
اب مزید پڑھیئے۔
فُرقان ابھی پہلے سوال کی حِیرت سے نہیں نِکل پایا تھا ۔کہ نعمان نے دوسرا
سوال داغتے ہُوئے کہا،، اور فرقان تُم نے جو ابھی مجھے اپنی زندگی کی تکلیف
دَہ داستان سُنائی ہے۔ اس میں زندگی کی اُونچ نیچ کا تذکرہ تُو ضرور موجود
ہے۔ لیکن مجھے اِس تمام واقعہ میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی کہ جِسے
زمانے سے چھپایا جائے اور جِسے یاد کرنے سے شرمندگی کا احساس ہو۔
نُعمان تُم نے وہ مِثال تُو ضرور سُنی ہُوگی کہ،، عقلمند کے لئے اِشارہ
کافی،، بس میں بھی یہی سُوچ کر واقعہ کی جُزئیات میں نہیں گیا تھا کہ واقعہ
سُن کر تم بھی اسکے دوسرے پہلو سے خُود آگاہ ہُوجاؤ گے۔ فرقان نے اپنا گَلا
کھنکارتے ہُوئے چند لمحوں کیلئے توقف کیا اسکے بعد جواب دیتے ہُوئے اپنی
بات کو جاری رکھتے ہُوئے مزید کہا ۔ میرے بھائی جِس وقت ہم فیصل آباد میں
مقیم تھے اور فیکٹری بنک نے ضبط کرلی تھی۔ اُس وقت قرض خُواہ جِس طرح ہمارے
گھر پر جمع ہُوجایا کرتے اور ہم تمام مُحلہ میں تماشہ بن جایا کرتے تھے۔
تُم شائد اسکا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہُوا کہ قرض خُواہ
بِلا اِجازت گھر میں داخل ہُوجاتے ۔اور جب میری والدہ اُنکے اِس عمل پر
احتجاج کرتیں۔ تب وُہ وُہ شرمناک جُملے ہم بہن بھائی سنتے کہ ہم سہم کر
کبھی غُسل خانے میں تُو کبھی کچن میں چھپ جایا کرتے۔
اُن قرض خُواہوں میں سے اکثر لوگ مڈل کلاس طبقہ سے تعلق رکھنے والے تھے۔
جنکی بیچاروں کی تمام عُمر کی پُونجی داؤ پر لگی تھی۔ کسی نے وہ پیسہ اپنی
بچی کی شادی کیلئے سنبھال رکھا تھا۔ تُو کوئی بڑھاپے میں حج کا خُواہشمند
تھا۔ اور کسی نے شائد اپنے آخری دِن آرام سے گُزارنے کیلئے وہ رقم بچا رکھی
ہُو۔ جِسے وہ زیادہ مُنافع کیلئے گَنوا چُکے تھے۔ اگرچہ ابا جان نے وہ رقم
کِسی بُرے اِرادے کے پیش نظر حاصِل نہیں کی۔ اور نہ ہی اُنکا کوئی ایسا
اِرادہ تھا۔ کہ وہ رقم اَدا نہیں کرنا چاہتے ہُوں۔ لیکن حالات اور واقعات
ایسے ہُوچُکے تھے۔ کہ بظاہر کوئی ایسا راستہ بھی نظر نہیں آرھا تھا۔ جسکے
سبب جلد رقم لُوٹائی جاسکے۔ فقط ایک اُمید تھی کہ بنک منیجر نے اُمید
دِلائی تھی کہ اُسکی نظر میں ایک پارٹی ہے۔ جو شائد بنک کی تمام رقم کے عوض
فیکٹری خریدلے۔ لیکن یہ بات بھی مفروضے پر قائم تھی ۔ اور اسکے لئے وقت بھی
چاہیئے تھا۔ جبکہ وہ لوگ جنکی رقم لگی تھی ۔ اُنہیں لگتا تھا کہ شائد
اباجان اور اُنکے دوستوں نے رقم خُوردبرد کردِی ہے۔ ابا جان اُن لوگوں سے
بے حد ہمدردی رکھتے تھے۔ اِس لئے اُنکی کِسی بات کا بُرا بھی نہیں مناتے
تھے۔وہ کہتے تھے کہ اِن بیچاروں کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ سب تُو ہمارے
مُحسن ہیں۔ جنہوں نے بُرے وقت میں ہمارا ساتھ دِیا ہے۔ اور ابا جان شائد
کبھی بھی فیصل آباد سے ہجرت نہ کرتے اگر وہ واقعہ پیش نہ آجاتا۔ اتنا کہنے
کے بعد فرقان خاموش ہُوکر اپنی پیشانی سے پسینہ پُونچھنےلگا۔
ایسا کونسا واقعہ پیش آگیا تھا فرقان جِس نے تُمہارے ابا جان کی سُوچ کو
یکسر بدل کر رکھ دِیا تھا ۔ نعمان نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہُوئے وال کلاک
پر نظر ڈالی جو رات کے بیت جانے کی طرف اِشارہ کررہی تھی۔
یہ واقعہ ہمارے ہجرت کرنے سے آٹھ دَس روز قبل کا تھا۔ جب ایک شخص اپنے کِسی
رشتہ دار کو اُس دِن ہمارے گھر لے آیا تھا۔ وہ شخص دندناتا ہَوا ہمارے گھر
میں داخِل ہُوگیا تھا۔ اُس وقت اَمَّاں رات کے لئے کچن میں کھانا تیار
کررہی تھیں ۔ جبکہ اباجان مُصَّلے پر نوافل ادا کررہے تھے۔ جبتک ابا جان نے
سلام نہیں پھیرا وہ اَماں سے بدتمیزی کرتا رہا۔ اور جونہی ابا جان سلام
پھیر کر کھڑے ہُوئے اُس شخص نے ابا جان کا گریبان پکڑ کر اباجان کو دھمکیاں
دیتے ہُوئے بتایا کہ وہ منشیات کا دھندہ چلاتا ہے۔ اور پُولیس بھی اُسکے
نام سے خُوف کھاتی ہے ۔ وغیرہ۔ وغیرہ۔ اُس وقت ہم دونوں بہن بھائی صحن میں
بیٹھے اپنے اسکول کا ہُوم ورک نمٹانے میں مصروف تھے۔ لیکن جب سے وہ شخص گھر
میں داخل ہُوا تھا۔ ہم دہشت کے عالم میں اِس تمام معاملے کو دیکھتے ہُوئے
جلد از جلد اُس شخص کے چلے جانے کی دِل ہی دِل میں دُعا مانگ رہے تھے۔
ایک تُو اُس شخص کا چہرہ ہی کافی ڈراؤنا تھا ۔اوپر سے اُسکی آواز بھی ایسی
تھی جیسے گویا وہ بات نہ کررہا ہُو بلکہ مست ہاتھی کی طرح چنگھاڑ رَہا ہُو۔
آخر میں جب وہ تمام دھمکیاں دے چُکا تب اُس نے ابا جان کا گریبان چھوڑتے
ہُوئے ہماری جانب دیکھ کر اباجان سے آخری جُملہ کہا،، دیکھو سات دِن کے
اندر اندر رقم کا انتظام کرلینا۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد اُس نے ایک
مرتبہ پھر ہم دونوں کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا اور واپس لُوٹ گیا۔ہم
دونوں بہن بھائی خُوف کے عالم میں اباجان سے لپٹ گئے اَمَّاں بھی اُس دِن
بے حد خُوفزدہ ہُوگئیں تھی۔ ابا جان ہم سب کو دِلاسہ دے رہے تھے مگر آج
اُنکی ڈھارس میں کھوکھلا پن صاف عیاں تھا۔ مُحلہ والوں کیلئے یہ روزانہ کا
تماشہ تھا اسلئے اُس دِن بھی کِسی نے آکر معاملے کی چھان بین نہیں کی۔
اِس واقعہ کے آٹھویں دِن ایک عجیب واقعہ پیش آگیا۔ عموماً ہم دونوں بہن
بھائی اسکول سے دوبجے تک گھر پُہنچ جایا کرتے تھے لیکن اُس دِن ڈھائی بج
گئے اور میری بہن اسکول سے گھر نہیں آئی اَماں کا تشویش سے بُرا حال تھا۔
اور اباجان بار بار اماں کو دِلاسہ دے رہے تھے۔ کہ ابھی آجائے گی لیکن جُوں
جُوں وقت گُزرتا جارہا تھا ابا کی پیشانی پر بھی تفکرات کے سائے دراز ہُونے
لگے تھے۔ بلآخر پونے تین بجے ابا جان اسکول جا پُہنچے وہاں صفائی کرنے والے
نے بتایا کہ اسکول میں کوئی موجود نہیں ہے تمام بچیاں پونے دو بجے ہی اسکول
سے جاچُکی ہیں۔
میری بِہن کی ایک ٹیچر کا گھر اسکول سے نزدیک ہی واقع تھا۔ اباجان نے اُنکے
گھر کا دروازہ جا کھٹکایا۔ وہاں جاکر معلوم ہُوا کہ میری بہن اسکول سے
چُھٹی کے وقت سب بچیوں کیساتھ ہی روانہ ہُوئی ہے۔ اباجان کو کُچھ ڈھارس
ہُوئی لیکن جب گھر آئے تو معلوم ہُوا کہ وہ ابھی تک گھر نہیں پُہنچی ہے۔
پھر کیا تھا ہم نے اُسکی سبھی سہیلیوں ،ہسپتال اور تھانے میں بھی معلومات
کر ڈالی لیکن وہ نہیں مِلی۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اَمّاں نے رُو رُو کر
اپنی آنکھیں سُجَّالیں۔ پھرا مَّاں کو نجانے کسطرح اُس بدمعاش کا خیال آگیا
وہ چِلَّا چِلَّا کر اُس بدمعاش کو کوسنے لگیں۔ اُنکا خیال تھا کہ ہُو۔نہ۔
ہُو۔ یہ اُسی بدمعاش کی کارستانی ہے۔ جبکہ اباجان کا خیال تھا کہ وہ صرف
بھڑک لگانے والا شیر تھا۔ لیکن اَمَّاں کے بار بار اِصرار پر بِلآخر ابا
تھانے جانے کیلئے اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ ابا جان کے جاتے ہی اَمَّاں وظائف کی
کتاب سے نجانے کون کُون سی دُعائیں پڑھنے میں مشغول ہُوگئیں تھیں۔
ابھی اباجان کو گھر سے گئے دَس منٹ کا بھی عرصہ نہ گُزرا ہُوگا ۔کہ دروازے
پر پڑنے والی زور دار دستک پر امَّاں نے جب دروازہ کھولا تو میری بہن
اباجان کے ساتھ دروازے پر موجود تھی ۔اماں نے آگے بڑھ کر میری بہن کو گلے
لگالیا ۔ اور وہیں رُوتے ہُوئے اُسکا احوال معلوم کرنے لگیں اباجان کِسی
طرح دونوں کو اندر لے آئے۔
کُچھ دیر بعد میں میری بہن کے حواس بحال ہُوئے تُو اُس نے بتایا کہ اسکول
سے واپس آتے ہُوئے اُسی بدمعاش نے میری بہن کو ایک سنسان جگہ پر اغوا کرنے
کی کوشش کی تھی۔ اسکے ساتھ اُسکا ایک ساتھی اور بھی تھا۔ جو گاڑی کی
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ جبکہ وہ بدمعاش اُسے گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالنا
چاہتا تھا۔ کِسی طرح میری بِہن نے اُسکی کلائی اپنے دانتوں سے کاٹ ڈالی۔
درد کی شِدت سے جُونہی اُس بدمعاش نے میری بہن کو چند لمحوں کیلئے گالیاں
بکتے ہُوئے چُھوڑا۔ میری بِہن اس موقع کا فائدہ اُتھاتے ہُوئے وہاں سے فرار
ہُوگئی اور راستہ میں ایک ادھوری نو تعمیر عمارت میں چھپ گئی۔ تمام دِن اُس
بدمعاش کے خُوف سے اُس بلڈنگ سے نہیں نِکلی اور جیسے ہی سورج ڈوبا وُہ
اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر وہاں سے نِکل آئی۔ میری بِہن کا خُوف سے بُرا
حال تھا۔ وہ جِسے کہ ایک دن بھی اسکول سے چُھٹی گَوارا نہیں تھی ہذیانی
کیفیت میں بار بار چِلَّا کر کہہ رہی تھی کہ اب وہ کبھی اسکول نہیں جائےگی۔
بس اُسی رات ابا نے اپنے دوستوں کو تمام حالات بتا کر اجازت حاصل کی۔ قرض
خُواہوں سے شفقت کی تاکید کی۔ اور ہم ہجرت کرکے سندھ چلے آئے۔
یہ تھے میرے بھائی وہ مختصر حالات جنہیں آج بھی جب میں غلطی سے بھی یاد
کرلیتا ہُوں تُو میرے رونگھٹے کھڑے ہُوجاتے ہیں ۔ اسلئے مجھے اپنے ماضی کو
کُریدے جانے سے ڈرلگا کرتا تھا۔ کیونکہ اِن واقعات کے یاد آجانے سے مجھ پر
عجیب سی وحشت سوار ہُوجایا کرتی تھی۔ اور تُمہارے پہلے سوال کا جواب دینے
سے قبل میں بھی تُم سے صِرف ایک سوال کرنا چاہتا ہُوں۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ،،
کیا اگر تُمہارا ملازم اگر تُم سے کسی معاملے میں ضد باندھ لے، تُمہارے
احکامات کو ماننے سے صاف انکار کردے اور تُمہاری دُشمنی پر اُتر آئے۔ تب
کیا وہ تُم سے تُمہاری ہی فیکٹری میں جیت پائے گا اور کیا تُم اسے ملازمت
پر قائم رکھنا چاہو گے۔۔۔۔؟ فرقان اتنا کہہ کر نعمان کی جانب غور سے دیکھنے
لگا۔
یہ کیا بات ہُوئی فرقان کہ تُم نے میرے سوال پر ہی ایک سوال قائم کردِیا۔
لیکن میرا جواب تُم خُود بھی جانتے ہُو کہ میں ایسے انسان کو اپنی مُلازمت
میں ایک گھنٹہ تُو کُجا ایک لمحے کیلئے بھی برداشت نہیں کرونگا چاہے مجھے
اسکے لئے دُنیا بھر کی فلاحی تنظیموں سے لڑنا پڑے یا مجھے عدالت میں ہی
کیوں نہ جانا پڑجائے۔ لیکن میں شکست تسلیم نہیں کرونگا۔ اور نہ ہی اُس
مُلازم کو چین سے رہنے دُونگا۔ جو میری ہی فیکٹری سے رزق بھی حاصِل کرے اور
مجھ سے ہی دُشمنی باندھے۔ نعمان نے جوشیلے انداز میں جواب دیتے ہُوئے کہا۔
(جاری ہے)
پلکوں سے دَرِّ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |