انتخابات میں دین اور سیاست کی کشمکش

ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی

دین داری پر مبنی انتخاب کا مطلب ہے کہ انسان اس عمل میں اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے حصہ لیتا ہے۔ اور سیاسی اغراض سے انتخاب میں شرکت کا مطلب ہے کہ اس میں اصل ہدف دنیا کی کامیابی ہوتا ہے خواہ یہ کامیابی آخرت کے نقصان کے ساتھ ہی حاصل ہو۔ دین داری پر مبنی انتخابات میں انسان اس احساس کے ساتھ مرکزِ رائے دہی کی طرف جاتا ہے کہ یہ ایک شرعی فریضہ ہے اگر وہ اسے ترک کردے تو گنہگار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : "وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا" (البقرة: آیت 282سے) ﴿گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو وہ انکار نہ کریں﴾۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے: "وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ" (البقرة: آیت 283سے) ﴿اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ جو شہادت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے﴾۔

اس میں شک نہیں کہ فرض کا ثواب نوافل سے بڑھ کر ہے کیونکہ بخاری کی روایت ہے، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ ولم نے فرمایا: "مجھ سے قربت کے لیے بندہ جو عمل کرتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ وہ اعمال محبوب ہیں جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں"۔ فقہی اکیڈمیوں کے فقہاء اور سیاستِ شرعیہ کے علماء کے درمیان اس امر پر اتفاق ہے کہ انتخاب ایک شہادت ہے۔ چنانچہ بندہٴ مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد :"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ" (البقرة: 43) ﴿اور نماز قائم کرو﴾، اور اللہ تعالیٰ کے اس قول: "وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ" ﴿اللہ کے لیے شہادت قائم کرو﴾(الطلاق: 2) کے درمیان فرق کرے۔ ورنہ اس کا حال ان لوگوں کی طرح ہوگا جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے " يَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ" (النساءآیت 150) ﴿اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کتاب کے کسی حصہ کو مانیں گے اور کسی حصہ کو نہ مانیں گے﴾ یا ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہوگی جنہوں نے "جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ" ﴿الحجر 91﴾﴿قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ﴾۔ یعنی ان لوگوں کا حال ایسا ہے کہ یہ قرآنی نصوص میں تفریق کرتے ہیں۔ کچھ کو تو وہ علم و عمل دونوں کے لیے اختیار کرتے ہیں اور کچھ صرف علم کے لیے، ان پر وہ عمل نہیں کرتے۔ دنیا کے تمام دستور میں انتخاب کے لیے رائے دہی شہریوں کا حق ہے ان کے اوپر واجب نہیں ہے۔ بعض ممالک نے رائے نہ دینے والوں کے لیے علامتی سزائیں مقرر کر رکھی ہیں۔ یہ اس مقصد سے ہے کہ لوگ انتخابی عمل میں شریک ہوں۔ لیکن اگر کوئی شخص مرکز رائے دہی کی طرف نہیں جاتا تو اس کا ضمیر اسے گنہگار نہیں کہے گا۔ یہ سیاسی انتخاب ہے، جبکہ دینی نقطہٴ نظر سے انتخاب یہ ہے کہ انسان اپنے گروہی رشتوں، قبائلی تعلقات، شخصی اغراض اور میڈیا کے پروپیگنڈے سب کو چھوڑ کر محض اللہ کی رضا کے لیے اپنے دل کو صاف کرتا ہے، اپنے اوپر اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے صرف ایسے ہی شخص کا انتخاب کرے گا جو لوگوں میں صالح تر ہوگا۔ وہ صرف اللہ کے نزدیک صالح تر اور مقصدِ انتخاب سے ہم آہنگ لوگوں کا انتخاب کرتا ہے اس لیے کہ اس کے سامنے پروردگار کا یہ ارشاد ہوتا ہے : " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاء لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا" (النساء: 135) ﴿اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے﴾۔ یہ آیت مومنین کے سامنے انتخاب کے اسباب اور نشاناتِ راہ فراہم کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ مومن عدل و انصاف کا پابند ہوتا ہے، وہ صرف اللہ کی رضا کی خاطر کسی کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کرتا ہے۔

یہ گواہی کبھی اپنے نفس، والدین، یا رشتہ داروں کے خلاف بھی ہو سکتی ہے۔ سبحان اللہ!!، یہ آیت ایسے لوگوں کو مخاطب کرتی ہے جو دولت و ثروت کی بنیاد پر سرمایہ داروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کا محرک یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے مادّی مفادات کا تحفظ کرے گا، انتخاب کی ایک وجہ کبھی یہ بھی ہوتی ہے کہ سڑکوں، شاہراہوں ، ٹی وی چینلوں، یا رسائل و جرائد اور اخبارات میں امید وار کے حق میں بھر پور تشہیر اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ فقیر امید وار کی اس لیے تائید کی جاتی ہے کہ وہ مالداروں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کمر توڑنے کے لیے متحد ہو جائیں یا مالدار بورژوا کے خلاف ایک تحریک بن جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : "إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا" (النساء: آیت 135) یعنی کسی مادی معیار کی بنیاد پر تم کسی کا انتخاب نہ کرو بلکہ تم امید وار کی اہلیت کو دیکھو کہ وہ اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے یا نہیں، مقصدِ انتخاب کے لیے اس کی شخصیت موزوں تر ہے یا نہیں۔ یہ آیت صرف اس حد تک دین داری کی بات نہیں کرتی بلکہ سرے سے نفسانی خواہشات اور مریضانہ رجحانات کا ہی جڑ کاٹ دیتی ہے، کہتی ہے کہ خیر و بھلائی کے اعتبار سے کوئی امیدوار اگر کمتر ہے، یا سرے سے اس کے اندر صالحیت ہے ہی نہیں تو اسے بالکل منتخب نہ کرو، اللہ تعالیٰ کہتا ہے : "فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَنْ تَعْدِلُوا" ﴿ النساء: آیت 135﴾ ﴿ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ﴾۔

اس نے یہ بتایا ہے کہ انتخاب کی بنیاد سیاسی اغراض نہیں دینی مقاصد ہوں، ظلم نہ ہو عدل ہو، عصبیت نہ ہو تعصب سے بالاتر ہو کر کیا کیا جائے، کسی کی پروا کیے بغیر دور اندیشی کی راہ اختیار کی جائے، اس راہ میں وطنِ عزیز اور امّت کے لیے قربانی کا راستہ اختیار کیا جائے موقع پرستی نہ کی جائے۔ اور جب یہ آیت دین داری کی بات کرتی ہے تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعید بھی سناتی ہے "وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا" ﴿ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے﴾۔ لگی لپٹی بات کہنا یا پہلو بچانے کی کوشش کرنا بہت ہی گھٹیا عادت ہےکیونکہ حق تو لوگوں کے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح ہوتا ہے اور آپ خود حیران ہو کر خدائے واحد و قہّار کی رضا کے بجائے کسی اور غرض کو سامنے رکھ کر انتخاب کا کام کرتے ہیں۔ اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ لادتے ہیں، حق سے رو گردانی اور دوری بڑھتی جاتی ہے، فریبیوں کے جھنڈے بلند ہوتے ہیں، شر پسندوں کی جماعت کبھی اعلانیہ اور کبھی پسِ پردہ رہ کر انسانیت کی چیرہ دستی کے لیے میدان میں اتر پڑتی ہے، ان کی دن رات کی سازشوں کا بازار گرم ہوتا ہے، حقائق کو مسخ کرنے، بگاڑ کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے اور حق داروں سے حق چھیننے کی مہم زور پکڑتی جاتی ہے۔ خدا کی قسم ایسی رائے دہی خیانت ہے بلکہ حق پرستوں، ملک میں حریت و انصاف، ترقی ، محبت اور ایثار و قربانی کی روشنی پھیلانے کے لیے انقلاب کی راہ میں شہادت کا نذرانہ پیش کرنے والوں، حق کی خاطر سینے پر زخم کھانے والوں اور ان کے شانہ بہ شانہ چلنے والوں کی پیٹھ میں چھری گھونپنے کے مترادف ہے۔

دینداری کی بنیاد پر آپ کو انتخاب کرنا ہے تو خیر و شر کے درمیان تقابل کریں۔ اپنے آپ پر یہ داغ نہ لگنے دیں کہ کسی بھی صورت میں کسی ایسے فرد کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کریں جو شر کا دوست ہے، عوام پر بزورِ شمشیرحکومت کر چکا ہے، جس نے آگ اور خون کا کھیل کھیلا ہے۔ جس نے عوام کی دولت کو لوٹا ہے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ ہم ان کی طرف جھکیں " وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ" (هود:113) ﴿اِن ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آ جاؤ گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی﴾۔ کیا ظالموں، استبدادی حکومت کے باقیات، ظلم و جبر کی علامت، پسماندگی اور بداخلاقی کی راہ میں گامزن لوگوں کی طرف میلان یا ان کے انتخاب کی حرمت کے سلسلہ میں اس سے زیادہ واضح کسی اور بات کی ضرورت ہے؟ امام احمد بن حنبل سے ایک شخص نے دریافت کیا: میں ظالموں کے کپڑے سیتا ہوں۔ کیا میں ظالموں کا مددگارہوں؟ انہوں نے کہا: معاذ اللہ! تم خود ظالموں میں سے ہو۔

اس کے بعد دوسرا مرحلہ خیر پسندوں کے درمیان میں سے افضل تر کے انتخاب کا ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں صحیح معنوں میں اللہ کا خوف ہے، اگر ہمارا نفس واقعی اللہ کے خوف سے لرزتا ہے، ہمارے اندر عقل اور دین داری موجود ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پڑھ کر ہمارا وجود لرز اٹھے گا" من ولَّى على المسلمين رجلا وهو يجد من هو أرضى لله منه فقد خان الله ورسوله والمؤمنين" ﴿جس نے اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شخص کی موجودگی میں کسی اور کو مسلمانوں کا ذمہ دار بنایا ، اس نے اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے ساتھ خیانت کی﴾ ۔

ایک اور بات میں عرض کروں گا۔ جب آپ رائے دینے لگیں اس وقت اگر آپ کا انتخاب دیانت داری پر مبنی ہے تو آپ اس حقیقت کو ضرور یاد کریں کہ آپ کے گرد ملائکہ ہیں، وہ روزِ حساب کے لیے ایک اور ورق پر لکھ رہے ہیں۔ آپ کی یہ کیفیت ہونی چاہیے گویا آپ کے کانوں میں پروردگار کے یہ الفاظ گونج رہے ہوں کہ "بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ" (الزخرف: 80) ﴿ ہاں، ان کے پاس ہمارے فرشتے ہیں جو لکھ رہے ہیں﴾۔ جب آپ گواہی ﴿رائے﴾ دے چکیں تو یہ رائے خود آپ کے حق میں ہے یا آپ کے خلاف ذرا اس کو بھی جانچ لیں: "سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ" (الزحرف: 19) ﴿ان کی گواہی لکھی جائے گی اور ان سے باز پرس کی جائے گی﴾۔ اللہ کے ڈرنے والے رائے دہندہ کے سوا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ وہ خدا شناس شاعر کے اس قول کا مصداق بن جائے :
قلم لکھے تیرا تو حق ہی لکھے ٭ رضائے رب اگر مقصود ہے تو

اس وقت کیا منظر ہوگا، آپ کہہ رہے ہوں گے: ہاں بار الٰہا میں سیاسی بازی گروں کے چکر میں نہ آؤں گا بلکہ دین داری کو ترجیح دوں گا۔ ہماری سیاست دین کی پابند ہوگی۔ مجھے تو دنیا و آخرت کی سعادت مطلوب ہے۔ میں اپنے وطنِ عزیز کے لیےایسے لوگوں کو آگے بڑھاؤں گا جو اس کے لیے سراپا خیر ہوں گے۔ ہمارا یہی عمل مقصدِ انقلاب کو پورا کرے گا۔ شیخ شعراوی نے کہا تھا : حق پرست انقلابی، تیشہ چلاتا ہے کہ فساد کو ختم کردے پھر پرسکون ہو جاتا ہے کہ مجدو شرف کے عظیم منارے تعمیر کرے"

الحذر، اس آئینِ سیاست سے جو انتخابی معرکے میں دین کو پسِ پشت ڈال دے کہ یہ تمہارے لیے دونوں جہاں میں خسارے کا سودا ہوگا : "خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ" (الحج: 11) ﴿اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی،یہ ہے صریح خسارہ!﴾۔ ہم دین کے لیے ، اور اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے مرکزِ رائے دہی کا رخ کریں، ہم وہ سیاست اختیار کریں جس میں دنیا کی بھی بھلائی ہو۔ پروردگار کا ارشاد ہے : "رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ" (البقرة: 201) ﴿اے ہمارے رب تو ہمیںدنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی سے ہمکنار کر، اور ہمیں عذابِ جہنم سے بچا﴾
Ishteyaque Alam
About the Author: Ishteyaque Alam Read More Articles by Ishteyaque Alam: 32 Articles with 35156 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.