کیا ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں؟

محترم قارئین کرام آج ہمارا معاشرہ مسلسل تنزلی کی جانب گامزن ہے جہاں جہالت ،لڑائی جھگڑے،ذرا ذرا سی بات پر خون خرابے،کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی لسانیت کے نام پر تو کبھی خانہ جنگی کے نام پر،الغرض کسی نا کسی طرح مسلمان آپس میں دست غریباں ہیں،ہر کوئی دوسرے کو زیر کرنے کے در پر ہے مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں حلانکہ ہماری شریعت تو ہمیں کتنی پیاری مدنی سوچ دیتی ہے ۔

آئیے شریعت کی باتیں کرتے ہیں۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عَمرْو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ جو ممنوع چیزوں کو چھوڑ دے۔یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں ہے ، فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا کہ کون مسلمان بہتر ہے ؟ فرمایا ، جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔
!(صحیح بخاری، کتاب الایمان،حدیث٩، صحیح مسلم، باب بیان تفاضل الاسلام ۔۔۔۔۔۔ الخ، حدیث٥٩)

حدیثِ پاک میں فرمایا گیا '' الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ'' یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں 'اس میں مسلمان سے مراد کامل مؤمن ہے جبکہ زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہنے کی تخصیص اس لئے کی کہ زیادہ ایذائیں زبان اور ہاتھ سے ہی دی جاتی ہیں ،زبان کو ہاتھ پر مقدَّم اس لئے کیا کہ زبان کی ایذا رسانی بہ نسبت ہاتھ کے زیادہ ہے ، ہاتھ سے صرف اس کو ایذا دی جا سکتی ہے جو موجود ہو مگر زبان سے حاضر اور غائب دونوں کو ایذا دی جا سکتی ہے نیز زبان کی ایذا بہ نسبت ہاتھ کے زیادہ اذیت ناک ہے۔جیسے کہا جاتا ہے
جَراحَاتُ السِِِِّنَانِ لَھَا التِّیَامُ

وَلاَ یَلْتَامُ مَا جَرَحَ الِّلسَانُ
نیزے کے زخم اچھے ہو جاتے ہیں

(لیکن)زبان کا زخم نہیں اچھا ہوتا
(نزہۃ القاری ، شرح صحیح البخاری ، ج١، ص ٢٥٢)

علامہ ابنِ حَجَر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ ''اَلْمُسْلِمُ''سے مراد یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرے یعنی جو یہ حقوق ادا کرے وہ کامل مسلمان ہے ۔ (فتح الباری ، کتاب الایمان ، باب المسلم من سلم، ا،الشاملہ )

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ، مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں (١) سلام کا جواب دینا (٢) مریض کی عیادت کرنا (٣) جنازوں میں شرکت کرنا (٤) دعوت قبول کرنا (٥) چھینک کا جواب دینا ۔
(صحیح بخاری ، کتاب الجنائز ، باب الامر باتباع الجنائز ، حدیث ١١٦٤، الشاملہ )

ان پانچ حقوق کو حدیثِ پاک کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔

پہلا حق ''سلام کا جواب'' دینے کے بارے میں ہے اس کی فضیلت کے بارے میں حدیثِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے ، چنانچہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا، ''جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتاہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتاہے اس کے لئے بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ، کہتاہے اس کے لئے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔'' (المعجم الکبیر ،مسندسہل بن حنیف ،رقم ٥٥٦٣ ،ج٦، ص ٧٦)

حضرت ِ سیدنا براء بن عازِب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ''سلام کو عام کرو سلامتی پالو گے ۔'' (الاحسان بترتیب ابن حبان، کتاب البر والاحسان ، رقم ٤٩١، ج١، ص ٣٥٧)

حضرت ِ سیدنا عبداللہ بن عَمْرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لالصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایاکہ ''رحمن عزوجل کی عبادت کرو اور سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔'' (الاحسان بترتیب ابن حبان ،کتاب البر والاحسان ،باب افشاء السلام ،رقم ٤٨٩ ،ج١، ص ٣٥٦)

دوسرا حق'' مریض کی عیادت کرنا ''ہے اس کی فضیلت کے بارے میں حدیثِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے ، چنانچہ حضرتِ سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتاہے تو ایک منادی آسمان سے ندا کرتاہے ،'' خوش ہوجاکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانا بنالیا ہے۔''
(سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی ثواب من عا د مریضا، رقم١٤٤٣، ج٢، ص١٩٢)

حضرت ِ سیدنا ابو سَعِیْد خُدْرِی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایاکہ'' مریضوں کی عیادت کیا کرواور جنازوں میں شرکت کیا کرو یہ تمہیں آخر ت کی یا د دلاتے رہیں گے ۔''
(مسند امام احمد،مسند ابی سعید الخدری ،رقم ١١١٨٠ ،ج٤ ،ص ٤٧ )

حضرت ِ سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃ لِّلْعٰلَمِیْن صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایاکہ'' جس نے مریض کی عیادت کی ، جب تک وہ بیٹھ نہ جائے دریائے رحمت میںغو طے لگاتا رہتاہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میںڈو ب جاتا ہے ۔''
(مسند امام احمد، مسند جابر بن عبداللہ ،رقم ١٤٢٦٤، ج٥، ص ٣٠)

تیسرا حق ''کسی مسلمان کے جنازے میں شرکت کرنا ''ہے اس کی فضیلت کے بارے میں حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ، چنانچہ حضرت ِسیدناابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا، ''بندے کو اپنی موت کے بعد سب سے پہلے جو جزاء دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے جنازے میںشریک تمام افراد کی مغفرت کردی جاتی ہے۔''(مجمع الزوائد، کتاب الجنائز، باب اتباع الجنازۃ، رقم٤١٣٤، ج٣، ص١٣٢)

حضرت ِسیدناا بنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ آقائے مظلوم، سرورِ معصوم، حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا، ''جو نماز ادا کرنے تک جنازے کے ساتھ رہا اس کے لئے ایک قیراط (اجر)ہے۔ ''صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا، ''یارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا یہ ہمارے قیراطوں جیساہے ؟'' ارشاد فرمایا، ''نہیں بلکہ اُحد پہاڑ کی مثل یا اس سے بھی کہیں بڑا۔'' (مسند احمد ، رقم٤٤٥٣،ج٢ ، ص٢٠٠)

نیز سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، ''جو کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے شریک ہوا اور نماز جنازہ ادا کرنے اور تدفین تک جنازے کے ساتھ رہا تو دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ان میں سے ہر قیرا ط احد پہاڑ کے برابر ہوگا اور جو نماز پڑھ کر تدفین سے پہلے لوٹ آیا تووہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ۔''
(مسلم، کتاب الجنائز، باب فضل الصلوۃ علی الجنازۃ، رقم٩٤٥، ص٤٧١)

چوتھا حق کسی کی'' دعوت قبول کرنے کے بارے'' میںہے ، چنانچہ اس کے بارے میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے ، حضرت سیدنا جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مرویہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: ''جب کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو قبول کرنی چاہیے پھر اگر چاہے کھائے، چاہے نہ کھائے۔''
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب الامر بإجابۃ الداعی... إلخ، الحدیث: ٣٥١٨، ص٩١٨)

سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جب کسی شخص کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اسے آنا چاہیے۔'' (صحیح البخاري، کتاب النکاح، الحدیث: ٥١٧٣، ص٤٤٧)

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ،''برا کھانا ولیمہ کا کھانا ہے، جس میں مال دار لوگ بلائے جاتے ہیں اور فقراء چھوڑ دےے جاتے ہیں اور جس نے دعوت کو ترک کیا (یعنی بلا سبب انکار کردیا) اس نے اﷲو رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نافرمانی کی۔'' (صحیح البخاري، کتاب النکاح، الحدیث:٥١٧٧، ص٤٤٧)

جبکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پانچواں حق یہ ہے کہ وہ ''چھینک کا جواب دے ''چنانچہ چھینک کا جواب دینے کے بارے میں حدیثِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے ، '' سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، ''جب کسی کو چھینک آئے تو''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ''کہے اور اس کا بھائی یا ساتھ والا ''یَرْحَمُکَ اللّٰہ''کہے جب یہ(یعنی سننے والا) ''یَرْحَمُکَ اللّٰہ'' کہہ لے تو چھینکنے والا اس کے جواب میں یہ کہے''یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَا لَکُمْ''۔''
(صحیح البخاري، کتاب الادب، باب اذا عطس کیف یشمت، الحدیث:٦٢٢٤، ص٥٢٤)

عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علےہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا،''جب کسی کو چھینک آئے تو''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ'' کہے۔''
(المعجم الکبیر، الحدیث:١٠٣٢٦، ج١٠، ص١٦٢)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'' جب کسی کو چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ''کہے تو فرشتے کہتے ہیں ''رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ '' اور وہ '' اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ '' کہتا ہے ، تو فرشتے یَرْ حَمُکَ اللّٰہُ یعنی اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے ۔(طبرانی اوسط،الحدیث ٣٣٧١ج٢،ص٣٠٥)

نیز کسی مسلمان کے لئے جگہ کشادہ کرنا بھی ''حَقُّ الْمُسْلِم '' میں داخل ہے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا واثِلہ بِن خَطَّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ ایک شَخْص تاجدارِ مدینہصلی اﷲ تعالیٰ علےہ واٰلہٖ وسلم کی خِدمت میں حاضِر ہوا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علےہ واٰلہٖ وسلم مَسجِد میں تَشرِیف فرما تھے۔ رَحمتِ دو عالَم ،نورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحْتَشَم صلی اﷲ تعالیٰ علےہ واٰلہٖ وسلم اُس کےلئے اپنی جگہ سے سَرَک گئے۔اُس نے عرض کی،یارسولَ اللہ! عَزَّوَجَلَّوَصلی اﷲ تعالیٰ علےہ واٰلہٖ وسلم جگہ کُشادہ مَوجُود ہے۔آپ نے سَرَکنے کی تَکلِیف کیوں فرمائی ! فرمایا،''،مُسلمان کا حق یہ ہے کہ جب اُس کا بھائی اُسے دیکھے اُس کیلئے سَرَک جائے۔'' (شُعُب الایمان، رقم الحدیث٨٩٣٣، ج٦، ص٤٦٨، دارالکتب العلمےۃ بےروت)

محترم قارئین کرام آپ نے جانا کہ ہم پر کیا کیا حقوق ہیں صرف اس حدیث میں موجود حقوق پر ہم عمل پیرا ہوجائیں تو ہم میں دوریاں ختم ہوتی جائیگی اور ہر چہار سو محبت اخوت ، کی فضا چھا جائیگی آج سے یہ عہد کریں کہ ہم یہ تمام حقوق ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی کو شریعت مطھرہ کے سانچے میں ڈھال کر گزارنے کی سعی فرمائیں گے۔ان شاء اللہ عزوجل اللہ ہماری تمام جائز حاجات پوری فرمائے۔اٰمین۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 355171 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.