صبح سے آسمان پے ہلکے ہلکے بادل
چھائے ہوئے تھے،مستقبل کے معماروں کے لیے ایک خوشی کا سماں تھا لوگ جوق
درجوق جامعہ امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ مکہ مسجد کراچی میں شرکت کے لئے جمع
ہورہے تھے۔ہر ایک کے چہرے سے خوشی چمک رہی تھی،ہر ایک کے ساتھ اس کے والدین
اور دوسرے رشتہ دار آرہے تھے۔ہر طرف سفیدی ہی سفیدی تھی جو ایک بہت بڑے
اجتماع کا منظر پیش کررہی تھی۔مسجد کے صحن میں لال قالین کی وجہ سے اس
منظرکی خوبصورتی کو اور بھی دوبالا کررہی تھی۔آج یہاں ختم بخاری کی تکمیل
کے سلسلے میں مستقبل کے معماروں کے لئے ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا ۔یہاں
تقریبا اسی طلباءکرام دورہ حدیث مکمل کرچکے تھے، جس کے لیے آج یہ پروگرام
منعقد ہوا تھا۔ پروگرام کا آغاز صبح آٹھ بج کر تیس منٹ پر تلاوت قرآن کریم
سے ہوا ،تلاوت قاری القراءمفتی منصف غنی صاحب خطیب مکہ مسجدنے اپنے پرسوز
آواز میں کی۔اسٹیج سیکٹری کے فرائض مولانا شفیق الرحمن صاحب ناظم جامعہ ھذا
ادا کررہے تھے۔تلاوت کے بعد حمد و نعت کا سلسلہ شروع ہوا جو کچھ ہی وقفے تک
جاری رہا ،اس کے بعد بلاتاخیر شیخ الحدیث مولانا میاں رشید احمد تھانوی
صاحب کو دعوت دی گئی،شیخ صاحب کے آتے ہی سارے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے،اﷲ
عزوجل نے شیخ صاحب کو جو نورانیت عطا کی تھی وہ واقعی قابل دید تھی،اگر کہا
جائے کہ وہ چودویں کے چاند سے بھی زیادہ خوبصورت تھے تو بے جا نہ
ہوگا۔بلامبالغہ اس کے حسن میں ایک عجیب سی کشش تھی جس کی وجہ سے ہر کوئی اس
کی طرف متوجہ تھا ۔ آخری حدیث کی عبارت دورہ حدیث کے ایک طالب علم اصغر شاہ
صاحب نے پڑھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس حدیث کی سند شیخ الحدیث مولانا رشید
احمد تھانوی سے لیکر حضور ﷺ تک پوری سنائی،آخری حدیث جو حضرت ابو ہریرة رضی
اﷲ عنہ سے روایت ہے اس کے الفاظ یہ ہیں،” قال النبی ﷺ کلمتان حبیبتان الی
الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان سبحان اﷲ و بحمدہ سبحان اﷲ
العظیم
اس کے بعد شیخ صاحب نے اس حدیث کی ایسی تشریح کی کہ سارے لوگ حیران رہ
گئے،کہ اﷲ عزوجل نے بہت وسیع علم عطا کیا ہے۔ ایک ایک لفظ کی وضاحت ،اس کی
تشریح اور پہلے اور آخری حدیث کے درمیان مناسبت بتائی،اس حدیث کا ترجمہ
یہاں کیے دیتا ہوںکہ ” د و کلمے ایسے ہیں جو اﷲعزوجل کو بہت پسندیدہ ہیں ،
زبان پے آسان مگر میزان میں بہت وزنی ہیں “ اور وہ کلمات حدیث کی آخری
عبارت میں لکھے جا چکے ہیں۔
مسجد پوری طرح علم کے پیاسوں سے بھر چکی تھی ،پاؤں رکھنے کی جگہ نہ
تھی۔کوئی بیٹھ کر ،کوئی کھڑے ہوکر اس بابرکت محفل میں مدہوش تھا۔درس ختم
ہوتے ہی شیخ صاحب نے سب کو مبارک باد دی اور اس کے ساتھ ہی اسٹیج سیکٹری
مولانا شفیق الرحمن صاحب دوبارہ منظر پے آئے اور جامعہ ھذا کے ایک اور
استاد مولانا نجم اﷲ العباسی صاحب جو جامعہ میں ترمذی شریف پڑھاتے ہیں
انہیں دعوت دی کہ وہ آئے اور مدارس پر کچھ روشنی ڈالے۔مولانا صاحب کا آنا
تھا کہ ایک زوردار اور بارعب آواز میں تقریر کی ابتداء ہوئی اور آخر تک ایک
ہی انداز میں تقریر کرتے رہے۔ جو سب کی توجہ کا مرکز تھے۔اس کے بعد ایک
طالب علم کا نکاح ہوا جو مولانا مشتاق احمد صاحب نے پڑھایا جو جامعہ ھذا
میں طحاوی شریف کا درس دیتے ہیں،اور بقول مولانا یوسف کاشمیری کے انہوں نے
مذاحاًفرمایاکہ اس کا نکاح بڑا مظبوط ہوتا ہے۔
سب سے آخر میں مائک یادگار اسلاف مولانا محمد یوسف کاشمیری صاحب نے سنبھالا
اور مذاح کرنے لگے جو لوگ اتنی دیر بیٹھے رہنے کی وجہ سے اکتا گئے تھے ان
کی چہرے پے رونق دوبارہ منڈھ لانے لگی اور شوق سے اس کی باتیں سننے
لگے۔مولانا صاحب نے سب سے پہلے سارے اساتذہ کے نام بتائے جو جامعہ میں
پڑھاتے ہیں جن میں سے شیخ الحدیث مولانا میاں رشید احمد تھانوی صاحب جو
بخاری شریف جلد اول پڑھاتے ہیں ، مولانا نجم اﷲ العباسی صاحب جو ترمذی شریف
جلد اول پڑھاتے ہیں ، مولانا شفیق الرحمن صاحب جو بخاری شریف جلد ثانی
پڑھاتے ہیں، مولانا مشتاق احمد صاحب جو شرح معانی الآثار پڑھاتے ہیں،
مولانا اسلم صاحب جو ترمذی شریف جلد ثانی پڑھاتے ہیں ، مولانا مفتی شمس
الدین نور صاحب جومسلم شریف جلد اول و دوم دونوں پڑھاتے ہیں، مولانا انوار
صاحب جو ابو داود شریف جلد اول و دوم دونوں پڑھاتے ہیں ، وغیرہ شامل ہیں۔
جامعہ میں جن اسی طلباءکرام نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی تھی
ان کے لیے اساتذہ نے کچھ انعامات بھی مقرر کئے تھے جن میں کتابیں،رقم
،تولیے اور کپڑے شامل تھے۔ہر ایک کو نام بمع ولدیت ،مقام اور مدت تعلیم کے
ساتھ پکارا جارہا تھا،اکثر لوگ اس منظر کی تاب نہ لاکر بلااختیار ان کی
آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔واقعی وہ ایک قابل رشک منظر تھا ،ہر کوئی
اپنے عزیز کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔پروگرام کے اختتام پر شیخ الحدیث
مولانا رشید احمد تھانوی صاحب نے ایک طویل عربی میں دعا کی اور آخر میں
اردو میں بھی دعا کی اور کہا کہ ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت یقینا آزادی
ہے جو ہمیں ملک پاکستان کی صورت میں ملی ہے، اے اﷲ عزوجل ! آپ ہی نے اسے
بنایا تھا اور آپ ہی اس کی حفاظت فرما اور تمام سازشوں سے اس کو امن میں
رکھ۔آمین
جیسے ہی پروگرام کا اختتا م ہوا تمام لوگ اپنے رشتداروں کو ڈھونڈنے میں
مصروف ہوگئے ، رش بہت ہی زیادہ تھا،چلنے میں دقت ہورہی تھی ۔مگر جو خوشی ہر
ایک کے چہرے پے تھی اس کے بیان سے قلم قاصر ہے۔خوشی خوشی ایک دوسرے کو گلے
سے لگائے جارہے تھے، عید کے موقع پر اس کا مشاہدہ بخوبی ہوتا ہے۔اس کے ساتھ
ساتھ پھولوں کی خوشبو بھی پوری مسجد کو مہکا رہی تھی، ہر شخص اپنے عزیز کو
پھولوں کا ہار پہنارہا تھا۔اور بعض لوگ اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر شیخ صاحب سے
مصافحہ کی سعادت مندی حاصل کررہے تھے۔ہر شخص بڑے ادب سے ان کے سامنے مصافحہ
کے لئے ہاتھ بڑھارہا تھا۔اور مصافحہ کے بعد بڑے فخر سے چلتا جیسے اس کو
دنیا کی سب سے بڑی نعمت مل گئی ہو۔
اﷲ عزوجل ہمیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو ہر طرح کی آفت سے بچائے اور
ہمارے علماءکرام کو ہر قسم کی شرور سے محفوظ رکھیں، اور ملک پاکستان کو ہر
طرح کی سازشوں سے پاک فرمائیں ۔آمین |