مئی 2010 میں میڈیا میں ڈاکٹر
فیصل شاہ کا نام گونجا تھا جب انہوں نے یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس
سی) کے باوقار مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب 875 امیدواروں میں ٹاپ کیا
تھا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والے وہ دوسرے مسلم اور پہلے کشمیری امیدوار
ہیں۔ ان کے اس کارنامہ سے کشمیری نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ان کے بیچ
میں جہاں چاردوسرے کشمیری نوجوانوں نے کامیابی حاصل کی تھی وہیںدوسرے سال
یہ تعداد 7 اور اس سال ریکارڈ11 ہوگئی۔ڈاکٹر فیصل شاہ کی یہ کامیابی خاص
طور سے اس لئے اہم ہے کہ وہ سرحدی ضلع سوپور کے ایک دودراز گاﺅں کے باشندہ
ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاﺅں میں ہی ہوئی جہاں ان کے والد غلام رسول شاہ
مرحوم پڑھاتے تھے۔ شورش پسندوں کے ہاتھوں ان کا قتل عین اس وقت ہوگیا تھا
جب فیصل میڈیکل داخلہ امتحان کی تیاری کررہے تھے۔اس سانحہ کے باوجود فیصل
شاہ نے حواس نہیں کھوئے ،صدمہ کی حالت میں داخلہ امتحان میں بیٹھے اور
کامیاب ہوگئے۔شوہر کے قتل کے بعدبچوں کو لے کر ان کی والدہ مبنیہ بیگم سری
نگر منتقل ہوگئیں تاکہ ان کی تعلیم جاری رہ سکے۔ وہ خودپرائمری اسکول میں
پڑھاتی ہیں ۔ خاندان کے سرپرست کی دائمی جدائی، تنگ دستی اور انتہائی
نامساعد حالات کے باوجود ماں اور بیٹے نے حوصلہ نہیں ہارا، فیصل نے ایم بی
بی ایس پورا کیا اور پھر یو پی ایس سی امتحان سرکرنے کا کارنامہ انجام دےا
جس پر وزیر اعظم سمیت ملک بھر نے ان کی ستائش کی۔
ایسی سے ہی حوصلہ مندی کا مظاہرہ اس سال منی پورکے ایک دوردراز گاﺅں للونگ
ضلع تھوبا کے ایک 19سالہ نوجوان محمد عصمت نے انجام دیا ہے۔عصمت نے سی بی
ایس سی ای کے 12ویں کلاس کے کل ہند امتحان میں شریک 8,15,748 طلباءمیں ٹاپ
کیا ہے۔ انہوں نے بھی یہ کارنامہ انتہائی نا موافق حالات میں انجام دےا اور
ڈاکٹر فیصل شاہ کے اس پیغام کو دوہرایا کہ اصل جوہر حوصلے کو بلند رکھنا
اور جدو جہد کو جاری رکھنا ہے۔اسی نکتہ کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
ہوتا ہے مگر محنتِ پرواز سے روشن
یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے
|
محمد عصمت اپنے والد مولانا بشیرالرحمٰن کے ساتھ۔ |
عصمت کی والدہ شاہدن بی بی کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب عصمت کی عمر صرف
ڈیڑھ سال تھی۔ان کے والد مولانا بشیرالرحمٰن کی ماہانہ آمدنی بمشکل دوہزار
روپیہ ہے۔ وہ ایک سرکاری مدرسہ میں پڑھاتے ہیں۔ عصمت سات بہن بھائیوں میں
سب سے چھوٹے ہیں۔ مولانا بشیر نے اسی قلیل آمدنی میں سات بچوں کی پرورش بھی
کی اور ان کوزیور علم سے آراستہ بھی کیا۔ آج ان کی سبھی چھ بیٹیاں گریجوئیٹ
ہیں۔ عصمت نے آنکھیں کھولیں تو اپنے اردگرد کتابیں کاپیاں اور مطالعہ میں
مصروف اپنی بہنوں کو دیکھا۔ چنانچہ لکھنا پڑھنا ان کی فطرت میں سما
گیا۔یقینا کم سنی میں ان کی بہنوں نے بھی ان کی مدد کی ہوگی۔ ان کے والد
کہتے ہیں اگرچہ عصمت کی صحت اچھی نہیں تھی مگر اسکول میں وہ ہمیشہ نمایاں
کامیابی حاصل کرتے رہے۔
محمد عصمت کی ابتدائی تعلیم ان کے چھوٹے سے گاﺅں کے پرائمری اسکول میں
ہوئی۔اچھے نمبروں کی بنیاد پر کیندریہ ودیالہ امپھال میں داخلہ مل گیا۔
آٹھویں کے بعد سینک اسکول میں میں چلے گئے۔اگرچہ عصمت نے نویں کلاس میں
تمام پرچوں میں صد فیصد نمبر حاصل کئے اور بورڈ کے دسویں کے امتحان میں
بھی94.2فیصدنمبر حاصل کرکے ریاست میں پہلا اور شمال مشرقی زون میں دوسرا
مقام پایا۔مگر اس شاندار کامیابی کے باوجود مالی تنگی آڑے آگئی اورسینک
اسکول چھوڑ دینا پڑا۔ مالی مجبوری کی بدولت کسی دوسرے اچھے اسکول میں بھی
داخلہ نہیں مل سکا۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ آخر کار ایک راہ
نکل آئی۔حال ہی میں قائم زینتھ اکیڈمی کے منیجنگ سیکریٹری ایس مناﺅتون سنگھ
کے علم میں جب عصمت کا کیس آیا تو وہ فوراً معمولی فیس پر اس ہونہار طالب
علم کو داخلہ دینے پر آمادہ ہوگئے۔ یہ اکیڈمی 2007میں قائم ہوئی اور اس کی
کوئی خاص پہچان نہیں بنی تھی۔ اسکول کی عمارت اگرچہ صاف ستھری ہے ،مگر ہے
معمولی۔ نہ چھتیں مضبوط، نہ فرش پختہ اور نہ وہ دیگر بنیادی سہولتیں موجود
جن کو آرٹی ای ایکٹ میں اسکولوں کےلئے لازم قراردیدیا گیاہے۔ تاہم انتظامیہ
نے اچھے اور محنتی اساتذہ کی ایک ٹیم بنالی ہے جو ہر طالب علم پر نظر رکھتی
ہے اوران کی ہمہ جہت ترقی کےلئے کوشاں رہتی ہے۔تعلیم کے کچھ انقلابی طریقے
اختیار کئے ہیں اور انتظامیہ، اساتذہ و طلباءمیں مکمل ہم آہنگی اور تعاون
کی فضا بنائی ہے۔
عصمت جس گاﺅں میں رہتے ہیں وہاں بجلی بمشکل دو گھنٹہ آتی ہے۔موم بتی،
کیروسین، کتابوں اور کاپیوں کا خرچ بھی ان کی پہنچ سے باہر تھا۔ مسٹر سنگھ
کی دوربین نگاہوں نے یہ پرکھ لیا تھاکہ لڑکا ہونہار ہے ، چنانچہ انہوں نے
اس کو کلاس کے بعد بھی اسکول میں مطالعہ کی اجازت دیدی۔عصمت کے انہماک سے
وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کی تمام ضرورتوں کا بھی خیال رکھنے لگے۔کلاسوں
کے بعد عصمت ان کی نظروں کے سامنے پڑھتا رہتا۔ اس کے انہماک کا یہ عالم تھا
کہ مسٹرسنگھ کہتے ہیں کہ ان کو بار باراسے ٹوکنا پڑتا تھا کہ آرام کےلئے
کچھ وقفہ بھی ضروری ہے۔ اس دوران نومبر 2011اس کا ایک آپریشن ہوا جس کی
بدولت وہ تین ماہ تک بیٹھ نہیں سکا اور پیٹ کے بل لیٹ کر پڑھنا پڑا۔ اس کی
یہ محنت اسی طرح رنگ لائی جس طرح؛”رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد“۔
چنانچہ بارہویں کے امتحان میں عصمت نے 500میں سے 495نمبر حاصل کرکے پورے
AISSCامتحان کو ٹاپ کرلیا جس میں ملک بھر کے بچے بیٹھتے ہیں۔ عصمت کو حساب،
کیمسٹری اور پینٹنگ میں 100فیصد، فزکس میں 97اور انگریزی میں 98فیصد نمبرات
ملے۔ یہ ایک ناقابل تصور کامیابی ہے۔ جس پر بجا طور پر پوری ریاست خوشی سے
جھوم اٹھی ہے۔اس کی یہ کامیابی اقتصادی طور سے کمزور طبقہ (EWS) کے بچوں
کےلئے بڑی حوصلہ افزا ہے۔
اپنی اس کامیابی کا سہرا وہ اپنے محسن سرپرست مسٹر ایس مناﺅتون سنگھ اوران
کی قائم کردہ زینتھ اکیڈمی کی ٹیچرس کے سرباندھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب بھی
اس نے اپنی کسی ٹیچر سے رجوع کیا اس نے پوری توجہ سے اس کی الجھن کو دور
کیا۔ مسٹر سنگھ نے فروغ تعلیم کے اپنے مشن کے تحت اس کی عملی رہبری کی
اورانسانی ہمدردی کے ناطے اس کو جملہ ضرورتوں کا خیال رکھا۔ہرچند انہوں نے
اس کے عوض کسی فائدے کی توقع نہیں کی ہوگی مگر عصمت کے اول آنے سے ان کے
ادارے کا بھی نام روشن ہوگیا اور داخلہ چاہنے والوں کی لائن لگ گئی ہے۔
ریاست کے وزیر تعلیم اوکیندر سنگھ نے دوسرے ہی دن اکیڈمی کا معائنہ
کیا۔محمد عصمت کی حوصلہ افزائی کی اور مسٹر سنگھ اور ان کے اسٹاف کو
مبارکباد دی کہ تعلیم کی دنیا میں ان کی بدولت ریاست کا نام روشن ہوا۔
انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ بنیادی سہولتوں سے بے نیازایسی
سادہ سی عمارت میں، تعلیم کا ایسا عمدہ نظم اور اتنا بلند معیار ہے۔ انہوں
نے فوری طور سے اسکول کی امداد کےلئے 25لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا۔
للونگ حلقے کے رکن اسمبلی عبدالناصر نے بھی اسکول کو مبارکباد دی۔امداد کا
وعدہ کیا اور تعلیم جاری رکھنے کےلئے عصمت کو نقد ایک لاکھ 11ہزار روپیہ
دینے کا اعلان کیا۔ وزیر اعلا کے ایک قریبی رکن اسمبلی این بیرین نے 20ہزار
روپیہ نقد دئے اور ریاستی اقلیتی کیمشن نے عصمت کو تعلیم جاری رکھنے کےلئے
مالی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ گویا کڑی محنت سے حاصل کی گئی اس کامیابی نے ان
پر بہت سارے دروازے کھول دئے۔
جب ایک اخبار ی نمائندے نے عصمت سے پوچھا کہ تم نے ایسے مشکل حالات میں یہ
معرکہ کیسے سر کیا تو انہوں نے بتایا ان کے والد بچپن سے ہی ان کو رسول
اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے واقعات سنایا کرتے تھے اور یہ بات ان کے ذہن
نشین کراتے تھے کہ استقلال اور لگن سے مشکل حالات میں کامیابی کس طرح حاصل
کی جاتی ہے۔ مولانا بشیرلرحمٰن عاشق رسولہونے کا صرف دعوا ہی نہیں کرتے
بلکہ سچے معنوں میں عاشق رسول ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ان نقوش کو
روشن کیا ہے جن کی تعلیم آپ نے دی ہے اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے جن پر چل
کر دکھا دیا ہے۔ یہی تعلیم انہوں نے اپنے بچوں کو بھی دی ہے اور یہ ثابت
کردکھایا ہے کہ یہ نقوش راہ ہی دنیا میں بھی کامیابی اور سرفرازی کا راستہ
ہیں۔
نوجوان طالب علموں کے نام ایک پیغام میںمحمد عصمت نے کہا ہے کہ” دنیا میں
ناممکن کچھ بھی نہیں۔ ناکامیابیوں اور مشکلات سے دل برداشتہ نہیں ہوجانا
چاہئے، بلکہ اپنے بزرگوں کی مثالوںکو سامنے رکھنا چاہئے اور ان ناکامیوں کو
اپنے لئے کامیابی کا زینہ بناکر آگر بڑھنا چاہئے۔ اگر عزم اور حوصلہ برقرار
رہیگا تو مشکل حالات گرز جائیں گے۔“
یہ وہی بات ہے جو معروف عالم دین مولانا محمد سالم قاسمی مدظلہ نے کہی ہے ۔
مولانا نے مسلم مجلس مشاورت کے حالیہ جلسہ دہلی میں صدارتی خطاب میں فرمایا:
” ناخوشگوارحالات میں خوشگواری سے گزرجانا اصل دانائی ہے۔“ محمد عصمت کے
والد مولانا بشیرالرحمٰن صاحب نے بھی اپنی چھ بچیوں کو گریجوایشن کراکے ایک
روشن مثال قائم کی ہے۔ ورنہ وہ اگر بچیوں کی تعلیم سے غفلت برتتے تو کہہ
سکتے تھے کہ آمدنی قلیل تھی اور بچیوں کی ماں نہیں تھی۔
نگاہ بلند، سخن دلنواز ،جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کےلئے
عصمت کی بہنیں بھی لائق صد مبارکباد ہیں، جنہوں نے ماں کی عدم موجودگی میں
اپنے چھوٹے بھائی کی پرورش کا حق بھی ادا کیا اور خود بھی تعلیم پوری کی۔
مسٹر سنگھ سے جب ایک رپورٹر نے پوچھا کہ عصمت کیسا لڑکا ہے ؟تو انہوں نے
کہا: ”وہ ایک بلند حوصلہ، دیانتدار اور سادگی پسند “ نوجوان ہے۔ اس کی یہی
خوبیاں یقینا مستقبل میں بھی اس کی کامیابی کی ضامن بنیں گیں۔ اور اس کی ہی
کیا، جو بھی ان خوبیوں کو اختیار کریگا، نمود و نمائش سے بچے گا اور محنت
کا اپنا وطیرہ بنائے گا، کامیاب ہوگا۔ اس کی یہ خوبیاں اسوہ محمدی پر اس کے
پختہ عقیدے کا نتیجہ ہیں جن کی تخم ریزی مولانا بشیرالرحمٰن نے اپنے بچوں
کے ذہنوں میں کردی ہے۔
زینتھ اکیڈمی کے منیجر مسٹر سنگھ، عصمت کے والد مولانا بشیرالرحمٰن،
خودمحمد عصمت اور ان کی بہنوں نے تعلیم کی دنیا میں جو روشن مثال قائم کی
ہے اس میں ہمارے اسکولوں کے منتظمین، طلباءاور ان کے ورثا کےلئے بڑی
رہنمائی ہے اور یہ سب اس اعلا نمونے کےلئے لائق مبارکباد ہیں۔ |