تعلیم: خیرات نہیں قوم کا آئینی حق ہے
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
قوم کی تعمیر کے لیے ایک سوچ، ایک نصاب اور ایک تعلیمی وژن ناگزیر ہے، جسے محض دعوؤں سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم کا سوات میں خطاب |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے مشترکہ "بنو قابل پروگرام" کے تحت ملاکنڈ ڈویژن کے 1200 نوجوانوں کی گریجویشن کانووکیشن، محض ایک تربیتی تقریب نہیں بلکہ قوم کی سمت، پالیسی اور مستقبل کی ایک جھلک تھی۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے جو خطاب کیا، وہ موجودہ قومی بحران، ناکام حکومتی ترجیحات اور تعلیمی زبوں حالی پر ایک دلیرانہ، مدلل اور متبادل بیانیہ تھا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے سوات کی ودودیہ ہال سیدوشریف میں خطاب کرتے ہوئے موجودہ تعلیمی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس وقت ملک میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 55 لاکھ صرف خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے ساتھ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر وہ ریاست جو ٹیکس تو وصول کرتی ہے، مگر نہ روزگار دیتی ہے اور نہ تحفظ، تعلیم جیسے بنیادی حق سے اپنی ذمہ داری کیسے نبھا سکتی ہے؟ انہوں نے خبردار کیا کہ تعلیم کو "آؤٹ سورس" کرنے کا مطلب اسے مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کرنا ہے، جو قوم کے مستقبل کو مارکیٹ میں نیلام کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کا تعلیمی بجٹ 363 ارب روپے ہے، مگر سرکاری اداروں کی حالت تباہ حال ہے، جو صرف حکومتی ناکامی کا ہی نہیں، بلکہ ترجیحات کے فقدان کا بھی واضح ثبوت ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے اعلان کیا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ پورے ملک میں یکساں نصاب اور قومی زبان کے تحت تعلیمی اصلاحات نافذ کریں گے، تاکہ قوم میں اتحاد اور مساوات قائم ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک قوم کی تعمیر کے لیے ایک سوچ، ایک نصاب اور ایک تعلیمی وژن ناگزیر ہے، جسے محض دعوؤں سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔ "بنو قابل پروگرام" کے تحت حافظ نعیم الرحمٰن نے اعلان کیا کہ جماعت اسلامی اگلے دو سالوں میں 10 لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم فراہم کرے گی، چاہے حکومت ساتھ دے یا نہ دے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی صرف احتجاجی سیاست تک محدود نہیں بلکہ قومی تعمیر میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی تیاری کر چکی ہے۔ مزید برآں، انہوں نے خواتین کو ہنر مند بنانے کا بھی اعلان کیا تاکہ وہ باعزت روزگار حاصل کر کے معیشت میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔ اس موقع پر 15 نمایاں طلبہ و طالبات میں لیپ ٹاپ بھی تقسیم کیے گئے، جو ایک مثبت عملی قدم ہے۔ خطاب کے دوران حافظ نعیم نے 1994 سے اب تک ہونے والے نجی بجلی گھروں (IPPs) کے کرپٹ معاہدوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ قوم ہر سال 1500 ارب روپے ان اداروں کو ادا کر رہی ہے، جن سے بجلی پیدا ہی نہیں ہو رہی۔ انہوں نے اسے قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ توانائی بحران کا حل صرف مخلص قیادت اور شفاف معاہدوں میں ہے، نہ کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں۔ حافظ نعیم نے پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کو قومی معیشت کا ستون بنانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ درست پالیسی سازی سے پاکستان اس شعبے سے سالانہ 1500 ارب ڈالر کما سکتا ہے۔ یہ محض تخمینے نہیں بلکہ عالمی مارکیٹ میں آئی ٹی کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ایک حقیقت پسندانہ وژن ہے۔ خطاب کے اختتام پر حافظ نعیم الرحمٰن نے اعلان کیا کہ وہ 31 اگست کو دوبارہ سوات آئیں گے تاکہ مزید نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے اقدامات کیے جا سکیں۔ انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ صرف نعرے لگانے سے تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ اس کے لیے منظم جدوجہد اور متبادل نظام کی حمایت ضروری ہے۔ یہ تقریب اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ اگر نیت اور وژن درست ہو تو تبدیلی کا عمل کسی حکومت یا اقتدار کا محتاج نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کا "بنو قابل پروگرام" نہ صرف نوجوانوں بلکہ پورے معاشرے کو خود انحصاری، تعلیم اور عزت نفس کے سفر پر گامزن کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ قوموں کی تعمیر تعلیمی اداروں سے ہوتی ہے، اور اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمی انقلاب، سماجی مساوات اور خودانحصاری جیسے خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے والے اقدامات کی حمایت کرنی ہو گی۔ |
|