ایک برمکی خاتون ہارون کے دربار
میں
منقول ہے کہ ایک خاتون ہارون الرشید کے پاس آئی، اس وقت اس کے پاس بہت سے
لوگوں کی ایک جماعت بیٹھی تھی۔ اس خاتون نے ﴿سب کے سامنے﴾ کہا:
یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! اَقَرَّ اللّٰہُ عَیْنَکَ وَ فَرَّحَکَ
بِمَا اَعْطَاکَ لَقَدْ حَکَمْتَ فَقَسَطتَّ
﴿ظاہر طور ان تین جملوں کا ترجمہ یہ ہے﴾’’امیر المؤمنین ! اللہ آپ کی
آنکھیں ٹھنڈی کرے اور جو آپ کو عطا کیا ہے اس کے سبب ﴿ہمیشہ﴾ آپ کو خوش و
خرم رکھے، بے شک آپ نے جو فیصلہ کیا سو انصاف سے کیا‘‘۔
ہارون نے پوچھا: ’’اے خاتون! تو کون ہے؟‘‘
عورت نے جواب دیا: ’’میرا تعلق خاندانِ برمک سے ہے جن کا مال آپ نے لوٹا ہے
اور جن کے جوانوں کو آپ نے قتل کیا ہے۔
ہارون نے کہا: ’’جہاں تک مردوں کا تعلق ہے ان پر تو تقدیر کا فیصلہ ﴿موت﴾
نافذ ہوچکی ہے، انہیں تو میں لوٹا نہیں سکتا البتہ تمہارا مال تمہیں لوٹا
دیتا ہوں﴿چنانچہ آپ نے مال لوٹا دیا اور وہ خاتون چلی گئی﴾
اس کے جانے کے بعد ہارون حاضرین کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: تم جانتے ہو یہ
خاتون کیا کہہ گئی ہے؟
حاضرین نے جواب دیا: ’’اس نے جو کہا آپ کے حق میں بھلا ہی کہا‘‘۔
ہارون نے کہا: میرا بھی یہی خیال تھا کہ تم اس کی بات کی تہہ تک نہیں پہنچے
ہو گے ﴿سنو! میں تمہیں سمجھاتا ہوں﴾ اس کا یہ کہنا اَقَرَّ اللّٰہُ
عَیْنَکَ ﴿اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی کرے﴾ اس کا مطلب وہ یہ لے رہی تھی کہ
اللہ تیری آنکھوں کو ساکن کردے اور جب آنکھوں کی حرکت بند ہوتی ہے تو وہ
اندھی ہوجاتی ہیں ﴿دوسرے لفظوں میں اس کی مراد اس جملہ سے یہ تھی کہ اللہ
کرے میں اندھا ہوجاؤں﴾ اور اس کا یہ کہنا وَ فَرَّحَکَ بِمَا اَعْطَاکَ
﴿اللہ تجھے اپنی عطا کے سبب خوش کردے﴾ یہ لفظ بھی در حقیقت اس نے اللہ
تعالیٰ کے اس ارشاد سے لیا ہے:
حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا اَخَذْنَا ہُمْ بَغْتَۃً
﴿الانعام:۴۴﴾
ترجمہ: یہاں تک کہ جب وہ ہمارے دیئے ہوئے مال پر اترانے لگے ﴿اور خوش
ہوگئے﴾ تو ہم نے انہیں اچانک پکڑا۔
﴿تو اس جملہ سے بھی اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اچانک اللہ کی پکڑ میں آجاؤں﴾
اور اس ﴿خاتون﴾ نے جو یہ کہا: حَکَمْتَ فَقَسَطتَّ ﴿تونے جو فیصلہ کیا سو
انصاف کیا﴾ اس کا یہ جملہ بھی در اصل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے:
وَاَمَّا الْقَاسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَباً ﴿الجن:۵۱﴾
ترجمہ: اور جو ظالم ہیں سو وہ جہنم کے ایندھن ہوں گے۔
﴿یعنی اس کی مراد یہ تھی کہ میں اپنے ہر فیصلے میں ظلم کرتا ہوں۔ ﴿التحفۃ
الشہیۃ ص۸۷۱﴾
حجاج کا رونا اور نرم پڑنا
عبد الملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ عباد بن اسلم البکری کا
سر قلم کرکے مجھے روانہ کرو، عباد بن اسلم نے حجاج سے کہا: امیر المؤمنین!
میں آپ کو اللہ کاواسطہ دیتا ہوں کہ آپ مجھے قتل نہ کریں، کیونکہ بخدا میں
چوبیس ایسی خواتین کی کفالت کررہا ہوں جن کا میرے سوا کوئی کمانے والا نہیں
ہے، عورتوں کا نام سن کر حجاج کا دل نرم پڑگیااور اس نے ان سب عورتوں کو
طلب کیا، جب وہ آئیں تو ان میں سے ایک لڑکی تو ایسی تھی جیسے چودہویں کا
چاند، حجاج نے لڑکی سے پوچھا: عباد بن اسلم سے تیرا کیا واسطہ اور تعلق ہے؟
اس نے کہا: میں اس کی بیٹی ہوں، اے حجاج! میری بات غور سے سن، یہ کہہ کر اس
نے یہ شعر پڑھے:
ترجمہ: اے حجاج! یا تو اس کو چھوڑ کر ہم پر احسانِ عظیم کر یا پھر ہمیں بھی
ان کے ساتھ ہی قتل کردے
اے حجاج! اگر تونے اس کو قتل کیا تو صرف اس کو تکلیف نہیں پہنچائے گا بلکہ
اس کے ساتھ ساتھ تو چوبیس عورتوں کو بھی شدید تکلیف پہنچائے گا۔
اے حجاج! ایسا نہ کر کہ زندگی بھر اس کی بیٹیاں اور اس کی خالائیں اس پر
نوحہ کناں رہیں ﴿اور آنسو بہاتی رہیں﴾
حجاج یہ شعر سن کر روپڑا اور نرم ہوگیا، امیر المؤمنین عبد الملک بن مروان
سے اجازت لے کر اس نے عباد کے لئے عطیہ اور انعام کا حکم جاری کیا۔
﴿الابشیہی: المستطرف ج۱ ص۱۳۲﴾ |