گزشتہ سے پیوستہ
حقیقتِ معراج کے چند گوشے بیان کرنے کے بعد اب ہم مختلف احادیثِ مبارکہ کی
روشنی میں واقعہ معراج کی جملہ تفصیلات بیان کرتے ہیں۔
مرحلہ اُولیٰ۔ ۔ ۔ بیت ُاللہ سے بیت ُالمقدس تک
سفرِ معراج، سفرِ محبت بھی ہے اور سفرِ عظمت بھی۔ بیت ُاللہ سے بیت المقدس
اس سفرِ مقدس کا پہلا مرحلہ تھا۔ یہ واقعہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے اور متعدد طرق، اسناد اور تفصیلات کے ساتھ منقول ہے۔ نیز تابعین
نے بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حطیمِ کعبہ میں آرام فرما رہے تھے
کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے آ کر تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو جگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے، اِدھر
اُدھر دیکھا اور پھر لیٹ گئے۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے دوبارہ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر
اِدھر اُدھر دیکھا اور لیٹ گئے۔ پھر جبرئیل امین علیہ السلام نے تیسری
مرتبہ درِ اقدس پر آواز دی۔ اس مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے تو
جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !
اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی ملاقات کے لئے بلایا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا سینہ اقدس حلق سے لے کر ناف تک چاک کیا گیا اور قلبِ
اطہر کو نکالا گیا۔ اللہ رب العزت نے ملاءِ اعلیٰ سے ایک طشت کے اندر اپنے
خصوصی اَنوار و تجلیاتِ حکمت بھیجے تھے۔ ان اَنوار و تجایلت سے حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس کو دھویا گیا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر سفرِ معراج شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذاتی
انوار و تجلیات کے فیض کو کماحقہ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک سواری پیش کی گئی جو
قد کے اعتبار سے گوش دراز سے اونچی اور خچر سے نیچی تھی۔ اس کا رنگ چمکدار
اور سفید تھا۔ اس کا نام براق تھا۔
عن مالک بن صعصعة، قال : قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بینا انا فی
الحجر. . . و فی روایة فی الحطیم. . . بین النائم و الیقظان، ذ اتانی آت،
فشقّ ما بین ہذہ لی ہذہ، فاستخرج قلبی، فغسلہ ثم اعیدہ، ثم اتیت بدابة دون
البغل فوق الحمار ابیض، یقال لہ البُرَّاق، ، فحملت علیہ، ، .
(روح المعانی،15 : 5)
حضرت مالک بن صعصعہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ میں حجر۔ ۔ ۔ دوسری روایت میں حطیم کا ذکر ہے۔ ۔ ۔ میں نیند اور
بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا جب میرے پاس آنے والا (فرشتہ) آیا۔ اس نے
(میرا سینہ) یہاں سے یہاں تک چیرا۔ پھر میرے دل کو نکال کر غسل دیا۔ پھر
دوبارہ اندر رکھ دیا۔ پھر ایک سواری لائی گئی جو خچر سے چھوٹی اور گوش دراز
سے بڑی تھی۔ اس کا رنگ سفید تھا۔ اسے براق کہا جاتا ہے پس مجھے اس پر سوار
کرایا گیا۔
جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ
فخر و اِنبساط سے ناچنے لگی کہ آج اسے سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ براق اس سعادتِ عظمیٰ
پر وجد میں آ گیا۔ اس پر جبرئیلِ امین علیہ السلام نے اس سواری سے فرمایا :
رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار
نہیں بیٹھا۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کرا کے انہیں بیت
المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں سوار کی
نظر پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبرِ انور میں نماز ادا کرنا
سفرِمعراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبرِ انور کے قریب سے ہوا۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبرِ انور میں کھڑے صلوٰة پڑھ
رہے تھے۔
انبیاءصف بہ صف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کیلئے کھڑے تھے۔
جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو بابِ محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے استقبال کے لئے کھلا تھا۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنی انگلی
سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ
دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام
انبیائے کرام علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، اِکرام
اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت
میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔
مرحلہ ثانیہ۔ ۔ ۔ بیت المقدس سے سدرة المنتہیٰ تک
انبیاءحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداءمیں نماز ادا کر کے ادب و
احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا
آغاز ہوا، اس لئے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں
کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی
گئی۔ بوّاب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی : کون ہے؟۔ ۔ ۔ جبرئیل امین نے
جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔ ۔ ۔ ۔ آواز آئی : آپ کے ساتھ کون ہے؟۔ ۔ ۔ جواب
دیا : یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آج کی رات انہیں آسمانوں پر
پذیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں سلام عرض کرنے کی سعادت
حاصل کی۔ مرحبا یا سیدی یا مرشدی مرحبا
فانطلق بی، حتی اتی السماءالدنیا فاستفتح، قیل : من ہذا؟ قال : جبرئیل، و
من معک؟ قال : محمد، قیل : قد ارسل لیہ؟ قال : نعم، قیل : مرحبا بہ فنعم
المجیءجاء.
(تفسیر البغوی،3 : 93)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف بڑھے اور جب آسمانِ دنیا پر
آئے تو دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی : کون؟ جبرئیل امین نے کہا : جبرئیل۔
پھر کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم۔ پھر پوچھا گیا : کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبرئیل نے کہا : ہاں۔ آواز
آئی : خوش آمدید، کتنا اچھا آنے والا آیا ہے۔
تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت
آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند
ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہی کل
انبیاءکے سرتاج ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ
کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام
نے سلام کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔
اس کے بعد مہمانِ عرش حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان
کی طرف اٹھایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ
کھولا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور
یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی
مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا
گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا یوسف
علیہ السلام سے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام
سے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج طے کرتے
ہوئے چھٹے آسمان پر پہنچے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ
اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں جن
کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ
وہی رسولِ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت
میں داخل کیا گیا۔ مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ملاقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔
دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ملائکہ کے ہجوم در ہجوم
مشاہداتِ آسمانی کے نورانی جلوؤں کے بعد تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو سدرة المنتہیٰ کے مقام تک لے جایا گیا۔ یہ وہ مقامِ عظیم ہے جہاں آ
کر ملائکہ، حتیٰ کہ انبیاءو رُسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں مقرب
فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں۔ گویا ملاقات کا سارا نظام اور عالمِ امکان کی
ساری بلندیاں سدرة ُالمنتہیٰ پر ختم ہو جاتی ہیں۔ سدرة ُالمنتہیٰ کا مقامِ
اولیٰ عالمِ مکان کی آخری حد اور لامکاں کا ابتدائی کنارہ ہے۔ اس مقام پر
تفسیر نیشاپوری اور تفسیر دُرِ منثور میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے۔ فرشتے
اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک!
جس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تو نے یہ کائنات تخلیق فرمائی جس
پر تو اپنی زبانِ قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی
تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمانِ ذی
وقار تشریف لا رہے ہیں۔ اے باری تعالیٰ! ہمیں اپنے اس رسولِ محتشم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما۔ اللہ پاک نے ان مقرب ملائکہ کی
دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائناتِ آسمانی سے سمٹ کر
اس درخت سدرة ُالمنتہیٰ پر بیٹھ جاؤ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم اُمڈ پڑے۔ فرشتوں
کی اتنی کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آ گیا :
ستاذنتِ الملائکةُ الربَّ تبارک و تعالٰی ان ینظروالی النبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم، فاذن لہم، فغشیت الملائکةُ السِّدرةَ لینظروا لٰی النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم.
(الدر المنثور،6 : 116)
فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی خواہش
کا اظہار کیا تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ پس فرشتوں نے سدرہ (بیری کے درخت)
کو اپنی کثرت سے چھپا لیا تاکہ نبءاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت
کر سکیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
ِذ یَغشَی السِّدرَةَ مَا یَغشَی o
(النجم، 53 : 16)
جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے کہ چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے)
سدرة ُالمنتہیٰ کے مقامِ عظیم پر قدسیانِ فلک کو مہمانِ ذی وقار کے دیدارِ
فرحت آثار کا لازوال شرف حاصل ہوا۔
رخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
جب مہمانِ عرش آگے بڑھنے لگے تو جبرئیلِ امین رک گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کیا :
لو دنوتُ انملةً لاحترقتُ.
(الیواقیت و الجواہر، 3 : 34)
اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیاتِ الٰہی کے پرتو سے) جل
جاؤں گا۔
سِدرہ سے آگے یکتا و تنہا
اس مقام پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ حضور
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کے احوال کا مشاہدہ فرمایا اور
وہاں کی نعمتوں کی زیارت فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفرِ
معراج کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو جبرئیل اور براق ساتھ نہ تھے۔ آپ
یکتا و تنہا ہی اپنے خالقِ کائنات کے اِذن سے روانہ ہوئے۔ اللہ رب العزت نے
اپنے مہمانِ عرش کی سواری کے لئے ایک سبز رنگ کا ملکوتی اور نورانی تخت
بھیج دیا۔ اس تخت کا نام زخرف تھا۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو عرشِ معلی تک پہنچایا گیا۔ جب سدرة ُ المنتہیٰ کی منزل گزر چکی، جب
فرشتوں کا استقبال پیچھے رہ گیا تو آگے ایک نور تھا اور دیکھنے والے کو اس
نور کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نور
میں غائب کر دیا گیا تو دیکھنے والی آنکھ آپ کو دیکھنے سے قاصر تھی۔ اب کسی
کو معلوم نہ تھا کہ یہ نور کیا ہے؟ کیسا ہے؟ کہاں سے ہے؟ کہاں تک ہے؟ کہاں
جانے والا ہے؟ اس حصارِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ
عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرشِ معلی کی سیر کی۔ اس کے بعد مہمانِ
مکرم کو بڑی عزت، وقار اور تمکنت کے ساتھ آگے لے جایا گیا۔
مرحلہ ثالثہ۔ ۔ ۔ سدرة ُالمنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک
سدرة ُ المنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک سفرِ معراج کا نقطہ عروج ہے۔ یہاں سے
سفر کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ آگے ایک عالم نور تھا۔ اَنوار و
تجلیاتِ الٰہی پُرفِشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے
بھرپور عالمِ لامکاں کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔ مہمانِ عرش حضور رحمتِ
عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تن تنہا ان جلوؤں میں داخل کر دیا گیا۔ سب
سے پہلے اللہ پاک کے اسماءکے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے اور ہر اسم
مبارک کے رنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گزارا گیا۔ حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم عالمِ بیداری میں تھے لہٰذا اس عجیب سی کیفیت کو دیکھ کر
بتقاضائے بشریت کچھ معمولی سی وحشت بھی محسوس فرمانے لگے جیسا کہ انسان
اکثر لمحاتِ تنہائی میں محسوس کرتا ہے۔ جونہی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس پر یہ کیفیت وارد ہوئی اللہ رب العزت کی طرف سے
آواز آئی:
قف یا محمد صلی اللہ علی وآلہ وسلم ! ن ربک یصلی.
(الیواقیت و الجواہر، 2 : 35)
پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک جاؤ! بے شک تمہارا رب (استقبال کے
لئے) قریب آ رہا ہے۔
سفرِ وصال
معجزہ معراج میں یہاں تک کا سفر، سفرِ محبت و عظمت تھا۔ اب یہاں سے آگے
سفرِ وصال شروع ہوتا ہے۔ سفرِ معراج کے اس مرحلہ پر مہمانِ عرش حضور رحمتِ
عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ قاب قوسین پر پہنچ گئے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیO فَکَانَ قَابَ قَوسَینِ اَو اَدنَیO
(النجم، 53 : 8، 9)
پھر (اس محبوبِ حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھےo پھر (یہاں تک بڑھے
کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ دو قوسوں پر بات ختم نہیں کی بلکہ قُرب اور
بُعد کے تمام جھگڑے ختم کرنے کے لئے تمام حدوں کو توڑ دیا، تمام فاصلے مٹا
دیئے، تمام فاصلے یکسر ختم کر دیئے، سوائے ایک فرق کے کہ وہ خدا تھا۔ ۔ ۔
خدائے لاشریک اور یہ اس کے محبوب بندے اور رسول تھے۔ وہ خالق تھا اور یہ
مخلوق۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
فَاَوحَی ِلَی عَبدِہِ مَا اَوحَیO
(النجم، 53 : 10)
پس وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کہ اس نے وحی کیo
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی کی ملاقات میں
جو باتیں ہوئیں ان کا بیان بھی نہیں فرمایا لہٰذا محب اور محبوب میں کیا
کیا باتیں ہوئیں، اس کلام کی حقیقتوں کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔ حضور رحمتِ
عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط اتنا بیان فرمایا کہ جب ملاقات ہوئی
تو خالقِ کائنات نے فرمایا :
اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیہا النَّبِیُّ وَ رَحمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُہ.
(معارج النبوة، 3 : 149)
اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔
حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے اس پیغام کے جواب میں عرض
کیا :
اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَ عَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِینَ.
(معارج النبوة، 3 : 149)
سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔
اور پھر واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمت کے لئے پچاس نمازوں
کا تحفہ عطا کیا گیا جسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی
ذاتی و صفاتی تجلیات اور تمام فیوض و برکات سمیت واپس کرہ ارضی کی طرف
پلٹے۔
جاری ہے۔۔۔۔ |