بھائیو السلام علیکم ،
میں نے اپنے ایک بھائی کے رد میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا یہ دوسرا حصہ ہے
پہلے حصے میں ان ضعیف روایات کا رد کیا گیا ہے جو صحابہ کرام رضی الله عنہم
کی جانب منسوب تھی جس کا رد با حکم الله محدثین کے اقوال سے اور اصول حدیث
سے کیا ہے اب میں اس آیت کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں جس میں میرے
بھائی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش " یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ" اس آیت کا
مصداق بت ہیں میرا ماننا بھی یہی ہے کہ یہ بت تھے مگر وہ بت نوح علیھ
السلام کے زمانے کے نیک لوگوں کے نام پر بنے گئے تھے اور میں یہ بات اپنی
طرف سے نہیں کہ رہا ہوں یہ جمہور کا قول ہے اور جمہور مفسرین نے اس کو نقل
کیا ہے میں چند نام پیش کرتا ہوں پھر اس کے حوالاجات اس کے محل پر بیان
کروں گا (١)ابن عباس رضی الله عنھما (٢) قتادہ رحمہ الله (٣) امام طبری (٤)
امام قرطبی (5) ابن کثیر (6) امام الالوسی اور دیگر بہت سے ہیں ان سب کے
مطابق عرب میں وہی بت تھے جو نوح علیھ السلام کے دور کے نیک لوگ تھے اور ان
کے بت بنا لئے گئے اب میں اپ کے سامنے ترتیب وار اس بات کے دلائل صحابہ
کرام رضی الله عنھم تابعین اور مفسرین کے اقوال سے پیش کرتا ہوں
صالحین کے بتوں کی عبادت
اس عنوان کے تحت اگر ہم سوره نوح کا مطالہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے
کے نوح علیھ السلام کی قوم بتوں کی عبادت کرتی تھی
" اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور
یغوث اور یعقوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا (سوره نوح ٢٣)
یہ وہ بت ہیں جن کی عبادت قوم نوح کرتی تھی اور اگر ہم اس حوالے سے تفسیر
پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام نیک لوگ تھے جن کے ان کے مرنے کے
بعد بت بنا دئیے گئے اور انہی بتوں کی بعد میں عرب میں عبادت کی جانے لگی
اور یہ بات صحابہ کرام رضی الله عنھم تابعین اور جمہور مفسرین سے منقول ہے
.
(١) "ابن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں " جن بتوں کی نوح علیھ السلام کی
قوم عبادت کرتی تھی وہی بعد میں عرب میں پکارے جانے لگے اور یہ نوح علیھ
السلام کی قوم کے نیک لوگ تھے ،(بخاری کتاب تفسیر باب تفسیر سوره نوح علیھ
السلام حدیث ٤٩٢٠ )
(٢ ) في رواية عبد الرزاق عن معمر عن قتادة:كانت آلهة تعبدها قوم نوح ثم
عبدتها العرب بعد..(مصنف عبد الرزاق بحوالہ فتح الباری تحت الرقم ٤٩٢٠ )یہ
معبود نوح علیھ السلام کی قوم کے تھے بعد میں عرب میں ان کی عبادت کی گئی.
(٣) امام طبری نے بھی قتادہ سے یہی قول نقل کیا ہے " عن قتادة ، قوله : (
لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ
وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ) قال: وكانت هذه الآلهة يعبدها قوم نوح ، ثم اتخذها
العرب بعد ذلك.(تفسیر طبری جلد ١٠ سوره نوح آیت ٢٤ ) قتادہ رحمہ الله
فرماتے ہیں " یہ معبود نوح علیھ السلام کی قوم کے تھے بعد میں عرب میں ان
کی عبادت کی گئی.
(٤) امام قرطبی اپنی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے کہ جمہور کا ماننا یہی ہے کہ
ان نیک لوگوں کے بتوں کی عرب میں بھی عبادت ہوتی تھی
" قال ابن عباس وغيره : هي أصنام وصور ، كان قوم نوح يعبدونها ثم عبدتها
العرب وهذا قول الجمهور.(تفسیر قرطبی جلد ٥ سوره نوح آیت ٢٤ ) امام قرطبی
فرماتے ہیں : جیسا ابن عباس رضی الله عنھما وغیرہ سے بیان ہے کہ یہ بت اور
ان کی تصویر قوم نوح میں ان کی عبادت ہوتی تھی پھر ان کی عبادت عرب میں کی
گئی ، اور جمہور نے اس کو بیان کیا ہے .
اور یہ صرف بت نہیں تھے بلکہ یہ قوم نوح کے نیک لوگ تھے جن کے مرنے کے بعد
ان کے بت بنے اور اس کو بیان کرتے ہوا امام قرطبی فرماتے ہیں " قال محمد بن
كعب أيضا ومحمد بن قيس : بل كانوا قوما صالحين بين آدم ونوح ، وكان لهم تبع
يقتدون بهم ، فلما ماتوا زين لهم إبليس أن يصوروا صورهم ليتذكروا بها
اجتهادهم ، وليتسلوا بالنظر إليها ؛ فصورهم. فلما ماتوا هم وجاء آخرون
قالوا : ليت شعرنا هذه الصور ما كان آباؤنا يصنعون بها ؟ فجاءهم الشيطان
فقال : كان آباؤكم يعبدونها فترحمهم وتسقيهم المطر. فعبدوها فابتدئ عبادة
الأوثان من ذلك الوقت.
قلت : وبهذا المعنى فسر ما جاء في صحيح مسلم من حديث عائشة : أن أم حبيبة
وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة تسمى مارية ، فيها تصاوير لرسول الله
صلى الله عليه وسلم ؛ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "إن أولئك إذا
كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور
أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة" (حوالہ ایضا)
محمد بن کعب اور محمد بن قیس فرماتے ہیں : یہآدم علیھ السلام اور نوح علیھ
السلام کے دور کے نیک لوگ تھے اور لوگ ان کی اتباع کرتے تھے پھر جب ان کا
انتقال ہو گیا تو شیطان نے ان کو بہکایا کہ ان کی تصاویر بناؤ تاکہ تم میں
بھی ذکر کرنے کا شوق ہو اور یہ تمہارے سامنے بھی رہیں گے تو انھوں نے ان کی
تصاویر بنائی پھر جب وہ نسل ختم ہو گئی جب نئی نسل نے کہا کاش ہمیں معلوم
ہو جائے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے اسے کیوں بنایا تو شیطان نے ان کے پاس آکر
کہا کہ تمہارے آباؤ اجداد اس کی عبادت کرتے تھے اس سے رحم اور بارش کی دعا
کرتے تھے .
میں کہتا ہوں اس معنی (یعنی نیک لوگوں کی تصویر اور بت بنانا )وضاحت صحيح
مسلم کی حدیث میں آئی ہے ام حبیبہ رضی الله عنہا نے حبشہ میں تصاویر دیکھی
تو نبی صلی الله علیھ وسلم سے اس کا ذکر کیا اپ نے فرمایا '" یہ وہ لوگ ہیں
جن میں جب کوئی نیک آدمی مارتا تو اس کی قبر کو سجدے کی جگہ بنا لیتے اور
اپنے گرجوں میں ان کی تصاویر لگا لیتے قیامت کے دن الله کے نزدیک بد ترین
مخلوق یہ ہو گی .
تو امام قرطبی کے مطابق بھی عرب میں وہی بت تھے جو نوح علیھ السلام کے
زمانے کے نیک لوگ تھے جن کے یہ بت بنے تھے اور نصاریٰ کی عادت تھی کہ وہ
نیک لوگوں کی تصاویر اور ان کی قبر پر سجدہ کیا کرتے تھے جیسا امام قرطبی
نے حدیث مسلم کے حوالے سے نقل کیا ہے .(نوٹ : یہ حدیث بخاری میں بھی موجود
ہے دیکھئے کتاب المغازی باب ہجرت حبشہ )
(٥) امام الا لوسی نے روح المانی میں بھی یہی بیان کیا ہے .
" هذه الأصنام إلى العرب أخرج البخاري وابن المنذر وابن مردويه عن ابن عباس
قال صارت الأوثان التي كانت في قوم نوح عليه السلام في العرب بعد" (تفسیر
المانی روح جلد ٧ سورہ نوح ٢٤ )
یہ تمام بت عرب عرب میں پوجے جانے لگے جیسا کہ ابن عباس رضی الله عنھما سے
بخاری ابن المنذر وابن مردويه نے نقل کیا ہے جو بت قوم نوح میں تھے وہی بعد
میں عرب میں (معبود ) بن گئے .
اور امام الا لوسی نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ قوم نوح کے نیک لوگ تھے" هذه
الأسماء أسماء رجال صالحين من قوم نوح" (حوالہ ایضا) اور یہ قوم نوح کے نیک
لوگوں کے نام تھے .
(٦) امام بغوی نے بھی یہی نقل کیا ہے " وروى سفيان عن موسى عن محمد بن قيس
قوله تعالى : "ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا يغوث ويعوق ونسرا" قال : كانت
أسماء رجال صالحين من قوم نوح ، (تفسیر البغوی جلد ٣ سوره نوح ٢٣ ) " محمد
بن قیس فرماتے ہے " (اس آیت میں جو بت ہیں ) یہ قوم نوح کے نیک لوگوں کے
نام ہیں .
اور اسی طرح اگے بیان کرتے ہیں ".وروي عن ابن عباس : أن تلك الأوثان دفنها
الطوفان وطمها التراب ، فلم تزل مدفونة حتى أخرجها الشيطان لمشركي العرب (حوالہ
ایضا)
یہ تمام بت طوفان میں مٹی میں دب گئے تھے حتى کہ شیطان نے ان کو مشرکین عرب
کے لتے نکلوایا .
(٧ ) ابن کثیر نے بھی یہ بیان کیا ہے " بخاری میں ہے کہ قوم نوح کے بتوں کو
مشرکین عرب نے لی لیا ،اور اگے فرماتے ہیں " یہ بزرگ الله والے اولیا الله
اور آدم علیھ السلام کے سچی اتباع کرنے والے تھے (تفسیر ابن کثیر سوره نوح
٢٣ )
(٨) امام حاتم الرازی فرماتے ہیں " أنه كان يموت أقوام صالحون فكانوا
يتخذون تماثيل على صورهم ويشتغلون بتعظيمها، وغرضهم تعظيم أولئك الأقوام
الذين ماتوا حتى يكونوا شافعين لهم عند الله وهو المراد من قولهم: {ما
نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى} (الزمر: 3) (تفسیر امام رازی سوره نوح
٢٣ )
یہ تمام نیک لوگ تھے جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی بت اور تصاویر بنائی گئی
تعظیم کی غرض سے جب وہ نسل ختم ہو گئی تو اگلی نسل نے ان کو الله کے سفارش
سمجھ لیا اور قرآن کی آیت سے یہی مراد ہے .(ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے
ہے کے یہ ہم کو الله سے قریب کر دیں گے .
تو امام رازی کا ماننا بھی یہی ہے کہ اولیا الله کی پہلے تعظیم کے لیے
تصاویر بنائی جاتی ہے بعد میں ان کو سفارشی سمجھ کر ان کی عبادت شروع ہو
جاتی ہے . یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ امام رازی نے یہ اشکال ظاہر
کیا ہے کہ نوح علیھ السلام کے دور کے بت عرب میں کیسے آ گئے جبکہ طوفان میں
سب تباہ ہو گیا تھا تو اگر کسی کو اس بارے میں اشکال ہے تو حافظ ابن ہجر
اور ابن کثیر نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور جمہور کا ماننا یہی ہے کہ
یہ بت عرب میں پوجے جاتے تھے اور امام رازی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے
تحت یہ بھی لکھا ہے کہ ود قریش کا بت تھا تو ان کا یہ اعتراض از خود باطل
ہے کیونکہ وہ خود یہ مانتے تھے کہ ود قریش کا بت تھا.
(٩) تفسیر خازن میں بھی یہی مضمون موجود ہے " عن ابن عباس رضي الله عنهما
قال : صارت الأوثان التي كانت تعبد قوم نوح في العرب بعد (تفسیر خازن سوره
نوح ٢٣ )
اور اگے فرماتے ہیں " فابتداء عبادة الأوثان كان من ذلك وسميت تلك الصور
بهذه الأسماء لأنهم صوروها على صورة أولئك القوم الصالحين من المسلمين "
بتوں کی عبادت اسی طرح شروع ہوئی کہ ان کے نام پر تصاویر کے نام رکھے گئے
اور یہ تمام تصاویر مسلمانوں کے صالحین کی تھی.
(١٠ ) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں " "صارت الأوثان التي كانت في قوم نوح في
العرب بعد" في رواية عبد الرزاق عن معمر عن قتادة: كانت آلهة تعبدها قوم
نوح ثم عبدتها العرب بعد.(فتح الباری تحت رقم ٤٩٢٠)
اور اگے فرماتے ہیں " وذكر السهيلي في "التعريف" أن يغوث هو ابن شيث بن آدم"
اور السهيلي نے تعریف میں ذکر کیا ہے کہ يغوث شیث علیھ السلام کے بیٹے تھے.
صحابہ کرام رضی الله عنھم سے لے کر جمہور نے یہی بیان کیا ہے کے عرب کے بت
نوح علیھ السلام کے دور کے نیک لوگ تھے جن کے بت بنا کر ان کی عبادت کی گئی
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو میرے بھائی نے
" یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ" میں مفسرین کے اقوال نقل کیے کے یہ بت ہیں
اس کے مطابق مفسرین کے ان دونوں بیانات میں تضاد معلوم ہوتا ہے ایک طرف تو
وہ ان کو بت یعنی بے جان کہ رہے ہے اور دوسری طرف یہ کہ رہے ہیں کہ عرب میں
اولیا الله کے بتوں کی عبادت کی گئی ہے تو میں اپنے بھائی سے عرض کرتا ہوں
کے مفسرین کے اقوال میں کوئی تضاد نہیں ہے اپ ان کی بات نہیں سمجھ پاے ،
مفسرین کے مطابق وہ بت ہی تھے اور بے جان ہی تھے نہ سن سکتے نہ بول سکتے
مگر یہ بت بنا کر مشرکین عرب ان کے نام ان اولیا الله کے نام پر رکھتے تھے
اور ان کی تصاویر بناتے تھے تو تھے تو وہ بت ہی مگر نیک لوگوں کے تصاویر کی
شبی پر بناے جاتے تھے جیسا مفسرین نے لکھا ہے " تو انھوں نے ان کی تصاویر
بنائی" تو میرے خیال سے اب بات واضح ہو گئی ہے . کہ بت تو وہ تھے مگر نیک
لوگوں کی تصویر پر بناے جاتے تھے, میں جانتا ہوں میرے بعض بھائی اس کا
انکار ہی کریں گے اوراسی بات پر مصر ہوں گے کہ نہیں وہ بت ہی تھے اور اس کی
وجہ بھی میں ضرور بیان کروں گا کہ وہ ایسے ماننے پر مصر کیوں ہیں اس کے لئے
ہمیں چند احادیث کا مطالعہ کرن پڑے گا پیش خدمت ہیں " أبي واقد الليثي أن
رسول الله صلى الله عليه و سلم لما خرج إلى خيبر مر بشجرة للمشركين يقال
لها ذات أنواط يعلقون عليها أسلحتهم فقالوا يا رسول الله أجعل لنا ذات أنوط
كما لهم ذات أنواط فقال النبي صلى الله عليه و سلم سبحان الله هذا كما قال
قوم موسى اجعل لنا إلها كما لهم آلهة والذي نفسي بيده لتركبن سنة من كان
قبلكم (سنن ترمزی کتاب الفتن رقم ٢١٨٠ )
واقد الليثي فرماتے ہیں ، ہم (جب شروع دور اسلام میں )نبی صلی الله علیھ
وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف گئے ایک درخت جس پر مشرکین منت اور برکت کے لئے
اپنے ہھتیار ٹانگتے تھے اس کو مشرکین ذات أنواط کہتے تھے ہم نے کہا یا رسول
الله صلى الله عليه و سلم کیا اپ ہمارے لئے بھی اس طرح کا کوئی ذات أنواط
بنادے گے جیسا انھوں نے بنایا ہے تو نبی صلى الله عليه و سلم نے فرمایا
سبحان الله تم تو اسی طرح کی بات کر رہے ہو جیسی موسیٰ علیھ السلام کی قوم
نے کی تھی کہ ہمارے لئے معبود بنادیں جیسا ان لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور
قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم لازما ان کے طریقوں پر
چلو گے جو تم سے پہلے تھے.
تو اس حدیث کے مطابق امت مسلمہ اپنے سے پہلے یعنی یہود اور نصاریٰ کے
طریقوں پر چلے گے اور ان کا ایک طریقہ یہ بھی تھا جیسا حدیث میں آیا ہے جو
ہم نے اوپر بیان بھی کیا ہے کہ "نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا :یہ وہ
لوگ ہیں جن میں جب کوئی نیک آدمی مارتا تو اس کی قبر کو سجدے کی جگہ بنا
لیتے اور اپنے گرجوں میں ان کی تصاویر لگا لیتے"
تو آج امت مسلمہ کے اکثر لوگ اس طریقے پر چل رہے ہیں ہم نے بھی اپنے نیک
لوگ عبدالقادر جیلانی ، معین الدین چشتی ، شہباز قلندر ، اور دیگر کی
تصاویر بنا رکھی ہیں اور ان کی قبروں پر سجدے اور منتیں مانگی جاتی ہیں اور
اس کا انجام یہی ہوگا جو پہلے کی امتوں نے کیا کہ آخر میں ان کے بت بنا کر
ان کی عبادت کرنی شروع کر دی اور یہ بھی حدیث میں موجود ہے کہ ایسا بھی ہو
گا چنانچہ حدیث میں موجود ہے.
"لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى تعبد قبائل من أمتي
الأوثان(سنن ابو داود کتاب الفتن رقم ٤٢٥٢ )
نبی صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک
میری امت کے کچھ قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور قیامت قائم نہ ہوگی جب تک
میری امت بتوں کی عبادت نہ کر لے. تو امت مسلمہ اپنے سے پہلوں کے طریقه پر
چل کر بتوں کی عبادت کر نے تک پہچ جائے گی اور یہ میرے نبی صلی الله علیھ
وسلم کا فرمان حق ہے جو پورا ہو گا اور یہی وہ وجہ ہے کہ جس کے سبب میری اس
بات کو بعض میرے بھائی نہیں مانے گے کہ مشرکین عرب نیک لوگوں کے بت بنا کر
ان کی عبادت کرتے تھےاور میرے یہ بھائی اسی طرح اپنے نیک لوگوں سے منت اور
حاجت مانگتے رہیں گے اور آخر ان کے بت بنادیں گے کیونکہ نبی صلی الله علیھ
وسلم کا فرمان حق تو پورا ہو گا کہ میری امت اپنے سے اگلوں کے طریقے پر چلے
گی یہاں تک کہ وہ بتوں کی عبادت تک پہچ جائے گی تو اگر میرے بھائی ماننے گے
تو وہ ان قبائل میں شامل نہیں ہوں گے انشااللہ .اے الله میری بات میرے
بھائیوں کے دلوں میں اتر دے آمین.
کیا انبیا قبروں میں زندہ ہیں
میرے بھائی نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کے انبیا قبروں میں حیات ہے
تو میں اپنے بھائی سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انبیا کی حیات کا میں بھی
قائل ہوں مگر ان کی حیات برزخی ہے اور جنت میں ہے قبر میں نہیں ہے اور اس
پر صحابہ کرام رضی الله عنھم کے متعدد دلائل موجود ہے اپ نے جو آیت پیش کی
ہے "جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے
نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے (۱۶۹) جو
کچھ خدا نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔ اور جو لوگ ان
کے پیچھے رہ گئے اور( شہید ہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں
منا رہے ہیں کہ (قیامت کے دن) ان کو بھی نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک
ہوں گے سوره ال عمران ١٦٩-١٧٠ )
اس کی تفسیر شارع قرآن سے پتا کریں اپنی تفسیر کریں گے تو ایسے ہی غلط
عقائد کے حامل ہوں گے آؤ میں اپ کو بتاتا ہوں کہ شارع قرآن نے اس آیت کی
تشریح میں کیا فرمایا ہے کہ شہید اپنے رب کے پاس کہاں موجود ہیں اور وہ رزق
ان کو کہاں دیا جارہا ہے .
عبدالله بن مسعود رضی الله عنھ فرماتے ہیں "ہم نے اس آیت کے بارے میں پوچھا
اپ صلی الله علیھ وسلم نے فرمایا " ارواحھم فی جوف طیر خضر لها قنادیل
معلقہ با لعرش تسرح من الجنہ حیث شا ت ثم تاوی الی تلک القنادیل (مسلم کتاب
امارت باب ارواح الشہدا فی الجنہ )
(شہیدوں ) کی ارواح سبز پرندوں کے دلوں میں ہیں اور وہ الله کے عرش کے نیچے
قندیلوں میں موجود ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جنت میں کھاتی پھرتی ہیں پھر
اپنی قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں .
تو یہ حدیث اس آیت قرانی کی تفسیر بتاتی ہے "وہ اپنے رب کے پاس رزق پاتے
ہیں " یعنی جنت میں پرندوں کی کے دلوں میں رہ کر جہاں سے چاہیں رزق کھاتے
ہیں ، تو اس حدیث کے مطابق شہید جنت میں ہیں اور وہ وہاں اپنے رب کا فضل
اور رزق پاتے ہیں نہ کہ اپنی قبر میں ہیں اور انبیا بھی اپنے مقام میں حیات
ہیں جس کی وضاحت ذیل میں دی گئی احادیث میں موجود ہے .
- حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ
قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ إِنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَحِيحٌ
يَقُولُ إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنْ
الْجَنَّةِ ثُمَّ يُحَيَّا أَوْ يُخَيَّرَ فَلَمَّا اشْتَكَى وَحَضَرَهُ
الْقَبْضُ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِ عَائِشَةَ غُشِيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا
أَفَاقَ شَخَصَ بَصَرُهُ نَحْوَ سَقْفِ الْبَيْتِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ
فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى فَقُلْتُ إِذًا لَا يُجَاوِرُنَا فَعَرَفْتُ
أَنَّهُ حَدِيثُهُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا وَهُوَ صَحِيحٌ (بخاری کتاب
المغازی باب مرض النبی صلی الله علیھ وسلم و وفاتہ رقم ٤٤٣٨ )
اماں عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں : کہ صحت اور تندرستی کے زمانے میں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی
ہے تو پہلے جنت میں اس کی قیام گاہ اسے ضرور دکھائی جاتی ہے پھر اسے اختیار
دیا جاتا ہے پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اوروقت قریب آگیا تو
سر مبارک عائشہ رضی اللہ عنھا کی گود میں تھا اور غشی طاری ہو گئی تھی جب
افاقہ ہوا تو آپ کی انکھیں گھر کی چھت کی طرف اٹھ گئی اور آپ نے فرمایا(اے
اللہ مجھے میرے اعلی رفیقوں میں شامل کر) میں سمجھ گئی اب آپ نے ہمیں پسند
نہیں کیا مجھے وہ حدیث یاد آگئی جو آپ نے صحت کے زمانے میں بیان کی تھی۔
4462 - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ
ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا
السَّلَام وَا كَرْبَ أَبَاهُ فَقَالَ لَهَا لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبٌ
بَعْدَ الْيَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا
دَعَاهُ يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ (حوالہ ۔ایضا
رقم ٤٤٦٢ )
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: شدت مرض کے دور میں نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی بے چینی بڑھ گئی تھی تو فاطمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا آہ میرے
والد صاحب کو کتنی بے چینی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کے
بعد تمہارے والد یہ بے چینی نہیں رہے گی پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو فاطمہ
رضی اللہ عنھا فرماتی اباجان آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے ابا جان اپ
جنت الفردوس میں اپنے مقام میں چلے گئے.
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء اپنے مقام میں جنت میں حیات ہیں اور
جس حدیث سے میرے بھائی ارشد مدنی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس میں قبر
میں حیات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے انبیاء کے اجسام ان کی قبروں میں سلامت ہیں
اس بات پر میرا ایمان ہے کیونکہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور جہاں تک دورود
پہنچانے کا تعلق ہے تو وہ جنت میں بھی پہنچتا ہے اس کے لئے قبر کی قید اس
حدیث میں موجود نہیں ہے جو میرے بھائی نے بیان کی ہے اس لئے جو دلائل میں
نے پیش کیے ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء قبر میں نہیں اپنے مقام
میں جنت میں حیات ہیں۔
اور اخر میں میرے بھائی ارشد مدنی نے یہ کہا کہ “ابو الا علیٰ مودودی صاحب
اور بعض مترجم حضرات نے یدعون کا ترجمہ پکارتے ہیں کیا ہے جبکہ ایسے مواقع
پر یدعون کا صحیح ترجمہ ہے۔ عبادت کرتے ہیں۔ میرے بھائی نے بالکل ٹھیک کہا
ہے مگر مجھے ان سے معمولی سا اختلاف ہے اور وہ میں واضح کرنا ضروری سمجھتا
ہوں جن مفسرین نے یدعون کا ترجمہ عبادت کیا ہے وہ بھی صحیح ہے اور جنہوں نے
پکارنا کیا ہے وہ بھی صحیح ہے کیونکہ پکارنا بھی عبادت ہیں اور یہ معنی
قرآن اور صحیح حدیث سے ثابت ہیں ورنہ مفسرین کیا عربی نہیں جاتے تھے کہ دو
الگ الگ مادہ کے الفاظ کا ایک ہی ترجمہ کریں لفظ “یدعون“ کامادہ (یعنی روٹ
ورڈ) د ع و اور اس سے دعاء بنا ہے جس کے معنی پکارنا ہے اور یعبدون کا مادہ
ع ب د ہے جس سے عبادہ بنا ہے جس کے معنی عبادت ہے تو یہ دونوں الگ الگ مادہ
سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں اب اس کا ایک ہی ترجمہ عبادت کیوں کیا گیا اس کی
دلیل قرآن سے دیکھتے ہیں۔
سورہ الاحقاف میں اللہ فرماتا ہے “ ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لا
یستجیب لہ الی یوم القیامہ وھم عن دعائھم غافلون ٠ و اذا حشر الناس کانوں
لھم ادائ وکانو بعبادتھم کافرین(سورہ الاحقاف ٥-٦)اور ایسے لوگوں سے زیادہ
گمراہ کون ہیں جو اللہ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہی جو قیامت تک ان کی
دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ وہ ان کی دعا سے بے خبر ہیں اور جب سب لوگ جمع
کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اوران کی عبادت کا انکار کریں
گے۔
ان آیات میں دونوں الفاظ دعاء اور عبادہ موجود ہیں اور اس میں اللہ نے ان
کے پکارنے کو عبادت فرمایا ہے اور اس کی تائید بھی حدیث میں موجود ہے کہ
“الدعاء ھو العبادہ“ دعا عبادت ہے (ابوداؤد رقم ١٤٧٩ ) تو پکارنا بھی عبادت
ہی ہے تو جن مفسرین نے اس کا ترجمہ عبادت کیا ہے وہ بھی صحیح ہے کہ پکارنا
بھی عبادت ہیں یعنی مشرکین اللہ کے علاوہ اپنی حاجت روای اور مشکل کشائی کے
لیے غیر اللہ کو پکارتے تھے یعنی ان کی عبادت کرتے تھے تو انہوں نے اس
کاترجمہ عبادت کیا ہے وگرنہ اگر اس کا اصل کو دیکھا جائے تو اس کے معنی
پکارنے ہی کے ہیں جیسا مودودی صاحب وغیرہ نے کیا ہے تو میرے بھائی ارشد
مدنی سے میری درخواست ہے کہ کم سے کم اتنی عربی ضرور سیکھ لیں کہ ان الفاظ
کو سمجھ سکیں اور مفسرین پر بلاوجہ ایسا مفہوم نہ منسوب کریں جو انہوں نے
بیان نہیں کیا ہے ۔اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں قرآن اور صحیح حدیث کو
فہم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مطابق سمجھنے کی توفیق دے ہم اپنی مرضی کے
معنی نہ کریں تاکہ غلط عقائد کے حامل نہ بنیں۔ وما علینا الا بلاغ |