عامَل کامَل اور ابو شامَل قسط 6۔

گُزشتہ سے پیوستہ

کامِل نے آگے بڑھ کر مثنوی مولانا رُوم کو عقیدت سے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اُسکے مطالعہ میں گُم ہُو گیا ۔ کتاب پڑھتے پڑھتے نہ جانے کب کامل کی آنکھ لگ گئی۔ آج اُسکے خُوابوں میں نہ پریاں تھیں۔ اور نہ ہی نرگس اُسے کہیں نظر آئی۔ پھر منظر تبدیل ہُوا۔ اور اُسے ایک مُہیب جنگل نظر آنے لگا۔ وہ جنگل میں داخل ہُوا ہی تھا کہ اُسے ہر طرف سے رُونے اور سِسکنے کی صدائیں سُنائی دینے لگیں۔ اُس نے گھبرا کر جُونہی آنکھیں کھولیں۔ جلباب اُسکے قدموں کو تھامے اُسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔ جلباب کی آنکھوں میں آج پہلی مرتبہ کامل نے آنسو دِیکھے تھے ۔اُسکی سسکیاں ماحول کو عجیب وحشتناک بنائے دے رہیں تھی۔ کامل ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ وہ جِلباب سے رُونے کی وجہ معلوم ہی کرنا چاہ رہا تھا۔ کہ اُسے آنگن سے بھی سفینہ پُھُّپو کے بین کی صدائیں بُلند ہُوتی سُنائی دینے لگیں ۔

اب مزید پڑھیئے۔

کامِل علی نے برآمدے میں جُونہی قدم رکھا تُو اُسکے قدموں تلے زمین نِکل گئی۔ ایک چارپائی پر اَمَّاں کی لاش رکھی تھی۔ جِسکے سرہانے سفینہ پُھپو دِلخراش انداز سے بَین کررہی تھیں۔ پُھپو کے اِرد گرد تین مُحلہ کی خَواتین اُنہیں دِلاسہ دے کر صبر کی تلقین کررہی تھیں۔ کامل کی آنکھیں اَمَّاں کی لاش دیکھ کر پتھرا سی گیئں تھیں۔ کامل کا دِل چاہا کہ وہ بھاگ کر اَمَّاں سے لپٹ جائے۔ اور اُن سے کہے کہ اَمَّاں اُٹھ جائیں۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ سب کو بتادیں کہ آپ تُو فقط مذاق کررہی ہیں۔۔۔۔ بھلا آپ اپنے کامِل کو چھوڑ کر بھی کہیں جاسکتی ہیں۔۔۔! لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی کامل چند قدم سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اُسے ایسا محسوس ہُورہا تھا جیسے اُسکے بدن سے بھی رُوح کا رِشتہ منقطع ہُورہا ہے۔ اُور وہ اپنا جسمانی توازن کھو چُکا ہے۔۔۔ اُسکا ذِہن مفلوج اور آنکھیں بینائی سے محروم اور خُشک ہُوچُکی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ تمام مناظِر دُھندلانے لگے۔ وہ چیخنا چاہتا تھا۔۔ لیکن اُسکی گُویائی کی طاقت سلب ہُوچکی تھی۔ پھر اچانک وہ لڑکھڑایا اور زمین کی طرف جھکتا چلاگیا۔

پھر اُسکی نِگاہوں کے سامنے کئی منظر بدلے کبھی اُس نے دیکھا کہ لوگ اُسکی اَمَّاں کا جنازہ کاندھے پر اُٹھائے چلے جارہے ہیں۔۔ پھر منظر بدلا تب کسی نے اُسے سہارا دیکر تھاما ہُوا تھا اور اُسکے سامنے اَمَّاں کو لحد میں اُتارا جارہا تھا۔ کبھی سوئم کا منظر نظر آتا تُو کبھی خُود کو اسپتال میں موجود پاتا۔ کبھی سفینہ پُھپو کی تسلیاں سُنائی دیتی۔ کبھی جلباب سر پر ہاتھ پھیرتے رُوتی نظر آتی۔ تُو کبھی مولوی رمضان صاحب کی رندھی ہُوئی آواز سُنائی دیتی۔ کامل بھی بُہت کُچھ کہنا اور پُوچھنا چاہتا تھا۔ وہ اَمَّاں کے متعلق سوالات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن دِن پہ دِن گُزرتے گئے۔ مگر وہ سب کُچھ سسنے کے باوجود بھی بُول نہیں پایا۔

پھر کئی راتوں تک ایک ہی منظر کامِل کی نِگاہوں میں رہنے لگا، اِس منظر میں مولوی رمضان صاحب ہاتھ میں ایک کِتاب لئے کچھ پڑھتے نظر آتے آواز اگرچہ واضح سُنائی نہیں دیتی لیکن اُسے ایسا محسوس ہُوتا جیسے کمرے میں بُہت سی شہد کی مکھیاں داخِل ہُوگئی ہُوں اور بِھنبِھنا رہی ہُوں۔ پھر مولوی صاحب اُس پر دم کرتے دِکھائی دیتے اور کتاب شیلف میں رکھنے کے بعد طویل سجدے میں چلے جاتے ایک مرتبہ پھر شہد کی مکھیوں کی سرسراہٹ بُلند ہُوتی جو کافی دیر تک قائم رہتی۔

تین مہینے بعد حسب سابق مولوی صاحب دَم سے فارغ ہُونے کے بعد اپنے مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھے ۔ تبھی کامِل کو محسوس ہُوا جیسے کوئی اُسکی گردن پہ آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رَہا ہُو۔ اِسکے ساتھ ہی پیاس کی شِدت کا احساس کامل کے ذہن میں بیدار ہُونے لگا۔ رفتہ رفتہ یہ احساس بڑھنے لگا۔ کمرے میں ہنوز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔ کامل نے دھیرے دھیرے اپنے جسم کے سہارے اُٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کیا۔۔۔؟ کامل کی اِس کوشش کے نتیجے میں کامِل کے تمام جسم میں ناقابل برداشت درد کی ایک لہر سی دُوڑ گئی۔ جسکی وجہ سے کامِل کی چیخ نِکل گئی اُور کامِل کو یُوں محسوس ہُونے لگا جیسے کسی نے اسکے جسم کو سحر پھونک کر گُویا پتھر کا بنا ڈالا ہُو۔

کامِل کی چیخ کی آواز سُن کر مولوی صاحب بیساختہ مصلے سے کھڑے ہُو کر کامِل کی طرف دوڑے۔۔ کامل نے مولوی صاحب کو قریب دیکھ کر پانی کی صدا بُلند کی اور دوبارہ بےسُدھ چارپائی پر لیٹ گیا۔ مولوی صاحب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جبکہ زُبان سے وہ خُدا کا شُکر ادا کررہے تھے۔

یہ پِہلا موقع تھا کہ تین مہینے بعد کامِل کی زُباں سے کوئی جُملہ نِکلا تھا۔ مزید ایک ہفتے تک مولوی صاحب کی دِن رات کی کوششیں رنگ لائیں ۔ کامل کے جسم کی مُسلسل مالش نے جسم کے اکڑے ہُوئے پٹھوں کو پھر سے متحرک کردیا تھا۔ مولوی صاحب کی انتھک کاوش نے کامِل کو ایک ہفتہ میں اُٹھنے بیٹھنے کے قابل کردِیا۔ اور وہ ضرورت کے وقت مولوی صاحب سے کلام بھی کرنے لگا تھا۔ کہتے ہیں کہ دُنیا کا سب سے بہتر مرہم وقت ہُوتا ہے جو رفتہ رفتہ روح پر لگے زخموں کو بھی مندمل کردیتا ہے۔

مزید چند دِنوں کے بعد کامل نے روزانہ اَمَّاں کی قبرپر باقاعدگی سے سلام و فاتحہ کیلئے جانا شروع کردِیا۔ وہ فجر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کے ہمراہ قبرستان چلا جاتا۔ مولوی صاحب فاتحہ پڑھ کر لُوٹ آتے جبکہ کامِل ظہر کی نماز تک اَمَّاں کی قبر کے پاس ایک درخت کی چھاؤں تلے بیٹھا رِہتا۔ وہ کبھی اَمَّاں کی قبر پہ نصب پُودوں کو پانی دیتا دِکھائی نظر آتا۔۔۔ تُو کبھی ایصالِ ثواب کیلئے دُرود و فاتحہ پڑھتا دکھائی دیتا۔ وقت گُزرتا رَہا اور کامِل کا زخم مندمِل ہُوتا رہا۔

پھر مولوی صاحب کے اِسرار پر کامِل علی نے کالج جُوائن کرلیا۔ دھیرے دھیرے تعلیمی سرگرمیوں کے باعث کامِل علی واپس نارمل زندگی کی طرف پلٹنے لگا۔ مولوی صاحب اُسکی تعلیم پر خاص توجہ دے رہے تھے۔ کبھی کبھی اُسکے دِل میں خیال آتا کہ وہ مولوی صاحب سے پُوچھے کہ جب میں بیمار تھا تب آپ کونسی کِتاب سے وظائف پڑھ پڑھ کر دَم کیا کرتے تھے۔ اور وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آواز کہاں سے آتی تھی۔ اوراَمَّاں کیسے مرگئی تھی۔۔۔۔۔ جبکہ وہ تُو گھر میں خُوشیاں بکھیرنا چاہتی تھیں۔۔۔؟ اور کیا اَمَّاں کبھی اُنکے خُواب میں آتی ہیں۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن جب سے کامِل علی صحتیاب ہُوا تھا۔ وُہ مسلسل ایک بات نُوٹ کررہا تھا۔ کہ اَمَّاں کی موت کا جتنا صدمہ اُسے تھا۔ اِس سے کہیں زیادہ صدمہ مولوی صاحب کو بھی تھا۔ وہ اَمَّاں کی موت کے بعد خاموش خاموش سے رہنے لگے تھے۔ اور اب اُنکی پہلی جیسی خُوراک بھی نہیں رہی تھی۔ جہاں پہلے وہ اَمَّاں کے ہاتھ سے بنی تین چار رُوٹیاں کھاجایا کرتے تھے اب اکثر نصف یا کامل کے بُہت زیادہ اِصرار پر ایک رُوٹی کھالیا کرتے تھے۔ جِسکے سبب اُنکی صحت بھی رُوز بروز گرنے لگی تھی۔

پھر ایک دِن مولوی صاحب نے کامِل سے ایک بُہت عجیب بات کہی۔ وہ کہنے لگے کہ بیٹا میں چاہتا ہُوں کہ اپنا یہ مکان بھی تُمہارے نام کروا دوں۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میرے گُزرجانے کے بعد تُمہیں یہاں سے کوئی نِکالے۔۔۔ کامِل علی نے آبدیدہ ہُوکر مولوی صاحب کا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگا۔ آپ تُو مجھ سے ایسی باتیں نہ کریں۔ ایسی باتوں سے میرا دِل بیٹھا جاتا ہے۔ اَمَّاں کے بعد آپکی ذات ہے جِسے دیکھ کر اِس سنگدِل دُنیا میں جینے کی خُواہش پیدا ہُوتی ہے۔ ورنہ جینے کو تُو میرا بھی جی نہیں چاہتا۔ مولوی صاحب نے کامل کے مُنہ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہُوئے کہا۔ نہیں بیٹا ایسی بات نہیں کہتے۔ اِس دُنیا میں نہ ہم اپنی خُواہش سے ایک دِن زیادہ جی سکتے ہیں۔ اور نہ ہی موت آنے سے ایک دِن قبل مرسکتے ہیں۔ زندگی سے شِکوہ خُدا سے شِکوہ کرنا ہے۔ اور خُدا سے شِکوہ نہیں کیا جاتا۔ یہ زندگی ایک نعمت ہے۔ اور نعمت سے انکار بھلا کوئی عقلمند کیسے کرسکتا ہے۔ اگر تُم میری بات مان لو گے تُو مجھے خُوشی ہُوگی۔ ورنہ مجھے تُم سے کوئی شِکوہ نہیں۔ البتہ میری ایک خُواہش ہے کہ تُم دُنیاوی تعلیم کیساتھ ساتھ میری لائبریری سے اور کتابوں سے رشتہ پھر سے قائم کرلُو۔ کُچھ مزید نصیحتوں کے بعد مولوی صاحب ایک کتاب کے مُطالعے میں مستغرق ہُوگئے جبکہ کامل علی دِن بھر کی تھکاوٹ کے باعث اپنے بسترپر کروٹ بدل کر سوگیا۔

اِس واقعہ کے ٹھیک سترہ دِن بعد مولوی صاحب کی طبیعت شام کو اچانک بگڑنے لگی۔ کامِل نے مولوی صاحب کی حالت میں تغیر دیکھ کر داکٹر صاحب کو بُلانا چاہا تب مولوی صاحب نے اِشارے سے کامل کو اپنے پاس بُلا کر اُسکا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگے بیٹا میری آخری دو خواہش ہیں اُنہیں سُن لو پھر شائد میں تُم سے کُچھ نہ کہہ سکوں۔۔۔۔۔ اِتنا کہنے کے بعد مولوی صاحب کو کھانسی کا دُورہ پڑگیا۔۔۔ کامِل نے جلدی سے مٹکے سے پانی بھر کر گِلاس مولوی صاحب کے مُنہ سے لگایا۔ اور ڈاکٹر صاحب کو بُلانے کیلئے لپکا۔ گھر سے نکلتے ہی کامل کی نِگاہ چاچا ارشد پر پڑی۔ کامل نے چاچا ارشد سے درخواست کی کہ وہ مولوی صاحب کے پاس چلے جائیں۔ اُنکی طبیعت بُہت خراب ہے۔ جبکہ میں ڈاکٹر صاحب کو لے کر آتا ہُوں۔

ڈاکٹر صاحب کِسی مریض کو دیکھنے اُسکے گھر تشریف لے گئے تھے ڈاکٹر صاحب کو گھر لاتے لاتے کامِل کو بیس پچیس منٹ لگ گئے۔ کامِل جونہی ڈاکٹر صاحب کو لیکر گھر پُہنچا تُو دیکھا کہ چاچا ارشد دروازے میں کھڑے اُسی کی راہ دیکھ رہے تھے۔ چاچا ارشد نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی کہا ۔۔۔ جلدی کریں داکٹر صاحب نجانے کیا ہُوا ہے مولوی صاحب کو ۔۔۔کاغذ پر کُچھ لکھتے لکھتے اچانک کلمہ طیبہ پڑھا اور مولوی صاحب خاموش ہُوگئے ہیں۔ لگتا ہے شائد غشی یا بے ہُوشی کا دُورہ پڑا ہے۔

ڈاکٹر نے مولوی صاحب کو چیک کرنے کے بعد اُنکی اَدھ کُھلی آنکھوں کو بند کرتے ہُوئے اِنَّا للہِ وَ اِنَّا الیہِ راجعون بُلند آواز سے پڑھا جسکے بعد چاچا ارشد کیساتھ ساتھ کامل بھی یہ جان گیا کہ مولوی صاحب بھی اب اُسکا ساتھ چھوڑ کر جاچُکے ہیں۔

یہ تیسری مرتبہ تھا جب کامل علی کو یتیمی کا احساس ہُورہا تھا۔ اَبَّا کے انتقال کے وقت تُو کامِل علی کو لفظ یتیم کے معنی بھی نہیں معلوم تھے۔ جبکہ وہ حقیقت میں یتیم ہُوا تھا۔ اور اب جبکہ ایسے انسان کا انتقال ہُوا تھا جو اُسکا حقیقی باپ تھا اور نہ ہی اِس عُمر میں کوئی خُود کو یتیم سمجھتا ہے۔۔۔ لیکن کوئی باربار اُسکے کان میں کہہ رہا تھا۔ کہ آج تُو واقعی یتیم ہُوگیا ہے۔

ایسے وقت میں چاچا ارشد نے کامل علی کی خُوب ہمت اور حُوصلہ بڑھایا۔ ورنہ شائد کامِل علی مولوی صاحب کی تدفین و تکفین کے مراحل بھی انجام نہ دے پاتا ۔ چند گھنٹوں بعد محلہ کے کافی لوگ مولوی صاحب کے گھر پر جمع ہُوگئے ۔ تب چاچا ارشد کامل کو ایک طرف لیجا کر جیب میں کُچھ ٹٹولنے لگے۔ کُچھ لمحوں بعد چاچا ارشد نے ایک مُڑا تُڑا سا کاغذ کامل کی طرف بڑھاتے ہُوئے کہا۔ کامل پہلے اِسے پڑھ لو۔ یہ مولوی صاحب کی زندگی کی آخری تحریر ہے۔ جُو اُنہوں نے تُمہارے لئے اُس وقت لکھی تھی جب تُم ڈاکٹر صاحب کو بُلانے گئے تھے۔ بیٹا مجھے لگتا ہے کہ اسمیں شائد مولوی صاحب کی وصیت لکھی ہے۔ لہذا تدفین سے پہلے اِسے دیکھ لینا ضروری ہے۔ ہُوسکتا ہے کہ اسمیں اُنہوں نے اپنی تجہیز و تکفین سے متعلق ہدایات لکھیں ہُوں۔۔۔؟

(جاری ہے)

پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060488 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More