عامِل کامِل ابو شامِل قسط 7

گُذشتہ سے پیوستہ

ایسے وقت میں چاچا ارشد نے کامل علی کی خُوب ہمت اور حُوصلہ بڑھایا۔ ورنہ شائد کامِل علی مولوی صاحب کی تدفین و تکفین کے مراحل بھی انجام نہ دے پاتا ۔ چند گھنٹوں بعد محلہ کے کافی لوگ مولوی صاحب کے گھر پر جمع ہُوگئے ۔ تب چاچا ارشد کامل کو ایک طرف لیجا کر جیب میں کُچھ ٹٹولنے لگے۔ کُچھ لمحوں بعد چاچا ارشد نے ایک مُڑا تُڑا سا کاغذ کامل کی طرف بڑھاتے ہُوئے کہا۔ کامل پہلے اِسے پڑھ لو۔ یہ مولوی صاحب کی زندگی کی آخری تحریر ہے۔ جُو اُنہوں نے تُمہارے لئے اُس وقت لکھی تھی جب تُم ڈاکٹر صاحب کو بُلانے گئے تھے۔ بیٹا مجھے لگتا ہے کہ اسمیں شائد مولوی صاحب کی وصیت لکھی ہے۔ لہذا تدفین سے پہلے اِسے دیکھ لینا ضروری ہے۔ ہُوسکتا ہے کہ اسمیں اُنہوں نے اپنی تہجیز و تکفین سے متعلق ہدایات لکھیں ہُوں۔

اب مزید پڑھیئے۔

کامِل علی نے کاغذ پر نظر ڈالتے ہی مولوی صاحب کی تحریر کو پہچان لیا یہ پانچ سطر کی تحریر تھی۔ جو بظاہر ایسا لگتا تھا کہ بُہت عجلت میں لکھی گئی ہُو۔ تحریر کُچھ اسطرح تھی۔

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
کامِل میرے بچے اگر مجھ سے تُمہارے معاملہ میں کِسی قِسم کوئی کوتاہی سرزد ہُوگئی ہُو تُو مجھے مُعاف کردینا۔

اگرچہ تدفین میں تاخیر بہتر نہیں ہے۔ لیکن کُوشش کرنا کہ جلباب کے آجانے بعد ہی جنازہ اُٹھایا جائے۔

میرے بعد جلباب کا بُہت خیال رکھنا۔ اسکی جزا تُمہیں وہ کریم رَبَّ ہی عطا فرمائے گا۔

میری کتابوں پر میرے بعد صرف تُمہارا حق ہے اِنکی حفاظت کرنا۔ اور اُنہیں ہمیشہ اپنے مُطالعہ میں رکھنا۔ اُور ایک اچھا اِنسان بننے کی کوشش کبھی ترک مت کرنا۔

پرچہ پڑھنے کے بعد کامِل نے تحریر چاچا ارشد کی جانب بڑھادی۔ چاچا ارشد نے تحریر دیکھنے کے بعد کامِل کی طرف دیکھتے ہُوئے کہا۔ جلباب بیٹی کے انتظار کیوجہ سے جنازہ کم از کم ۲ دِن تک رُوکنا پڑے گا۔ اگرچہ گرمی بھی بُہت شدید ہے۔ لیکن نجانے مولوی صاحب نے جلباب کے آنے کی شرط کیوں لگائی ہے۔ اور اسمیں کیا راز ہے۔ یہ بات یا تُو مولوی صاحب کو معلوم تھی۔ یا اسکی خبر اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔لیکن ہمیں مولوی صاحب کی وصیت کا بہرحال احترام تُو کرنا ہی پڑے گا۔ ویسے بھی مولوی صاحب اللہ کے نیک بندے تھے۔ اور دیکھا یہی گیا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی لاش سڑا نہیں کرتی۔ ویسے بھی پرسوں جُمعہ کا مُبارک دِن ہے۔ میں غُسل اور کفن کا انتظام کرلیتا ہوں۔ جب تک تُم سفینہ اور زُلیخا کو فون کردو کہ جلد یہاں پُہنچ جائیں۔ اور ہاں اُن سے یہ مت کہنا کہ مولوی صاحب کا انتقال ہُوگیا ہے۔ بلکہ صرف اتنا بتادینا کہ مولوی صاحب کی شام کو حالت بُہت خراب ہُوگئی تھی۔ اسلئے آپ لوگ فوری طُور پر وہاں سے یہاں کیلئے روانہ ہُوجائیں۔ ایسا نہ ہُو کہ مولوی صاحب کے انتقال کی ایکدم خبر سے کوئی اور نیا حادثہ پیش آجائے۔

چاچا ارشد نے سچ ہی کہا تھا کہ اللہ کے نیک بندوں کی لاش سڑا نہیں کرتی۔ دونوں دِن شدید گرمی کے باوجود مولوی صاحب کی لاش لحد میں اُتارے جانے تک ایسی ہی تَرو تازہ محسوس ہُورہی تھی جیسے گُویا مولوی صاحب کا انتقال نہیں ہُوا بلکہ وُہ سُو رہے ہُوں۔ بلکہ اُنکے چہرہ مزید نِکھر کر ملکوتی حُسن کے جلوے بکھیر رَہا تھا۔ ہر ایک شخص کی زُبان سے آخری دیدار کے وقت،، سُبحان اللہ۔ سُبحان اللہ ،، کی صدا بُلند ہُورہی تھی۔

سُوئم سے فارغ ہُونے کے بعد جب تمام مہمان گھر سے رُخصت ہُوگئے اور سفینہ پھپو اور زُلیخا پھپو کی فیملیوں کے سِوا گھر میں کوئی بھی باقی نہیں بچا۔ تب کامِل علی کافی دیر تک جلباب کے پاس بیٹھا مولوی صاحب کی شفقت اور مہربانیوں کا تذکِرہ کرتا رَہا۔ جِلباب کا شُوہر راشد بھی قریب بیٹھا تمام گُفتگو بڑے انہماک سے سُن رہا تھا۔ جب کامِل علی اُٹھ کر باہر جانے لگا۔ تب راشد نے گَلا کھنکار کر کامِل سے پُوچھا۔ کَامِل بھائی آپ کب تک اِس گھر میں رہنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔۔۔؟ راشِد کے اچانک سوال پر بُوکھلا کر جِلباب نے راشد کی جانب دیکھا۔ وہ شائد کُچھ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن راشِد سے نظر ملتے ہی جلباب نے اپنی نظریں جھکالیں۔ راشد کے چہرے پر بدلتے تیور اور جلباب کی بے بسی کو محسوس کرتے ہی کامِل ایک فیصلہ کرچُکا تھا۔ وہ جلباب کی خاطر یہ گھر ہی کیا اِس وطن کو بھی چھوڑ کر جاسکتا تھا۔ پھر یہ گھر بھی تُو جلباب کے والد کی نِشانی تھا۔ اگرچہ مولوی صاحب یہ مکان کامل کے نام کرنے کی خُواہش کا اِظہار کرچُکے تھے۔ لیکن کامل خُود بھی نہیں چاہتا تھا۔ کہ کوئی بھی ایسی بات ہُو جسکی وجہ سے جِلباب کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ لِہذا کامل نے بڑی خندہ پیشانی سے راشد کو جواب دیا۔ بھائی میں خُود اَمَّاں والے مکان میں شِفٹ ہونے کا اِرادہ رکھتا ہُوں۔لیکن میری خُواہش ہے کہ چالیسویں تک اگر مجھے یہیں پڑا رہنے دیں تو بُہت مہربانی ہُوگئ۔

چالیسویں کی فاتحہ سے قبل ہی کامل مولوی صاحب کا کُتب خانہ اَمَّاں والے گھر میں منتقل کرچُکا تھا۔ صفائی ستھرائی میں چاچا ارشد کی دونوں بیٹیوں نے بُہت مدد کی جسکی وجہ سے اَمَّاں کا مکان پھر سے چمک اُٹھا۔ مولوی صاحب کا مکان راشد نے قبضہ لینے کے بعد ایک ہِندو فیملی کو فروخت کردیا۔ اگرچہ صبح و شام کا کھانہ چاچا ارشد کے گھر سے ہی آجاتا تھا۔ ابتدا میں کامِل نے کافی بحث بھی کی کہ میں ہُوٹل سے خرید کر کھانا کھالُونگا مگر چاچا ارشد نہیں مانے۔ کامل نے معاشی ضروریات کیلئے شہر کے ایک مشہور کباڑی عبدالرشید جنکا کنسٹریکشن سپلائی کا کاروبار تھا۔کے پاس اکاونٹنٹ کی جاب کرلی تھی۔

نرگِس نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ اور آجکل وہ امتحانات کی تیاری میں مشغول تھی۔ چاچا ارشد کے کہنے پر کامل علی شام کو ڈیوٹی خَتم کرنے کے بعدنرگِس کو ٹیوشن دے رَہا تھا۔ حالانکہ کامِل کو ہمیشہ ہی سے نرگِس کے قریب رِہنا اچھا لگتا تھا۔ مگر اب نجانے کیوں کامل علی جب بھی نرگس کے سراپے پر نِگاہ ڈالتا تو اُسے عجیب سی وحشت ہُونے لگتی تھی۔ اُور وُہ سُرعت سے نِگاہیں جُھکا لیا کرتا۔ ویسے بھی بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے رکھتے نرگس حُسن کا شاہکار بن چُکی تھی۔ اُسکا سراپا ، اُسکا قد کاٹھ ، سُریلی آواز۔اور اسکے رُوپ میں قدرت نے وہ تمام خُوبیاں جمع کردی تھیں۔ جو نِسوانیت کو بے نظیر و بے مِثال بنا سکتا ہے۔اگرچہ کامل کا دِل اُسے اُکساتا کہ اُسے بار بار دیکھا جائے۔ لیکن کامِل کی تربیت اَمَّاں اور مولوی صاحب نے اِس انداز سے کی تھی۔ کہ وہ ہمیشہ دِل کو یہ سمجھا کر خاموش کردِیا کرتا کہ ایک نہ ایک دِن نرگس کو چاچا ارشد میرے گھر بیاہ کر بھیج ہی دیں گے۔ کیونکہ اَمَّاں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں بلکہ واضح انداز میں ایک مرتبہ چاچی سے کہا تھا کہ نرگس کی وہ بالکل بھی پرواہ نہ کریں۔ یہ ہماری امانت ہے آپ کے پاس جیسے ہی کامل اور نرگس جوان ہُونگے۔ میں نرگس کو بیاہ کر اپنے گھر لے آؤں گی۔ جسکے جواب میں چاچی نے چچا ارشد کی رضامندی معلوم کرنے کے بعد اس رشتے کیلئے حامی بھر لی تھی۔ اور کامل کو چاچا ارشد پر مکمل اعتبار تھا کہ وہ اپنے وعدے کو ضرور نبھائیں گے۔

یہ التفات کی چنگاری صرف کامل کے جگر کو ہی نہیں گُدگداتی تھی۔ بلکہ کامل کئی مرتبہ محسوس کرچُکا تھا۔ کہ نرگس کی آنکھیں بھی چُوری چُوری اسکے چہرے کا گاہے بگاہے طواف کرتی رہتی ہیں۔ مگر کامل کی رگوں میں شریف والدین کا خُون دوڑ رہا تھا۔ جسکی وجہ سے وہ چاچا ارشد کے گھر میں بُہت احتیاط برتنے لگا تھا۔ کہ مُبادا کہیں اُسکی کِسی حرکت سے نرگس کا گھرانہ اُسکی ذات سے متنفر نہ ہُوجائے۔

لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ،، ہُونی کو کوُن ٹال سکتا ہے ِ،، کہ مصداق کامل کیساتھ بھی وہی حادثہ پیش آیا کہ جس سے بچنے کی کوشش میں کامل نے حتی الامکان کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اُس دِن دوپہر کے کھانے میں اُستاد رشید کے گھر سے نمکین اور میٹھے چاول پک کر آئے تھے۔ اور چاول ہمیشہ ہی سے کامل کی کمزوری رہے تھے۔ اسلئے شائد اُس دِن کامل نے کُچھ زیادہ ہی کھانا کھالیا تھا۔ جسکے سبب پیٹ میں درد اور اینٹھن کی شکایت پیدا ہُوگئی تھی۔ ڈیوٹی کا وقت ختم ہُونے کے بعد کامل نے یہی بہتر جانا کہ آج نرگس کے گھر جانے کے بجائے حکیم صاحب سے رجوع کرلیا جائے۔ چُنانچہ اُس نے چاچا ارشد کا دروازہ کھٹکھٹا کر چاچی کو اطلاع دینے کے بعد حکیم صاحب کے مطب کا رُخ کرلیا۔ حکیم صاحب نے ایک پھکی کھلانے کے بعد کامل کو تاکید کی کہ وہ کم از کم ۲ کلو میٹر واک کرنے سے قبل بستر پر نہ جائے۔

کامل کی واک کرتے ہُوئے اُستاد رشید سے مُلاقات ہُوگئی۔ کامل کے استفسار پر اُستاد رشید نے بتایا کہ اُسے بھی بدہضمی ہُوگئی ہے۔ جسکی وجہ سے وہ بھی واک کرنے نِکلا ہے۔ اُستاد رشید کیساتھ واک کرتے ہُوئے ۲گھنٹے بیت گئے ۔ کامل کو اگرچہ اُستاد رشید کے پاس مُلازمت کرتے ہُوئے چند ہی دِن کا عرصہ ہُوا تھا۔ لیکن اُستاد رشید ان چند ہی دِنوں میں کامل کی نیک طبیعت اور حُسنِ اخلاق کی وجہ سے کامل کیساتھ مُلازم و مالک کے بجائے ایک مشفق بُزرگ اور دوست کا رویہ برتنے لگے تھے۔

اُس رات کامل ایک عجیب سی بے چینی اور طبیعت میں اضطراب محسوس کررہا تھا۔ اُسے لگا شائد یہ تمام شاخسانہ دوپہر کے کھانے کی وجہ سے پیش آرہا ہے۔ وہ اس اُلجھن سے نِکلنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز سُنائی دی اور تمام گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔کُچھ لمحے بعد اہلِ مُحلہ کے شور شرابے اور بُلند آوازں سے کامل کو اندازہ ہُوگیا کہ بجلی کا ٹرانسفارمر گرمی کی شدت اور اِضافی کُنڈوں کی بدولت اپنی جان ہلاکت میں ڈال چُکا ہے اور اب کل تک تمام مُحلہ میں اندھیرے کا راج قائم ہُوچُکا ہے ۔لِہذا کامل بستر اُٹھا کر چھت پر پُہنچ گیا اور کھلی چھت پر بستر بچھا کر آسمان میں چمکتے قمقموں سے لُطف اندوز ہُوتے ہُوئے نیند کی وادی میں پہنچ گیا۔

نجانے وہ رات کو کونسا پہر تھا جب اسکے تلووں میں کسی کی گُدگُداہٹ کے سبب کامل کی آنکھ کُھل گئی۔ اُس نے نیم وا آنکھوں سے نرگس کا سراپا دیکھا۔ جو مسکراتے ہُوئے اسکے پیروں کو اپنے مرمریں ہاتھوں سے سِہلا رہی تھی ۔ ایک لمحے کیلئے اُسے ایسا محسوس ہُوا جیسے وہ نیند میں سپنا دیکھ رہا ہُو۔۔۔ بُدھو۔ اُٹھ بھی جاؤ۔ میں یہاں تُمہارے پاؤں سہلانے نہیں بلکہ تُم سے کچھ بات کرنے کیلئے آئی ہُوں۔۔۔ نرگس کی دھیمی اورمترنم آواز نے اُسکے ہوش اُڑا ڈالے۔ کیونکہ نرگس کا اسطرح اُسکی چھت پر آدھی رات کو پایا جانا کسی بھی طرح خطرے سے خالی نہیں تھا۔

کامل علی نے گھبرا کر اپنے پاؤں سمیٹتے ہُوئے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہُوئے نرگس کو خوفزدہ لہجے میں مخاطب کیا۔۔۔ تُمہیں یہاں اس وقت نہیں آنا چاہیئے تھا۔۔۔۔

اگر تُم آج ناغہ نہیں کرتے اور شرافت سے ہمارے گھر چلے آتے۔ تُو مجھے یہاں نہیں آنا پڑتا۔۔۔۔۔ نرگس نے ترکی با ترکی جواب دِیا

میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی ورنہ میں تُمہارے گھر ضرور آتا۔ اب خُدا کے واسطے یہاں سے فوراً چلی جاؤ۔ اگر کِسی نے دیکھ لیا تُو قیامت بپا ہُوجائےگی۔۔!کامل نے دھیمے لہجے میں نرگس کی منت کرتے ہُوئے کہا۔

جِسے دیکھنا ہے دیکھ لے۔۔۔ میں کِسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔ نرگس نے اِٹھلاتے ہُوئے کہا

خُدا کے واسطے ضد نہ کرو نرگس میں تُمہارے آگے ہاتھ جُوڑتا ہُوں۔ کامل نے باقاعدہ نرگس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہُوئے کہا۔

کامِل تُم اتنے ڈرپوک کیوں ہُو۔۔۔؟ تُم مجھ سے مُحبت کرتے ہُو لیکن آج تک تُم نے اپنی مُحبت کے اِظہار کے لئے ایک جملے تک کا سہارا نہیں لیا۔ حالانکہ کہ ایک مدت سے میری سماعت تُمہارے اقرار و اضطراب کی منتظر ہے کہ تُم مجھ سے اپنی چاہت کااظہار کرو۔ نرگس نے خفگی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔

کامِل نے جب یہ دیکھا کہ نرگس اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہُونے کو تیار نہیں ہے تو اُس نے نرگس کی کلائی اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہُوئے کہا۔ضروری نہیں ہے کہ جس سے مُحبت کی جائے۔ اُسکا سارے زمانے میں چرچا بھی کیا جائے۔ میں کل بھی تُم سے مُحبت کرتا تھا۔ آج بھی کرتا ہُوں اور ہمیشہ کرتا رہونگا۔لیکن اس وقت تُمہیں اپنے گھر جانا چاہیئے۔ یہ کہتے ہُوئے کامل نرگس کی کلائی تھامے اُسے اُسکی چھت تک لے آیا۔

لیکن نرگس اب بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ ایسا محسوس ہُورہا تھا۔ جیسے وہ آج تہیہ کر کے نِکلی ہُو کہ کامل کی زُبان سے اپنے لئے ڈھیروں محبت بھری باتیں سُنے بغیر اور بے شُمار عہد وپیمان کئے بِنا واپس نہیں پلٹے گی۔۔۔ مجبوراً نرگس کا ہاتھ تھامے کامل اسے اُسکے گھر کی چھت پر دھکیلنے لگا۔ ابھی یہ کشمکش جاری تھی۔ کہ چاچا ارشد کی کانپتی ہُوئی آواز نے کامل کے رہے سہے اوسان بھی خطا کرڈالے۔

(جاری ہے)

پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095751 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More