”کونڈوں“ کے نام سے مروّجہ بدعت مکفّرہ

امیرالمومنین سیدنا معاویہؓ کے یوم وفات22رجب المرجب پر ”کونڈوں“ کے نام سے مروّجہ بدعت مکفّرہ

۲۲ رجب المرجب امیر المومنین سیدنا معاویہ ؓ کی وفات کا دن ہے۔ ۲۲ رجب کو دنیا کے نصف سے زائد رقبہ پر محیط خلافت کا والی اس دنیا سے رخصت ہوا۔ بے لوث و بے نذر خلیفہ جنہیں زبان رسالت سے ہادی اور مہدی کے القابات عطا کیے گئے۔ وہ عظیم شخصیت جنہیں اللہ کی مقدس کتاب قرآن پاک کو لکھنے کا شرف حاصل ہو ا۔ آج یہ عظیم شخصیت اتنی مظلوم ہو چکی ہے کہ ان کی وفات کے دن بیگانے تو بیگانے، اپنے بھی سادہ لوحی، ضد، بے وقوفی اور ہٹ دھرمی سے نا دانستگی میں خوشیاں مناتے ہیں اور ایک رسم بد ”کونڈوں“ کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

کونڈوں کا پس منظر
یہ خلاف شرع اور بے اصل بدعت دراصل مخالفین اسلام اور معاندین صحابہ کرام کی ایجاد ہے۔ جو شمالی ہند کے علاقہ اودھ سے شروع ہوئی اور لکھنو اور رام پور کے نوابوں نے رفض یعنی شیعیت کو پروان چڑھانے کیلئے اس قسم کی بدعات کو عام کرنے میں اساسی کردار ادا کیا۔ یہ رسم 1906ءسے چلی اور لکھنو شہر آج بھی اس قسم کی رسم کی وجہ سے مشہور ہے۔

1906ءکے قبل کہیں بھی یہ رسم منعقد نہیں ہوتی تھی ۔ بلکہ لکھنو میں اہل تشیع کی جانب سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور شروع شروع میں چھپ چھپ کر یہ کام کیا جاتا تھا۔ اہل تشیع گھروں میں پوریاں بناتے، لوگوں کو بلوا کر وہیں کھلا دیتے اور ان کا منہ صاف کر کے پھر باہر بھیج دیتے جب استفسار کیا جاتا کہ یہ کیا ہے تو یہ بے پر کی اڑا دی گئی کہ یہ حضرت جعفر صادقؒ کے کونڈے ہیں ۔

حالانکہ یہ حضرت جعفر صادقؒ کے کونڈے ہوتے تو کم از کم یہ دیکھ لیا جاتا کہ ۲۲رجب المرجب کو حضرت جعفر صادق کی پیدائش ہے ؟ یا ۲۲ رجب کو حضرت جعفر صادق کی وفات ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ حضرت جعفر صادق کی پیدائش ایک روایت کے مطابق ماہ ربیع الاول میں ہوئی ۔ اور دوسری روایت کے مطابق رمضان المبارک میں ہوئی (جلاءالعیون، منتہی الآمال)تو رجب سے ان کی پیدئش کا دور کا بھی واسطہ نہیں اور ان کی وفات بغیر اختلاف کے ماہ شوال میں ہوئی۔ تو حضرت جعفر صادق کی طرف تین مہینے تو منسوب ہو سکتے ہیں رمضان اور ربیع الاول اور شوال کے۔ مگر رجب کا مہینہ تو ان سے منسوب ہو ہی نہیں سکتا۔

لفظ کونڈا کی تحقیق
لفظ ’کونڈا‘ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کیونکہ عربی میں ”ڈ“کا استعمال نہیں ہوتا۔ یعنی معلوم ہوا کہ یہ لفظ اردو یا پنجابی زبان کا ہے۔ جیسا کہ معاشرے میں عام طور پر مخالف کو کہا جاتا ہے”تیرا کونڈا ہو جائے“۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تیرا خانہ خراب ہو جائے یعنی تیرا نقصان ہو جائے، تو برباد ہو جائے، تباہ ہوجائے۔ تو یہ کوئی اچھا لفظ نہں ہے۔ یہ دوستی کے معنی میں نہیں بولا جاتا بلکہ یہ دشمنی کے لیے بولا جاتا ہے۔ روافض یعنی اہل تشیع حضرت حضرت جعفر صادقؒ کی آڑ لے کر در حقیقت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ و سلام اللہ علیہ کے وفات پر یہ رسم ادا کرتے ہیں ۔ اور اپنے حلقہ کے اندر اس بات کو برملا کہتے ہیں ۔ لیکن دوسروں کے سامنے حضرت جعفر صادقؒ کانام لیتے ہیں ۔پھر حقیقت سے ناواقفیت کی بنا ءپر سادہ لوح مسلمان بھی روافض کی دیکھا دیکھی اس رسم میں حصہ لیتے ہیں۔ سو چنا چاہیے کہ آخر یہ رسم چوری چوری کیوں ہوتی ہے؟ اور رات کے آخری حصے میں کیوں ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو سب کے سامنے ہوتی۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا شرف ایمان و صحابیت اور قربت پیغمبرﷺ یہ تقاضا کرتی ہے کہ مسلمانوں کو نبیﷺ کے ایک بہت ہی پیارے اور محبوب صحابی جو کہ کاتب قرآن بھی ہیں، کی وفات کی خوشی منانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی دشمنان اسلام و صحابہ کی جانب سے اس رسم میں شرکت کی دعوت قبول کرنی چاہیے۔

خبردار! اہل اسلام ہوشیار از دشمنان اسلام

اس سال 22 رجب 13جون کو آرہی ہے۔ اپنے ارد گرد سے با خبر رہیں اور جہاں تک ہو سکے اس کفریہ بدعت کی حوصلہ شکنی کریں۔ نیز اپنے مسلمان بھائیوں کو دشمنان اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے اور ان کی خوشی کا ذریعہ بننے سے بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ خیال رہے کہ اسلامی حساب کے مطابق 22 رجب کی تاریخ 12 جو ن کے دن کی مغرب سے شروع ہو جائے گی اور کئی علاقوں اور گھرانوں میں دشمنان صحابہ یہ غلیظ کام 22 رجب کے شروع ہوتے ہی یعنی مغرب سے اگلے دن مغرب تک، سر انجام دیتے ہیں۔ خود بچیں، دوسروں کو بچائیں۔
Kamran Saleem
About the Author: Kamran Saleem Read More Articles by Kamran Saleem: 4 Articles with 11387 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.