تحریر: حضرت مولانا محمد
مسعود ازہر حفظہ اللہ
اﷲ تعالیٰ زیادہ توبہ کرنے والوں سے’’محبت‘‘ فرماتاہے
اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ﴿البقرہ ۲۲۲﴾
ترجمہ: بے شک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتاہے:
سبحان اﷲ!گناہ گاروں کے لئے کتنی عظیم بشارت ہے کہ. توبہ کریں اور اﷲ تعالیٰ
کے ’’محبوب‘‘ بن جائیں. شیطان کہتا ہے کہ. کب تک تمہاری توبہ قبول ہو گی؟.
روز توبہ توڑتے ہو. اب توبہ کرنا چھوڑ دو، توبہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے.
گناہ تم سے نہیں چھوٹ سکتے. تم تو ہو ہی بد نصیب. اس لئے یہ روز روز کا
توبہ کرنا اور پھر اُسے توڑ کر پھر توبہ کرنا بس کرو. میرے سامنے ہتھیار
ڈالو اور خود کو بدنصیب سمجھ کر گناہوں میں ڈوب جاؤ. یہ ہے شیطان کا سبق.
مگرہمارا عظیم رب سمجھاتا ہے کہ. توبہ کرتے رہو، توبہ کرتے رہو. تائب بنو،
توّاب بنو. جتنا بڑا گناہ ہو جائے فوراً بھاگ کر میرے پاس آکر توبہ کرو.
تمہارا کوئی گناہ میری رحمت سے بڑا نہیں ہے. توبہ توڑنے کا گناہ ہو گیا تو
ا س گناہ پر بھی توبہ کرو. ایک دن میں ستّر بار توبہ ٹوٹے تو. ہر بار سچی
توبہ کرتے رہو. تم جتنی زیادہ توبہ کرو گے اُتنے میرے محبوب بنو گے.
اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ﴿البقرہ ۲۲۲﴾
بے شک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے
جب گناہ بار بار ہو . توبہ بار بار ٹوٹے تب بھی. بندہ اﷲ تعالیٰ سے نہ
بھاگے بلکہ روتے روتے اُس کے سامنے گرپڑے. وضو کر کے کسی مسجد کے کونے میں
جا بیٹھے. اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے. اﷲ تعالیٰ سے بھاگ
جانا’’محرومی‘‘ ہے. اور اﷲ تعالیٰ کی طرف بھاگ پڑنا سعاد ت ہے.
فَفِرُّوْآ اِلَی اﷲِ ﴿الذاریات ۰۵﴾
ترجمہ: پس اﷲ تعالیٰ کی طرف دوڑو
یعنی گناہ ہوتے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف بھاگو کہ. اے عظیم مالک پھر ظلم ہو
گیا. میں نے اپنی جان پر ظلم کر ڈالا. آپ مجھے بخش دیجئے. شیطان روکے گا
مگر اُس ملعون کی باتوں میں نہ آئیں. اور اﷲتعالیٰ کی طرف دوڑ پڑیں. اور اﷲ
تعالیٰ کے سامنے گر پڑیں.
سنبھل کر یوں تو ہم گزرے کسی کی راہ میں لیکن
کچھ ایسے بھی مقام آئے کہ گر پڑنا ہی کام آیا
قرآن پاک میں ’’توبہ‘‘ کا لفظ عام طور سے دو معنی پر آیا ہے
﴿۱﴾ کسی بندے کا گناہوں کو چھوڑ دینا
وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ
اھْتَدٰے ﴿طہ ۲۸﴾
ترجمہ:بے شک میں بڑا بخشنے والاہوں اُس کو جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور
اچھے کام کرے پھر ہدایت پر قائم رہے۔
﴿۲﴾ اﷲ تعالیٰ کا بندے کی توبہ کو قبول فرمانا
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْ ا وَاَصْلَحُوْ وَبَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِکَ
اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ ﴿البقرہ ۰۶۱﴾
ترجمہ: مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور﴿اﷲ تعالیٰ کے
احکامات کو﴾ ظاہر کر دیا پس یہی لوگ ہیں کہ میں اُن کی توبہ قبول کرتا ہوں.
جب بندہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے. یعنی گناہ چھوڑتا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی اُس
پر توبہ فرماتا ہے. یعنی اُس کی واپسی کو قبول فرما لیتا ہے.
پھر دیر کس بات کی؟. ہم سب کو فوراً توبہ کے لئے اٹھ کھڑا ہو نا چاہئے. اور
معافی کے پورے یقین کے ساتھ توبہ کرنی چاہئے. ہم کیوں اپنے اوپر ’’رحمت‘‘
کے دروازے بند کریں. اور یہ سوچیں کہ میرا معاف ہونا مشکل ہے. استغفراﷲ،
استغفراﷲ. ایسا سوچنا بہت بری بات ہے کیونکہ.اﷲ تعالیٰ کے لئے کوئی کام
مشکل نہیں ہے.
میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے کہتا ہوں کہ. اپنی ذات پر رحم
کھائیں. جی ہاں ہم سب اپنے اوپر رحم کھائیں اور خود کو عذاب سے بچانے کے
لئے . تمام گناہوں سے توبہ کرلیں. اور پھر سب سے پہلا کام یہ کریں کہ. اپنی
نماز کو بالکل ٹھیک کر لیں. باجماعت، مکمل اہتمام، پوری محبت، مکمل توجہ.
اور لذّت و شوق کے ساتھ نمازیں ادا کریں. ارے بھائیو! نماز تو جنت کی حُور
سے زیادہ لذیذ اور میٹھی ہے. یہ کیا ہو جاتا ہے کہ مسلمان ہو کر نماز میں
غفلت کرنے لگتے ہو. اﷲ کے لئے ایسانہ کرو. اﷲ تعالیٰ نے خود ہمیں پانچ وقت
اپنے عالی شان دربار میں حاضر ی کے لئے بُلایا ہے.جی ہاں بہت تاکید سے
بُلایا ہے.
مسلمان اور نماز میں سستی. یہ دو باتیں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں. مسلمان
نماز میں تب ہی سست ہوتا ہے.
جب شیطان اُسے کفر کے جراثیم کا انجکشن لگا دیتا ہے. یا اُسے نفاق کا زہر
پلا دیتا ہے. مجھے جب کوئی مسلمان مرد یا عورت یہ لکھتے ہیں کہ. ہم سے نماز
میں سستی ہوتی ہے تو میرے دل پر ایک مکّا سا لگتا ہے .مسلمان اور نماز میں
سستی. ہائے یہ کیسے ہو گیا؟. نماز میں سستی تو منافق کر سکتا ہے. مسلمان ہر
گز نہیں. کیونکہ نماز دین میں اسی طرح ہے جس طرح جسم میں سر. کیا بغیر سر
کے کوئی زندہ رہ سکتا ہے؟.معلوم نہیں کیا مصیبت آئی کہ. مسلمان عورتیں
تک’’نماز‘‘ میں سستی کرتی ہیں. حالانکہ یہ بات مشہور ہے کہ. مسلمان عورتوں
کوتو نماز سے عشق ہوتا تھا. توبہ کرو میری بہنو! توبہ کرو. مسلمان عورت
نماز میں سکون اور قرار پا تی ہے اور وہ نماز میں ہر گز سستی نہیں کر سکتی.
بلکہ وہ تو اپنا ہر مسئلہ نماز کے ذریعہ حل کراتی ہے. یہ بازاروں میں جانے
کی نحوست ہے. کیا آج کل کے بازار اس قابل ہیں کہ کوئی مسلمان بہن ان میں جا
سکے؟. میری بہنو! اﷲ کے لئے، اﷲ کے لئے بازار جانا چھوڑ دو. بہت ہی سخت
مجبوری میں جانا پڑے تو صرف اور صرف خاوند کے ساتھ جاؤ. نہ والد کے ساتھ
نہ بھائی اور بیٹے کے ساتھ. صرف خاوند کے ساتھ. اور مسلمان خاوندوں سے
گزارش ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو بازار لیکر ہی نہ جائیں. بلکہ سارا سامان
خود لاکر دیا کریں. یاد رکھیں اگر جوان عورتیں بازاروں میں جاتی رہیں تو
بہت کچھ تباہ ہو جائے گا. ہماری مسلمان بہنیں بہت اونچے مقام والی ہیں. ان
کا یہ کام نہیں ہے کہ. بازار جا کر مَردوں سے خرید و فروخت کریں. یا موبائل
فون پر اپنا وقت برباد کریں. آج کی مسلمان عورت نماز کی لذت اور طاقت سے
محروم ہوئی ہے تو اس کی بڑی وجہ. بازاروں میں جانا اور موبائل کا ناجائز یا
فضول استعمال کرنا ہے. میری بہنو! قبریں منہ پھاڑکر انتطار کر رہی ہیں. کچھ
عرصہ پہلے ایک بزرگ کے پاس جانا ہوا. وہاںمعلوم ہوا کہ کچھ دن پہلے یہ بزرگ
بہت پریشان اور غمگین ہو گئے تھے. ان کا رنگ زرد پڑ گیا تھا اور ہرو قت
آنسو جاری رہتے تھے. لوگوںنے بہت پوچھا تو بالآخر بتایا کہ. گاؤں کے
قبرستان میں ایک عورت پر عذاب ہو رہا ہے. اُس کے عذاب کی شدّت نے میری یہ
حالت بنا دی ہے. پھر اُن بزرگوں نے اور تمام اہل مسجد نے خوب گڑ گڑا کر
دعائیں مانگیں. تب وہ عذاب کا سلسلہ ٹھنڈا ہوا. کہاں گئیں سجدوں میں رونے
والی عبادت گزار خواتین؟. کہاں گئیں حیائ کی پیکر وہ خواتین جنہوں نے پردے
کو رب تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر. دل سے قبول کیا اورپھر اپنے چہرے ، کانوں
اور آنکھوں کی ہرگناہ سے حفاظت کی. اے مسلمان بہنو! نماز کا معاملہ ٹھیک کر
لو.ہر برائی اور بے حیائی سے طبیعت خود متنفر ہو جائے گی. نما زکے لئے خوب
پاکی، اوقات کی پابندی. اور آداب کی رعایت. اختیار کرو. آپ کا اپنا ہی
فائدہ ہو گا. آپ کی اولاد کا فائدہ ہوگا. کل کے دن تو کوئی کسی کے کام نہیں
آسکے گا.حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی ’’بیویاں‘‘ جہنم
میں دھکیلی جا رہی ہوں گی. اُن کو اپنی ناک، عزت، زبان اور چالاکیوں نے
برباد کر دیا. قرآن پاک پڑھنے والا ہر مسلمان اُن دو عورتوں کے کُفر اور
بُرے انجام کو بیان کرتا ہے. حالانکہ وہ سمجھتی تھیں کہ وہ بہت عقلمند ہیں
اور زمانے کے تقاضوں کا خیال رکھتی ہیں. انہوں نے اپنی قوم اور برادری کو
خوش رکھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کو ناراض کیا. اپنے پیغمبر خاوندوں کی ناقدری
کی. پتہ نہیں قوم اور برادری اُن سے خوش ہوئی یا نہیں. مگریہ بات پکّی ہے
کہ وہ دونوں ہزاروں سال سے عذاب میں جل رہی ہیں. اور قیامت کے دن اُن کو
جہنم میں ڈال دیا جائے گا. توبہ ، توبہ ،توبہ میرے مالک. آپ کی پناہ عذاب
قبر سے. آپ کی پناہ آخرت کے عذاب سے. مجاہدین سے خاص طور پر درخواست ہے کہ.
نمازوں کا معاملہ بہت ٹھیک کریں. باجماعت، لمبی لمبی، خشوع خضوع والی
نمازیں. تب آپ کے جہاد میں عجیب برکت ہو گی. اور اس برکت سے پوری اُمتِ
مسلمہ کو فائدہ ملے گا. نمازوں میں غفلت او ر سستی کرنے والے مجاہدین زیادہ
عرصہ’’مخلص جہاد ی قافلے‘‘ کے ساتھ نہیں چل سکتے. وہ یا تو دنیاداری کی
مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں. یا پھر کسی اور فتنے کا شکار ہو جاتے ہیں.
العیاذ باﷲ، العیاذ باﷲ.
توبہ دراصل’’روحانی پاکی‘‘ کا نام ہے. یہ انسان کے اندر کی میل کچیل اور
گندگیوں کو دور کر دیتی ہے. توبہ کا دروازہ چوبیس گھنٹے کُھلا رہتاہے. جب
تک موت کا ’’غرغرہ‘‘ شروع نہ ہوجائے انسان کی توبہ قبول ہوتی ہے. توبہ کے
بہت سے فائدے ہیں. مثلاً
﴿۱﴾ توبہ کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی محبت نصیب ہو جاتی ہے.
﴿۲﴾ توبہ کرنے سے گناہ مٹ جاتے ہیں، اُن کے اثرات ختم ہو جاتے ہیں. اور بسا
اوقات وہ گناہ بھی نیکیاں بنا دیئے جاتے ہیں.
﴿۳﴾ توبہ سے انسان کو فلاح اور کامیابی ملتی ہے.
وَ تُوْبُوْٓ ااِلَی اﷲِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ
تُفْلِحُوْنَ ﴿النور ۱۳﴾
سچی توبہ کے لئے کچھ شرطیں ہیں. صرف زبان سے توبہ توبہ کہنا کافی نہیں ہے.
ان چند چیزوں کا لحاظ رکھ کر توبہ کریں تو وہ توبہ انشائ اﷲ قبول ہوتی ہے.
﴿۱﴾ اخلاص. یعنی توبہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جائے. بہت سے لوگ صرف اس
لئے توبہ کرتے ہیں کہ. دنیا میں اُن پر کوئی مصیبت نہ آجائے.
﴿۲﴾ ندامت. یعنی اپنے گناہ پر نادم اور شرمندہ ہونا.
﴿۳﴾ اقلاع. یعنی اُس گناہ کو چھوڑ دینا.
﴿۴﴾ عزم. یعنی آئندہ گناہ نہ کرنے کی مضبوط نیت رکھنا.
﴿۵﴾ وقت. یعنی موت کی سکرات شروع ہونے سے پہلے پہلے تو بہ کر لینا.
ہم سب کو چاہئے کہ. ان پانچ باتوں کا لحاظ رکھ کر اپنے تمام گناہوں سے آج
ہی توبہ کر لیں. اگر خدانخواستہ توبہ کی ہمت نہیںہو رہی تو. ہر نماز کے بعد
یہ دعائ شروع کردیں کہ. یا اﷲ مجھے سچی توبہ کی توفیق نصیب فرما. جب رو رو
کر عاجزی کے ساتھ توبہ کی دعائ کریں گے تو. انشائ اﷲ توبہ کا سکون بھرا
دروازہ ہمارے لئے کُھل جائے گا. جب اﷲ تعالیٰ کسی بندے کو توبہ کی توفیق
دیتے ہیں. اور پھر اُس کی توبہ قبول بھی فرما لیتے ہیں تو. کچھ ایسی علامات
ظاہر ہوتی ہیں جن سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ. اس بندے کی توبہ قبول ہو چکی ہے.
اور یہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کا مستحق بن چکا ہے.
اُن علامات میں سے چند یہ ہیں.
﴿۱﴾ اچھی صحبت. توبہ قبول ہونے کی بڑی علامت یہ ہے کہ. انسان کو صدیقین،
مجاہدین. اور صالحین کی صحبت نصیب ہو جاتی ہے. اور بُرے دوستوں سے جان چھوٹ
جاتی ہے. یاد رکھیں اچھی صُحبت ہزاروں نیک اعمال کو آسان بنا دیتی ہے.
﴿۲﴾ نیکیوں کی رغبت. توبہ قبول ہو جائے تو دل نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے
اور گناہوں سے اُسے وحشت ہو تی ہے.
﴿۳﴾ حُبِّ دنیا سے چھٹکارا. توبہ قبول ہونے کے بعد انسان کا رُخ دنیا سے ہٹ
کر آخرت کی طرف ہو جاتا ہے. یعنی اُس کا اصل مقصود اﷲ تعالیٰ کی رضا اور
آخرت کی تیاری بن جاتا ہے. دنیا اُس کے ہاتھ میں تو رہتی ہے مگر اُس کے دل
میں اُتر کر اُس کا مقصود نہیں بن جاتی کہ. بس اُسی کی خاطر جیتا مرتا ہو.
اے مسلمانو! توبہ کا دروازہ سب کے لئے کُھلا ہے. اﷲ تعالیٰ جو ہماراعظیم رب
ہے خود ہم سب کو توبہ کے لئے بُلا رہا ہے. کوئی ڈاکو ہو یا چور. کوئی شرابی
ہو یا زانی. کوئی جھوٹا ہو یا فریبی. کوئی خائن ہو یا قاتل. کوئی جواری
ہویا نشئی
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِھِمْ لَا
تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اﷲِ اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا
اِنَّہ، ھُوَا لْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ﴿الزمر ۳۵﴾
فرما دیجئے! اے میرے بندو! جنہوںنے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اﷲ تعالیٰ کی
رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اﷲ تعالیٰ سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے
والا رحم والا ہے.
سبحان اﷲ! کسی کے لئے توبہ کا دروازہ بند نہیں. نہ کسی مشرک کے لئے اور نہ
کسی کافر کے لئے. وہ بھی توبہ کر کے ایمان قبول کر سکتے ہیں. اور نہ کسی
کبیرہ گناہ کرنے والے مسلمان کے لئے. آؤ! سارے آجاؤ. رب کی رحمت کی طرف،
رب کی مغفرت کی طرف. اور رب کی جنت کی طرف. یا اﷲ ہم سب کو سچی توبہ کی
توفیق عطائ فرما. اورہم سب کی توبہ قبول فرما. اور ہم سب کو’’توّابین‘‘ میں
سے بنا. آمین یا غَفَّاْر یا غَفُوْر یا توَّابْ یاَ عَفُوَّیاَ رؤفُ یاَ
ارَحم الَراحمین. آج کی مجلس کا اختتام کرنے سے پہلے اس آیت مبارکہ
پر’’کلام برکت‘‘ بھی پڑھ لیتے ہیں. یعنی حضرت شاہ عبدالقادر(رح) کی تفسیر.
آپ(رح) فرماتے ہیں.
’’جب اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کیا. جو کفار دشمنی میں لگے رہے تھے سمجھے
کہ لاریب﴿یعنی بلاشبہ﴾ اُس طرف’’اﷲ‘‘ ہے. یہ سمجھ کر اپنی غلطیوں پر
پچھتائے لیکن شرمندگی سے مسلمان نہ ہوئے کہ اب ہماری مسلمانی کیا قبول ہو
گی؟. دشمنی کی، لڑائیاں لڑے اور کتنے خداپرستوں کے خون کئے، تب اﷲ تعالیٰ
نے یہ فرمایا کہ ایسا گناہ کوئی نہیں جس کی توبہ اﷲ تعالیٰ قبول نہ کرے،
ناامید مت ہو، توبہ کرو، اور رجوع کرو، بخشے جاؤ گے، مگر جب سر پر عذاب
آیایا موت نظر آنے لگی، اُس وقت کی توبہ قبول نہیں‘‘ ﴿موضح ا ز تفسیر
عثمانی﴾
ہم مسلمانوں سے شکست کھا کر جانے والے. سوویت فوجی اور حکمران. او ر عراق
اور افغانستان میں ہم مسلمانوں کے ہاتھوںشکست اور زخم کھا کر واپس جانے
والے اتحادی فوجی. اس آیت مبارکہ. سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں کہ. توبہ کر کے
ایمان قبول کر لیں. ان لوگوں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ اﷲ
تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہے. ورنہ اتنی خوفناک عسکری طاقتوں کو نہتے
مجاہدین کے سامنے اتنی بے بسی محسوس نہ ہوتی.
اللھم صلِ علیٰ سیّدنا محمد النبی الامی المجاہد صاحب الغزوات وعلیٰ الہ
وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
٭.٭.٭ |