نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر (معراج)

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
مقصود کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود پاک اپنے ظہور کے اعتبار سے تین مراحل سے گزرا۔
1. مرحلہ تخلیق
2. مرحلہ ولادت
3. مرحلہ بعثت

1۔ مرحلہ تخلیق
تخلیق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کا وہ ظہور اول ہے جب اللہ ربّ العزت نے وجود نبوی کو عالم عدم سے عالم وجود میں منتقل کیا۔

2۔ مرحلہ ولادت
12 ربیع الاول اس لحاظ سے کائنات کا سب سے عظیم دن ہے کہ اس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے، ولادت باسعادت وجود مسعود کے ظہور کا دوسرا مرحلہ ہے۔

3۔ مرحلہ بعثت
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کے ظہور کا تیسرا مرحلہ بعثت مبارکہ کا ہے۔ یہ مرحلہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے چالیسویں سال میں ظہور پذیر ہوا۔

ظہور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان تینوں مراحل کو ظہور اول، ظہور ثانی اور ظہور ثالث کے عنوان کے تحت بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے ستارہئ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی۔ گویا ان تینوں مراحل کی قسم اٹھا کر اپنے محبوب کی عظمتوں اور رفعتوں میں اضافہ فرمایا۔ پیارے محبوب! قسم ہے تیری کہ تو چمکتا ہوا ستارہئ اول الخلق ہے، قسم ہے تیری کہ تو نے آمنہ کے گھر قدم رنجہ فرمایا اور اے محبوب! قسم ہے تیری کہ ہم نے چالیس سال کی عمر میں تجھے انسانوں کی رہبری کے لئے مبعوث فرمایا۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول اول بھی ہیں اور رسول آخر بھی، رسول ازل بھی اور رسول ابد بھی، اس لئے کہ جو چیز مطلقاً اصل ہو وہ حقیقتاً سب سے اول ہوتی ہے اور جو چیز حقیقتاً سب سے اول ہوتی ہے وہی چیز واقعتاً سب سے آخر میں ہوتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت میں دو مثالیں درج کی جاتی ہیں:
پہلی مثال : کاغذ پر دائرہ بنانے کے لئے جس نقطے سے آغاز کیا جائے وہ نقطہ حرف اول ہو گا اور دائرہ مکمل ہونے پر جہاں مکمل ہو گا وہ نقطہ حرف آخر ہو گا۔ گویا یہ نقطہ آخر وہی نقطہ ہے جہاں سے دائرہ کا آغاز ہوا تھا۔ ثابت ہوا کہ جو حقیقت میں اول ہوتا ہے وہی واقعتا آخر ہوتا ہے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول اول اور رسول آخر کہا جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے والنجم اذا ھوی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کائنات کا نقطہئ آغاز قرار دیتے ہوئے آپ کی اس اولیت کی قسم کھائی ہے۔ قادر مطلق کا قسم کھانا اس بات کی علامت ہے کہ اے محبوب! تو اس کائناتِ رنگ و بو کا حقیقتاً اول ہے اور واقعتاً آخر بھی تو ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا :
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طہٰ

دوسری مثال : فرض کیجئے کہ آم کا ایک درخت لگایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے سب سے پہلے آم کی گٹھلی زمین میں بوئی جاتی ہے۔ پھر وہ گٹھلی زیر زمین تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کی کونپلیں زمین کا سینہ چاک کر کے سطح زمین پر نمودار ہوتی ہیں۔ پھر یہ ننھی منی کونپلیں نشوونما پا کر تنا بنتی ہیں۔ پھر اس تنے سے شاخیں نکلتی ہیں اور ان شاخوں پر پتے اور پھول آتے ہیں۔ پھول پھل بنتے ہیں۔ شاخیں پھلوں سے جھک جاتی ہیں۔ یہ شاخوں کا اظہار عجز ہوتا ہے۔ یہ بارگاہ خداوندی میں ان کا سجدہئ شکر ہوتا ہے کہ پروردگار تو نے ہمیں ثمر بار کیا اور پھر جب موسم آتا ہے تو یہی پھل آم کی صورت میں پک جاتا ہے۔ لوگ اسے کھاتے ہیں۔ آخر میں جو چیز رہ جاتی ہے یہ وہی گٹھلی ہوتی ہے جسے زمین میں بویاگیا تھا۔ وہی شئے جو درخت کی زندگی میں حرف اول تھی اس کی زندگی میں حرف آخر بھی ٹھہری۔ درخت کی زندگی کا سفر جہاں سے شروع ہوا تھا ختم بھی وہیں پر ہوا۔ یہ تخلیق کی وہ کائناتی سچائی ہے جس کا پوری کائنات میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ گویا آیت مقدسہ میں والنجم کہہ کر اللہ ربّ العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولیت کی ہی نہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخریت کی بھی قسم کھائی۔ اسی لئے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج سجایا گیا کہ محبوب! اب تیرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تیرے ساتھ ہی ہماری وحی کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ اب قیامت تک ہر صدی تیری صدی ہے، ہر زمانہ تیرا زمانہ ہے۔ وہ قرآں جو تجھ پر نازل کیا گیا وہ بھی آسمانی ہدایت کا حرف آخر ہے کیونکہ اے محبوب! تو رسول آخر ہے، تمام فضیلتیں تجھ پر ختم ہو رہی ہیں۔ تمام عظمتیں تیرے قدموں پر نثار ہو رہی ہیں۔ اب تیرے قدموں تک پہنچنا ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اے محبوب قسم ہے تیری کہ تو کائنات کا وجود اول بھی ہے اور کائنات کا وجود آخر بھی تو ہی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اول و آخر ہونا اللہ تبارک و تعالیٰ کی بھی شان ہے۔ اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اسی شان کا مظہر بنایا۔ وہ خالق ہو کر اول و آخر، یہ مخلوق ہو کر اول و آخر، وہ اپنی ربوبیت میں یکتا و تنہا، یہ عبدیت میں اپنا مثال آپ۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مخلوق کا موازنہ کسی صورت میں بھی خالق کائنات سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خالق ہے یہ مخلوق، وہ معبود ہے یہ عابد، وہ مولائے کائنات ہے یہ رسول کائنات، وہ ربّ العالمین ہے یہ رحمۃ للعالمین۔
حدیث قدسی میں ارشاد ربانی ہے :
جعلتک اول النبیین خلقا واخرہم بعثا.
(شفاء ، 1 : 240)
میں آپ کو پیدا ہونے میں تمام انبیاء سے اول لایا اور ظاہر ہونے میں سب سے آخر میں۔

حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کائنات کا نقطہئ آغاز یا وجود اول ہے اور آپ سلسلہئ انبیاء کے ظہور میں آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ربّ کائنات نے فرمایا :
وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوَیO
(النجم، 53 : 1)
اے محبوب! تیری قسم کہ تو ہی تخلیق کائنات میں سب سے اول تھا اور ظہور میں سب سے آخرo
قسم ہے اے محبوب! تیری کہ تو اول کائنات ہے اور قسم ہے تیری کہ تو آخر کائنات ہے۔ کائنات کا نقطہئ آغاز بھی تو کائنات کا نقطہئ آخر بھی تو، اور اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم ہے تیری کہ تو اپنے فیضان رحمت کے ساتھ پوری کائنات پر محیط ہے۔ خلق کی زندگی کا سرچشمہ حیات بھی تو اور حیات خلق کا آخری اشارہ بھی تو اور اے محبوب! درمیان میں تخلیق کی جتنی بھی صورتیں ہیں انہیں تیری رحمت لازوال نے اپنے محیط میں لے رکھا ہے۔ فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِینَO
(الانبیاء ، 21 : 107)
اور اے محبوب! ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہےo

اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہم نے آپ کو سراپا رحمت بنایا، پھر اس عالم رنگ و بو کی تخلیق ہوئی، آپ کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھے اور کائنات کے بعد بھی رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اول کائنات آخر کائنات اور محیط کائنات کی تینوں قسمیں نجم کے تین حروف میں مضمر ہیں۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا دوسرا معنی : ظاہری و باطنی کمالاتِ مصطفوی کا ظہور

ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ عربی زبان ادب میں لفظ نجم کبھی بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مصدر۔ ہم نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ اگر یہ لفظ بطور اسم آئے تو اس کا معنی درخشاں ستارہ ہوتا ہے اور اگر بطور مصدر آئے تو یہ لفظ طلوع و ظہور کے معنی دیتا ہے۔ جب نجم کو بطور اسم لیں اور ھوی کا معنی طلوع و ظہور ہو تو آیت کریمہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہو گا : قسم ہے اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شب معراج مطلع کائنات پر اس طرح طلوع ہوا کہ اس کے سارے ظاہری اور باطنی کمالات منصہ شہود پر جلوہ گر ہو گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو النجم کیوں کہا گیا؟
محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اظہار کے راستے خود تلاش کر لیتی ہے۔ یہاں بھی ایک نکتہئ محبت کا بیان بے جا نہ ہو گا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر معراج کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ اسے ایک واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ واقعہ ارتقائے انسانی کا فلسفہ بیان کر رہا ہے اور انسان کو عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کر رہا ہے۔ یہ واقعہ حیات مقدسہ کا سب سے بڑا اعجاز تھا۔ ہم اپنی مادی زندگی میں لمحات مسرت کے موقع پر اپنے بچوں کے لئے آنکھ کا تارا، نظر کا نور جیسے الفاظ استعمال کر کے ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں پر اظہار مسرت و تشکر کرتے ہیں۔ شب معراج جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انعامات خداوندی کی بارش ہوئی، عظمت و رفعت کی خلعت فاخرہ عطا ہوئی تو قدرتی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسرت و انبساط کی کوئی انتہا نہ تھی لیکن عظمت کے اس سفر پر روانہ ہونے پر آپ کو محبت بھرے الفاظ سے حرف تحسین پیش کرنے والا کوئی نہ تھا۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی زندہ تھے اور نہ والدہ مکرمہ، دادا جان بھی داغ مفارقت دے گئے تھے، شفیق چچا بھی اب اس دنیا میں نہیں تھے، اب شہر مکہ میں دو ہی گروہ رہ گئے تھے، ایک جاں نثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گروہ اور دوسرا کفار و مشرکین کا گروہ، جو آپ کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ آپ کو دنیا میں چمکتا ہوا ستارہ کہہ کر پکارنے والا کوئی نہ تھا۔ فرمایا محبوب! کوئی بات نہیں ہم جو تجھے وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کہہ کر پکارنے والے ہیں۔ قسم ہے اس ستارے کی جب وہ آن بان سے طلوع ہوا۔ اللہ نشاندہی کر دیتا تو بات محدود ہو کر رہ جاتی، اللہ نے مطلع مشرق کا ذکر کیا نہ مطلع مغرب کی طرف اشارہ کیا بلکہ مطلقاً فرما دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اے محبوب! ہم نے جتنے عالم پیدا کئے ہیں تو ہر ہر عالم کے مطلع پر طلوع ہوتا رہا، اس لئے کہ ہم نے تجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور تیری شان رحمت یہ ہے کہ کائنات کی ہر شئے تیرے محیط میں مانند حباب بن کر رہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

فاران کی چوٹیوں پر آفتاب رسالت چمکا تو ہر شئے سیل رنگ و نور میں نہا گئی۔ ظلمت شب سامان سفر سمیٹ کر رخصت ہوئی۔ قانون فطرت ہے کہ جب خورشید افق کے اس پار نظروں سے اوجھل رہتا ہے اور افق عالم پر اس کا ظہور نہیں ہوتا تو اس کی ساری ضو فشانیاں اس کی ساری تابانیاں انسانی آنکھ سے اوجھل رہتی ہیں لیکن جونہی وہ افق عالم پر جلوہ گر ہوتا ہے گوشہ گوشہ منور ہو جاتا ہے۔ یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی چیز کا وجود اس کے ظہور کے بغیر بھی ممکن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ہماری چشم بینا سے مخفی رہے یا عقل ناقص کے حیطہ ادراک میں نہ آ سکے۔ آفتاب کے ظہور کے لئے اس کا طلوع ہونا ضروری ہے۔ طلوع کے بغیر ظہور ممکن نہیں چنانچہ جب آفتاب رسالت طلوع ہوا تو یہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور تھا، اسی لئے اس لمحہ جاوداں کو ظہور قدسی کا نام دیا گیا ہے۔ طلوع و ظہور کے تناظر میں النجم کا مفہوم کچھ اس طرح متعین ہو سکتا ہے کہ قسم ہے اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شب معراج اس طرح جلوہ گر ہوا کہ اس کے سارے کمالات عالم بشریت پر اس طرح عیاں ہوئے کہ عالم میں پہلے انہیں کسی نے دیکھا تھا اور نہ کبھی بعد میں آنے والے زمانوں میں دیکھ پائیں گے۔ اس چمکتے ہوئے ستارے نے من کے اندر بھی روشنی بکھیری اور من کے باہر بھی ہر چیز کو منور کر دیا کہ صدیوں کی ظلمتوں کو رخت سفر باندھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کا حرفِ یقین ٹھہرے۔ ساری کائنات اسی پیکر جمال کی دریوزہ گر ہے، اسی در سے نور کی خیرات لیتی ہے۔ دہلیز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا باڑ ابٹتا ہے اور کشکول آرزو میں رحمت کے سکے گرتے ہیں۔ یہ چمکتا ہوا ستارہ بیت المقدس کے افق پر طلوع ہوا تو آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ علیھم السلام تک تمام انبیاء اس مرکز انوار سے اکتساب نور کرنے کے لئے صف بہ صف جمع ہو گئے۔ اس نیر تاباں کی روشنی اکناف عالم میں پھیل گئی، جس نے عالم بشریت کو اپنی آغوش کرم میں سمیٹ لیا۔ قیصر و کسریٰ کا غرور خاک میں مل گیا، قریہئ جبر پر ابر رحمت کھل کر برسا، انسان کی خدائی سے انسان کو رہائی ملی، دختر حوا کے پیروں کی زنجیریں ٹوٹ کر گر پڑیں، ظلم و استبداد کے دور کا خاتمہ ہوا، انسانی حقوق کی بازیابی کا عمل مکمل ہوا، افق عالم پر دائمی امن کا عہد نامہ تحریر ہوا، نفاذ عدل انسانی معاشروں کا طرہئ امتیاز ٹھہرا اور جنگل کی ساری تاریکی انسانی معاشروں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئی اور انسانیت کا شفاف چہرہ آئینے کی طرح چمکنے لگا۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی میں مخفی حقائق

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا پہلا معنی بلندیوں تک پہنچنا ہے۔ معراج کی شب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وجود بشری کے ساتھ ان بلندیوں سے بھی آگے تشریف لے گئے جن بلندیوں پر جبرئیل جیسے مقرب فرشتے کے بھی پر جلتے ہیں۔ کلام خدا پر جتنا بھی غور کیا جائے تفہیم کی نئی نئی پرتیں خودبخود سامنے آتی جاتی ہیں۔ اگر والنجم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مسعود مراد لیا جائے اور لفظ ھَوٰی ھَوِیٌّ سے مشتق ہو تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم جو زمین کی پستیوں سے ابھر کر عالم لامکاں کی بلندیوں کی انتہاء تک پہنچا۔ حقیقت معراج روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہے۔ اب اس استدلال کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ کسی خواب کی کیفیت بیان نہیں ہو رہی بلکہ روح کا جسم کے ساتھ آسمانوں پر جانا ہی معراج ہے۔ اس کا ذکر ربّ کائنات نے قسم کھا کر کیا ہے کہ یہ واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بحالت خواب روحانی معراج کی مطلقاً کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ ربّ کائنات کو قسم کھانے کی ضرورت تھی کہ خواب میں تو اس قسم کے محیرالعقول مشاہدات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت کا قسم کھانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ واقعہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہی سے واپس لوٹ آئے (جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے) تو پھر بھی یہ واقعہ اتنی اہمیت کا حامل نہ ہوتا کہ سدرۃ المنتہی تک تو جبرئیل کو بھی رسائی حاصل ہے۔ سدرۃ المنتہی عالم ملوکیت کی آخری حد ہے، جہاں شہداء اور خدا کے برگزیدہ بندوں کا گزر رہتا ہے، لہٰذا سدرۃ المنتہی تک پہنچنا اتنی عظیم بات نہ ہوتی اور اسے اس اہتمام سے بیان بھی نہ کیا جاتا لیکن بات سدرۃ المنتہی سے آگے کی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کے قسم کھانے سے اس استدلال کو تقویت ملتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پروردگار عالم کی عطا کردہ قوت سے عالم بالا کے اس آخری کنارے تک پہنچے جہاں کوئی نبی مرسل یا فرشتہ پہنچنے کی نہ تاب رکھتا ہے اور نہ جرات، وہاں تک مرغ تخیل کی رسائی بھی ممکن نہیں۔

لفظ ھَوٰی سدرۃ المنتہی سے قاب قوسین تک کے سفر کو بیان کر رہا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ اس لمحہ کی قسم جب میرے محبوب تو لامکاں کی حدوں کو پار کر کے میرے مقام قرب تک پہنچا۔ خلاصہ بحث یہ ہوا کہ خدائے علیم و خبیر نے اس آیت مقدسہ میں اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی جو شب معراج عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہوئے بلکہ سب رفعتوں اور عظمتوں کو اپنے قدموں کے نیچے چھوڑتے ہوئے بلندیوں کی آخری منزل تک جا پہنچے۔ اس منزل تک جس منزل تک عام انسان تو کجا فرشتوں تک کے پہنچنے کا تصور بھی محال ہے۔

سفرِ معراج کا نقطہ آغاز اور منتہائے کمال
طائف کے بازاروں میں اوباش لڑکوں کی سنگ باری کا دلخراش سانحہ گزر چکا تھا، مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کے مقفل دروازے کھل چکے تھے۔ قلب اطہر کفار و مشرکین مکہ کی مسلسل چیرہ دستیوں پر ملول تھا لیکن لب اقدس پر دعا کے پھول کھل رہے تھے۔ تحریک اسلامی کی قیادت عظمیٰ آزمائش کے مراحل سے گزر چکی تھی۔ دلجوئی کے لئے نہ عبدالمطلب تھے نہ ابوطالب، اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب کی دلجوئی اس طرح کی کہ انہیں عظمتوں اور رفعتوں کی اس منزل تک لے گیا جس کا تصور بھی ذہن انسانی میں نہیں سما سکتا۔ سدرۃ المنتہی کی وہ منزل جس سے آگے جبرئیل جیسے مقرب فرشتے کو بھی دم مارنے کی جا نہیں، آپ کے سفر معراج کا ایک پڑاؤ ٹھہری۔

اس سفر عظیم کا آغاز حطیم کعبہ سے ہوا۔ آقائے کائنات استراحت فرما تھے۔ ادھر آسمانوں پر حور و ملائکہ محبوب کبریا کی پیشوائی کے منتظر تھے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں اور وہ آسمانی مخلوق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھانے کا اعزاز حاصل کرے۔ جبرئیل امین آسمانوں سے اترے، حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا اور ایک سواری حاضر کی، جو دراز گوش سے اونچی اور خچر سے قدرے نیچی تھی۔ اس سواری کا نام براق تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہوئے۔ یہ ایک تیز رفتار سواری تھی۔ اس کی تیز رفتاری کا عالم یہ تھا کہ اس کا ہر ہر قدم منتہائے نظر پر پڑتا تھا۔ سفر کے پہلے مرحلے پر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس لے جائے گئے جہاں تمام انبیاء آپ کے منتظر تھے۔ نماز کا وقت ہوا، صفیں درست ہوئیں اور جبرئیل نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کی امامت کے لئے مصلیٰ پر کھڑا کر دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک۔ ۔ ۔ تمام انبیائے کرام نے سردار انبیاء کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ یہاں سے براق پر سوار ہو کر آپ نے آسمان دنیا پر ورود فرمایا۔ آسمان دنیا کے دروازے پر جبرئیل امین نے دستک دی تو دربان نے پوچھا کہ جبرئیل تمہارے ساتھ کون ہے؟ جب جبرئیل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لیا تو دروازہ کھل گیا۔ حور و غلمان صف بہ صف کھڑے تھے۔ خوش آمدید یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش آمدید، مرحبا یا نبی مرحبا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، آپ نے نسل انسانی کے جدامجد کو سلام کیا تو حضرت آدم علیہ السلام نے صالح بیٹے اور صالح نبی کہہ کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ساتوں آسمانوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ عرش معلی پر جشن کا سا سماں تھا۔ ہر طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے چرچے تھے۔ آج وہ مہمان ذی وقار آ رہے ہیں جن کے بارے میں ربّ کائنات نے فرمایا کہ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ زمین ہوتی اور نہ یہ آسمان، پیارے یہ کائنات رنگ و بو تیرے قدموں کا صدقہ ہے، یہ زمین و آسمان تیرے نقوش پا کی خیرات ہے۔ فرشتے جوق در جوق استقبال کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ کائنات ارض و سماوات عالم بشریت کی زد میں تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظمتوں اور رفعتوں کا یہ عظیم سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ عروج آدم خاکی سے سہمے ہوئے النجم بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں آسمان پر آپ کی ملاقات بالترتیب حضرت یحییٰ و عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیھم السلام سے ہوئی۔ گویا آپ جہاں گئے انبیاء سے فرشتوں تک تمام آسمانی مخلوقات آپ کے لئے چشم براہ تھیں۔ سدرۃ المنتہی کا مقام بلند آ گیا۔ جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور آگے بڑھنے سے معذوری کا اظہار کیا :
لو دنوت انملۃ لاحترقت.
(روح البیان، تفسیر نیشا پوری)
(الیواقیت والجواہر، 2 : 35)

اگر ایک پور برابر بھی آگے بڑھوں تو جل جاؤں گا۔
یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے آگے جانے کی مجھے اجازت نہیں۔ آگے بڑھا تو میرے پر جل جائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تن تنہا بڑھتے ہوئے آخر اس مقام پر پہنچ گئے جس کو قاب قوسین او ادنی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سارے حجابات اٹھا دیئے گئے۔ قرآن کہتا ہے :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیO فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَیO فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَیO
(النجم، 53 : 8 - 10)
پھر قریب ہوا (اللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) پھر زیادہ قریب ہوا تو (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ربّ سے)o دو کمانوں کی مقدار (نزدیک) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ قریبo تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائیo
حدیث پاک میں مذکورہے :
حتی جاء سدرۃ المنتہی دنی الجبار ربّ العزۃ فتدلی حتی کان منہ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی
(صحیح البخاری، 2 : 1120)
یہاں تک کہ آپ سدرۃ المنتہی پر آ گئے، ربّ العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
اللہ ربّ العزت نے اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا اور اتنا قریب ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا۔ گویا حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروردگار عالم کے جلوؤں کی ارزانی ہوئی۔ بارگاہ صمدیت میں تاجدار کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرتاپا صفات ربانی میں اس طرح رنگے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات اللہ تعالیٰ کی مظہریت کا پیکر اتم بن گئی۔

لامکاں کی وسعتوں سے زمین پر نزول
اللہ ربّ العزت نے آسمانوں پر اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلعت عظمت و رفعت سے نوازا، انہیں ان بلندیوں پر فائز کیا جن کا تصور بھی محال ہے۔ طائف کے بازاروں میں سنگ باری نے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملول کر دیا۔ ربّ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلجوئی فرماتے ہوئے آپ کا دامن عظمتوں اور رفعتوں سے بھر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب رسالت کو نئی شان عطا کی۔

عربی زبان و ادب کے قواعد کے مطابق اگر لفظ ھَوٰی مصدر ھُوِیٌّ سے مشتق ہو تو اس کا معنی ہو گا : الخدار، نزول، نیچے آنا۔ ان معانی کی رو سے اس آیت مقدسہ کا مفہوم یہ ہو گا :
والنجم ای محمد اذا ہوی ای اذا نزل من السماء الی الارض لیلۃ معراج.
(الشفاء ، :١)
قسم ہے اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شب معراج انتہائی رفعتوں کو چھو کر زمین پر واپس آ گیا۔

مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک کا سفر بھی ایک معجزہ تھا اور عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہونے کے بعد واپس اس کرہئ ارضی پر تشریف لے آنا بھی ایک معجزہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کا پہلوئے بشریت عالم بشریت کو فیض پہنچانے کے لئے تھا کہ آپ کو نسل انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے جامہئ بشریت میں مبعوث فرمایا گیا جبکہ نورانیت کا پہلو عالم ملکوت کی فیض رسائی کے لئے تھا۔ یہ دونوں پہلو فی الحقیقت حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی مقام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ آپ کی حقیقت، نورانیت و بشریت کے مقامات سے وراء الوراء ہے۔ اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو نور و بشر کے مسائل میں الجھ کر خوامخواہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقام نورانیت کو عالم ملکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے۔ حقیقت محمدی ان دونوں مقامات کی انتہاء سے بھی بالاتر ہے۔ آپ کا اصلی گھر تو لامکاں تھا جہاں پر آپ کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ خالق موجودات کا ہم بندگان خاکی نہاد پر عظیم احسان ہے کہ اس نے اپنے لطف و کرم اور عنایت سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات کا مظہر اتم بنا کر ہمیں عطا کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر واپس آ گئے تاکہ زمین پر بسنے والی اولاد آدم کو ظلم و بربریت سے نجات دلائیں۔ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے اور انسانی معاشروں میں عدل کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ انسانی معاشرے استحصال کی ہر شکل سے پاک ہو جائیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 351095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.