سفرمعراج رات کے وقت ہی کیوں کرایا گیا؟

گزشتہ سے پیوستہ۔۔

اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلاً کے ایمان افروز نکات
نالہ ہائے نیم شبی ندامت کے آنسوؤں کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور احساس ندامت کیساتھ چشم تر کا سجدہ اللہ کے ہاں بے حد مقبول ہے کہ وہ اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنے اور انکی توبہ قبول کرنیوالا ہے۔ لفظ اسری اسراء سے ہے۔ عربی لغت کے مطابق اسراء کا معنی رات کے وقت سیر کرنا ہے رات کیلئے اس لفظ کا استعمال غالب ہے۔ اللہ ربّ العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا۔
فَأَسْرِ بِعِبَادِی لَیْلًا.
(الدخان، 44 : 23)
(ہم نے فرمایا) تو لے جاؤ میرے بندوں کو راتوں رات۔

آیت مذکورہ کی روشنی میں لفظ اسری کا معنی یہ ہوا کہ اس (اللہ تبارک و تعالیٰ) نے رات کے وقت سیر کرائی۔ ذہن انسانی میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ سفر رات کے وقت ہی کیوں کرایا گیا۔ اس میں کونسی حکمت کارفرما تھی۔ ان حکمتوں میں سے چند کا بیان ذیل میں کیا جاتا ہے :

1۔ حصول مقصد میں رات کی فضیلت
رات کو دن پر کئی حوالوں سے فضیلت دی گئی ہے۔ ان گنت اعزازات، بے شمار امتیازات اس کے دامن خوش رنگ میں روشن ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ قرآن پاک رات کے وقت نازل کیا گیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔
إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِO
(القدر، 97 : 1)
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہےo

علیم و خبیر ربّ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملاقات سے قبل ایک مجاہدے سے گزارنے کا فیصلہ کیا تو انہیں پروردگار عالم کی طرف سے تیس دن کے اعتکاف کا حکم ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیس دن کے لئے دنیا کی مصروفیتوں سے ناطہ توڑ کر اپنے مالک حقیقی کی یاد کا چراغ روشن کرو۔ توبہ استغفار میں ایک ایک لمحہ گزارو، بعد میں تیس دن کی بجائے چالیس دن کر دیئے گئے۔ ان چالیس دنوں میں رات کو بھی مجاہدے اور ریاضت کا عمل جاری رہتا اور دن کو بھی۔ دن کو بھی انہیں کہیں جانے کی اجازت نہ تھی۔ حصول مقصد کے لئے رات چونکہ دن سے افضل ہے لہٰذا اس مجاہدے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا :
وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَی أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً.
(البقرہ، 2 : 51)
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔

آخر شب کی دعاؤں کی رقت انگیزی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بندہ راتوں کو پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا ہے تو رحمت خداوندی اسے اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے، اس لئے عرفائے کرام اور اولیائے عظام فرماتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے لئے رات تخت سلطنت کی طرح ہوتی ہے کہ اس تخت پر بیٹھ کر وہ ندامت کے آنسو بہاتے ہیں اور گڑگڑا کر اپنے خالق سے اپنی مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ جو احوال دن میں طے نہیں ہوتے وہ رات کی تنہائیوں میں طے ہوتے ہیں۔ مشعل آرزو رات کے طاقچوں ہی میں فروزاں ہوتی ہے۔ قرب الٰہی کے لمحات اور وہ ساعتیں (جن میں خدائے رحیم و کریم کی خاص عنایتوں سے نوازا جاتا ہے اور خصوصی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں) بھی رات ہی کے دامن میں رکھی گئی ہیں :
وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ.
(الاسراء ، 17 : 79)
اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی) قرآن کے ساتھ (شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں۔

معراج کا سفر بھی رات ہی کو اختیار کیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جتنی فضیلتیں عطا کی گئیں معراج کی فضیلت ان سب سے بڑھ کر تھی اور یہ فضیلت بھی رات ہی کے وقت دامن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سجائی گئی۔

2۔ شب جائے کہ من بودم
تقویٰ، پرہیزگاری اور تزکیہ نفس کے چراغ رات کے دامن ہی میں روشن ہوتے ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے، یہاں تک کہ پاؤں مبارک میں ورم آ جاتا۔ دن کو جلوت میسر آتی ہے اور رات کو خلوت، خاص طور پر آخر شب کا وقت انتہائی خلوت کا ہوتا ہے۔ خالق ارض و سماوات اپنی شان کے مطابق آخر شب ہی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا سچی محبت کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ محبوب تو جاگ رہا ہے اور وہ سو رہے ہیں۔
لاَ تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلاَ نَوْمٌ.
(البقرہ، 2 : 255)
نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔

محبوب کی تو یہ شان ہے اور ادھر محبت کا دعویدار غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ اللہ ربّ العزت اپنے بندے کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرا رہے ہیں کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے بھی گزریں۔ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ محبت الٰہی کے دعوے میں کس حد تک سچے ہیں۔ کیا وہ اپنے محبوب سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل کرنے کے لئے اپنے نرم و گداز بستروں سے اٹھ جاتے ہیں یا ان کی محبت کے دعوے پر نیند غالب رہتی ہے۔ ویسے بھی رات میں دو لمحوں کی ملاقات بھی کئی سالوں کی محنت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍO
(القدر، 97 : 3)
شب قدر (فضیلت و برکت اور اجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo

معراج کا سفر عظمت سفر محبت بھی تھا، محب اور محبوب کی ملاقات کا سفر تھا۔ اس سفر کا مقصد جلیلہ اس صاحب شعور کے ذہن میں آ سکتا ہے جو خود بھی رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہو۔ آخر شب سجدہ ریزی جس کا معمول ہو، جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسی چشم بصیرت رکھتا ہو اور جو شب کی خلوتوں میں اترنے والے انعامات و اکرامات کا عینی شاہد ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر شب معراج رونما ہونیوالے عجائبات کی تصدیق کر دی اور وہ لوگ جو رات کی خلوتوں کی اہمیت کے شناسا نہ تھے اور تمام تر واقعات کا ابوجہل کی چشم کور سے مشاہدہ کر رہے تھے، واقعہ معراج کا انکار کر بیٹھے اور دولت ایمان سے محروم رہے۔

3۔ وقت کی طنابیں سمیٹ لی گئیں
سفر معراج رات کے وقت کرایا گیا۔ یہ سفر عظمت پوری رات کا سفر نہ تھا بلکہ رات کے انتہائی قلیل عرصے پر محیط تھا۔ چونکہ اسری کے اندر رات کا معنی بھی پایا جاتا ہے لہٰذا اس آیت میں لیلاً کا باقاعدہ اضافہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے جس سے کسی خاص نکتے کی طرف توجہ مبذول کرنا مقصود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ سفر اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے کرایا لہٰذا اسکی جملہ جزئیات کا انکار اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔ یہ سفر اس تیزی سے طے ہوا کہ کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ عقل اس معجزہ پر بھی عاجز اور بے بس ہے۔ اگر کوئی عقل کی کسوٹی پر ان واقعات کو پرکھے گا تو سوائے گمراہی کے اسے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ سفر کی اسی تیزی کو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
ما فقد جسد رسول اﷲ لیلۃ المعراج.
(طبری، 15 : 13)
(الشفاء ، 1 : 246)
معراج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد اقدس (گویا) کہیں گیا ہی نہیں تھا۔

4۔ سفر لامکاں
آیت مقدسہ میں لیلاً (رات) کا لفظ استعمال کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ رات کا وقت سورج اور اس کی روشنی سے پاک ہوتا ہے جبکہ دن کا وقت سورج کی روشنی ہر شئے پر محیط ہوتی ہے۔ گویا مخلوق کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ سفر نظام شمسی کے دائرے میں نہیں تھا بلکہ نظام شمسی کے دائرے سے باہر کا سفر ہے۔ حتیٰ کہ یہ سفر اس زمین اور آسمان کا بھی نہیں بلکہ یہ سفر تو لامکاں کی وسعتوں کا سفر ہے، حدود وقت سے آگے نکل جانے کا سفر ہے۔ خدا کے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عظیم سفر عرش معلی اور سدرۃ المنتہی کا سفر ہے۔
وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا پہلا معنی۔ ۔ ۔ اصلِ کائنات

اکثر محدثین و مفسرین نے نجم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو ہی لیا ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کبیر میں، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں، امام خازن رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر خازن اور نبہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ نے عرائس البیان میں نجم کے اسی مفہوم کو اعتماد و اعتبار کی سند عطا کی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر متعدد ائمہ تفسیر نے بھی نجم سے مراد سیاح لامکاں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی لی ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نجم کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
خدا کی ذات بابرکات نے کنائے اور اشارے کے پیرائے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رخشندہ و تابندہ ذات کی قسم کھائی اور فرمایا : قسم ہے اے محبوب! کہ تو اصل ہے۔
(المفردات : 483)

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصل اور جڑ ہیں تو یہ کس چیز کی اصل یا جڑ ہیں! جب ہم قرآن سے اس سوال کا جواب پوچھتے ہیں تو قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی شئے کا نام نہیں لیتا بلکہ مطلقاً کہتا ہے والنجم۔ قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر کہہ دیا جائے کہ بندہ فلاں چیز کی اصل اور منبع ہے تو یہ اصل اور منبع ہونا اس چیز کے ساتھ مختص ہو کر رہ جائے گا۔ اس اصل اور منبع کو دوسری چیزوں کا اصل اور منبع ہونے کا درجہ حاصل نہ ہو سکے گا اور اگر کسی چیز کا نام نہ لیا جائے تو اس سے مراد ہر ہر چیز کی اصل و منبع ہوتا ہے۔ ربّ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے کر انہیں محدود کرنا پسند نہیں فرمایا۔ اس لئے ذات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی شئے سے مختص نہیں کیا گیا۔ جن و انس، شمس و قمر، شجر و حجر، برگ و ثمر، نباتات و جمادات، حور و غلمان، غرض کائنات ہست و بود کا وجود و ظہور سب کچھ تاجدارِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کے توسل اور تصدق ہی سے قائم ہے۔ محبوب اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ سورج ہوتا اور نہ یہ چاند ستارے۔ اس آیت مقدسہ میں نجم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقصود کائنات ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کائنات رنگ و بو میں صرف دو وجود ہیں :
1. اللہ۔ ۔ ۔ کہ وہ خالق کائنات ہے۔
2. ما سوا اللہ۔ ۔ ۔ اللہ کے سوا باقی سب کچھ یعنی تمام مخلوقات اور اشیاء اور اجسام فلکی وغیرہ

اللہ کی اصل اور جڑ کا تصور بھی شرک ہے۔ چونکہ اللہ کی اصل کا ہونا تو ممکن نہیں اس لئے اصل و جڑ مخلوقات ہی ہو سکتی ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور پھر تمام مخلوقات میں سب سے افضل و برتر حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ گویا اللہ کے سوا اس کائنات رنگ و بو کی ہر چیز کی اصل یا جڑ آقائے نامدار حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ قسم ہے اے محبوب! تیری کہ میرے سوا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے یا بعد میں ہو گا، محبوب تو ان سب کی اصل ہے۔ یہ سب کچھ تیرے قدموں کی خیرات ہی تو ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اصل کے مقابلے میں ہر شئے فرع ہوتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے فرمایا : قسم ہے محبوب تیری کہ تو اصل ہے، اس کائنات رنگ و بو کا مرکز و منبع ہے۔ معلوم ہوا کہ اصل فقط محبوب ربّ کریم ہیں اور باقی ساری کائنات آپ کی فرع ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی فرع کو انسانی شکل عطا کر دی، کسی کو جنات کا روپ دے دیا، کسی کو ملائکہ بنا دیا، کسی کو شجر و حجر کا درجہ دے دیا، کسی کو شمس و قمر بنا دیا، کسی کو آسمان اور کسی کو زمین کا وجود بخش دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی فرع کو تحت الثریٰ و کسی کو عرش معلی بنا دیا۔
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ تمہی تو ہو
تصویر کائنات کا مرکزی خیال

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات رنگ و بو کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے وجود کائنات کا مبداء ہیں۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات بابرکات لولاک لما کے مصداق تمام کائنات کی اصل ہیں، اسی لئے آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روح کائنات بھی کہتے ہیں۔ آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم کا سائبان کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے۔ یہ چشمہئ فیض ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کائنات ارض و سماوات میں موجود ہر شئے اپنے وجود کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے دھوون کی محتاج ہے، سلطان بحر و بر کے نقش کف پا کے تصدق کی مرہون منت ہے، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت تو اس وقت ہو چکی تھی جب عالم رنگ و بو ابھی تخلیق نہیں کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے قدموں کے صدقے اس عالم ہست وبود کو خلعت وجود سے نوازا گیا۔
تصویرِ کائنات کا وہ مرکزی خیال
لوحِ جہاں پہ عظمتِ یزداں کہیں جسے

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
اول ما خلق اﷲ نوری ومن نوری خلق کل شء.
(تفسیر روح البیان، 2 : 370)
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔ پھر میرے نور سے ہر چیز کو بنایا۔

مذکورہ حدیث مقدسہ کا مطلب یہ ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ میری ذات براہ راست اللہ ربّ العزت کے نور سے اکتساب فیض کر رہی ہے جبکہ یہ ساری کائنات، اس کائنات کا ذرہ ذرہ، یہ تمام اجسام فلکی، چرند پرند، ملائکہ، جنات، شجر وحجر، شمس و قمر، غرض کائنات کی ہر شئے میرے نور سے فیض یاب ہو رہی ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا :
یارسول اﷲ! بابی انت و امی، اخبرنی عن اول شء خلقہ اﷲ تعالی قبل الاشیاء ، قال : یا جابر ان اﷲ تعالی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ، فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اﷲ، ولم یکن فی ذلک الوقت لوح و لاقلم و لا جنۃ و لا نار و لا ملک و لا سماء و لا ارض و لا شمس و لا قمر و لا جن و لا انس، فلما اراد اﷲ تعالی ان یخلق الخلق قسم ذلک النور اربعۃ اجزاء ، فخلق من الجزء الاول القلم و من الثانی اللوح و من الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع اربعۃ، فخلق من الاول حملۃ العرش ومن الثانی الکرسی والثالث باقی الملائکۃ، ثم قسم الرابع الاربعۃ اجزاء ، فخلق من الاول السموت و من الثانی الارضین و من الثالث الجنۃ والنار. . .
(المواہب اللدنیہ، 1 : 9)
(السیرۃ الحلبیہ، 1 : 50)
(زرقانی علی المواہب، 1 : 46)

یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ پھر وہ نور مشیت ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیرکرتا رہا۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم، جنت تھی نہ دوزخ، فرشتہ تھا نہ آسمان، نہ زمین تھی، سورج تھا نہ چاند، جن تھا نہ انسان۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصے سے قلم بنایا دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش اور چوتھے کو پھر چار حصوں میں تقسم کیا، پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے، دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے بنائے، پھر چوتھے حصے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کر دیا، پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت و دوزخ۔ ۔ ۔

کثیر ائمہ کرام جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغہئ روزگار ہستیاں شامل ہیں، نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اسی بنا پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبداء کائنات کہا جاتا ہے۔ آپ ہی وجہ تکوین عالم ہیں۔ کائنات کا سارا حسن، حسن محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ایک جھلک ہے۔ پھولوں میں خوشبو انہی کے نقش قدم کا فیضان ہے، ستاروں میں روشنی انہی کے وجود مسعود کا پرتو ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو سورج کو خلعت نور عطا ہی نہ ہوتی بلکہ سرے سے اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔

ھوی کا لفظ النجم کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو چونکہ ھوی میں ظہور کا معنی پایا جاتا ہے اس لئے آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا :
اے محبوب! قسم ہے تیری کہ تو اصل کائنات ہے اور قسم ہے تیری کہ تیرا نور مخفی تھا۔ جب میں نے چاہا تو منصہ شہود پر ظاہر ہو گیا۔
(روح المعانی، 14 : 45)

اگر غور کیا جائے اور منشائے ایزدی کو حیطہئ شعور میں لایا جائے تو انکشاف ہو گا کہ ربّ کائنات تخلیق محمدی کی قسم کھا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر پروردگار عالم صبح ولادت باسعادت کی قسم کھا رہا ہے۔ یہ کائنات رنگ و بو اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرہ جلیلہ کی خاطر ہی تو سجائی ہے کہ جس میں ہر لمحہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا ذکر ہو رہا ہے۔ تمام الہامی صحیفے صبح میلاد کے طلوع کی بشارت سے سرفراز نظر آتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 351073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.