فرانس نے تو بوریا بستر باندھ لیا

بیسویں صدی میں وجودیت کے فلسفے کو دُنیا بھر میں مقبولیت سے ہمکنار کرنے والی سب سے توانا آواز فرانس سے اُبھری جو ژاں پال سارتر کی تھی۔ سارتر نے زندگی بھر وجودیت اور وجود کی مقصدیت پر بحث کی اور دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انسان اپنی قوت سے کچھ بھی کرسکتا ہے مگر اُسے سب کچھ دانش کے تقاضوں کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ وجود کی معنویت سے متعلق سے یہ فلسفہ فرانس کے نئے صدر فرانکوئی اولاند نے خوب سمجھا ہے اور ایک تازہ جھڑپ میں چار فرانسیسی فوجیوں کے مارے جانے کی خبر آتے ہی افغانستان سے بوریا بستر باندھنے کا اعلان کردیا! نئے فرانسیسی صدر نے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے فرانسیسی فوجیوں کے انخلاءکی ڈیڈ لائن میں ایک سال کی کمی کردی جائے گی۔ مگر اب وہ ڈیڈ لائن میں مزید کمی کرتے ہوئے تمام کے تمام یعنی 3500 فوجیوں کا انخلاءیکم جولائی سے شروع کرنے کا حکم دے چکے ہیں۔ اور یہ عمل 31 دسمبر تک مکمل کرلیے جانے کا امکان ہے۔

دنیا بھر میں جدت اور ندرت کے لیے مغرب کی طرف دیکھا جاتا ہے اور فرانس کے دارالحکومت پیرس کو فیشن کا بھی دارالحکومت کہا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اولاند انخلاءکو بھی فیشن کا درجہ دیکر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں! ایک بڑی طاقت کے صدر کو انتخابی وعدہ پورا کرنے کا موقع مل رہا ہے اور کچھ لگانا بھی نہیں، بلکہ نکالنا ہے۔ ووٹرز کا شکریہ ادا کرنے کا اِس سے اچھا موقع بھلا اُنہیں کب ملے گا؟

مرزا تفصیل بیگ اِس صورت حال سے خوب محظوظ ہو رہے ہیں۔ ہم اُن کی ”سنگ دِلی“ دیکھ کر حیران ہیں۔ اتحادیوں کی واٹ لگ رہی ہے اور اُنہیں اٹکھیلیاں سُوجھ رہی ہیں! ہم نے مرزا سے عرض کیا کہ مہمانوں کو اِس طرح ستانا، پریشان کرنا کوئی اچھی بات ہیں۔ بے چارے سات نہیں تو دو تین سمندر ضرور پار کرکے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں پہنچے ہیں۔ افغانستان کو منہ کون لگاتا ہے؟ یہ تو گورے ہیں جو وقتاً فوقتاً اُس پر مہربان ہوتے رہتے ہیں۔ اور افغان ہیں کہ اُن کی واٹ لگانے پر تُلے رہتے ہیں! اِتنا سُننا تھا کہ مرزا کی رگِ ملامت پھڑک اُٹھی۔ ”تم جیسوں کو تو بس بہانہ چاہیے گوروں کی چمچہ گیری کا۔ اگر یہ گورے افغانوں کے ایسے ہی خیر خواہ ہوتے تو سوویت فوج کے نکل بھاگتے ہی بھاگ کھڑے نہ ہوتے۔ اور پھر جب طالبان نے حکومت بنالی اور اچھی طرح کام چلنے لگا تو امریکہ اور برطانیہ پھر افغانستان پر خُنّس کھانے لگے۔ نائن الیون بہانہ بنا اور دنیا بھر سے فوجی جمع کرکے یعنی بھان متی والا کنبہ جوڑ کر افغانستان پر چڑھائی کردی۔“

ہم نے یاد دلایا کہ معاملہ فرانس تک محدود نہیں۔ خود امریکہ بھی جلد از جلد افغانستان سے نکلنے کا خواہش مند ہے مگر ”وضع داری“ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اگر یونہی نکل گیا تو لوگ باتیں بنائیں گے۔ واحد سُپر پاور ہونے کے ناطے اُس پر چند ایک اخلاقی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ امریکہ کو اپنی ویلیوز اور اُن سے بھی کہیں بڑھ کر، مارکیٹ ویلیو کا خاصی شِدّت سے احساس ہے!

مرزا بولے ”کاہے کی اخلاقی ذمہ داری؟ اگر موقع ملے اور بس چلے تو امریکہ اپنے فوجیوں کو سب سے پہلے افغانستان سے نکال لے۔ یہ تو کچھ کچھ ”مقطع میں آ پری ہے سُخن گسترانہ بات“ والا معاملہ ہے۔ امریکی فوج نکلنا چاہتی ہے مگر معاملہ سیاسی قیادت کی کھجور میں اٹک گیا ہے! پینٹاگون چاہتا ہے کہ امریکہ سے جلد از جلد بوریا بستر گول کرلیا جائے مگر وائٹ ہاؤس کو خوف ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں اُس کے چہرے پر دُنیا کالک پوت دے گی! وہی فوج اور سویلین کا جھگڑا! پاکستان سے امریکہ تک سب کی ایک کہانی ہے! براک اوبامہ دوبارہ صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ اگر اُنہوں نے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا شروع کیا اور وہاں طالبان نے حملے بڑھادیئے تو؟ اوبامہ کا دوسرا صدارتی دور پیدا ہونے سے پہلے مر جائے گا! فی الحال انخلاءشروع کرنا اوبامہ کے لیے مشن امپوسیبل ہے!“
ہم نے فرانس کے صدر کی اُصول پسندی کو سراہا کہ اُنہوں نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا یعنی افغانستان سے انخلاءکی ڈیڈ لائن کم کردی۔ مرزا ہماری بات سے یکسر متفق نہ ہوئے۔ ارشاد ہوا۔ ”اگر اولاند صاحب کو ڈھنگ سے کام کرنا ہے تو اپنی فوج کے معصوم پرندوں کو طالبان کے شِکنجے سے بچانا ہوگا۔ اِس کے لیے انخلاءسے اچھا راستہ بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ اگر وہ اپنے فوجیوں کو تیزی سے نکال رہے ہیں تو اِس میں کوئی اُصول پسندی وغیرہ نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ یعنی مجبوری کا نام شکریہ۔“

امریکہ نے یاروں کو عجیب الجھن میں ڈال دیا ہے۔ یورپ اپنی گردن افغانستان کے چوہے دان سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یورپ اب سوفٹ پاور کی راہ پر گامزن ہے یعنی ٹیکنالوجی، جدت طرازی، سرمایہ کاری اور علم و فن کے ذریعے آگے بڑھنا اور باقی دنیا کو گلے لگانا چاہتا ہے مگر امریکہ اب تک ہارڈ پاور یعنی عسکریت پسندی کی راہ پر گامزن ہے۔ اُس کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ یورپ کو ساتھ لیکر چلتا رہا ہے۔ اور اب یورپ ہاتھ چھڑا کر، دور ہٹ کر چلنا چاہتا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ کرے؟ امریکہ کو عادت پڑگئی ہے ہر جگہ منہ مارنے کی۔ پھولوں کے ساتھ ساتھ وہ کانٹوں پر بھی منہ مارتا ہے اور اِس کا خمیازہ بھی بھگتتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ اِس خمیازے میں اپنے اتحادیوں کو بھی شریک کرتا ہے! یورپ اس صورت حال سے تنگ ہے۔ بہت سے فیصلے امریکہ تنہا کرتا ہے مگر بھگتنا سب کو پڑتا ہے۔

افغانستان میں یورپ اپنا انتہائی برا وقت دیکھ رہا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، ڈنمارک، ناروے، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک کے فوجیوں کو طالبان نے ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ ہلمنڈ اور چند دوسرے صوبوں میں تو یورپی ممالک نے اپنے فوجیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے طالبان کو رشوت بھی دی ہے! برطانیہ نے ہلمند میں اپنے سیکڑوں فوجیوں کو اِسی طور بچایا۔ ویسے تو کسی بھی اسکینڈل کے سامنے آنے پر مغربی دنیا کے عوام اچھل پڑتے ہیں۔ مگر جب ہلمند اور دیگر افغان صوبوں میں یورپی ممالک کی جانب سے ادائیگی کرکے جان بچانے کا اسکینڈل سامنے آنے پر کچھ خاص ردعمل دکھائی نہیں دیا۔ سب کا یہی خیال ہے کہ جان بچی سو لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے!

واحد سپر پاور ہونے کے باعث امریکہ بہت سے کام نہیں کرسکتا۔ مثلاً وہ طالبان کو پیسے دیکر اپنے فوجیوں کی جاں بخشی نہیں کرواسکتا۔ ایسے کچھ بھی کرنے کی صورت میں کمپنی کی ایسی ”مشہوری“ ہوگی کہ بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا! فی الحال امریکہ سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔

فرانس نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ جو ممالک افغانستان سے جلد از جلد نکل بھاگنے کے موڈ میں ہیں ان کے لیے فرانس نے تحریک کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی اور برطانیہ بھی بہت جلد اس کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دیں گے۔ ان ممالک کے لیے اب مزید قربانی دینا ممکن نہیں۔ اور پھر قربانی کیوں دی جائے جبکہ میلہ تو صرف امریکہ لوٹنا چاہتا ہے! وہ چاہتا ہے کہ سارا کریڈٹ اُسے ملے۔ سارے فیصلے بھی وہ تنہا کر گزرتا ہے۔ اِن فیصلوں کے مابعد اثرات بے چارے یورپ کو بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ کریڈٹ امریکہ خود لے اُڑتا ہے اور ڈِز کریڈٹ سب میں مساوی تقسیم کرتا ہے۔ دُنیا بھر کی نعمتوں سے ہمکنار اقوام اب پُرسُکون زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں مگر امریکہ اُن کے سُکون کی راہ میں حائل ہوچکا ہے۔ سچ ہی تو ہے۔ جن کا اپنا سکون غارت ہوچکا ہو وہ کب دوسروں کا سکون برداشت کرسکتے ہیں! امریکہ چاہتا ہے کہ اُس کی بداعمالیوں کا کاٹھ کباڑ یورپ بھی اُٹھاتا پھرے۔ مگر اب ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ فرانس نے بوریا بستر باندھ کر سب کو راستہ دکھادیا ہے۔ معاملہ صرف یہ تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھتا ہے۔ اب فرانس نے انخلاءکی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ ہی دی ہے تو نکل بھاگنے کے متعدی اور وبائی مرض کو پھیلنے میں دیر نہیں لگے گی!

فرانکوا اولاند نے پیرس کے ایفل ٹاور جیسا بلند و بالا فیصلہ کیا ہے اور امریکہ کی ٹوئن ٹاورز جیسی زمین بوس پالیسیوں کو خیرباد کہتے ہوئے اپنی راہ لی ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ اب یورپ کے تمام ہی ممالک اپنی اپنی راہ لیں اور امریکہ بہادر کو سپر پاور اور جاہ پسند ملک ہونے کی قیمت خود چُکانے کا موقع دیں! طالبان کے لیے یہ بہت اچھا موقع ہے۔ فرانس کے چار فوجی ایک ساتھ لُڑھکا کر انہوں نے پیرس کو پریشان کردیا۔ وہ تھوڑی سی اور ہمت سے کام لیں تو لندن، برلن، روم، کوپن ہیگن اور دوسرے بہت سے یورپی ”کیپٹلز“ میں ہلچل مچے گی اور کیپٹل ازم کو بچانے کے خواہش مند اپنی افواج کو افغانستان سے بہ عجلت نکالنے کے لیے میدان میں آ جائیں گے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525328 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More