مہدی حسن کو اب کہاں پائیں گے ہم

یہ 1993 کا ذکر ہے۔ النور سوسائٹی میں شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی اور یہ پہلی ملاقات ہی بہت کچھ کہہ گئی، سُنا گئی۔ آج وہ نہیں رہے تو بہت کچھ یاد آ رہا ہے۔

جب ہم مہدی حسن صاحب کی نواسی مَہ وش کی رہنمائی میں چوتھی منزل (چھت) پر واقع کمرے میں داخل ہوئے تو خاں صاحب پلنگ پر بیٹھے تھے۔ پلنگ کے نیچے ہاوَن دستہ رکھا ہوا تھا۔ ہم نے حیران ہوکر پوچھا جہاں ہارمونیم، سُر منڈل یا تان پورہ ہونا چاہیے وہاں ہاوَن دستہ کیوں؟ خاصی سُریلی مُسکراہٹ کے ساتھ وضاحت فرمائی ”مجھے حِکمت سے بھی شغف ہے، چھوٹی موٹی ادویہ دیسی جڑی بوٹیوں کی مدد سے گھر ہی پر تیار کرتا ہوں۔“

حیرانی ہوئی کہ ہم تو روح کے دُکھوں کا علاج کرنے والی آواز سے ملنے آئے تھے اور یہاں تو جسمانی دُکھوں کے علاج کی بھی سبیل نظر آگئی! ویسے خاں صاحب بھلے ہی جڑی بوٹیوں کا سہارا لینے کے مُکلّف تھے مگر اُن کے چچا اسمٰعیل خاں مرحوم تو محض گاکر بچوں کے پیٹ کا درد ختم کردیا کرتے تھے!

خاں صاحب کے گھر میں داخل ہوتے ہی کچھ کچھ اندازہ ہوگیا کہ جو شخصیت سُروں کی ترتیب بہت اچھی طرح جانتی ہے وہ زندگی کی ترتیب کے بارے میں زیادہ فکر مند رہنے کی عادی نہیں! بہت کچھ بکھرا ہوا تھا۔ اور خاں صاحب سے مِل کر یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ پورے گھر کا مدار اُن کی شخصیت (یعنی گائیکی سے ہونے والی آمدن) پر ہے! ایک عظیم فنکار کو جب گھر چلانے ہی سے فُرصت نہ ہو تو زندگی میں ترتیب اور نظم کہاں سے آئے گا! یہ سب کچھ ہمارے لیے تھوڑا سا چونکانے والا تھا۔ ہم نے پہلی گفتگو کے دوران خاں صاحب سے اشارتاً کہا کہ آپ جیسی شخصیت کی زندگی میں ترتیب اور نظم کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ہنس کر فرمایا ”سب کو سبھی کچھ نہیں مل جایا کرتا۔ میں گانے سے کام رکھتا ہوں اور یہی میرا کام ہے۔“

خاں صاحب کی باتوں سے صاف اندازہ ہوا کہ وہ شان و شوکت دکھانے اور لوگوں کو مَرعُوب کرنے کے شوقین یا عادی نہ تھے۔ مَرعُوب، بلکہ مَغلُوب کرنے کے لیے اُن کی آواز ہی کافی تھی! وہ جب گاتے تھے تو سُننے والوں کے لیے خاموش رہنا تقریباً لازم ہو جایا کرتا تھا۔

خاں صاحب نے ہمیں صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا اور کسی کام سے کمرے کے باہر گئے۔ واپس آئے تو پلنگ پر بیٹھنے کے بجائے فرش پر بیٹھ گئے۔ ہم بھی صوفے سے اُتر کر نیچے بیٹھے تو کہا ”آپ اوپر ہی بیٹھے رہیں، میں تو فرش پر بیٹھ کر زیادہ سُکون محسوس کرتا ہوں۔“ ہم نے عرض کیا کہ یہ بے ادبی ہوگی کہ ہم اوپر بیٹھے رہیں اور آپ نیچے فرش پر بیٹھیں۔ مگر وہ نہ مانے اور اِصرار کرکے ہمیں صوفے ہی پر براجمان رہنے پر مجبور کیا۔ گفتگو میں لَفّاظی ضرور تھی مگر سادگی نمایاں تھی۔ اُن کی باتوں نے یہ راز کھولا کہ اُنہیں جس قدر شوق گانے کا ہے اُسی قدر شوق بولنے کا بھی ہے۔ اور اُن کی باتوں میں بہت کچھ تھا۔ وہ مختلف زمانوں کا احوال کچھ اِس طرح بیان کرتے تھے کہ پوری تصویر ذہن کے پردے پر نمودار ہو جاتی تھی۔ جب خاں صاحب بول رہے ہوتے تھے تو کہیں کِسی ایک جُملے میں بھی اپنی ذات کو مُقدم رکھنے یا اپنے بڑے ہونے کا تاثر نہیں دیتے تھے۔ یہ وصف و ظرف بھی نصیب والوں کو مِلا کرتا ہے، اور وہ بھی ماں باپ کی دُعاؤں کے صدقے۔

خاں صاحب نے اُس دور میں گانا شروع کیا جب گانا شوق اور پیشے سے کہیں بڑھ کر امتحان تھا۔ گانے کے مواقع کم تھے۔ صرف ریڈیو تھا یا پھر فلم انڈسٹری۔ ریڈیو پر گانے کے لیے سخت مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ بڑی مشکل سے کیٹیگری کا تعین ہوتا تھا اور بُکنگ مِلا کرتی تھی۔ موسیقی کے علم اور فن پر کمال دسترس رکھنے والے ریڈیو کی چھتری تلے جمع تھے جو کسی بھی گانے والے کو بہت چھان پھٹک کر منتخب کرتے تھے۔ غزلوں کا انتخاب بھی خاصا جاں گُسل مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ سامعین بھی پوری توجہ سے سُنا کرتے تھے اِس لیے ہر آرٹسٹ کو بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ ایسے سنگلاخ ماحول میں خاں صاحب نے اپنا آپ منوایا۔ جن دُھنوں کو آج کے عوام تو کیا، فنکار بھی سُن کر آسانی سے ہضم نہیں کرسکتے اُن دُھنوں کو خاں صاحب نے جگر کا خون دیکر تقویت بہم پہنچائی اور دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ عزیز حامد مدنی کی غزل ”تازہ ہوا بہار کی“، میر تقی میر کی غزل ”سبزہ ہے، آبجو ہے“ اور امام بخش ناسخ کی غزل ”دِل میں پوشیدہ تپ عشق بُتاں رکھتے ہیں“ ایسی مشکل دُھنوں میں گائی گئی ہیں کہ آج کی نسل تو مطلع بھی بمشکل ہضم کر پائے گی! ریڈیو پاکستان کے لیے غزل سرائی کرتے ہوئے خاں صاحب نے اساتذہ کی ایسی بہت سی غزلیں گائیں جنہیں دوسرے گلوکار بھاری پتھر سمجھ کر، صرف چوم کر چھوڑ دیا کرتے تھے!

خاں صاحب کے گلے میں سات اور زندگی میں درجنوں سُر تھے۔ جَدّی پُشتی گایک تھے۔ رگوں میں خون کے ساتھ راگ بھی بہا کرتے تھے۔ بات بھی سُر میں کرتے تھے۔ دُنیا اُنہیں ایک معروف غزل گایک کی حیثیت سے جانتی ہے، مگر یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ فن کی دُنیا میں نام کمانے سے قبل اُنہوں نے زندگی کی سرگم کے کومل اور تیور ہر دو طرح کے سُر سُنے اور اُن پر سر بھی دُھنا۔ فن کی دُنیا میں خاں صاحب سولھویں پُشت تھے۔ فن کی دنیا کا بھرم رکھنے کے لیے اُنہوں نے کسی بھی مرحلے پر زندگی کو پیٹھ نہیں دِکھائی۔ اُن کے والد عظیم خاں دُھرپد کے اچھے گایک تھے۔ پاکستان آنے کے بعد تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ سائیکل کی دُکان بھی کھولی اور لکڑی کی ٹال بھی لگائی۔ عظیم خاں کے جس بیٹے کے مقدر میں شہنشاہِ غزل ہونا لکھا تھا اُس نے سائیکلوں کے پنکچر لگائے، ساہیوال کے نزدیک کھیتی باڑی کی اور بعد میں موٹر میکینک کی تربیت پاکر گیراج کھولا۔ بڑی بات یہ ہے کہ اِن تمام مراحل سے گزرنے پر بھی خاں صاحب کے دِل میں فن کی آگ سَرد نہیں پڑی۔ جب گاڑیوں کی مرمت ترک کرکے مائکرو فون کے سامنے کھڑے ہوئے تب بھی حالات کی سختی کم نہ ہوئی۔ یہ دور وہ تھا جس میں بیگم اختر، فریدہ خانم، اُستاد برکت علی خاں، علی بخش ظہور، عنایت حسین بھٹی اور مُنیر حسین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ خاں صاحب ایک مخصوص انداز کے گلوکار تھے اور اِس انداز کو سمجھنے والے بھی کم کم تھے۔ ابتداءمیں آواز پتلی اور جی ایم دُرّانی کی آواز سے مُشابہ تھی! محنتِ شاقّہ سے اُنہوں نے اپنی آواز کو غزل ٹُھمری وغیرہ کے لیے تیار کیا۔ خاں صاحب نے ریڈیو پر ابتدائی سات آٹھ سال اِس طور کام کیا کہ کِسی بڑی کامیابی کا امکان واضح نہ تھا مگر پھر بھی اُن کے حوصلے کی چمک ماند نہیں پڑی۔ فلمی دُنیا میں قدم رکھنے پر بھرپور کامیابی راتوں رات نہیں مِل گئی بلکہ اُنہیں 1956 سے 1963 تک صرف 9 گانے ملے۔ یہ کِسی بھی اعتبار سے حوصلہ افزاءصورت حال نہ تھی مگر خاں صاحب نے کسی بھی مرحلے پر مایوسی کو اپنے وجود اور فن پر طاری نہ ہونے دیا اور اپنے حصے کا کام کرتے رہے۔ کوئی اگر گائیکی سے شغف نہ رکھتا ہو تب بھی خاں صاحب کی زندگی کے مختلف ادوار پر طائرانہ نظر ڈال کر بہت کچھ سیکھ اور پاسکتا ہے۔ ستائش اور صِلے کی پروا کئے بغیر صرف محنت کرتے جانا اور فن کو پروان چڑھاتے رہنا ایسا شوق اور وصف ہے کہ کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے!

نئی نسل ہر معاملے میں تن آسانی کی قائل ہے۔ اُس کے لیے خاں صاحب کی زندگی تحریک بخشنے والی داستان کے مانند ہے۔ اُنہوں نے ہر قدم پر تن آسانی کو روندا اور جو کچھ بھی گایا اُس کا حق ادا کیا۔ عظیم فنکار ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ خاں صاحب کی شکل میں ایک عظیم فنکار ہمارے حصے میں آیا۔ دُکھ اِس بات کا ہے کہ جن میں عظیم فنکار ڈھلا کرتے تھے اب وہ سانچے ہی نہ رہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525318 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More