صُومالیہ کے بارے میں دُنیا
جانتی ہے کہ انتہائی ”شر خیز“ خِطّہ ہے۔ اور صُومالی سمندر، قزاقوں کی
مہربانی سے، اُتنا ہی ”زر خیز“ ہے! علاقائی پانیوں میں صُومالی قزاق کمپنی
کی مشہوری یعنی (بچے کھچے) مُلک کی بدنامی کے لیے کوشاں رہتے ہیں! اِن
قزاقوں کی نگاہِ کرم جس سمندری خِطّے پر پڑے وہ بحر ظلمات میں تبدیل ہو
جاتا ہے! اِن قزاقوں کی مہربانی سے بعض جہاز رانوں کو عالمگیر شہرت بھی مل
جاتی ہے۔ جب اِنہیں تاوان کے لیے پکڑا جاتا ہے تو دُنیا بھر کے میڈیا میں
خبریں چلتی ہیں۔ اور ہمارے ہاں تو قزاقوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے
والوں کو بیٹھے بٹھائے ہیرو بنانے کا رواج سا چل پڑا ہے! قزاقوں کے دم سے
اُن لوگوں کے گھر کا دال دلیہ بھی چل رہا ہے جو تاوان جمع کرنے اور قزاقوں
تک منتقل کرنے کے معاملے میں خدائی فوجدار بن بیٹھے ہیں!
امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے القاعدہ اور دیگر جہادی گروپوں کے رہنماؤں کے
سَر کی قیمت رکھے جانے کا انتقام لینے کی غرض سے صومالیہ میں القاعدہ کے
نام کی لاج رکھنے کے لیے سرگرم الشباب گروپ نے امریکی صدر اور وزیر خارجہ
کے سَر کی قیمت مقرر کی ہے۔ الشباب نے صدر اوبامہ تک رسائی میں مدد دینے
والے کو 10 اونٹ اور ہلیری کلنٹن تک رسائی میں معاونت کرنے پر 10 پالتو
مُرغ اور 10 مُرغیاں دینے کا اعلان کیا ہے!
اوبامہ کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اِس پارٹی کا نشان گدھا ہے۔ شاید
اِس لیے یہ پارٹی مسلمانوں کو ڈرون حملوں کی شکل میں دولتّیاں مار رہی ہیں!
الشباب والے بہت ذہین نکلے۔ وہ اوبامہ کے سَر کی قیمت رکھنے کے لیے گدھوں
کو تو بہر حال استعمال کر نہیں سکتے تھے۔ اِس صورت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے
لیے مُفت میں کمپنی کی مشہوری کا اہتمام ہو جاتا! اور جب گدھے انعام کے لیے
مختص ہو جاتے تو اوبامہ کی انتخابی مہم کون چلاتا؟ ویسے بھی گدھا بہت محنتی
اور خاصا وفادار قسم کا جانور ہے۔ وہ محنت کرنے کے ساتھ ساتھ ظلم بھی سہتا
ہے مگر مالک سے بغاوت نہیں کرتا۔ اُونٹ بھی محنت تو بہت کرتا ہے مگر اُس کا
کینہ بھی مشہور ہے۔ اوبامہ نے بھی مسلمانوں سے کچھ کچھ کینہ پروری والا ہی
معاملہ رکھا ہے اِس لیے اُن کے سَر کی قیمت اُونٹوں کی شکل میں رکھنا زیادہ
حیرت انگیز نہیں!
مرزا تنقید بیگ کو تو بے تاب اور پریشان ہونے کا بہانہ چاہیے۔ اُنہوں نے یہ
خبر پڑھی تو دوڑے چلے آئے۔ ہم سمجھے شاید وہ انعام کی دوڑ میں شریک ہونے کے
لیے بے تاب ہیں۔ اور امریکی صدر کا پتہ بتانے کے لیے اُنہیں 9 اونٹ دینا
مناسب ہوگا کیونکہ اُن کی بھی کوئی کَل سیدھی نہیں! مگر کچھ ہی دیر میں
مرزا نے وضاحت کردی کہ وہ امریکی صدر یا وزیر خارجہ کا پتہ بتاکر اونٹ اور
مُرغیاں انعام میں پانے کے خواہش مند نہیں۔ وہ تو یہ شِکوہ کرنے بیٹھ گئے
کہ الشباب نے انعامات کا اعلان کرتے وقت عہدے کی شان اور وقعت کا بھی خیال
نہ رکھا۔ اوبامہ کا پتہ بتانے پر انعام میں اونٹ دینے کا اعلان مرزا کے
خیال میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ امریکی صدر بھی آج کل اُونٹ کی
طرح بے ڈھنگی چال چل رہے ہیں۔ انتخابی سال ہونے کے باعث وہ اُونٹ کی طرح
جہاں تہاں منہ مار رہے ہیں! اگر ووٹ بینک بڑھنے کا مُژدہ سُنایا جائے تو وہ
اپنے آپ کو بھی کاٹ کھائیں! مرزا کا استدلال ہے کہ امریکی صدر اور اُن کی
متعارف کرائی ہوئی پالیسیوں کی بھی کوئی کَل سیدھی نظر نہیں آتی!
ہلیری کے معاملے میں البتہ مرزا کچھ جذباتی دِکھائی دیئے۔ ہم نے پوچھا
ہلیری پر رکھے جانے والے انعامات کو آپ کِس اعتبار سے نامناسب سمجھتے ہیں؟
مرزا کا بیان تھا ”ہلیری کوئی اور نہیں، واحد سُپر پاور کی وزیر خارجہ ہیں۔
خاتون اول بھی رہ چکی ہیں اور وہ بھی دو مرتبہ۔ یہ تو سراسر ظلم ہے کہ صدر
کے سَر قیمت لگانے کے لیے اُونٹ بروئے کار لائے جائیں اور بے چاری سابق
خاتون اول کو مُرغوں اور مُرغیوں کی ہم پَلّہ قرار دیا جائے یعنی اُونٹ سے
گِرے تو مُرغیوں تک آگئے! سابق خاتون اول اور موجودہ وزیر خارجہ ہونے کے
ناطے ہلیری کا اِتنا تو حق بنتا تھا کہ اُن کے سَر کی قیمت بکروں اور
بکریوں کی شکل میں رکھی جاتی! مسلمانوں کو قربانی کے بکروں کی طرح ٹھکانے
میں آخر کو ہلیری کا بھی نہایت اہم کردار رہا ہے۔“
ہم مرزا سے متفق نہیں۔ اُن کے نزدیک ہلیری کے سَر کی قیمت مُرغوں اور
مُرغیوں کی شکل میں متعین کرنا اِن معصوم جانوروں کی توہین ہو تو ہو، خود
ہلیری کے لیے تو بہرحال فخر کی بات ہے۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے
پڑپوتے اُستاد محبوب نرالے عالم مرحوم نے ایک کتاب ”یہ دُنیا مُرغ دِل“ کے
عنوان سے لکھی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب کوئی ”بُزدِل“ ہوسکتا ہے تو اُس
سے کمزور دِل والا ”مُرغ دِل“ بھی ہوسکتا ہے! ہلیری چونکہ صنفِ نازک سے
تعلق رکھتی ہیں اِس لیے اُن کے سَر کی قیمت مُرغیوں کی شکل میں متعین کرنا
کوئی قابل اعتراض بات نہیں! اوبامہ انتظامیہ کے بھیڑیوں اور سانڈوں کے
درمیان ہلیری ویسے بھی چکن سے بڑھ کر کچھ نہیں!
مرزا کہتے ہیں ”الشباب نے مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے پر اوبامہ اور
ہلیری کی قیمت تو مقرر کردی۔ ذرا مُسلم دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی
سوچیں تاکہ دُنیا کو معلوم ہو کہ اور کون کون سے جانور سَر کی قیمت لگانے
کے لیے استعمال کئے جاسکتے ہیں! اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کے قتل میں
امریکہ کی مدد کرنے والے مسلمانوں کے سَر کی قیمت متعین کرنے کے لیے
جانوروں کا استعمال الشباب کے لیے آسان نہ ہوگا کیونکہ ایسے مسلمانوں خود
بھی حیوانات کی کیٹیگری میں ہیں! واحد سُپر پاور کی لڑکھڑاتی ہوئی طاقت کو
سہارا دینے کے لیے دِل و جان کے ساتھ خدمات پیش کرنے والے میر جعفروں پر
انعام مقرر کرنے کے لیے الشباب جیسے گروپوں کو جانوروں کی دُنیا کا اچھی
طرح جائزہ لینا پڑے گا تاکہ کِسی معصوم جانور کی نیک نامی پر حرف نہ آئے!“
مرزا کی بات سُن کر کچھ دیر کے لیے تو ہم بھی جذباتی ہوگئے۔ پھر جب باتوں
کا سِحر کچھ ٹوٹا تو ہم نے ہمت کرکے عرض کیا کہ اللہ مسلمانوں کو مسلمانوں
ہی کے ذریعے ”رزق“ دے رہا ہے۔ بہت سے مسلمانوں کے گھر میں اُجالا اِسی بات
سے ہے کہ بہت سے دوسرے مسلمانوں کے گھر تاریکیوں میں ڈوب جائیں! یہ امریکہ،
برطانیہ وغیرہ تو بے چارے مُفت میں بدنام ہو رہے ہیں! یہ بات سُن کر مرزا
نے ہمیں یُوں گھور کر دیکھا جیسے کِسی ناگفتہ جانور کی شکل میں ہمارے سَر
کی قیمت کا تعین کر رہے ہوں! |