پاکستان دور حاضر میں ابلاغ عامہ میں اس
قدر بلند ہوچکا ہے کہ اب اس کے روابط براہ راست دنیا سے جا ملے ہیں ، دنیا
کے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پزیر پاکستان کی ابلاغ کو اہمیت کا درجہ
دیتے ہیں یہ مقام اُن مخلص ، دیانتدار، ایماندار اور سچے صحافیوں کی انتھک
محنت کا نتیجہ ہیں جنھوں نے ابلاغ کو عبادت سمجھ کر حقیقی معنوں میں
کارہائے خدمات سر انجام دیئے وہ لوگ نہ کبھی حکمراں کے آگے جھکے اور نہ
آمریت کا خوف رکھا ، ہر دکھ و تکلیف میں صبر اور استقامت کو قائم رکھا ۔
زیادہ وقت کام میں سفر کیا اور بہت کم آرام میں گزارا۔ گھریلی زندگی پر
اثرات تو ہوئے مگر اپنی پیشہ ورانہ خدمات میں حرف تک آنے نہ دیا۔ واحد
لاشریک سے امید رکھی اور انصاف کا دامن جانے نہ دیا۔ تحریر اس طرح قلم بند
کی کہ نا حق کسی کے ساتھ ظالم نہ ہوا اور منصف اس طرح ٹھہرے کہ حقیقی کو
انصاف ملا گویا زندگی مامور تھیں عوامی حقوق و فلاح کیلئے وقت گزرتا گیا ،
حالات تبدیل ہوتے گئے اور اشاعتی ابلاغ کے ساتھ لہروں کی ابلاغ نے جب سے
پاکستان میں دوڑ لگائی اُس وقت سے ایسے گروہ اور منفی سوچ کے مالکوں کا
داخلہ ہوچلا ،جس نے ابلاغ کو اپنے مجرمانہ ذہنیت کیلئے بہترین ذریعہ سمجھا۔
پہلے پہل تو کچھ ایسے سرمایہ کار داخل ہوئے جنھیں نہ ابلاغ سے کوئی وابستگی
تھی اور نہ ملک و قوم سے۔۔۔ کچھ اشاعتی پیپرز اور چینل میں سرمایہ کاری
کرکے ابلاغ کو مغلوب بنانے کی کوششیں کی جانے لگیں اور اسے اپنے کالے دھند
کیلئے استعمال کیا جانا لگا ایسے سرمایہ کاروں کو اپنے جیسے ذہن رکھنے
والوں کا سہارا بھی مل گیا جنھیں ابلاغ سے مال و دولت کا حصول مقصود تھا۔
ان میں اکثر ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کبھی بھی صحافت سے نہ تعلق رہا اور نہ
ہے ان میں کوئی طب سے تعلیم رکھتا ہے تو کوئی اور تعلیم بحرکیف ان میں ایسے
بھی لوگ شامل ہوگئے جن کا کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح رپورٹنگ اور
کالم کاری سے وابستگی رہی ہے ۔۔ ۔۔ وہ لوگ جن کا کبھی بھی صحافت سے تعلق نہ
رہا وہ تو اس شعبہ کو مجرمانہ طور پر فائدے کیلئے اپنائے بیٹھے ہیں اسی
لیئے انہیں کبھی بھی صحافتی اقدار کا خیال تک نہ گزرا لیکن تعجب اور حیرت
کا ملا جلا تاثر صحافتی برادری میں ان لوگوں کیلئے پایا جارہا ہے جن کا نہ
صرف صحافت سے بلکہ صحافتی تنظیموں سے بھی گہرا رشتہ رہا ہے ، یوں تو یہ لوگ
ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والوں کیلئے بڑے بڑے دعوﺅں کرتے تھکتے نظرنہیں
آتے ، کلب کے اجلاس ہوں یا صحافتی الیکشن ان کے نعرﺅں ، دعوﺅں اور تصاویر
سے آویزاں رہتے ہیں بینرز اور پمفلٹ۔!!
سب سے پہلے تو ایسے لوگوں یعنی اینکرز کو صحافتی تنظیموں سے بے دخل کردیا
جائے جن کا صحافت سے تعلق نہیں اور انہیں پابند کردیا جائے کہ وہ صحافت کے
پلیٹ فارم کو استعمال نہ کریں اور وہ صرف اینکر ہی رہیں صحافی بننے کی کوشش
نہ کریں دوسرا وہ گروپ جن کا تعلق صحافت سے رہا ہے اور وہ جن پر صحافتی
جرائم کا الزام عائد کیا ہے وہ اپنے وضاحت عوام اور صحافتی تنظیموں اور
پلیٹ فارم پر واضع سچے ثبوت کے ساتھ پیش کریں بصورت ان کی رکنیت منسوخ کردی
جائیں اور انہیں صحافتی براداری سے بے دخل کردیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ
اداروں کے مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ناجائز عزائم و مقاصد
کیلئے رپورٹرز، بیورو چیف،اینکرز کا استعمال قطعی بند کردیں ،آج کی صحافت
مالکان کی رضا تک محدود رہ گئی ہے ۔ اگر صحافت کو زندہ رکھنا ہے تو سپریم
کورٹ اور پیمرا کو چاہیئے کہ وہ اس مد میں سنجیدگی کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے
قانون پر سختی سے عمل کرائے اور حالیہ دنوں میں جو سازشیں رونما ہوئی ہیں
ان کی منصفانہ تحقیق کرائی جائے جو مجرم ثابت ہو اس کے خلاف تعزیرات
پاکستان کے تحت سزا دی جائے یاد رکھیئے اگر اب بھی اس پر عمل نہ کیا تو آنی
والی نسلوں میں یہ گندہ زہر پیوست ہوجائے گا اور صرف صحافت نام تک محدود رہ
جائی گی۔ ایک اچھی و اعلیٰ قوم ایک بہترین صاف و شفاف صحافت سے ہی عمل پزیر
ہوتی ہے اور ملک بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، یوں تو اسلامی
جمہوریہ پاکستان اس ملک کا نام ہے جو انتہائی پاک و مقدس لکھا جاتا ہے کیا
پاکستان کی روح و زمین بھی ایسی ہی ہے ؟؟تو آج کا پا کستانی کہتا ہے کہ
یہاں کا اانگ انگ ناپید ہوچکا ہے اور جرائم رس بس گیا ہے اسے نچوڑنے کی
ضرورت ہے ایک بڑے آپریشن کے ذریعے ۔۔۔ جس میں پہل بڑی مچھلیوں اور مگر
مچھوں سے کرنا پڑے گا مانا کہ یہ کام بہت مشکل اور دقت انگیز ہے مگر ایک
بار نظام کی درستگی ہمیشہ کیلئے پاک دامنی کا سبب بن سکتی ہے !!چیف جسٹس
اگر سوموٹو لیتے ہیں تو فیصلہ مکمل کیوں نہیں کرتے؟؟ عدلیہ کا اسلام اور
معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے عدلیہ کو بھی چایئے کہ وہ اپنی عزت و
آبرو کیلئے کسی بھی لچک کا مظاہرہ نہ کریں ، ملک و قوم کے حق میں جو بھی
سخت فیصلے کرنے ہوں کرلینا چاہئے اگر عدلیہ کمزور پڑ گئی تو یہ عوام انصاف
کیلئے کہاں دیکھی گی !! خدارا خدارا اس مقدس ادارے کو سیاست اور حرص دولت
سے دور رکھا جائے ایمان اور سچ میں بہت طاقت ہے کیا پاکستانی عدالتوں میں
غریب و مسکین کو انصاف میسر ہے کیا جج حضرات عدلیہ کے نظام سے متفق ہیں یا
وہ بھی سمجھتے ہیں کہ نظام انتہائی فرسودہ و ناکارہ ہے یقینا نظام میں
درستگی و بہتری ہی اچھی ریاست ثابت ہوسکتی ہے اگر ایوان میں جاہل ، جٹ،
گنوار، عیاش، شاطر، فاجر، بد کردار لوگ منتخب ہوکر اپنی خواہشات کی تکمیل
کیلئے قانون سازی کرتے چلے آئیں گے تو ظاہر ہے ظالم، قاتل، رشوت خور ،
لٹیرے، بلیک میلر سر چڑھ کر دوڑیں گے اور پاکستان عزت و آبرو سے خالی نظر
آئے گا !!
کون کریگا سدھار
ہے بس انتظار یا پھر انقلاب
خون کی ندیاں بہیں گی
حق و ناحو میں ہوگی جنگ
رہے گا بعد لال رنگ
معصوم جانیں ہونگیں تنگ |