مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
بھارت اور اُس کے باسیوں میں وہ
تمام خصلتیں بہ درجہ اتم پائی جاتی ہیں جو سُپر پاور بننے کے لیے ناگزیر
سمجھتی جاتی ہیں۔ اگر کوئی ملک سُپر پاور بننا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ اُس
کا کہا اور کیا کسی کی سمجھ میں نہ آئے! برطانیہ، امریکہ اور دیگر بڑی
طاقتوں نے ایسا ہی تو کیا ہے۔ لوگ اِن کی کسی بھی پالیسی کو دو تین عشروں
کے بعد سمجھنے میں کامیاب ہوتے تھے!
قدیم ہندوستان کے عظیم دانشور چانکیہ نے حکومت چلانے کے بہت سے گُر سِکھائے۔
اِن میں ایک یہ بھی ہے کہ جو آپ ہیں اُس سے یکسر مختلف نظر آتے رہیے تاکہ
کوئی آپ کی اصلیت تک آسانی سے نہ پہنچ سکے! بھارتی سیاسی قیادت نے آچاریہ
چانکیہ کی اِس سوچ کو ایسی تندہی سے اپنایا ہے کہ اب عام بھارتی باشندے بھی
چانکیہ کی راہ پر گامزن رہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں! اِسی بات کو لیجیے کہ
معروف بھارتی ایتھلیٹ پنکی پرمانک نے اپنی اور بیرونی حکومتوں کو ایک زمانے
تک دھوکا دیا اور ایشیائی سطح پر گولڈ میڈل بھی حاصل کئے۔ اب یہ بات طشت از
بام ہوئی ہے کہ پنکی پرمانک تو مرد ہے! یعنی کھودا (جھوٹ کا پہاڑ) اور نکلا
بھارتی ایتھلیٹ!
پنکی کو لوگ گلابی سمجھ کر چاہتے رہے مگر وہ تو سیاہی بن کر آنکھوں میں
پھیل گیا۔ اُس نے ملک کی پالیسیوں کا بھرم رکھ لیا۔ 400 میٹرز کی دوڑ میں
گولڈ میڈل جیتنے والی پنکی اِتنی تیزی سے دوڑی کہ جنس کی متعین حُدود سے
بھی آگے نکل گئی اور دوڑنے والی سے دوڑنے والا بن گیا!
پنکی پرمانک پر اُس کی روم پارٹنر نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ دراصل مرد ہے
اور اُس پر مجرمانہ حملے بھی کرتا رہا ہے! پنکی نے اپنی روم پارٹنر سے شادی
کا وعدہ بھی کیا تھا!
بھارت میں فن اور فنکار کی بڑی قدر دانی ہے۔ کیوں نہ ہو، سیاسی قیادت
کلاکاری سے باز نہیں آتیں اور اُن کی دیکھا دیکھی اب پورا معاشرہ کلاکار
ہوچلا ہے۔ سیاسی جماعتیں آئے دن چولے بدلتی ہیں اور ہر بار فن کا نیا نمونہ
پیش کرتی ہیں۔ کانگریس نے ایک زمانے تک دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ تو
مسلمانوں کی بہت ہمدرد ہے۔ دنیا کو اب معلوم ہوسکا ہے کہ مسلم دشمنی میں
کانگریس کسی سے کم نہ تھی۔ یہی حال بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہے جو رنگ بدلنے
اور فنکاری دِکھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جب اپنی غرض ہوتی ہے تو مادہ
بن جاتی ہے اور جب کام نکل جاتا ہے تو نَر بن کر آنکھیں دِکھانے لگتی ہے!
اہل بھارت کو پالیسیوں کے معاملے میں کلاکاری اور فنکاری پہلے وزیر اعظم
پنڈت جواہر لعل نہرو سے ورثے میں ملی ہے۔ آں جہانی جواہر لعل نہرو روزانہ
یوگا کی مشق کیا کرتے تھے۔ وہ شیرشاسن بہت دل جمعی سے کرتے تھے یعنی سَر کے
بل کھڑا ہونا اُنہیں مرغوب تھا۔ رفتہ رفتہ وہ ہر معاملے کو اِسی طرح دیکھنے
لگے۔ اُن کی بیٹی آں جہانی اندرا گاندھی کا بھی یہی حال تھا۔ اُنہیں بھی سب
کچھ الٹا پُلٹا دکھائی دیتا تھا۔ مگر جب ان کے دو سِکھ محافظوں نے معاملات
کو اُلٹی کھوپڑی سے دیکھا تو اندرا گاندھی کو سورگ باش لینا پڑا!
بھارتی معاشرہ بھی نَر اور مادہ کے امتزاج کی عملی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔
اگر کِسی کے بارے میں سوچیے کہ اُس میں شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہے تو کچھ ہی
دنوں میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ شرافت تو خیر اُس میں نہیں تھی مگر حماقت آپ
میں ضرور تھی! پنکی پرمانک نے نے جو کچھ کیا وہ کوئی جرم نہیں کیونکہ
بھارتی معاشرے میں ایسے ہر کرتوت کو اب کلاکاری یعنی فنکاری میں شمار کیا
جاتا ہے! سُنا ہے کہ حکومت نے اُسے ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے پر بارہ
لاکھ اور فلیٹ دیا تھا۔ اب تمام انعامات واپس لینے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ تو
زیادتی ہے۔ ایسی یا ایسے کلاکار کی تو قدر کی جانی چاہیے! بھارت میں تو
کلاکاروں کی قدر ہوتی آئی ہے۔ پنکی نے جو کچھ کیا ہے اس پر تو وہ سَر
آنکھوں پر بٹھائے جانے کے قابل ہے! اگر حکومت چاہے تو اُسے سرکاری پالیسیاں
تیار کرنے کی تربیت دے سکتی ہے۔ پنکی کے قلم سے ایسی پالیسیاں نکلیں گی جو
دِکھنے میں مادہ ہوں گی اور برتنے میں نَر! لوگ آخر تک سمجھ نہیں پائیں گے۔
اور جب معاملہ طشت از بام ہوگا تب اپنا سا منہ لیکر رہ جایا کریں گے!
پنکی کا تعلق شاید کِسی کلاونت گھرانے سے ہے۔ اُس نے اپنی اور بیرونی
حکومتوں کو جس مہارت سے چُونا لگایا اُس پر اُس کا اِتنا حق تو بنتا ہے کہ
مرکزی کابینہ کا حصہ بنایا جائے!
پنکی کی مہربانی ہے کہ اُس نے بالی وُڈ کو ایک اچھی اسٹوری لائن فراہم کی۔
آج کل بالی وُڈ میں اِس ٹائپ کی اسٹوریز بہت مقبول ہو رہی ہیں جن میں بات
کچھ ہو اور آخر تک کچھ اور دِکھائی دے! وینا ملک بالی وُڈ سے جُڑ کر بڑی
اسٹار بن گئی ہے۔ کئی ایک ایسے بھی ہیں جن کی نظر میں وہ ”بڑا“ اسٹار ہے!
ہمیں یہ ڈر ہے کسی دن بگ باس والے یہ کہتے ہوئے عدالت کا رُخ نہ کریں کہ
وینا ملک نے خاتون کا بھیس بدل کر، سُرخی پاؤڈر لگاکر سب کو چُونا لگادیا!
بھارت کی ٹی وی انڈسٹری بھی اب رومال سے کبوتر اور ٹوپی سے انڈا نکالنے کے
فن تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ پنکی نے جو کمال دِکھایا ہے وہ بھارتی ٹی وی
چینلز کے بیشتر ڈراموں میں روزانہ دکھائی دیتا ہے۔ کسی سیریل کی 100 اقساط
پوری ہونے پر ہیرو کو پتہ چلتا ہے کہ اپنے باپ کے جس سخت جان حریف سے وہ
شدید نفرت کرتا آیا ہے دراصل وہی اُس کا باپ ہے! اور مزید 100 اقساط گزرنے
کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ صرف باپ ہی نہیں، اُس کی ماں بھی کوئی اور ہے! اِس
کے بعد کی 100 اقساط میں سارے نقشے کچھ اِس طرح اُلٹ پلٹ جاتے ہیں کہ
ناظرین کبھی اپنے آپ کو دیکھتے ہیں، کبھی اہل خانہ کو اور طرح طرح کے
وسوسوں کی دلدل میں دَھنستے چلے جاتے ہیں! کئی کئی سو اقساط پر مشتمل
ڈراموں کو انگریزی میں شاید اِسی لیے ”سوپ“ کہا جاتا ہے کہ اِن کی کہانی
صابن کی طرح ہاتھ سے پھسلتی رہتی ہے، کِسی مقام پر پکڑائی نہیں دیتی!
اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان رابطے پھر تیز ہوگئے ہیں۔ مذاکرات کے
نئے ادوار ہو رہے ہیں۔ ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔ ہر بات پر آنکھیں بند کرکے
یقین کرلینا دانش مندی کی علامت تو ہرگز نہیں۔ چانکیہ مہاراج کی نیتی
بھارتی قیادت کو بے حد مرغوب ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی معاملے کو ہم پنکی
سمجھ کر خوش ہو رہیں اور بعد میں پتہ چلے کہ پنکی تو مرد تھا! ویسے بھارت
کے پڑوس میں رہتے رہتے تھوڑی بہت کلاکاری تو ہم نے بھی سیکھ ہی لی ہے۔
ہماری وزیر خارجہ کی مردانہ آواز سے مہاراج بھی تھوڑے سے چونکتے تو ہوں گے! |
|