جال۔ در۔ جال قسط 7۔
(ishrat iqbal warsi, mirpurkhas)
جال در جال قسط ۷۔
گُذشتہ سے پیوستہ
فرقان کے خاموش ہُوتے ہی نُعمان گُویا ہُوا۔ دیکھو فرقان تُم دُنیا میں
میرے بہترین دُوست ہُو۔ اور ہم نے کئی برس تک کامیابی سے مشترکہ کاروبار
بھی کیا ہے۔ اگرچہ تمام کاروباری معاملات میں خود ہی سنبھالتا رہا ہُوں۔
اور میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ تُمہیں کاروباری معاملات کے بکھیڑوں میں
نہ گھسیٹوں۔ اور اتنا مجھے بھی یقین ہے کہ تم میری تمام کاروباری سرگرمیوں
سے مطمئین بھی ہُو۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سوچ و افکار میں زمین و
آسمان کے فاصلوں کے مماثل بُعد پیدا ہُوگیا ہے۔ اور اس فاصلے کو ختم کرنا
نہ ہی میرے اختیار میں ہے۔ اور تُمہاری بار بار کی نصیحتوں سے مجھے اندازہ
ہُورہا ہے۔ کہ شائد تُم بھی ان فاصلوں کو مِٹانا نہیں چاہتے۔ لِہذا بہتر
یہی ہُوگا۔ کہ ہم اپنی راہیں جُدا کرلیں۔۔۔۔۔۔۔ چُونکہ ہمارا کاروبار
مشترکہ کاروبار ہے لِہذا ہم دونوں کا اس پر یکساں حق ہے۔۔۔ اسلئے میں چاہتا
ہُوں کہ بجائے مزید بحث میں اُلجھنے کہ ہمیں آپس میں اپنے کاروبار کا
بٹوارہ کرلینا چاہیئے ہمارے پاس ایک فیکٹری ہے۔ جس پر کِچھ قرض کاروباری
لوگوں کا ہے۔ اور کچھ لوگ ہمارے مقروض ہیں اِن تمام معاملات کو سمیٹنا اتنا
آسان نہیں ہے۔ اسکے لئے کافی وقت درکار ہے جبکہ دوسری جانب ہمارے پاس چھ
ایکڑ کا ایک کمرشل پلاٹ ہے جو فیکٹری سے متصل ہے۔ اگر تُم چاہو تو فیکٹری
کے جھمیلوں کو سنبھال لو، اور چاہو تو وہ کمرشل پلاٹ لے لو، میں ایک دوست
کی حیثیت سے تُمہیں پلاٹ لینے کا مشورہ دُونگا۔ کیونکہ فیکٹری کے معاملات
کو سنبھالنا تُمہارے بس کا رُوگ نہیں ہے۔۔۔۔۔ نعمان جتنی آسانی سے علحیدگی
کے فارمولے سُنا رہا تھا۔ اُتنی ہی تکلیف کے آثار فرقان کے بُشرے سے عیاں
ہُوتے جارہے تھے۔
اَب مزید پڑھیئے۔
نعمان نے اپنی گُفتگو ختم کرنے کے بعد گِلاس میں پانی اُنڈیلا اور ایک سانس
میں گِلاس کا پانی پی کر خالی گِلاس ٹیبل پر رکھ کر فرقان کی جانب دیکھا۔
جیسے گُویا وہ اپنی تجویز پر فرقان کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہُو۔ جبکہ
فرقان کے کانوں میں حسان صاحب کی تاکید بازگشت کررہی تھی کہ،، بیٹا جب
انسان غُصہ کی حالت میں ہُوتا ہے۔ تب وہ شرف انسانیت کی معراج سے سفلی
جذبات کی اَتاہ گہرایئوں کا اسیر بن جاتا ہے۔ اور ایسے وقت میں انسان شیطان
کے ہاتھوں میں کٹھ پُتلی کی مانند ہُوتا ہے۔ لِہذا جب کوئی سامع غُصہ کی
حالت میں سماع کررہا ہُو۔ تب اُسے صرف حکمت کی نازک چھڑی سے سمجھانے کی
کوشش کرنا چاہیئے۔ اور وہ بھی اِتنی اِحتیاط کیساتھ کہ اُسے یہ چھڑی ایک
پھول کی مانند محسوس ہُو۔ نا کہ چابک کی طرح دِکھائی دینے لگے۔ اور ایسے
وقت میں کہ جب انسان اپنی اَنَّا اور ضد کے سبب خواہشات کا غُلام بن جائے ۔
تب ہرگز اسے قال اللہ اور قال رسول ﷺ کی اَذاں مت سُنانا۔ کہ خُدانخواستہ
وہ اپنی ہٹ میں حُکم خُدا اور تعلیم مُصطفٰیﷺ سے ہی انکار نہ کر بیٹھے۔
فرقان عجیب مخمصے کا شِکار ہُوگیا تھا۔ ایک طرف نادان دُوست بظاہر حقیر سی
خُواہش کا اظہار کرتے ہُوئے ناسمجھی میں خُدا سے جنگ کرنے نِکلا تھا۔ بلکہ
چاہتا تھا کہ میری اِس جنگ میں تُم بھی شریک حال ہُوجاؤ ۔فرقان نے ایک مزید
کوشش کی۔ اُور اُسے سمجھانے لگاکہ،، میرے یار ہمارے پاس جو کُچھ بھی خُدا
کی مہربانی سے موجود ہے۔ وہ ناصِرف ہمارے لئے بلکہ ہماری اُولادوں کیلئے
بھی کافی ہے۔ پھر ہم کیوں ایسی دلدل میں اُتریں۔ جہاں سے واپسی کی کوئی راہ
سُجھائی نہیں دیتی۔ جہاں سے بغیر توبہ کوئی سلامتی نہیں پاسکا۔ جہاں صِرف
تباہی اور بربادی آنے والوں کا خیر مقدم کرتی ہے۔ یہ بظاہر نفع کا سودا
دِکھائی دیتا ہے لیکن باطن میں خسارہ کے سِوا کُچھ بھی نہیں۔ میرے بھائی یہ
شیطان کا دامِ فریب ہے۔ یہ مکڑی کا جالا ہے۔ جِس طرح مکڑی کے جال میں غِذا
دیکھ کر لالچی مکھی جانے کا راستہ تُو ضرور تلاش کرلیتی ہے مگر باہر نکلنے
کا کوئی رستہ نہیں پاتی۔ اِسی طرح سود کے جال میں جانے کے تُو کئی دلفریب
کُشادہ راستے ہیں۔ لیکن واپسی کیلئے کوئی گُزرگاہ نہیں ہے۔
اور بظاہر خُوش رنگ و خُوش بُو رکھنے والا یہ جام دراصل زِہر قاتل ہے۔
جِسے،، دَبستانِ شر ،،ہمیشہ شریں و لذیز ثابت کرتے ہُوئے پینے کی ترغیب
دِلاتا رَہا ہے۔ جبکہ اللہ کریم کے فرستادہ ،، ہمیشہ سے اِسے ظلم کانِظام
ثابت کرتے چلے ہیں۔ اور اِسکی ہلاکت خیزی کی داستانیں اسقدر ہیں۔ کہ کوئی
بھی ذِی ہُوش اِس جام کی طرف ہاتھ بڑھَانے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ اور
ہر بار لرز کے رِہ جائے گا۔ میرے بھائی اگر اِس نظام میں ذرہ برابر بھی خیر
کے آثار ہُوتے تُو یہ ہمارے لئے حلال کردِیا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
فرقان سانس لینے کیلئے ایک لمحے کو رُکا۔ تب نُعمان نے فرقان کی بات اُچکتے
ہُوئے کہا۔۔۔ یار میں نے تُم سے تُمہارا جواب مانگا تھا۔ لیکن لگتا ہے اُس
پروفیسر کیساتھ رہتے رِہتے تُمہیں بھی ہر بات پر نصیحت کرنے کا عارضہ لاحق
ہُوگیا ہے۔ حالانکہ میں نے تُم سے پہلے ہی کہہ دِیا تھا۔ کہ مجھے اُلجھانے
کی کوشش نہ کرنا۔ اور نہ ہی کوئی نصیحت کرنا کیونکہ میں اپنا اچھا اور
بُرا، نفع و نقصان خوب سمجھتا ہُوں مجھے کاروبار کیسے کرنا ہے۔ یہ بات مجھے
کِسی ایسے اِنسان سے سیکھنے کی بالکل ضرورت نہیں جو خُود مارکیٹنگ کی الف ب
سے بالکل ناآشنا ہُو۔ نعمان نے فرقان پر طنز کرتے ہُوئے کہا۔
کیا جُدائی سے بچنے کا کوئی رستہ باقی نہیں بچَّا۔۔۔۔ فرقان نے ملتجیانہ
لہجے میں استفسار کیا۔
راستہ ہے۔۔۔! بس کاروبار مجھے کرنے دُو اور میں جسطرح کاروبار کرنا چاہوں
تُم اُس میں رُکاوٹ پیدا نہ کرو۔۔۔ نعمان نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔۔۔
میرا مطلب تھا۔ کہ سود سے بچنے کا کوئی دوسرا حل۔۔ فرقان نے وضاحت کرتے
ہُوئے کہا
نہیں۔ کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ نعمان نے بات کو مختصر کرتے ہُوئے کہا۔
فرقان محسوس کررہا تھا۔ جیسے وہ کِسی بند گلی میں آکھڑا ہُوا ہے۔۔۔ تب اُسے
حسان صاحب کا جُملہ یاد آیا کہ،، کہ کبھی کبھار انسان کو ایسا محسوس ہونے
لگتا ہے کہ وہ ایک بند گُلی میں پُہنچ چُکا ہے۔ مگر دراصل اُس بند گُلی کی
دیوار میں ہی رضائے رب کی شاہراہ کا باب موجود ہُوتا ہے۔ جِسے شیطان وقتی
طُور پر نظروں سے اُوجھل کردیتا ہے۔ مگر جب کوئی یقین کامل کے ساتھ اُس
دیوار کی جانب چلنا شروع کردیتا ہے۔ تب شیطان سر میں خاک ڈالتا ہُوا وہاں
سے دفعان ہُوجاتا ہے۔ اور وہ دَر کھل جاتا ہے۔ جِس سے ایک نہیں بلکہ
کامیابیوں کے ہزار راستے دِکھائی دینے لگتے ہیں۔ اور ہر راستہ منزل پر ہی
پُہنچاتا ہے۔
اگر تُہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے تب ٹھیک ہے۔ مجھے تُمہاری
تقسیم منظور ہے۔ جو تُم رکھنا چاہُو۔ وہ اپنے پاس رکھ لو اور جو میرا حِصہ
بنے وہ مجھے دیدو۔ میں نے اپنی کم عِلمی کے باوجود جس قدر جانتا تھا۔
اتمامِ حُجت کے طُور پر سمجھا دیا۔ میں بُہت کم ہمت انسان ہُوں ۔ لوگوں سے
لڑنے کا حُوصلہ خُود میں نہیں پاتا۔ تب کیسے ممکن ہے کہ اللہ کریم اور
اُسکے مدنی محبوب ﷺ کی نافرمانی کا طُوق اپنی گردن میں ڈالوں۔ لہذا بہتر ہے
کہ ہم اپنی راہیں جُدا کرلیں۔ لیکن میرے دُوست مجھے کامِل یقین ہے۔ تُم ایک
نا ایک دن ضرور میری بات کو سمجھ پاؤ گے۔اس وقت مجھ سے غیریت نہ برتنا۔
تمہیں جب بھی اپنی غلطی کا احساس ہُوجائے لُوٹ آنا۔ میرے گھر کے دروازے
تُمہارے لئے ہمیشہ کُھلے رہیں گے۔۔۔۔۔۔!
نعمان شائد تمام تیاری کیساتھ فرقان کی رضامندی کا منتظر تھا۔ اس لئے صرف
ایک ہفتہ کے اندر ہی کاغذات کی منتقلی کا تمام کام پایہ تکمیل کو پُہنچ
گیا۔ فیکٹری نعمان کے نام پر رجسٹرڈ ہُوچُکی تھی۔ جبکہ چھ ایکڑ زمیں کا
ٹکڑا فرقان کے نام منتقل ہُوچُکا تھا۔ چُونکہ فرقان کے پاس ذرائع آمدن کو
کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اسلئے صرف تین ماہ کے اندر ہی فرقان کی تمام جمع
پونجی گھر کے کرایہ اور گھریلو اخراجات کی نذر ہُوگئی۔ چند دِنوں سے فرقان
یہ سوچ سُوچ کر ڈپریشن کا شِکار ہُورہا تھا۔ کہ اب گھر کے اخراجات کس طرح
پُورے ہُونگے۔۔۔۔؟
(جاری ہے)
پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |
|