مسٹ یونیورسٹی کو کرپشن اور اقرباءپروری سے برباد کر نے کا سیکنڈل

آزاد کشمیر میں اعلٰی تعلیمی درسگاہیں بھی کرپشن اور اقرباءپروری کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمرانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قوم کا مستقبل بنانے والے اداروں کو بھی اپنی ناجائز کمائی اور اپنے منظور نظر نااہل افراد کو نوازنے کے لئے بغیر کسی روک ٹوک استعمال کریں۔مسٹ یونیورسٹی میں اس کرپشن اور اقرباءپروری سے مستفید چاہے کوئی بھی حکومتی عہدیدار ہو رہے ہوں لیکن یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے اس کی ذمہ داری صدر آزاد کشمیر پر عائید ہو تی ہے۔مسٹ میر پور میں ہونے والی اس کرپشن اور اقرباءپروری کا سخت نوٹس لینا احتساب بیورو کے علاوہ عدلیہ کے بھی دائرہ کار میں شامل ہے۔چند دن قبل اخبارات میں ’مسٹ یونیورسٹی میر پور ‘ میں کرپشن اور اقرباءپروری کی کئی خبریں شائع ہوئیں جن کے مطابق مسٹ یونیورسٹی میں کرپشن کو ”یکسو“ کرنے کے لئے کرپٹ مافیا نے اپنے پسندیدہ افراد کو یونیورسٹی کے مطلوبہ عہدوں پر خلاف قانون و خلاف ضابطہ متعین کیا ہے۔ ایسی ہی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ”مسٹ یونیورسٹی میں نسان کمپنی اور کمیشن مافیا کا ایکا ، کمیشن کی رقم ریلیز نہ کرنے پر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس فاروق پیرزادہ کو تبدیل کر کے یونیورسٹی رجسٹرارڈ کے بھائی ظفر اقبال جو کہ 19 ویں گریڈ کے افسر اور ڈیپوٹیشن پر یونیورسٹی آئے ہیں، کو بیسویں گریڈ کی پوسٹ پر ڈائریکٹر فنانس لگادیا گیا رجسٹرار خضر الحق اور ظفر اقبال دونوں کا تعلق چوہدری پرویز اشرف کے ضلع سے ہے ۔ تفصیلات کے مطابق کمیشن اور کرپشن مافیا طاقت ور ہوگیا دیانتدار افسر کرپشن کی راہ میں رکاوٹ تھا جس کی وجہ سے اس کا تبادلہ کردیا گیا ہے مسٹ یونیورسٹی میں انسان کمپنی اور کمیشن مافیا کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے کہ یونیورسٹی میں تعینات ڈائریکٹر فنانس فاروق پیرزادہ کو تبدیل کر دیا گیا ہے فاروق پیرزادہ کا قصور یہ تھا اس کے نے کمیشن کی مد میں دس کروڑ کی رقم ریلیز کرنے سے انکار کردیا تھا کیوں کہ اس کا موقف تھا کہ غیر قانونی طریقے سے نسان کمپنی کو نوازنے کے لئے یونیورسٹی کا ٹھیکہ دیا گیا ہے ڈائریکٹر فنانس کمپنی کی پوسٹ پر نئے تعینات ہونے والے ظفر اقبال مسٹ یونیورسٹی کے رجسٹرار خضر الحق کے بھائی ہیں اب کمیشن اور کرپشن مافیا کا کام آسان ہوگیا کیونکہ دو بھائیوں کے ساتھ ساتھ یونیوسٹی کے وائس چانسلر بھی ان کے مطلب کے ہیں اب کسی بھی سمری اور آرڈر پر دستخط کرانا آسان ہوگیا ہے۔ ظفر اقبال ڈیپوٹیشن پر یونیورسٹی آئے ہیں اور وہ گریڈ 19 کے افسر ہیں جبکہ ڈائریکٹر فنانس 20 ویں گریڈ کی پوسٹ ہے۔ یونیورسٹی رجسٹرار اور ان کے بھائی کا تعلق وزیر چوہدری پرویز اشرف کے ضلع سے ہے اس لئے کام مزید آسان ہوگیا ہے کیونکہ پروجیکٹ ڈائریکٹر شجاعت جلیل کو بھی چوہدری پرویز اشرف نے لگوایا ہے ۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کمیشن مافیا نے رقم کے حصول کے لئے کوششیں تیز کر دی ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں احتساب بیورو جاگ نہ جائے ۔“

میر پور یونیورسٹی مسٹ کا قیام یکم جولائی 2009ءکو عمل میں آیاتھا ۔ اس یونیورسٹی کے اغراض ومقاصد اور اس کے اہداف کے تجزیئے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آزادکشمیر کے خطہ میں انجینئرنگ ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق واحد درسگاہ مسٹ انتظامی لحاظ سے اپاہج ہو چکی ہے ۔ یونیورسٹی کے طلباءواساتذہ کرام کی رائے کے مطابق آزادکشمیر کے غریب عوام کے لئے قائم واحد انجینئرنگ یونیورسٹی انتظامی امور بر وقت سر انجام نہ دینے کے باعث اپاہج ہو چکی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی اعلیٰ اسامیوں پر تعینات آفیسران کے پاس انتظامی امور چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔یونیورسٹی انتظامیہ حکومتی وزیروں مشیروں اور اقرباپروری کے دباﺅ میں تمام فیصلہ جات کرتی ہے جس کے باعث انتظامی امورجموداور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔یونیورسٹی میں موجود خالی آسامیوں پر تقرری کےلئے سلیکشن کمیٹیوں اور بورڈز اور سینٹ کی سفارشات حاصل کرنا ضروری ہیں جبکہ جامعہ میں یہ تمام تقرریاں انتظامی احکامات کے تحت عارضی بنیادوںپر عمل میں لائی جارہی ہیں ۔حالیہ سلیکشن بورڈ کےلئے کئے گئے تحریری ٹیسٹ وانٹرویو ہاءکے نتائج خفیہ رکھ کر میرٹ کا قتل کیا گیا ہے ۔یونیورسٹی ملازمین کے الاﺅنسوں اور معاوضہ جات مقرر کرنے یا ان میں اضافہ کرنے کےلئے معاملہ مالیاتی کمیٹی میں پیش ہو کر بذریعہ سنڈیکیٹ وسینٹ منظور ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ جامعہ میں ایسے تمام نئے الاﺅنسز اور ان میں اضافہ جات وائس چانسلر انتظامی احکامات کے ذریعہ انجام دے رہے ہیں ۔یونیورسٹی کے سالانہ ترقیاتی وغیر ترقیاتی میزانیہ جات مالیاتی کمیٹی وسنڈیکیٹ میں پیش کر کے سینٹ کی منظوری حاصل کر کے جاری کیئے جانا ضروری ہیں جبکہ جامعہ میں اس بنیادی قانون قاعدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے ۔ترقیاتی میزانیہ ایک مرتبہ بھی سنڈیکیٹ سینٹ کو پیش نہیں ہوا ۔جبکہ یونیورسٹی نے اس فنڈ کے خلاف کروڑوں روپے کی ادائیگیاں بھی عمل میں لائی ہیں ۔Fund Raising Plans کےلئے کوئی منصوبہ ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی ہے ،جو آرڈیننس کے تحت یونیورسٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی نے فنڈز ریزنگ کےلئے پانچ لاکھ روپے خرچ کر کے صرف دو لاکھ روپے کے فنڈز اکٹھے کئے ہیں ۔یونیورسٹی اپنے بنیادی کام ریسرچ اور ریسرچ کی طباعت کے حوالہ سے کوئی کار کردگی نہیں دکھا سکی ہے جس کی وجہ سے اس کی رینکنگ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں صوبہ بلوچستان سے بھی کم درجہ پر ہے۔مسٹ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ اور سینٹ کا اجلاس سال میں منعقد کرنا ضروری ہے جس پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے اور تمام اہم معاملات انتظامی احکامات کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں ۔آرڈیننس کے مطابق ہر تعلیمی سال کے اختتام سے تین ماہ قبل وائس چانسلر نے گورننگ پارٹی کو سالانہ رپورٹ پیش کرنی ہوتی ہے جو ابھی تک ایک مرتبہ بھی تیار پیش نہیں کی گئی ہے ۔ایمر جنسی کمیٹی کی تشکیل کا معاملہ تین سال سے تعطل میں رکھا ہوا ہے ۔ایڈوانس سٹیڈیز وریسرچ بورڈ ریسرچ منیجمنٹ کونسل فیکلٹی کونسل اور شعبہ جاتی کونسل ہا قائم نہیں کئے گئے ہیں یہ تمام کام فرد واحد کے انتظامی احکامات سے نمپٹائے جارہے ہیں ۔HECفارمولہ کے برعکس مقررہ تعداد سے زائد آسامیوں کو تخلیق کر کے غیر ترقیاتی میزانیہ پر غیر ضروری بوجھ ڈالا جا رہا ہے جو مستقبل میں کسی بھی وقت ایک بڑا مالی بحران پیدا کر سکتا ہے ۔ MP-1 سکیل کی تنخواہ بلا منظوری چانسلر حکومت آزادکشمیر (تعین تنخواہ وشرائط تقرری )یونیورسٹی خزانہ سے حاصل کی جارہی ہے ۔MP-1 سکیل کی تنخواہ حکومتی ملازم کی عدم دستیابی پر کھلی مارکیٹ سے اشتہاری مقابلہ کی بنیاد پر تقرری کی صورت میں ادا کی جاتی ہے ۔ یونیورسٹی کیمپس کے دونوں کیفے ٹیریا کے ٹھیکیداران سے پچھلے دو سال سے عمارت اور بجلی کا کرایہ وصول نہیں کیا جا رہا ہے ۔فیکلٹی آف سائنس کے سیلف فنانس کے تقریباََ 75 طلباءکی ٹیوشن فیس کورس کے اختتام پر عرصہ دو سال بعد کمی عمل میں لائی گئی ہے ۔فیس سے یونیورسٹی کو تقریباََ 10 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔سنڈیکیٹ کی منظوری کے برعکس ایک انتظامی حکم سے موثر بماضی احکامات جاری کر کے بعض طلباءکو یہ مفاد دیا گیا ہے ۔یونیورسٹی میں ڈائریکٹر اسٹیٹ کی تقرری کےلئے مروجہ قواعد کے بر عکس ایک آفیسر کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے اس آفیسر کے خلاف ای اینڈ ڈی قواعد کے تحت جاری کارروائی کو چھ ماہ سے زیر التواء داخل دفتر رکھا گیا ہے ۔آزادجموںوکشمیر یونیورسٹی کے قواعد (جو میر پور یونیورسٹی میں بھی لاگو ہیں )کے تحت ڈائریکٹر اسٹیٹ کو گاڑی کا استحقاق نہیں ہے جبکہ اس آفیسر کو گاڑی بھی الاٹ کی گئی ہے اور اسے آفیسر زربرار بھی بنایا گیا ہے جبکہ کنٹریکٹ ملازم ڈی ڈی او قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس کے بعض تدریسی شعبہ جات میں طلباءطالبات کی تعداد نہایت ہی کم ہونے کے باوجود ان شعبہ جات کو جاری رکھتے ہوئے یونیورسٹی خزانہ پر بوجھ ڈالا جارہا ہے ۔

ایک ریاستی اعلیٰ تعلیمی ادارہ میں دوسرے تعلیمی ادارہ سے ٹرانسفر ہو کر دو حقیقی بھائیوں کا بہت وقت دو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہونا کسی بہت بڑی’ ڈیل‘ کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔کیامسٹ یونیورسٹی میں ان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کیلئے اپنا کوئی افسر یا استاد موجود نہیں تھا جو دو بھائیوں کو ’امپورٹ‘کرنا ناگزیر ہوگیا تھا؟ مسٹ یونیورسٹی کو برباد کرنے کے ان اقدامات کے خلاف سخت اور موثر کاروائی نہ کرنے سے آزاد کشمیر کے اعلی تعلیمی اداروں کے وسائل فروغ تعلیم کے بجائے کرپشن کی نظر ہو جائیں گے اور یونیورسٹیوں میں منظور نظر نااہل افراد کی تعنیاتی کی چلن سے آزادکشمیر کی یونیورسٹیاں بد انتظامی اورکمتر معیار کی علامت بن جائیں گی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699000 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More