ہم نہیں جانتے کہ ذوالفقار مرزا
کا قرآن کا مطالعہ کس قدر وسیع ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ قرآن پر کس قدر
عمل پیرا ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ الطاف حسین نے قرآن کو کس قدر پڑھ
اور سمجھ رکھا ہے، ہمیں نہیں خبر کہ وہ قرآن کے کس پایہ کے مفسر ہیں، ہمیں
یہ بھی علم نہیں کہ وہ اس پر کتنے عامل ہیں ۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ملک
ریاض نے کس گہرائی سے قرآن کا مطالعہ کررکھا ہے، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ
وہ کس قدر قرآنی احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اس لئے ان حضرات اور قرآن کے
درمیان جو رابطہ یاواسطہ ہے اس کے وہ خود ہی شاہد ہیں، اس ضمن میں ہم کچھ
عرض کریں گے تو وہ بدگمانی ہی ہوگی ، بدگمانی بذات خود ایک گناہ ہے۔ قرآن
کو گواہ بنانا کوئی کار آسان نہیں، مگر یہ کام اس ارزانی اورروانی سے ہورہا
ہے گویا معمول کی بات ہے۔ ہم بدگمانی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر کیوں لادیں،
کسی کی نیت پر شک کیوں کریں؟
ہم عام زندگی میں تارک قرآن ہوتے جارہے ہیں، ممکن ہے یہ جملہ کچھ دلوں میں
کانٹے کی طرح چھبے ، مگر حقیقت سے انکار کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوا کرتی،
پہلے گھر گھر میں تلاوت کا رجحان تھا، صبح سویرے بڑے قرآن پڑھتے تو بچوں کو
بھی ترغیب ہوتی تھی، اب یہ سلسلہ ختم نہیں تو بہت کم ہوگیا ہے ، تاہم نئی
نسل کے لئے مدرسے کی تعلیم اور قرآن کو حفظ کرنے کا رجحان ابھی عروج پر ہے،
جو کہ غنیمت سے کم نہیں۔ ہم قرآن نہیں پڑھتے، تو ہمیں اس میں لکھی ہوئی
ہدایات کا علم کیسے ہوگا، ہم جمعةالمبارک کو بھی مسجد میں اس وقت جاتے ہیں
جب عربی خطبہ شروع ہوچکا ہوتا ہے، یوں وہاں سے بھی کوئی قرآنی معلومات حاصل
نہیں ہوپاتیں، جب ہم قرآن ہی نہیں پڑھتے تو ایسی کوئی کتاب کیا پڑھیں گے جس
میں قرآن سے متعلق معلومات ہوں۔
بدگمانی گناہ ہے ، مگر جن تین حضرات کا اوپر ذکر ہوا ہے، ان میں سے کسی کی
ظاہری زندگی ایسی نہیں جسے شریعت یا مذہب کے مطابق کہا جاسکے، (اندر خانے
ایسی کوئی پابندی ہو تو علم نہیں) ذوالفقار مرزا پریس کانفرنس میں قرآن لا
کر اس روایت کے بانی کہلائے، ان کے اس عمل سے ایک تہلکہ سا مچ گیا، چند روز
بعد الطاف حسین نے بھی جوابی پریس کانفرنس داغی، اپنے دلائل کو زیادہ وزنی
بنانے کے لئے انہوں نے بھی قرآن پاک کا سہار الیا، ایسے ایسے طریقے سے قرآن
پا ک کو لہرایا کہ اس سے خود قرآن کی توہین کا پہلو نکلتا تھا، اس کی اپنے
خیال کے مطابق تشریح بھی کی، اور بعد میں اسی پریس کانفرنس میں لہک لہک کر
گانا گانے کی مشق بھی کی۔ اور اب ملک ریاض نے تمام مقتدر طبقوں کو خریدنے
کا فریضہ سرانجام دینے کے بعد ہاتھ میں قرآن اٹھا لیا۔
کیا ملک صاحب کے سارے کاروبار اورتمام معاملات قرآن کی روح اور احکامات سے
مطابقت رکھتے ہیں؟ کیا ان کا بحریہ ٹاؤن کا پورا نظام قرآنی ہدایات کے
مطابق ہے؟ یقینا وہ کھربوں پتی ہونے کے ناتے ”مخیر“ بھی ہونگے، مگر کیا
انہوں نے ہزاروں مقتدر لوگوں کو مختلف ذرائع سے خرید نہیں رکھا؟ کیا یہ
پلاٹ اور بھاری رقوم تحفہ کے طور پر دینا قرآن کے کسی حکم سے اخذ کیا گیا
ہے؟ یا قرآن کوعمل کے لئے نہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس
موقع پر ماہرالقادری کی نظم ”قرآن کی فریاد“ سے دو شعر حسب حال ہیں:
جب قول قسم لینے کے لئے تکرار کی نوبت آتی ہے پھر میری ضرورت پڑتی ہے،
ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے یوں بھی مجھے رسوا کرتے
ہیں ، یوں بھی ستایا جاتا ہوں- |