ہم کو اِک شخص یاد آئے گا

ایک زمانہ شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں مرحوم کا دیوانہ ہے۔ کون ہے جو اُن کی آواز سُنے اور متاثر نہ ہو۔ یہ کِسی اِنسان کے بس کی تو بات نہیں۔ پتھروں کی البتہ اور بات ہے! مرزا تفصیل بیگ سے ہماری دیرینہ رفاقت ہے۔ اُن کی جو چند باتیں ہمیں پسند ہیں اُن میں خاں صاحب کے فن کا دلدادہ ہونا بھی شامل ہے۔ خاں صاحب کے حوالے سے مرزا نے ہمیشہ میرزا نوشہ کے کہے پر عمل کیا ہے یعنی
ہم سُخن فہم ہیں، غالب کے طرف دار نہیں!

13 جون کو جب خاں صاحب اِس دار فانی سے رُخصت ہوئے تو مرزا کو اُداسی نے گھیر لیا۔ ہم نے مرزا کو اِس قدر اُداس کم دیکھا ہے۔ اِتنے بڑے فنکار کے جانے پر کبیدہ خاطر ہونا فطری امر ہے۔ ہم نے مرزا کو خاں صاحب کا پُرسہ دیا تو آب دیدہ ہوگئے۔ یہ بہت عجیب لمحہ تھا کیونکہ مرزا تو دوسروں کو آنسو بہانے پر مجبور کرتے آئے ہیں! لاکھ کوشش کے باوجود ہم مرزا کے آنسوؤں پر کوئی ایسا ویسا تبصرہ نہ کرسکے کیونکہ دِل تو ہمارا بھی اُداس تھا!

مرزا کو خاں صاحب کے چلے جانے کا دُکھ ضرور تھا مگر اِس سے زیادہ دُکھ اِس بات کا تھا کہ دنیا سے ان کے رخصت ہونے کا منظر کچھ ایسا یادگار نہ تھا۔ ایک عظیم فنکار کی زندگی کا ہر لمحہ اور بالخصوص آخری لمحہ بھی یادگار اور شاندار ہونا چاہیے۔ خاں صاحب کی شاندار زندگی کا آخری دور کِسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ شاندار قرار دیا جاسکے۔

مرزا کا خیال ہے کہ خاں صاحب کو مُلک میں وہی مقام ملا جس کے وہ مستحق تھے۔”خاں صاحب کی جیسی قدر دانی ہم نے کی، کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ وہ جس قدر جاں فشانی سے گاتے تھے اُتنی ہی توجہ، دلچسپی اور لگن سے لوگ اُنہیں سُنتے بھی تھے۔ پاکستانی قوم پر کوئی بھی یہ الزام عائد نہیں کرسکتا کہ اُس نے خاں صاحب کو پہچاننے میں غلطی کی یا قدر دانی میں کوئی کسر اُٹھا رکھی!“

ہم نے عرض کیا خاں صاحب کو زندگی کے آخری ایّام شدید پریشانی کے عالم میں گزارنا پڑے۔ کون نہیں جانتا کہ جس کی آواز ایک زمانے کا دِل لُبھاتی تھی وہ قوتِ گویائی سے بھی محروم ہوگیا! مرزا نے کمال شفقت سے فرمایا ”بھائی! یہ تو عمر کا تقاضا تھا۔ زندگی بھر سخت محنت کی تھی تو بڑھاپے میں تھکن بھی بڑھ گئی۔ جس قدر محنت خاں صاحب نے اُس کا عشر عشیر بھی اب کوئی نہ کر پائے گا۔ اور شاید اِس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ راتوں رات شہرت اور دولت مل جاتی ہے۔ اور جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو عزت خریدنے میں کون سا وقت لگتا ہے؟“

خاں صاحب سے ہمارا تعلق شوق کی حد تک رہا ہے۔ صوتی آلودگی سے دوچار اِس دور میں جو لوگ کوئی ڈھنگ کی چیز سُننا چاہتے ہیں وہ یقینی طور پر خاں صاحب اور اُن کے قبیل کے دیگر گانے والوں کو سُن کر ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ ہم بھی خاں صاحب کو ساڑھے تین عشروں سے سُنتے آئے ہیں۔ اِس دوران اُن کے فن نے اِس قدر متاثر کیا ہے کہ اب اُن کے بارے میں کوئی بھی ایسی ویسی بات یا حرکت برداشت اور ہضم نہیں ہو پاتی۔ ایک عظیم فنکار کی زندگی کا آخری دور سراسر غیر فنکارانہ ہو، یہ بات ہمارے حلق سے اب تک نہیں اُتری۔

مرزا کہتے ہیں ”خاں صاحب کے فن میں اِتنی گہرائی ہے کہ اُن کے ساتھ برسوں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے والے بھی اُنہیں اچھی طرح سمجھنے میں ناکام رہے۔ جب وہ پورے موڈ میں ہوتے تھے تو مائکرو فون کے سامنے اُن کا کچھ اور ہی عالم ہوتا تھا۔ ویسے تو وہ ہر آئٹم ہی پر محنت کرتے تھے اور دل جمعی سے گاتے تھے مگر جب وہ کِسی غزل کو کچھ کا کچھ بنانے پر آتے تھے تو سامعین دِل تھام کر رہ جاتے تھے۔ خاں صاحب نے فن کی جتنی خدمت کی ہے، کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔“

ہم نے احترام کے ساتھ عرض کیا حکومت کو خاں صاحب کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ نہیں کیا گیا۔ اگر ان کے علاج پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی تو وہ یقینی طور پر اپنے آخری دور میں زیادہ تمکنت کے ساتھ وقت گزارتے۔ یہ سُن کر مرزا غُصّے کے مارے تقریباً مشتعل ہوگئے۔ غضب ناک سُروں میں فرمایا ”کیا بات کرتے ہو؟ حکومت نے اُن کی قدر دانی اور معاونت میں کون سی کسر اُٹھا رکھی؟ پاکستان کی حکومت پر خاں صاحب کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرنا نِری کم ظرفی ہے۔ پاکستان میں جن کی ناقدری ہوتی ہے وہ بھی کبھی کوئی شِکوہ نہیں کرتے، بس آنسو پی کر چُپ رہتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ خاں صاحب کو اُن کا جائز مقام نہیں ملا تو وہ سراسر جھوٹ بولتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خاں صاحب کے لیے ہر صاحب نظر نے دِل کے دروازے کھول دیئے۔ گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران علاج کے نام پر جتنی اُن کی مدد کی گئی اُتنی کِسی اور فنکار کی نہیں کی گئی۔“

مرزا کی بات سے عدم اتفاق ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خاں صاحب کے علاج کے لیے معاونت میں حکومت نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ہم نے ایک بار پھر نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا کہ خاں صاحب جیسے فنکار کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا، کم تھا۔ اُن کی مدد کرکے حکومت نے کوئی احسان نہیں کیا۔

مرزا نے ایک بار پھر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے فرمایا ”تمہاری بات درست ہے کہ اُن کے لیے جو کیا جاتا وہ کم تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اُنہیں کِس چیز کی ضرورت تھی؟ علاج کے نام پر جو خطیر رقوم اُنہیں دی جاتی رہیں وہ کب اُن کے کام آسکیں؟ اُنہیں کوئی بیماری تھی ہی کب؟ بُڑھاپا، بلکہ شدید بُڑھاپا تھا اور تم جانتے ہو کہ بُڑھاپا بجائے خود بیماری ہے۔ سات آٹھ سال قبل فالج ہوا تھا۔ فالج کا علاج کب ہوسکا ہے۔ جس پر فالج کا حملہ ہو، علاج سے زیادہ اُس کی خدمت کی جاتی ہے۔ خاں صاحب کو خدمت کی ضرورت تھی۔ اُن کی خدمت اولاد پر فرض تھی۔ یہ فرض اُس نے خوب ادا کیا اور حکومت سے جزاءپائی! ایک زمانہ تھا کہ خاں صاحب اپنے فن کی رائلٹی پایا کرتے تھے۔ اُن کی اولاد خوش نصیب ہے کہ باپ کی صورت میں خاں صاحب جیسی ہستی ملی جس کے فن کے ساتھ ساتھ وجود کی بھی رائلٹی حاصل ہوتی رہی! جب بھی خاں صاحب ذرا سی تکلیف محسوس کرتے تھے، خدمت میں اضافے کے ساتھ حکومت سے رابطہ قائم کرنا بھی فرض سمجھا جاتا تھا تاکہ خدمت اور محنت کا پورا صِلہ وصول کیا جاسکے۔ خدمت کا ایسا انوکھا کیس پہلے کبھی دیکھا نہ سُنا۔“

ہم نے محسوس کیا کہ جتنی مِٹھاس خاں صاحب کی آواز میں ہے اُس سے کہیں زیادہ تلخی اُن کا تذکرہ کرتے وقت مرزا کے لہجے میں در آئی! جسے بھی خاں صاحب سے محبت ہے وہ اُن کے آخری دور کو یاد کرکے اپنے مزاج اور لہجے میں تلخی ہی محسوس کرے گا۔
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے!

مرزا کو اِس بات کا شدید دُکھ ہے کہ خاں صاحب نے جتنی محنت سُروں پر کی اُس کے عشر عشیر کے مساوی بھی اولاد پر نہ کرسکے! خاں صاحب سُریلے پن کی انتہا تھے مگر اُن کا گھرانہ اِس معاملے میں اُن کا ساتھ نہ دے سکا۔ خاں صاحب کثیر العیال تھے۔ اُنہوں نے سوگواروں میں 9 بیٹے اور 5 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ خاں صاحب راجستھان کے ”کلاونت“ گھرانے کی سولھویں پُشت تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کے گھرانے کا فن اُنہی پر ختم ہوگیا ہے۔ اُن کی اولاد میں کوئی ایک بھی ایسا دِکھائی نہیں دیتا جو اُن کے نام اور فن کی تھوڑی بہت بھی لاج رکھ سکے۔ جس قدر محنت خاں صاحب نے کی اُس کا پانچ فیصد بھی اُن کی اولاد کر پائے تو بڑی بات ہوگی۔ اب تک تو خاں صاحب کی اولاد پیٹ کی آگ بُجھانے کے لیے اُن کے نام کا سہارا لیتی آئی ہے۔ خاں صاحب کی زندگی میں ہمارے لیے بہت سے مُحرّکات ہیں۔ اُن کا سُریلا پن ہمارے دِلوں کو لُبھاتا اور گرماتا رہے گا۔ مگر معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ گھریلو محاذ پر اُن کا زیادہ کامیاب نہ رہنا اور کِسی بھی بیٹے کو بڑے کیریئر کے لیے تیار کرنے میں ناکام رہنا بھی ایسی بات نہیں جسے آسانی سے بُھلا دیا جائے! یہ تلخ حقیقت ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ زندہ رہنے اور نام کمانے کے لیے کِسی فن میں مہارت حاصل کرنا شرط ہے مگر فن کی چوکھٹ پر سبھی کچھ قربان کردینا اور اپنا آخری وقت کٹھنائیوں کی نذر کردینا کِسی بھی اعتبار سے نفع کا سودا نہیں۔ زندگی ہم سے ہر معاملے میں سُریلے پن کا تقاضا کرتی ہے۔ اپنے شعبے اور فن کا شہنشاہ ہونا فخر کی بات سہی مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ زندگی بھر کیا ہے اُس سے عمر کا آخری حصہ پُرسُکون گزر سکے گا یا نہیں۔ خاں صاحب ہمارے دِلوں میں زندہ رہیں گے مگر اے کاش! اُن کی زندگی کا آخری حصہ بھی سُریلا گزرا ہوتا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484282 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More