عامِل کامِل اور ابو شامل قسط 8

گُذشتہ سے پیوستہ۔

کامِل نے جب یہ دیکھا کہ نرگس اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہُونے کو تیار نہیں ہے تو اُس نے نرگس کی کلائی اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہُوئے کہا۔ضروری نہیں ہے کہ جس سے مُحبت کی جائے۔ اُسکا سارے زمانے میں چرچا بھی کیا جائے۔ میں کل بھی تُم سے مُحبت کرتا تھا۔ آج بھی کرتا ہُوں اور ہمیشہ کرتا رہونگا۔لیکن اس وقت تُمہیں اپنے گھر جانا چاہیئے۔ یہ کہتے ہُوئے کامل نرگس کی کلائی تھامے اُسے اُسکی چھت تک لے آیا۔

لیکن نرگس اب بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ ایسا محسوس ہُورہا تھا۔ جیسے وہ آج تہیہ کر کے نِکلی ہُو کہ کامل کی زُبان سے اپنے لئے ڈھیروں محبت بھری باتیں سُنے بغیر اور بے شُمار عہد وپیمان کئے بِنا واپس نہیں پلٹے گی۔۔۔ مجبوراً نرگس کا ہاتھ تھامے کامل اسے اُسکے گھر کی چھت پر دھکیلنے لگا۔ ابھی یہ کشمکش جاری تھی۔ کہ چاچا ارشد کی کانپتی ہُوئی آواز نے کامل کے رہے سہے اوسان بھی خطا کرڈالے۔

اَب مزید پڑھیئے۔

کامل نے بُوکھلا کر زینے کی جانب دیکھا تُو چاچا ارشد غصہ کی شِدت کی وجہ سے کپکپا رہے تھے۔ نرگِس چاچا ارشد کو دیکھتے ہی بُوکھلا کر بھاگتے ہُوئے زینے سے نیچے اُتر گئی۔ جبکہ کامِل چاچا ارشد کی غلط فہمی دُور کرنے کیلئے جونہی چاچا ارشد کے نزدیک پُہنچا۔۔۔ چاچا ارشد نے ہُونٹوں پر انگلی رکھتے ہُوئے اُسے خاموش رہنے کا اِشارہ کرتے ہُوئے کہا۔ میں نے سُوچا تھا کہ تُم یتیم و تنہا ہو۔ میرے گھر آنے جانے سے تُمہیں اپنے والدین کی کمی مِحسوس نہیں ہُوگی۔لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا۔ کہ تُم آستین کا سانپ ثابت ہوگے۔ میں بھی کتنا بے وقوف تھا۔ جو تُمہارے ساتھ نرگِس کو بیاہنے چلا تھا۔ کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ تُمہاری رَگوں میں میں کسی ذلیل اِنسان کا خُون دُوڑ رہا ہے۔ مجھے آج یہ مِحسوس ہُورہا ہے کہ تُم میرے نیک پڑوسیوں کی اولاد ہی نہیں ہُو۔ وہ شائد تُمہیں کِسی کچرے کے ڈھیر سے اُٹھا لائے ہُونگے۔ تبھی تُم نے اتنی زلیل اور اُوچھی حرکت کرڈالی۔ کہ جِس تھالی میں کھا رہے تھے۔ اُسی میں اپنے وجود کی گندگی ڈالنا چاہتے تھے۔

دفع ہُوجاؤ میری نظروں سے اور آج کے بعد میرے گھر کے نزدیک بھی نظر نہیں آنا۔ میرا دِل تُو چاہتا ہے کہ تجھے ابھی اور اِسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کرڈالوں لیکن میں اپنی عزت کی وجہ سے مجبور ہُوں۔ اور میں اپنی بچی کا تماشہ نہیں بنانا چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔ چاچا ارشد نے دھیمے مگر غُراتے ہوئے لہجے میں کامل کو مخاطب کرتے ہُوئے اپنے داہنے ہاتھ سے اُسے دفعان ہُونے کا اِشارہ دِیا۔

کامل نے اپنی صفائی میں کُچھ کہنے کیلئے اپنے ہُونٹوں کو جُنبش دینے کی کوشش ہی کی تھی کہ ،، چاچا ارشد نے اپنے توانا ہاتھ سے کامل کی گردن دبوچ لی اور کامل کو ایک مرتبہ پھر خاموش رہنے کا اِشارہ دیتے ہُوئے کہا۔ مجھے نہ تیری کوئی گھٹیا دلیل سننے کی خواہش ہے اور میں نہ ہی تیرے گندے وجود کو ایک لمحے کیلئے بھی یہاں برداشت کرسکتا ہُوں۔ اسلئے تیری بہتری اِسی بات میں ہے کہ تُو خاموشی سے نیچے دفع ہُوجا۔ اتنا کہنے کے بعد چاچا ارشد نے اپنے ہاتھوں سے کامل کی گردن آزاد کرتے ہُوئے اُسے دھکا دیا۔ اور خُود بھی اپنے زینے کی سیڑھیوں سے نیچے اُتر گئے۔

تمام رات کامل ذِلت کے احساس اور اپنے نیک والدین کیلئے چاچا ارشد کی زُبان سے نِکلے مغلِظات کے متعلق سوچ سُوچ کر سسکتا رَہا۔ کم از کم چاچا ارشد کو اُسے ایک موقع تو دینا ہی چاہیئے تھا۔ تاکہ وہ اپنی صفائی دینے کیساتھ اپنی بیگُناہی ثابت کرسکتا۔ اگرچہ حالات اور مشاہدات سے جو غلط فہمی چاچا ارشد کو پیش آئی تھی۔ کامِل اس غلط فہمی کے عوض اپنے لئے چاچا ارشد کی ہر ایک سزا برداشت کرسکتا تھا۔ کیونکہ چاچا ارشد کے کامِل پر احسانات اسقدر تھے۔ کہ جنکی قیمت شائد کامل کبھی بھی نہ چُکا پاتا۔ ابا کے انتقال کے بعد ایک وہی تُو تھے جنکی وجہ سے اُنہیں ہمیشہ حوصلہ اور ڈھارس مِلا کرتی تھی ۔ لیکن جسطرح چاچا ارشد نے حقیقت کا اِدراک کئے بغیر اُسکے نیک سیرت والدین کو لپیٹا تھا۔ یہ چاچا نے بالکل اچھا نہیں کیا۔ یہ ایک ایسا زَخم ہے جو شائد تمام زِندگی مندمل نہ ہُو۔ اسطرح کی سوچُوں کے ساتھ کامل جاگتا رَہا یہاں تک کہ صبح ہُوگئی۔

فجر کی نماز کامل نے گھر ہی میں اَدا کی۔ نماز کے بعد وہ کافی وقت سجدے میں پڑا اللہ کریم کی بارگاہ میں گِڑگِڑاتا رہا اور دُعا کرتا رہا کہ چاچا ارشد کی غلط فہمی دُور ہُوجائے۔ اور چاچا ارشد نرگس اور اسکی راہ میں دیوار بن کر کھڑے نہ ہُوں۔ کیونکہ نرگِس کے بغیر زندگی گُزارنا میرے بس کی بات نہیں۔ میں نرگس کے بغیر نہیں جی پاؤں گا۔ وہ سجدے میں رُوئے چلا جارہا تھا۔ جسکی وجہ سے اُسکی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر مصلے کو بِھگوئے چلے جارہے تھے۔ مگر اُسکے دِل کی بیقراری میں کمی واقع نہ ہُوسکی۔

نجانے کامل کو اِسی حالت میں پڑے کتنی ہی گھڑیاں بیت گئیں۔ وہ شائد اِس بیخُودی کے عالم میں نجانے مزید کتنا وقت پڑا رِہتا۔ کہ دروازے پر پڑنے والی مسلسل دستک نے کامل کو اِس بیخودی کی حالت سے نِکلنے میں مدد فراہم کی۔ کامل نے آنکھیں صاف کرنے کے بعد جب دروازہ کھولا تو سامنے اُستاد رشید کھڑے نظر آئے۔ اُستاد رشید نے کامل کی سُوجھی آنکھوں کو دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔ شہزادے خیریت تُو ہے۔۔؟ کیا ساری رات جاگتے اور رُوتے ہُوئے گُزاری ہے۔۔۔ نہیں اُستاد ایسی تُو کوئی بات نہیں ہے۔ کامل نے پھیکی سی مسکراہٹ چہرے پہ سجانے کی کوشش کی۔

یار میں تُو اس واسطے تیرے پاس سویرے سویرے آیا تھا تاکہ تجھے چابیاں دیکر دُکان بھیج دُوں۔ کیونکہ مجھے شہر سے باہر جانا تھا۔ لیکن یہاں تُو تیری اپنی حالت ہی نازک نظر آتی ہے۔ اور میرے خیال میں تُونے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا ہے۔ ایسا کر ہاتھ مُنہ دھولے۔ ساتھ ہی ناشتہ کریں گے اور ساتھ ساتھ دوچار باتیں بھی کرلیں گے۔ اُستاد رشید نے شفقت سے کامل کا شانہ تھپتھپاتے ہُوئے کہا۔

ہوٹل کے ایک پرسکون گُوشے میں بیٹھ کر کامل نے ناشتہ کے دوران اُستاد عبدالرشید کو مختصراً اپنی تمام کہانی، چاچا ارشد کے احسانات ، اور رات کا واقعہ بھی سُنا ڈالا ۔ اُستاد عبدالرشید نے تمام واقعات سُننے کے بعد فی الحال بیرونِ شہر جانے کا اِرادہ ملتوی کردِیا۔ اور کامل کو ڈھارس بندھائی کہ ارشد بھائی کے ساتھ میرے بُہت اچھے تعلقات ہیں۔ اور میں ضرور چاچا ارشد کی تمام غلط فہمیاں دُور کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔۔۔۔۔! ناشتہ سے فارغ ہُوکر اُستاد عبدالرشید نے کامل کو گھر چھوڑ دِیا تاکہ وہ اپنی نیند پُوری کرکے پُرسکون ہُوجائے۔ اور اُستاد عبدالرشید خود دُکان چلے گئے۔

اُستاد عبدالرشید کی تسلیوں کے باعث کامل کو بستر پہ دراز ہوتے ہی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اور عصر کی نماز سے قبل ہی اُسکی آنکھ کُھلی۔ ظُہر اور عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد کامل نے لِباس تبدیل کیا۔ اور اُستاد سے مُلاقات کیلئے دُکان پر پُہنچ گیا۔ وہ دُکان کے قریب پہنچا تو چاچا ارشد دُکان سے نِکل رہے تھے۔ کامل میں فی الحال چاچا ارشد سے آنکھ مِلانے کی ہمت نہیں تھی۔ اسلئے وہ چہرہ پھیر کر دوسری طرف متوجہ ہُوگیا۔ چند لمحوں بعد اُس نے کن اَنکھیوں سے دیکھا تُو چاچا ارشد اپنی بائیک پر سوار کافی دُور نِکل چُکے تھے۔

کامِل دھڑکتے دِل اور بُہت سی اچھی اُمیدوں کیساتھ دُکان میں داخل ہُوا۔ منشی نے بتایا کہ اُستاد عبدالرشید آفس میں موجود ہیں۔ اُستاد عبدالرشد کی دُکان تقریباً ڈیڑھ ایکڑ کے رقبہ پر قائم تھی۔ جس میں بلڈنگ میٹیریل کا تمام سامان بڑے قرینے سے رکھا جاتا تھا۔ اور دُکان کے آخری سرے پر اُستاد کا آفس قائم تھا۔ کامل نے جلدی جلدی چلتے ہُوئے یہ فاصلہ طے کیا اور اُستاد کے آفس کے دروازے پر پُہنچ کر دستک دینے ہی لگا تھا۔ کہ اُستاد عبدالرشید نے خُود آواز دیکر اُسے اندر بُلا لیا۔

اُستاد کے پژمُردہ چہرے پر نِگاہ پڑتے ہی کامِل کا دِل ہول کھانے لگا۔ اُسکا دِل گواہی دے رہا تھا کہ ضرور کُچھ نہ کُچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔ صبح کامل کو حُوصلہ دیتے ہُوئے جو اعتماد اُستاد رشید کے چہرے سے ظاہر تھا۔ وہ اعتماد و اطمینان اب مفقود نظر آرہا تھا۔

کامل کے تمام خدشات بالکل صحیح ثابت ہُوئے تھے۔ چاچا ارشد نے اُستاد عبدالرشید کی کِسی بھی دلیل کو نہیں مانا۔ بلکہ وہ اُستاد پر الگ برہم ہُوئے تھے کہ اُستاد عبدالرشید اُسکے گھریلو معملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ اور وہ اب کِسی بھی قیمت پر بھی نرگس کا رشتہ کامل سے برقرار نہیں رکھنا چاہتے۔ چاچا ارشد نے اِس کے عِلاوہ نجانے اُستاد عبدالرشید سے ایسی کونسی بات کہدی تھی کہ وہی اُستاد رشید جنہیں مکمل یقین تھا کہ وہ تمام معاملات کو سنبھال لیں گے۔ اب صِرف کامل سے ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ کامل چند دِنوں کیلئے اپنا موروثی گھر چھوڑ کر اپنی رِہائش اُستاد کے گھر منتقل کردے۔ کامل ابتدا میں اِنکار کرتا رہا۔ لیکن اُستاد کی مسلسل درخواست کو وہ نہیں ٹال سکا۔ اور مجبوراً اُس نے اپنی رہائش منتقل کرلی البتہ اُس نے اُستاد کے گھر میں سکونت کے بجائے آفس سے ملحق کوٹھری کو آباد کرنے پر ترجیح دی۔ جِسے کُچھ پس و پیش کے بعد اُستاد نے بھی قبول کرلیا۔

کامل کو اگرچہ یہاں اُستاد نے بے تحاشہ سہولتیں فراہم کردی تھیں۔ لیکن تین ماہ گُزرنے کے باوجود بھی وہ اَمَّاں کے گھر کو نہیں بُھلاپایا تھا۔ اُسکا بس چلتا تو وہ ایکد ِن کیلئے بھی یہاں نہ رِہتا۔ لیکن اُستاد کی دِل شکنی کا سُوچ کر وہ ہمیشہ خاموش ہُوجایا کرتا تھا۔

لیکن ایک دِن ہمت کر کے اُس نے اُستاد عبدالرشید سے دِل کی بات کہہ ہی ڈالی کہ وہ اب مزید یہاں نہیں رِہنا چاہتا۔ کیونکہ اُسے اَماں کے گھر اور نرگِس کی بُہت یاد آتی ہے۔ اور اب تُو وقت گُزرنے کیساتھ چاچا ارشد کا غُصہ بھی ٹھنڈا پڑ چُکا ہوگا۔ شائد اُنکے دِل کا غبار بھی وقت کی بارش نے دُھو ڈالا ہُو۔ میں اُنکے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لُونگا۔ ہُوسکتا ہے کہ وہ مجھے نہ صِرف مُعاف کردیں بلکہ خُوش ہُوکر نرگس کیساتھ میرے ٹُوٹے رِشتے کو پھر سے جُوڑ دیں۔ کامِل کے چہرے پر آخری جُملہ ادا کرتے ہُوئے اُمیدِ سحر کے کئی رنگ نمودار ہُوگئے۔

اِسکا مطلب ہے تُم اب تک تمام معاملہ سے بے خبر ہُو۔۔۔۔اُستادعبدالرشید نے کامل کے چہرے کا جائزہ لیتے ہُوئے کہا۔۔۔!

بے خبر۔۔۔۔ مگر کس معاملے میں اُستاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامِل نے حیرت سے استفسار کرتے ہُوئے کہا۔

اُس دِن جب نرگس کے ابَّا جب میرے آفس آئے تھے۔ تب وہ بُہت غصے میں تھے۔ میں نے اُنہیں بُہت سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیں مانے تھے۔ میرا خیال تھا کہ دوسری مُلاقات میں اُنہیں قائل کرلونگا۔ لیکن اُنہوں نے جاتے جاتے مجھے سے ایک جُملہ کہا تھا۔ جسکی وجہ سے میں بُہت پریشان ہُوگیا تھا۔ اور تُمہیں فوراً اپنے پاس لے آیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک مہینے میں سادگی سے نرگس کی شادی کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ اور اگر کامل یا کِسی اور شخص نے اِس شادی میں مُداخلت کی کوشش کی تو وہ اُسے قتل کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ اور اُس ضدی شخص نے ایسا ہی کیا جیسا کہ اُس نے کہا تھا۔ یہاں سے جانے کے ٹھیک ایک ماہ بعد اُس نے اپنی بیٹی کا نِکاح اُس سے دُگنی عُمر کے آدمی کیساتھ کردیا تھا۔ بعد میں مجھے ایک کاروباری دُوست سے معلوم ہوا تھا کہ وہ ادھیڑ عُمر کا آدمی پہلے سے ہی شادی شُدہ تھا۔ ارشد نے تُمہیں جو سزا دی سُو دی۔ لیکن اُس نے اپنی بیٹی کو کِس بات کی سزا دی یہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا۔

اُستادعبدالرشید نے کامل کو اپنا سر تھامے زَمین پر ڈھیر ہوتا دیکھ کر اپنی گُفتگو روک کر کامل کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن تب تک کامل کھردرے فرش پر ڈھیر ہُوچُکا تھا۔

(جاری ہے)

پَلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060509 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More