سخت گرمی کا دن تھا۔ سورج جیسے
آگ برسا رہا تھا۔ میں شہر کے ایک بس سٹینڈ پر کھڑا گاؤں جانے والی بس کا
انتظار کر رہا تھا۔ دھوپ اتنی شدید تھی کہ جسم کو جھلسا رہی تھی اور پسینہ
بہتا ہی چلا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے اردگرد نگاہ دوڑائی اور لوگوں کو
دیکھنے لگا۔ہر کوئی اپنے کام میں مگن تھا۔ کسی کو روزگار کی فکر اس شدید
ترین دھوپ کو برداشت کرنے پر مجبور کر رہی تھی تو کسی کو ایک جگہ سے دوسری
جگہ جانے کی ضرورت کی بنائ پر اس گرمی کو سہنا پڑ رہا تھا۔ آس پاس کھڑی
مختلف اشیائ کی ریڑھیوں پر کھڑے کچھ نوجوان اور بوڑھے آدمی تیز آوازوں میں
جھلسا دینے والی گرمی کی پرواہ کیے بغیر اپنی اپنی اشیائ بیچنے کے لئے
مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی بھر پور کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
میں بار بار اپنے کاندھے پر رکھے رومال سے اپنے چہرے پر آئے پسینے کو صاف
کر رہا تھا کہ اسی اثنائ میں اچانک میری نظر ایک چھوٹے بچے پر پڑی جو بھاری
بھرکم بستہ کے ساتھ نڈھال قدموں سے چلتے ہوئے ایک سائیڈ پر کھڑی’’ نان چنے
‘‘ کی ریڑھی کی طرف بڑھے چلے جا رہا تھا۔ اس ریڑھی پر کھڑے ادھیڑ عمر آدمی
نے جب اس چھوٹے بچے کو دیکھا تو دوڑ کر اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا۔ اور
بڑی محبت و شفقت سے اسکے گالوں کو چومنے لگا اور پھر آہستگی سے اسے ریڑھی
پر ہی بٹھا دیا اور اپنی قمیص کی آستین سے اسکے چہرے پر آئے پسینے کو صاف
کرنے لگا۔ اس ادھیڑ عمر شخص کے چہرے پر پرجوش محبت کے آثار دور سے ہی مجھے
صاف دکھائی دے رہے تھے۔ آنے والا بچہ جو شاید اس کا بیٹا تھا ،اپنے باپ کی
اس محبت کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ ادھیڑ عمر آدمی نے دھوپ سے بچنے کے لئے
اپنے سر پر رکھے کپڑے کو اتارا اور جھٹ سے اس بچے کے سر پر رکھ دیا اور
اچھی طرح سے باندھ دیا اور پھر بچے کو کچھ کہہ کر خالی گلاس لیے تیز قدموں
سے ایک جانب چلا گیا اور میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
میں نے اس منظر سے دھیان ہٹا کر سڑک کے دائیں طرف دیکھا جہاں سے میری بس نے
آنا تھا مگر اس کے دور دور تک کوئی آثار نہ تھے۔ آج خلاف معمول ٹریفک کافی
کم تھی۔ پاس کھڑے چند مسافروں کی باتوں سے انکشاف ہوا کہ آج پٹرولیم اور
گیس کے اداروں کی ہڑتال ہے اور اکا دکا گاڑیاں ہی چل رہیں ہیں۔میں نے موسم
کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے ایک بار سوچا کہ واپس ہوا جائے اور پھر کسی دن
جانے کی ترتیب بن جائے مگر مجبوری کی بنائ پر جانا بھی آج ہی ضروری تھا اسی
لئے مطلوبہ بس کی آمد کا مزید انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ پسینہ تھا کہ کسی
لمحے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا
چلا جا رہا تھا۔ حرارت اور تپش سے جسم کی روح تک تڑپنے لگی تھی۔ میں نے
قدرے سایہ دار جگہ کو ڈھونڈا اور وہاں کھڑے ہو کر اپنی توجہ پھر اسی ’’ نان
چنے ‘‘ کی ریڑھی کی طرف کر لی جہاں ایک باپ کا اپنے بیٹے کے ساتھ محبت کا
عجیب معاملہ پیش آ رہا تھا۔
بچہ ریڑھی پر بیٹھا تھا اور پیاس کی شدت سے بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان
پھیر رہا تھا۔ اس کا باپ ابھی تک نہ لوٹا تھا۔میں نے سوچا کہ ٹھنڈا پانی اس
شدید گرمی میں اس غریب کو شاید کہیں سے نہ مل رہا ہو گا۔ کچھ ہی دیر گزری
کے ادھیڑ آدمی دور سے دوڑتے ہوئے ریڑھی کے قریب آیا اور خالی گلاس جیسے
اٹھایا تھا ویسے رکھ دیا۔ بچے سے کچھ باتیں کرنے کے بعد وہ پاس ہی موجود
ایک جنرل سٹور کی طرف بڑھ گیا اور’’ جوس کا ڈبہ ‘‘ بچے کے لئے خرید لایا۔
بچے نے جھپٹ کر جوس کے ڈبے کو پکڑا اور پینے لگا۔ ادھیڑ آدمی بچے کو یوں
خوش ہوتا دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اس کے دھول اور پسینے سے اٹے چہرے پر خوشیوں
کے دیپ جھلملانے لگے۔جیسے ہی بچے کا جوس ختم ہوا اس ادھیڑ عمر آدمی نے چاول
اور چنے سے بھری پلیٹ اسکے سامنے کر دی۔
اچانک تیز ہارن کی آواز سے میری توجہ ان دونوں سے ہٹ گئی۔ دیکھا تو میری
مطلوبہ بس پاس ہی کھڑی تھی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اس پر سوار ہو
گیا۔
میں باپ کی اپنے بیٹے سے شدید محبت کو دیکھ کر بالکل حیران نہیں ہوا۔ اپنے
بچوں کے لئے ہر باپ ایسی ہی محنت و مشقت کا خود کو عادی بناتا ہے۔ چاہے کڑی
دھوپ میں مزدوری کرنی پڑے یا سخت سردی کے عالم گلی گلی چکر لگانا پڑے وہ
اپنی اولاد کی خاطر سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ وہ اپنے پیٹ کو بھوکا رکھتے ہیں
لیکن اپنے بچوں کے پیٹ کوبھرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ خود پیاسے رہ کر
اپنے لخت جگر کو سیراب کرتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو قربان کر کے اپنے بچوں کو
ہر ممکن سہولیات پہنچاتے ہیں۔ خود چھوٹا، موٹا پہن کر اپنے بچوں کو صاف
ستھرا اور قیمتی لباس پہنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ صبح اٹھتے وقت وہ یہی
سوچ لیے اٹھتے ہیں کہ آج وہ اپنے گھر والوں کو اپنے بچوں کو کیا دے سکتے
ہیں؟ انہیں زندگی کی کتنی مسرتوں سے نواز سکتے ہیں؟ انہیں کس طرح مزید
خوشیاں دے سکتے ہیں؟ اور پھر رات کو بستر پر سر رکھتے ہوئے اس عظیم ہستی کے
ذہن میں ایک ہی بات گردش کرتی رہتی ہے کہ آج وہ اپنے بچوں کو کیا دے پائے؟
انہیں ٹھیک سے کھلا پائے یا نہیں؟ انہیں آج کے دن خوش کر پائے یا نہیں۔
انہیں زندگی کے حسین لمحات دے پائے یا نہیں؟ اوراگلے دن کے لئے اپنے بچوں
کو نئی خوشیاں ، نئی سہولتیں، نئی چاہتیں دینے کا خود سے وعدہ لیے نیند کی
گہری وادیوں میں اتر جاتے ہیں۔
مجھے ایک باپ کی اپنی اولاد کے لئے محنت و مشقت سے معمور زندگی پر کچھ
زیادہ حیرانی نہیں۔ ہاں! لیکن اس بات پربے حد حیرانی اور افسوس ضرور ہے کہ
آج کل کی نوجوان نسل کے نزدیک باپ کی اس محبت و چاہت کا صلہ صرف ایک دن.
سال بھر میں صرف ایک دن کے لئے طے رکھا ہوا ہے۔ اس ایک دن کو ہم ’’ فادرز
ڈے ‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی سال بھر کی مشقتوں اور تکلیفوں کا مداوا ایک پھول،
ایک تحفہ، اور ایک خواہش پوری کر کے کیا جا رہا ہے۔ کتنے دکھ اور انسانیت
کے لئے یہ بات شرم کا باعث ہے کہ وہ باپ جس نے ہر دن، ہر لمحہ، ہر گھڑی اور
ہر حال میں اپنے بچے سے محبت کی اور اس بچے کے پاس صرف ایک دن ہے باپ کو
محبت دینے کے لینے.؟؟ یہ محبت نہیں بلکہ محبت کے نام پر اس پیکر وفا کی
تذلیل ہے۔سراپا شفقت اور سراپا محبت جیسی اس عظیم ہستی کی گستاخی ہے. اس کے
سوا اور کچھ نہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ دن بھر باہر کی دنیا میں رہ کر نہ جانے کن کن حالات
میں وہ صرف ہماری خاطر اپنا خون پسینہ ایک کر کے کماتا ہے؟ آخر کیوں؟ کبھی
ہماری پڑھائی کی خاطر اپنی عزتِ نفس کو ایک سائیڈ پر رکھ کر کسی کی منتیں
کرتا ہے آخر کس لئے؟ کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے منہ میں نوالہ ڈالنے کے لئے
وہ خود دن بھر کی بھوک و پیاس برداشت کرتا ہے آخر کیوں؟ کبھی ہم نے سوچا کہ
گھر سے باہر محنت مزدوری سے ہلکان اور اپنے افسروں کی جھڑکیاں کھانے کے بعد
شام کو گھر لوٹتے وقت دہلیز پار کرنے سے پہلے پہلے وہ دکھوں اور مصیبتوں کی
چادر باہر ہی اتار کر چہرے پر مسکان سجا لیتا ہے تاکہ اس کے بچے، اس کے گھر
والے اس کی صرف مسکراہٹ دیکھیں۔ اسے غصے میں یا کرختگی کے آثار پا کر وہ
اداس نہ ہو جائیں۔ آخر اتنا کچھ کس کے لئے ؟کبھی ہم نے سوچا کہ ہماری
بیماری میں وہ گود میں اٹھا اٹھا کر ہسپتالوں کے چکر لگاتے تھکتا نہیں ہے
آخر وجہ کیا ہے؟ ہماری منہ سے نکلی ہوئی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لئے وہ
خود کو ہلکان کر دیتا ہے. اپنے آرام و سکون کو چھوڑ کر وہ ہمیں میٹھی اور
آرام دہ نیند سلانے کے لئے بعض اوقات گھنٹوں ہاتھ سے پنکھا ہلاتے اور ہوا
دیتے اپنے بازو تھکا دیتا ہے تاکہ ہماری نیند نہ اکھڑے. یہ سب آخر کس لئے؟
صبح و شام کی مسلسل مزدوری کے بعد رات کو پھر سائیکل پر چیزیں بیچنے نکل
کھڑے ہوتے ہیں یہ بچوں کے بابا. آخر کس کی خاطر؟ چھٹی کے دن اپنی عزت و
وقار کو ذرا پرے رکھ کر دوسروں کے گھروں میں کبھی پنکھا ٹھیک کرنے تو کبھی
بجلی کی تاروں کا کام کرنے پہنچ جاتے ہیں تاکہ کچھ زیادہ کما کر اپنے بچے
کی کوئی معصوم خواہش پوری کروں گا. کبھی سوچا ہم نے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
نہیں ! ہم نے کبھی نہیں سوچا. کبھی نہیں سوچا کہ وہ بھی ہماری طرح گوشت
پوست کے انسان ہیں۔ ہم نے ان کی تھکن کا، اس مشقت کا، اس پیار، اس محبت کا،
اس چاہت کا اور اس خلوص کا احساس کیا بھی تو صرف ایک دن. وہ بھی ایک شعر
کہہ کر، یا احسان کرتے ہوئے ایک چھوٹا سا تحفہ دے کر. یا پھر اولڈ ہوم میں
پڑے بوڑھے باپ کو اس ایک دن بچوں سمیت جا کر مل آنے کا احسان عظیم کر کے۔
عجیب بات یہ ہے کہ وہ اولاد کی خاطر اس پر مشقت زندگی بسر کرنے کے بدلے میں
کچھ نہیں مانگتے۔ کچھ بھی نہیں مانگتے. وہ بس اتنا چاہتے ہیں کہ ان کے بچے
ان کی آنکھیں بند ہونے تک خوش رہیں اور اس کے بعد بھی وہ مسرتوں بھری زندگی
گزاریں، آباد رہیں، دکھوں سے کوسوں دور اور امن و سکون کے ساتھ رہیں۔ وہ
جہاں جائیں انہیں پیار ملے، انہیں احترام ملے، انہیں ہر کوئی عزت کی نظروں
سے دیکھے۔ ہمارے چہروں پر چاہے کتنے ہی دکھ منڈلائیں، محنت و مشقت جھریاں
ڈالے دے لیکن بچوں کو گرم ہوا بھی نہ چھوئے۔
دنیا بہت بدل گئی ہے۔ ہم بدل گئے ہیں لیکن ’’ باپ ‘‘ نامی یہ روپ کبھی نہیں
بدلا نہ کبھی بدلے گا۔ اس کی محبت شروع دن سے جیسی تھی ویسی رہے گی۔ وہ
اپنی آخری سانس تک ہمارے لئے ہی جیتا ہے اور جیا کرے گا۔سچ تو یہ ہے کہ
چاہت اور خلوص سے بھری اس ہستی کے لئے اپنی زندگی کی ایک ایک سانس بھی وقف
کر دی جائے تو اس ایک لمحہ کا بدل بھی نہیں ہو سکتا جس لمحہ میں اس نے
ہمارے چہرے پر آئے پسینے کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا تھا۔ یہ خدا کی طرف سے
دی گئی ایک انمول نعمت ہیں۔ کاش ہمیں ان کی قدر کرنا نصیب ہو جائے۔ شکریہ
اے عظیم ہستی. شکریہ ان محبتوں کا، ان چاہتوں کا، اس خلوص کا، جو آپ ہمیں
دیتے ہیں۔
کبھی زندگی میں’’ والد ‘‘ نام کی اس عظیم شخصیت کے قدموں میں خود کو بٹھا
کر دیکھیے۔ان کے قدموں تلے بھی جنت ضرورنظر آئی گی۔ |