تحریر : مفتی منصور احمد
یوں تو اس سفر کو لوگ عام طور پر معراج ہی کے نام سے جانتے ہیں لیکن علمائ
بتاتے ہیں کہ یہاں درحقیقت دو سفر پیش آئے۔ ایک وہ سفر جب نبی مکرم، فخر
مجسم، شافع امم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے گئے۔ یہ
سفر ’’اسرائ‘‘ ہے اور دوسرا سفر وہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمان و
مکان کی حدوں سے بلند ہو کر سدرۃ المنتہیٰ اور عرشِ معلّٰی تک تشریف لے گئے
یہی سفر ’’معراج‘‘ ہے۔
اسلام دن اور تاریخیں منانے کا قائل نہیں، اسی لئے اتنے عظیم الشان واقعہ
کی تفصیلات تو معلوم ہیں لیکن تاریخ کا تعیین نہیں کیا جا سکتا۔ دس قول تو
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے شمار کروا دئیے ہیں۔ مہینے کے بارے میں
بھی پانچ مختلف آرائ ہیں۔ ہمارے ہاں مشہور یہی ہے کہ سرور دو عالم صلی اللہ
علیہ وسلم کا یہ حیرت انگیز معجزہ ۷۲ رجب کو پیش آیا۔
اس مبارک و مقدس سفر کی تفصیلات تو مسلمانوں کا بچہ بچہ خوب جانتا ہے، اس
لئے آئیے ذرا اس واقعہ سے حاصل ہونے والے چند ایسے اسباق پر غور کریں جو
مایوسی کے اندھیروں کو امید کی روشنی میں بدل سکتے ہیں ‘ اور ہمارے افکار و
خیالات کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں ۔
﴿۱﴾ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو امام الانبیائ ہونے کا شرف عطا
ہوا۔ آپ کو سب انبیائ سے بلند ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ سے آگے عرش پر بلایا گیا۔
گویا بتادیا کہ جس طرح یہ بلندی کی آخری حد ہے اور تمام بلندیوں نے آپ کے
سامنے دم توڑ دیا اسی طرح نبوت کا سلسلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم
کردیا گیا۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی اور عروج کے بعد کوئی
بلندی نہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کوئی نبوت نہیں۔
اسی لئے ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ جس کے بغیر کوئی شخص مسلمان
نہیں رہ سکتا۔
﴿۲﴾ انسان سے پہلے اس کائنات میں فرشتے بھی تھے اور شیاطین بھی۔ فرشتوں کی
فطرت بلندی اور نیکی ہے۔ شیاطین کی فطرت پستی اور گناہ ہے۔ حضرت انسان کو
نیکی اور برائی کا جامع بنایا گیا۔ اس کی فطرت میں بہیمیت ﴿جانور پن﴾ اور
ملکوتیت﴿فرشتوں کی خصوصیات﴾ دونوں کو جمع کردیا گیا۔ اس کی سرشت میں اچھے
اور برے جذبات کو پہلو بہ پہلو رکھ دیاگیا۔ سفر معراج کے ذریعے بتا دیا گیا
کہ اے انسان اگر تو فرشتہ ہی نہیں بلکہ فرشتوں سے بھی بلند تر بننا چاہتا
ہے تو صاحبِ معراج صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشِ قدم اختیار کرلے۔ بصورت دیگر
تیرا انجام بہیمیت، پستی اور رسوائی ہوگا۔ اسی لئے کسی صاحبِ دل کا قول ہے:
’’آقا! آپ کی معراج کہ آپ لوح وقلم تک پہنچے اور ہماری معراج یہ کہ آپ کے
نقشِ قدم تک پہنچے‘‘
﴿۳﴾مکہ کی وادی میں ایک روشن صبح کو جب جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
نے اس سفر کے احوال لوگوں کو بتائے تو ابو جہل اور اس کے حواری مذاق اڑانے
لگ گئے، حیران تھے کہ مکہ سے مسجد اقصیٰ کا چالیس دن کا سفر، وہاں سے عرشِ
بریں کا سفر اور صرف اتنی دیر لگے کہ ابھی بستر گرم ہو اور دروازے کی زنجیر
ہل رہی ہو۔ لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں
نے فوراً اس کی تصدیق کی اور کہا کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے تو یقینا سچ اور حق ہے۔
عقل کے مارے اور مادیت کے ڈسے ہوئے لوگ آج بھی کم نہیں، ابوجہل کے دل و
دماغ سے سوچنے والوں کی کسی بھی زمانے میںکمی نہیں رہی لیکن صاحب ایمان و
ایقان وہی ہے جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا سا شعور رکھتا ہو اور زبانِ
نبوت سے نکلی ہوئی ہر بات کی تصدیق کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، سائنس کے اس
ترقی یافتہ دور میں اس واقعہ کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں، لیکن اس وقت علمائ
کے بقول یہ عظیم سفر جہاں ایک انعام تھا وہاں کمزوردلوں کیلئے ایک امتحان
بھی تھا۔
﴿۴﴾ مہربان میزبان، خوش نصیب مہمان کو رخصت کرتے وقت بھی کچھ تحائف دیا
کرتے ہیں۔ ہمارے آقا﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ بھی اس سفر سے نماز کا تحفہ لے
کرواپس تشریف لائے۔ دن میں پانچ وقت نماز کا تحفہ ایسا عمومی تحفہ ہے جس
میں جو خوش نصیب شریک ہونا چاہے ہو سکتا ہے اور بدقسمت وہ ہے جو اس عظیم
سفر کے تحفے میں بھی حصہ پانے سے محروم ہوجائے۔ اسی لئے فرمایا گیا ’’نماز،
ایمان والوں کی معراج ہے‘‘ اور ’’انسان اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدے
کی حالت میں ہوتا ہے۔‘‘
﴿۵﴾اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے چلے تو پہلا پڑائو مسجد
اقصیٰ میںہوا، جس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف
لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بابرکت بنایا ہے‘‘۔
یہی مسجد اقصیٰ جو اس عظیم سفر کا پڑائو بنی اور کم وبیش ۶۱ ماہ تک مسلمان
اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، یہ عظیم مسجد فلسطین کے شہر بیت
المقدس میں واقع ہے۔ یہ ملک اور یہ شہر آج خونِ مسلم سے رنگین ہے۔ اس کے
گلی کوچوں میں مسلمانوں کے بے گوروکفن لاشے کسی صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ
کی آمد کے منتظر ہیں۔ اس کے درودیوار آج پھر ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘
کی دلنواز صدائیں سننے کیلئے بیقرار ہیں۔وہی کنکر، وہی سنگ ریزے، وہی صفیں
اور وہی محراب آج زبان حال سے پکار پکار کر گویا ہیں:
اک بار پھر بطحا سے فلسطین میں آ
کہ راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
کیا معراج کے عظیم مسافر ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کے ایک ارب نام لیوائوں اور
سفر معراج کے قصیدہ خوانوںکے ذمے اس مسجد کا کوئی حق نہیں ہے؟ اگر ہے تو ہم
میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ اس بارِگراں سے سبکدوشی اور اس حق کی
ادائیگی کیلئے کیا کر رہے ہیں؟
﴿۶﴾ اعلانِ نبوت کے بعد سے مصائب و آلام کا ایک مستقل سلسلہ ہے جو دس سال
سے زیادہ تک جاری رہا۔کبھی شاعر، کبھی ساحر، کبھی مجنون، کبھی کاہن کہاگیا۔
کبھی گالیاں دی گئیں کبھی پتھر برسائے گئے۔ کبھی قتل کرنے کی تدبیریں ہوئیں
کبھی جلاوطن کرنے کی دھمکیاں دیں گئیں۔ آپ کے جانبازوں کو کبھی گرم ریت پر
لٹایا گیا تو کبھی سلگتے انگارے ان کے خون سے بجھائے گئے۔ کبھی اماں حضرت
سمیہ رضی اللہ عنہا کو برچھی کا وار کرکے شہید کیا گیا تو باپ اور بیٹے
یاسر رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ کو باندھ کر گلی کوچوں میں گھسیٹا
گیا اور یہ سب کچھ صرف اس لئے ہو ا کہ یہ نیا دین مٹا دیاجائے۔ یہ نئی
ابھرنے والی روشنی بجھادی جائے۔
جب سب وارخالی گئے، سب تیروں کے نشانے خطا ہوگئے تو ’’شعب ابی طالب‘‘ میں
محصور کرکے سماجی طور پر بائیکاٹ کردیاگیا۔ نہ کھانا نہ پینا، نہ ملنا، نہ
ملانا، نہ سننا، نہ سنانا ہر طرح کے معاشرتی تعلق اور سماجی رابطے منقطع
کردئیے گئے۔ ہر راحت اور آسائش بلکہ ضروریات کے راستے بند کر دئیے گئے۔
خیال تھا کہ اب اپنی راہ سے ہٹ جائیں گے، معافی نامے جمع کروائیں گے، آئندہ
کیلئے حلف اٹھائیں گے اور لات و ہبل کے بتوں کے خلاف اٹھنے والی یہ دعوت
خود بخود دم توڑ دے گی۔
مکہ کی پتھریلی زمین پر بسنے والے پتھردلوں سے جب مایوسی ہوگئی تو طائف کا
رخ کیا گیا کہ شاید ہری بھری سرسبز زمین کے رہنے والوں کے دل نرم پڑ جائیں
مگر وہ تو اہل مکہ سے بھی چار ہاتھ آگے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلۂ
ثقیف کی حمایت حاصل کرنے طائف روانہ ہوئے ۔ وہاں پہنچ کر آپ ثقیف کے تین
سرداروں عبدیا لیل بن عمرو اور اُس کے بھائیوں مسعود و حبیب کے ہاں گئے ۔
آپ نے اُن سے بات چیت کی انہیں اللہ کی طرف بلایا ۔ اسلام کے حق میں اُن سے
مدد کے طالب ہوئے ۔ جواب میں انہوں نے بہت بدزبانی کی ۔ ایک نے کہا :’’ اگر
تمہیں اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو تو میں کعبہ کے غلاف کا لباس بنا لوں ۔
‘‘
دوسرا کہنے لگا :’’ اللہ کو تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں ملا جسے وہ رسول
بنا کر بھیجتا ؟‘‘
تیسرے نے بلاغت بگھارتے ہوئے کہا :’’ اگر تم اللہ کے رسول ہو ، جیسے کہ تم
کہہ رہے ہو تو تمہاری شان اس سے کہیں بلند ہے کہ تمہیں کوئی جوا ب دیا جائے
۔ اور اگر تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو تو میرے لائق نہیں کہ تم سے کلام
کروں ۔ ‘‘
رسول اللہ ö اُن کی طرف سے مایوس ہو کر اٹھنے لگے ۔ آپ کو خدشہ تھا کہ قریش
کو پتاچل گیا کہ ثقیف کے سرداروں نے محمد کو کیا جواب دیا ہے تو وہ اور
دلیر ہو جائیں گے ۔ آپ نے اُن سے کہا :
’’ آپ لوگوں نے جو کیا سو کیا ۔ اس ملاقات کو راز رکھنا ۔ ‘‘
انہوں نے یہ بات بھی مسترد کر دی اور شہر کے اوباش اور غلاموں کو شہ دی ۔
وہ آپ کے پیچھے بھاگتے ، آواز ے کستے اور گالیاں بکتے ۔ اُنہوں نے دائیں
بائیں دو لائنیں بنا لیں اور آپ پتھر برسانے لگے ۔ آپ تیز لہو لہان قدموں
سے چل رہے تھے ۔ چلتے چلے دور نکل گئے اور ہانپتے ہوئے کھجور کے سائے میں
بیٹھ گئے ۔ سخت دل برداشتہ تھے ۔ آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور دعا کی :
’’ ترجمہ :’’ اے اللہ ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے
نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین ! تو کمزوروں کا رب
ہے اور توہی میرا بھی رب ہے ۔ تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے ؟ کیا کسی
بیگانے کے جو میرے ساتھ تُندی سے پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے جسے تونے میرے
معاملے کا مالک بنا دیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تومجھے کوئی
پرواہ نہیں ۔ لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے ۔ میں تیرے چہرے کے
اُس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہو گئیں اور جس پر دنیا و
آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ
پر وارد ہو ۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے
بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں ۔ ‘‘
طعنے دئیے گئے، پتھر برسائے گئے بچوں اور پاگلوں کو پیچھے لگادیاگیا اور
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس شان سے طائف سے نکلے کہ دونوں پائوں
مبارک سے لہو رس رہا تھا۔ جب اپنوں کے ساتھ غیر بھی دشمن ہوگئے تو اب اس
نئے دین کا کیا بنے گا؟
۰۱ ÷نبوی گزر گیا۔ ابتلائ و آزمائش کی سب منزلیں طے ہو چکیں، تکلیف اور
مصیبت کی کوئی قسم ایسی نہ رہی جو اللہ کے راستے میں نہ برداشت کر لی گئی
ہو۔ بظاہر دعوتِ اسلام کے دروا ہوگئے۔بلندی اور قرب کے راستے سمٹ گئے اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج کا انعام عطا ہوا اور ارشاد فرمادیا
گیا کہ اب اسلام بلند ہو کر رہے گا اور یہ نقارہ بجوادیا گیا :
’’الاسلام یعلو ولا یعلیٰ علیہ‘‘
’’اسلام غالب ہونے کیلئے آیا ہے، یہ مغلوب نہیں ہوگا‘‘
آج بھی ابتلائ کے طوفان اور آزمائشوں کی آندھیاں پورے زور وشور سے چل رہی
ہیں۔ طعنوں اور الزامات کے جھکڑ ہر سو غلامانِ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم
﴾کا رخ کئے ہوئے ہیں۔ مشکلات اور مصائب ہر سمت سے اسلام کے نام لیوائوں کا
استقبال کررہے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ حالات کی یہ گرد بیٹھ جائے گی اور
اسلام کے چاہنے والے ایک مرتبہ پھر عروج اور بلندی سے ہمکنار ہوں گے۔
آئیے! سعادت مندوں کا قافلہ رواں دواں ہے۔ ہم بھی انہی میں شامل ہوجائیں۔ |