فوٹی گرافی، آلات موسیقی اورکمیشن ایجنٹ - شریعت کیا کہتی ہے

 فوٹو گرافی و مجسمہ سازی کا پیشہ
ذی روح کامجسمہ بنانااسلام میں قطعاًحرام ہے اور جمہور علمائ اور محدثین کے نزدیک یہی حکم ذی روح تصاویر کا بھی ہے،فوٹو گرافی بھی تصویر کشی ہی ہے نہ کہ عکس سازی، اس لئے ظاہر ہے کہ اس کی صنعت و حرفت اور خریدو فروخت نیز اس کوذریعہ معاش بناناناجائزہے۔حضرت عبد اللہ ابن عباس(رض) کی ایک روایت میںاس کی صرا حت موجود ہے. امام نووی(رح) کا بیان ہے:
بالخصوص ایسی مورتیاں بنانایا ایسی شخصیتوں کی تصویر کھینچنا جن کی پر ستش کی جاتی ہوسنگین ترین گناہ ہے اس لئے کہ یہ صرف گناہ میںبلکہ امور کفرمیںبراہِ راست تعاون کرنے کے مترادف ہے، صلیب باوجود اس کے کہ تصویر نہیں ہے مگر چونکہ عیسائی اسے مذہبی شعار کے طور پر استعمال کرتے ہیںاس لئے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمنے اس کو توڑ نے کاباضابطہ حکم دے دیا تھا﴿شرح مہذب:۹،۶۵۲ ﴾

ہاں غیرذی روح جیسے عمارتوں،پھلوں،پھو لو ں وغیرہ کی تصویریں بالاتفاق جائز ہیں، اس لئے ان کے بنانے اور اس صنعت کو ذریعہ معاش کی حیثیت سے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، حضرت عبداللہ ابن عباس(رض) کی جس روایت کا ذکر کیا گیا ہے اس میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔

آلاتِ موسیقی کی خریدوفروخت
آلاتِ موسیقی سے لذت اندوزہونااورگانا بجاناناجائزاورحرام ہے،احادیث میںاس پر سخت وعیدیں آئی ہیں، اس لئے یہ تو ظاہر ہے کہ یہ اسباب معصیت ہیں،ایسے آلات کے سلسلے میں فقہائ نے یہ اصول بتایا ہے کہ بعینہ ان آلات کا خریدنا اور بیچنا جائز نہیں البتہ ایسی چیزوں کا بیچنا درست ہے جو ترمیم و تبدیلی کے بعد آلات معصیت بن جاتے ہوں،مثلاًبانسری کابیچنا د ر ست نہیں ہے لیکن لکڑی کا بیچنا جائز ہے جس سے بانسری بنائی جاسکے، علامہ ابن عابدین شامی(رح) لکھتے ہیں:
’’ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی چیز کی بیع مکروہ نہیں ہے جس﴿کی ذات﴾ سے معصیت نہ ہو، مثلاً گلوکارہ باندی،سینگ مارنے والا﴿تربیت یافتہ﴾مینڈھا،تیزاُڑنے والی کبوتری،پھلوں کے رس اور وہ لکڑی جس سے بانسری بنائی جاتی ہے۔‘‘﴿ردالمحتار:۵،۰۵۲﴾

اور خلاصتہ الفتاویٰ میں ہے:
’’ اگر کسی ذمی کے پاس مزدوری کرے تاکہ اس کے لئے رس نچوڑے کہ اس کی شراب بنائی جائے توحضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکے ارشاد کی وجہ سے مکروہ ہو گاکہ شراب میں﴿ اس کے متعلقات سمیت﴾دس آدمیوںپر خداکی لعنت ہے اور اگر گرجا میں کام کرنے کے لئے ملازم ہوگا تو کوئی حرج نہیں اس لئے کہ یہ کام بذات خودمعصیت نہیں ہے . اور امام سرخسی(رح) کی کتاب الاشربہ میں ہے کہ ایسے رس کی بیع میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے شراب بنائی جائے،ہاں صاحبین(رح) کے نزدیک مکروہ ہے ۔ ﴿خلاصۃ الفتاویٰ:۴،۶۴۳﴾
نیز امام نووی(رح) کا بیان ہے:
’’لہو ولعب کے سازوسامان جیسے سارنگی اور ڈھول، اگر توڑنے اور کھول دینے کے بعد یہ مال شمار نہ ہوں تو ان کی فرد ختگی درست نہیں کیونکہ شرعاً اس میں کوئی منفعت نہیں۔‘‘﴿شرح مہذب : ۹ ، ۶۵۲﴾

غیر اسلامی حکومت میں کلیدی عہدے
ایک اہم سوال یہ ہے کہ غیر اسلامی مملکت کے کلیدی عہدوںصدارت،وزارت،تحفظ ودفاع، عدلیہ اوررکنیت پارلیمنٹ پرفائزہوناجائزہوگایا نہیں؟جبکہ ایسی ملازمتوںمیں سیکولر اور غیر مذہبی ریاست ہونے کے لحاظ سے اسلامی قانون اورمنصوص احکام کے خلاف فیصلوں میں شریک ہونا اور اس کی تنفیذ کا ذریعہ بننا پڑے گا۔

اصولی طورپرظاہرہے کہ یہ بات جائزنہ ہوگی، اس لئے کہ کسی صیغہ کی محض ملازمت سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ وہ کسی گنہگارانہ اور خلاف شرع فیصلہ کا اوراس کے نفاذاور ترویج کاذریعہ بنے اورعملاً حاکمیت الہٰی کا انکار کرے۔

مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر مسلمان ایسی ملازمتوں سے یکسر کنارہ کش اور سبکدوش ہو جائیں تو اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اسلام کے بچے کھچے آثار اورمسلمانوں کے دینی،تہذیبی اور قومی مفادات کا تحفظ دشوار ہو جائے گا اور مسلمان اس مملکت میں سیاسی اعتبارسے مفلوج،تہذیبی اور مذہبی لحاظ سے مجبوراوراچھوت شہری بن کررہ جائیں گے اس لئے اس اہم تر مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے عہدوں کو بھی قبول کیا جائے گا، بلکہ مصلحۃً ان کے حصول کی کوشش کی جائے گی، البتہ دل میں اس غیر اسلامی نظام کی طرف سے ایک چبھن،اس پر بے اطمینانی اور اسلام کی بالاتری کا احساس تازہ رہنا چاہئے اور موجودہ حالات کو ایک مجبوری کے طور پر گوارا کرتے رہنا چاہئے۔

اس کی نظیر حضرت یوسف علیہ السلام کا فرعون مصر کے خزانہ کی وزارت کی ذمہ داری قبول کرنا بلکہ اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے۔

فقہائ کے یہاں بھی ایسی نظریں موجود ہیں مثلاً زکوٰۃ کی تقسیم کا کام ایسے شخص کو لے لینا باعث اجر قرار دیا گیا جو عدل کے ساتھ اس کام کو کر سکتا ہوتا کہ ظلم سے تحفظ ہو سکے:
’’ ہاں وہ شخص ماجور ہوگا جو عدل کے ساتھ تقسیم کا فریضہ انجام دے کہ وہ ہر ایک پر اس کی طاقت کے بقدر لازم کرے اس لئے کہ وہ اس کی تقسیم کا کا م کسی ظالم کو سونپ دے تو بسا اوقات وہ بعض لوگوں پر ان کی طاقت سے زیادہ لازم کر دیں گے اور یہ ظلم بالائے ظلم ہو جائے گا، لہٰذاایسے آدمی کا اس ذمہ داری کو قبول کرناجو عدل کے ساتھ تقسیم سے واقف ہو، ظلم کو کم کرے گا اور اس لئے اجر کا حق دار ہوگا ۔ ‘ ‘ ﴿ردالمحتار:۲،۲۶﴾

کمیشن ایجنٹ
کمیشن ایجنٹ کا کاروبار ان دنوں کافی بڑھ گیا، تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ اس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، لیکن بنیادی طور پر دونوعیت کے کاروبار کئے جاتے ہیں،کبھی توایجنٹ ایک سے مال خرید کر دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے، مثلاً اینٹ پانچ سو روپے لاری ہے، ایجنٹ آرڈر حاصل کر کے اینٹ لیتے ہیں اور اکثر اوقات بھٹی سے سیدھے اصل خریدار کے ہاں بھیج دیتے ہیں، خریدار کو اپنے مرکز سے بھی اسی قیمت میں اینٹ ملتی ہے لیکن ایجنٹوں کو دس فیصد کم قیمت پر مل جاتی ہیں اور یہی اس کا نفع ہوتا ہے۔

اس سلسلہ میںیہ اصول یادرکھناچاہئے کہ احناف کے ہاں کسی بھی شے کا بیچنا اسی وقت جائز ہو گا جب پہلے خود اس کا قبضہ ہو جائے.﴿بدایۃ المجتہد:۲،۴۴۱﴾اس لئے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قبضہ کرنے سے پہلے ہی اس کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔﴿مؤطاامام مالک﴾

منتقل ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جانے والی اشیائ پہلے اپنی تحویل میں لے لی جائے ایجنٹ کا اپنی لاری پر اینٹ اُٹھوالینا گویا اپنی تحویل اور قبضہ میں لے لینا ہے، اس لئے اب اس کا نفع کے ساتھ فروخت کرنا درست ہے، ہاں اگر وہ خریدارسے کہے کہ اپنی لاری لاکر اس مرکز سے اینٹ حاصل کر لو اور خود جا کر ان اینٹوں کو علاحدہ نہ کرائے،توچونکہ یہ قبضہ سے پہلے سامان فروخت کرنا ہے اس لئے ایجنٹ کا یہ کا روبار درست نہ ہوگا۔

اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایجنٹ صرف خریدار تیار کرتا ہے اور ترغیب کے عوض اس کو تاجر کچھ فیصدنفع دیتے ہیں یہ صورت بھی جائز ہوگی،اس لئے کہ یہ اس کی محنت اور ترغیب کی اجرت ہے جس کے جائز نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166672 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More