گُذشتہ سے پیوستہ
نعمان شائد تمام تیاری کیساتھ فرقان کی رضامندی کا منتظر تھا۔ اس لئے صرف
ایک ہفتہ کے اندر ہی کاغذات کی منتقلی کا تمام کام پایہء تکمیل کو پُہنچ
گیا۔ فیکٹری نعمان کے نام پر رجسٹرڈ ہُوچُکی تھی۔ جبکہ چھ ایکڑ زمیں کا
ٹکڑا فرقان کے نام منتقل ہُوچُکا تھا۔ چُونکہ فرقان کے پاس ذرائع آمدن کو
کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اسلئے صرف تین ماہ کے اندر ہی فرقان کی تمام جمع
پونجی گھر کے کرایہ اور گھریلو اخراجات کی نذر ہُوگئی۔ چند دِنوں سے فرقان
یہ سوچ سُوچ کر ڈپریشن کا شِکار ہُورہا تھا۔ کہ اب گھر کے اخراجات کس طرح
پُورے ہُونگے۔۔۔۔؟
اب مزید پڑھیئے۔
کافی سُوچ بِچار کے بعد فرقان اِس نتیجے پر پُہنچا کہ اُسے چونکہ چھ ایکڑ
زمین پر جب نا ہی کاشتکاری کرنی ہے۔ اور نہ ہی کوئی فیکٹری لگانی ہے۔ تُو
کِیوں نہ اس قطعہ ء زمین کو فروخت کردیا جائے۔ اور رقم آنے کے بعد کِسی
مُناسب جگہ پر انویسٹ کردی جائے۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد ایک پراپرٹی بروکر
نے فرقان کو بتایا کہ اُس کے پاس ایک حاضر پارٹی بھی موجود ہے۔ جِسے شہر کے
نزدیک آٹھ تا دس ایکڑ زمین فیکٹری کے لئے درکار ہے۔ چُونکہ اُنکی شرط ہے کہ
زمین شہر میں موجود ہُونی چاہیئے۔ جہاں پانی، گیس ، اور کمرشل بجلی کی
سہولت بھی موجود ہُو۔ جبکہ شہر میں کوئی دُو ایکڑ زمین کا ٹکڑا بھی میسر
نہیں۔ تُو بھلا دس ایکڑ زمین کہاں سے دستیاب ہُوگی۔ آپ کی جگہ مُناسب ہے۔
اسلئے آپکو چھ ایکڑ زمین کے تین کروڑ روپیہ دِلواسکتا ہُوں۔ بشرطیکہ سامنے
والی پارٹی چھ ایکڑ کے پلاٹ پر رضامندی ظاہر کردے۔
فرقان کو اگرچہ یہ آفر مُناسب لگی تھی۔ لیکن وہ ایک مرتبہ زمین کو فروخت
کرنے سے قبل حسان صاحب سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتا تھا۔ اسلئے فرقان نے
بروکر کو جواب دینے کیلئے ایک دِن کی مُہلت طلب کرلی۔ اور شام کو حسان صاحب
سے مُلاقات کیلئے اُنکے کاشانے پر حاضر ہُوگیا۔ رسمی گُفتگو کے بعد فرقان
نے اپنی حاضری کا مُدعا بیان کیا۔ تُو حسان صاحب نے اُسے جلد بازی کے بجائے
استخارہ کی ترغیب دِلائی۔ جسکے جواب میں فرقان نے حسان صاحب سے گُزارش کی
کہ میری جانب سے آپ استخارہ فرمالیں۔ جِس کے بعد حسَّان صاحب نے رضامندی
ظاہر کرتے ہُوئے فرقان کو فجر کی نماز میں اپنے ساتھ جماعت میں شامل ہُونے
کی تاکید کی۔ جس کے بعد یہ نشست برخاست ہُوگئی اور فرقان اپنے گھر لُوٹ گیا۔
صبح فجر کی نماز اور وظائف سے فارغ ہُونے کے بعد حسان صاحب نے فرقان کو
اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ فرقان نہایت ادب و نیازمندی سے حسان صاحب کے
قریب جاکر بیٹھ گیا۔ حسان صاحب نے فرقان سے مُخاطب کرتے ہُوئے فرمایا کہ،،
وہ ابھی زمین فروخت نہ کرے۔ بلکہ اُس پارٹی کا پتہ چلانے کی کوشش کرے جو
اِس زمین کی خریداری میں دلچسپی رکھتی ہے۔۔۔
حسان صاحب کی ہِدایت پر فرقان نے بروکر سے مُعذرت کرلی اور اُسے بتایا کہ
وہ فی الحال اپنی زمین فروخت نہیں کرنا چاہتا۔ ساتھ ہی فرقان نے اُس پارٹی
کے متعلق باتوں ہی باتوں میں کافی معلومات حاصِل کرلیں۔ بروکر نے خریدار
پارٹی میں فرقان کی دلچسپی دیکھ کر اپنے خَدشے کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔۔
کہیں آپ ڈائریکٹ تُو پارٹی سے معملات طے نہیں کرنا چاہتے۔۔۔؟ اور اگر ایسا
ہے۔ تو فرقان صاحب یہ میرے ساتھ بڑی زیادتی کی بات ہوگی۔
نہیں میرے بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ البتہ میرا یہ آپ سے وعدہ ہے کہ
اگر میں نے آپکی پارٹی سے ڈائریکٹ بھی سودا کیا۔ تب بھی آپ کی مِٹھائی
بالکل پکی ہے۔ فرقان نے مُسکراتے ہُوئے بروکر کے خدشے کے جواب میں کہا اور
رخصت طلب کرلی۔۔۔۔۔۔ کُچھ مزید معلومات حاصِل کرنے کیلئے فرقان نے گھر جاتے
ہُوئے یہ ذِمہ داری اپنے قابِل بھروسہ دینی بھائی کے سپرد کردی۔ جب تمام
معلومات جمع ہوگئیں تب ایکبار پھر فرقان حسَّان صاحب کی بارگاہ میں حاضر
ہُوگیا۔
حسان صاحب کو خریدار پارٹی کا نام بتاتے ہُوئے فرقان نے ایک بات محسوس کی
کہ،، شہریار مجددی کا نام سُن کر حَسان صاحب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور
آنکھوں میں ایک خاص چمک سی پیدا ہُوگئی تھی۔ فرقان نے تمام معلومات ایک
کاغذ پر منتقل کرنے کے بعد آخری سطر میں شہریار مجددی کا موبائیل نمبر
لکھا۔ اور کاغذ حسان صاحب کی جانب بڑھادِیا۔
حسان صاحب نے کاغذ پر ایک سرسری نِگاہ ڈالنے کے بعد وہ کاغذ تِہہ کرنے کے
بعد اپنی ڈائری میں رکھتے ہُوئے فرقان سے فرمایا،، اگر میرا اندازہ ٹھیک ہے
تُو سمجھ لُو کہ تُمہارے اِمتحان کے دِِِن انشاءاللہ عزوجل بُہت جلد ختم
ہُونے کو ہیں۔ بس اللہ کریم کرم فرمائے۔ اور یہ وہی شہریار مجددی ہُو جو
میں سمجھ رَہا ہُوں۔۔۔۔ نام تُو وہی ہے۔ لیکن یہ دُبئی کے بجائے پاکستان
میں کیا کررہا ہے۔ بس یہ مُعمہ حل ہُونا باقی ہے۔ اور اگر یہ وہی شہریار
مجددی ہے تو ابتک میری نظروں سے کیوں اُوجھل ہے۔۔۔۔۔؟
(جاری ہے)
مُحترم قارئین کرام طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ذیادہ نہیں لکھ پارہا ہُوں
۔جسکے لئے بُہت بُہت معذرت خواہ ہُوں اور آپ سب سے دُعاؤں کیلئے ملتمس
ہُوں۔
پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا |