احکام شریعت(مسائل اور جوابات) نماز ششم

سوال نمبر۱: مسافر کے احکام کتنے کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعد نافذ ہوتے ہیں اورکیا تمام نمازوں اور سنتوں میں بھی قصر ہوگی یا نہیں اور حالت سفر میں سنتیں معاف ہیں یا نہیں نیز اگر کوئی قصر نماز نہ پڑھے بلکہ پوری پڑھے تو کیا اس کو زیادہ ثواب ملے گا یا اتنا ہی ثواب ملے گا-

جواب :جب بیانوے کلو میٹر یا اس سے زائد مسافت کے ارادے سے سفر کریں اور پھر جب اپنے شہر کی حدود سے باہر ہوجائیں تو مسافر کےاحکام نافذ ہوجائیں گے یعنی نماز قصر کریں گے اور اس وقت تک مسافر کے حکم میں رہیں گے کہ جب تک اپنے شہر واپس نہ آجائیں یا کسی شہر میں مقیم نہ ہو جائیں یعنی پندرہ دن ٹہرہنے کا ارادہ نہ کر لیں ۔

چار رکعت فرض میں قصر کریں گے یعنی انہیں دو پڑھیں گے جیسے ظہر ،عصر اور عشاء کی چار فرضوں کو دو پڑھیں گے باقی مغرب اور فجر کو اسی طرح پڑھیں گے۔

مسافر کو سنتیں نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ انہیں پڑھنا چاہیے پھر مسافر کی دو حالتیں ہیں

۱۔حالت سفر: یعنی جس وقت وہ سفر طے کر رہا ہوتا ہے اس وقت اگر سنتیں چھوڑ دے سوائے فجر کی سنتوں کے تو کوئی حرج نہیں البتہ پھر بھی کوشش کریں کہ سنتیں نہ چھوڑی جائیں۔

ٰ۲۔ حالت قرار یا حالت سکون: یعنی جب مسافر اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے اس وقت سنتیں ہر گز نہ چھوڑی جائیں بلکہ انہیں بھی پڑھیں ۔

مسافر کو چار فرض کو دو ہی پڑھنا یعنی قصر کرنا لازم ہے اگر چار پڑھی تو زیادہ ثواب کے بجائے الٹا گناہ ملے گا لہذا جب دو ہی فرض ہیں تو زیادہ پڑھنے کی حاجت نہیں لیکن اگر کسی نے چار پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی بشرطیکہ دوسری رکعت پر قعدہ کیا ہولیکن ایساکرنا گناہ ہے اگر چہ کے ہوائی جہاز کا آرام دہ سفر کیا ہو مگر پھر بھی چار فرضوں میں قصر ہی کریں گے اور اگر زیا دہ عبادت کرنے کا دل چاہ رہا ہو تو اگر قضائے عمری باقی ہے تو اسے ادا فرمالیں اور قضاء نمازیں نہیں تو نوافل ادا کرلیں لیکن چار فرضوں کو ہر گز پورا پڑھنے کی اجازت نہیں بلکہ قصر کرنا لازم ہے -

سوال نمبر ۲: زیدحیدرآبادکا رہائشی ہے کراچی میں نوکری کرتا ہے اور وہ ہرہفتہ ایک دن چھٹی پر اپنے شہر حیدر آبادجاتا ہے لہذا وہ کراچی میں قصر پڑھے گا یا پوری اور اسی طرح حیدرآباد میں بھی قصر پڑھے یا پوری نماز پڑھے ؟

جواب: اگر کراچی میں ایک ساتھ پندرہ دن رکنے کا ارادہ نہ ہو تو قصر کريں گے اور حیدر آباد میں پوری نماز پڑھیں گے اگرچہ کہ پانچ منٹ کے لئے بھی حید آباد آنا ہو -

کیونکہ حیدر آباد آپ کا وطن اصلی ہے اور وطن اصلی اور وطن اقامت میں قصر نہیں بلکہ مکمل نماز اد ا کی جائے گی -

وطن اصلی کی تعریف
وہ جگہ جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں یا کسی جگہ سکونت اختیار کرلی اور یہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا

وطن اقامت کی تعریف
وہ جگہ جو وطن اصلی نہ ہو اور مسافر نے وہاں ۱۵ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹہرسنے کا ارادہ کیا ہو

اور یہ ضابطہ یاد رہے کہ وطن اقامت سے وطن اصلی کو جایا جائے یا سفر شرعی یعنی ۹۲ کلومیٹر کا سفر کیا جائے یا کسی اور مقام کو وطن اقامت بنالیا جائے تو پہلے والا وطن اقامت ختم ہوجاتا ہے اب یہ وطن اقامت نہ رہا بلکہ دوسرا شہر وطن اقامت بن گیا -

لہذا اب اگر اس پہلے والے شہر میں دوبارہ پندرہ دن سے کم قیام کرنے کے لئے جانا ہو اور اس نئے وطن اقامت اور اس شہر کے مابین مسافت شرعی ہو تو وہاں قصر کریں گے اور اس شہر کو پہلے وطن اقامت بنائے جانے کا کوئی اعتبار نہیں کہ اب یہ اس کے لئے وطن اقامت نہ رہا تا وقتیکہ دوبارہ پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت نہ کرلی جائے -

لہذا مذکورہ صورت میں حیدرآباد زید کاوطن اصلی ہے اور کراچی میں اگر پندرہ دن یا زیادہ رکنے کی کبھی نیت بھی کی تو کراچی اس کے لئے وطن اقامت ہوا پھر جب دوبارہ حیدرآباد اپنے وطن اصلی آیاتو اب کراچی وطن اقامت نہ رہا کہ وطن اقامت وطن اصلی جانے سے باطل ہوجاتا ہے اور یہ اپنے وطن اصلی حید رآباد آیا ہے لہذا اب کراچی وطن اقامت نہ رہا پھر جب دوبارہ کراچی گیا اور اس مرتبہ ۱۵ دن سے کم رکنے کا ارادہ ہے تو اب قصر نماز پڑھے گا کیونکہ اب اس کے لئے کراچی وطن اقامت نہیں ہے اور نہ وطن اصلی تو پوری نماز وطن اصلی میں اور وطن اقامت یعنی جس شہر میں ۱۵ دن یا اس سے زیادہ رکنے کا ارادہ ہو وہاں ادا کی جاتی ہے ۔

سوال نمبر۳: عورت شادی کے بعد جب اپنے گھر پندرہ دن سے کم رہنے کے لئے جائے اورمیکہ اور سسرال کے مابین مسافت شرعی ہوتو قصر پڑھے گی یا مکمل -

جواب: رخصتی کے بعد عورت کا اصل گھر اور اصل شہر شوہر والا ہوتا ہےنہ کہ والدین کاتو شادی کے بعد عورت کا وطن اصلی شوہر کا شہر ہوگا اب اگر شوہر کے ساتھ جس شہر میں رہائش پذیر ہے اس شہر کے درمیان اور اس کے والدین کے شہر کے درمیان مسافت شرعی ہو تو پھر جب بھی عورت اپنے والدین کے گھر پندرہ دن سے کم رہنے کے لئے جائے تو وہاں قصر نماز پڑھے گی ۔

لہذا مذکورہ صورت میں بھی عورت قصر نماز ادا کرے

سوال نمبر ۴: عیدین میں کوئی رکعت نکل جائے یا پہلی رکعت کی تکبیرات ہوجانے کے بعد نماز میں شامل ہو تو کس طرح نماز ادا کریں گے۔

جواب:اگر پہلی رکعت میں اس وقت شامل ہوا کہ امام صاحب نے تکبیرات ادا کرلی ہیں اب قرات فرما رہے ہیں تو نماز شروع کرتے ہی تینوں تکبیریں ادا کرلیں اور یہ یاد رہے کہ یہ تینوں تکبیریں تکبیر تحریمہ کے علاوہ ہیں یعنی کل چار تکبیریں ادا کرلیں اور اگر ابھی تکبیریں نہ کہیں تو رکوع میں تکبیر یں ادا کرلیں-

اسی طرح اگر امام کو رکوع میں پایا تو اگر تکبیر تحریمہ کے بعد کھڑے ہونے کی حالت ميں تینوں تکبیریں ادا کرنا ممکن ہو تو کھڑے ہونے کی حالت میں تکبیر تحریمہ کے بعد یہ تینوں تکبیر یں ادا کریں پھر رکوع میں امام کے ساتھ شامل ہوجائیں -

اور اگر یہ ڈر ہو کہ امام صاحب رکوع سے قومہ کی طرف منتقل ہوجائیں گے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں عیدین کی تکبیرات ادا کرلیں اور پھر رکوع میں کچھ ہی تکبیرات کہی تھیں کہ امام صاحب نے رکوع سے سر اٹھا لیا تو باقی تکبیرات ساقط ہوگئیں -

اور اگر ایک رکعت نکل گئی یعنی رکوع کے بعد نماز میں شامل ہوا تو پھر جب اپنی بقیہ رکعت کو مکمل کرئے اس وقت تکبیرات کہے۔

سوال نمبر۵: عید والے دن اگر بارش ہو رہی ہو اور پانی اس قدر ہو کے عید کی نماز پڑھنا مشکل ہو تو اس صورت میں عید کی نماز کیسے ادا کی جائے ۔ اور بعض نے پڑھ نے اور بعض بارش کے عذر کی وجہ سے نہیں پڑھ سے تو کیا حکم ہوگا؟

جواب:عید الفطر کے پہلے روز اگر کسی عذر کی بناء پر نماز نہ ہو سکی تو اگلے دن پڑھیں اور اگر دوسرے دن بھی کسی مجبوری کے تحت نہ ہوسکی تو اب تیسرے دن نہیں پڑھ سکتے البتہ عید الاضحی کی نماز ہو تو اس کو تیسرے دن بھی ادا کیا جائے گا اور یہ یاد رہے کہ دوسرے دن اور تیسرے دن نماز کے اوقات وہی ہونگے جو پہلے دن عید کی نماز کا ہوتا ہے ۔

بعض افراد نے عید کی نماز ادا کرلی اور بعض کسی عذرکے تحت نماز ادا نہیں کرسکے تو وہ بعض مذکورہ طریق پر عید الفطر دوسرے دن تک اور عید لافطر تیسرے دن تک ادا کرسکتے ہیں

سوال نمبر۶: نماز جنازہ کی تکبیرات اگر کچھ تکبیرات ہوجانے کے بعد نماز جنازہ میں شامل ہو تو اس کا طریقہ کیا ہے

جواب : باقی تکبیرات امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کریں اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ دعائیں پڑھے گا تو مکمل کرنے سے پہلے لوگ میت کو کندھے تک اٹھالیں گے تو دعائیں نہ پڑھے صرف تکبیرات کہہ لیں

سوال نمبر۷: کیا جمعہ کی نماز کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔

جواب : جمعہ کے دن غیر معذور وغیر مسافر پرجمعہ کی نماز پڑھنا فرض ہے ظہر کی نماز پڑھنا فرض نہیں ہاں اگر کسی مجبوری کے تحت جمعہ نہیں پڑھ سکا اور اب جمعہ نہیں ملے گا تو ظہر کی نماز ادا کرے ۔

البتہ بعض لوگ جمعہ کی صرف دو رکعت فرض کو ہی جمعہ سمجھتے ہیں اور باقی ۱۲ رکعتوں کو ظہر کی نماز تصور کرتے ہیں یہ علم دین سے دوری کا نتیجہ ہے یہ ۱۴ رکعتیں جمعہ کی ہی ہیں انہیں ظہر کی نماز سمجھنا ہی غلط ہے ۔

والسلام مع الا کرام
ابو السعد مفتی محمد بلال رضا قادری
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 71659 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.