جس طرح پاکستانی قوم محنت سے
بھاگتی ہے بالکل اُسی طرح اب یورپی اقوام امریکہ سے گریزاں دکھائی دیتی ہیں۔
اُن کا بس چلے تو رَسّی تُڑاکر، بلکہ کھونٹے کے ساتھ بھاگ نکلیں! مگر مسئلہ
یہ ہے کہ یہ کھونٹا ہی تو ذِلّت ہی کی نِشانی ہے!
امریکہ اپنے اتحادیوں اور بالخصوص گورے ساتھیوں کو قسمیں کھا کھاکر یقین
دِلا رہا ہے۔
اوج پر نجم مقدر ہے وفا والوں کا
منہ کی کھا جائیں گے سب اہل ہوس اب کے برس!
مگر یورپ والے بہت کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ہر یقین دہانی پر اُن کا یہی
جواب ہوتا ہے۔
تِرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!
امریکہ اچھا خاصا زور لگاکر اِس بات پر زور دے رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف
جنگ میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف حتمی اور مکمل فتح کی منزل اب زیادہ
دور نہیں۔ مگر اتحادی زبان حال سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
کون جیتا ہے تِری زُلف کے سَر ہونے تک!
ہم خیال اور حاشیہ بردار ممالک کو امریکہ نے خاصے سبز باغ دکھائے تھے اور
جَنّت کے حصول کا یقین دلاکر افغانستان کی راہ دِکھائی تھی۔ آس یہ بندھائی
تھی کہ لڈو پیڑے بانٹے جائیں گے مگر جلد ہی یہ راز کھل گیا کہ میٹھی تو
میٹھی، کوئی نمک جیسی کھاری چیز بھی آسانی سے ہاتھ نہ آئے گی! افغانستان کی
سنگلاخ زمین پر قدم رکھتے ہی ترقی یافتہ اور آرام پسند اقوام کے فوجیوں کو
اندازہ ہوا کہ
خواب تھا جو کُچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
نائن الیون کے بعد کی پیچیدہ صورت حال میں جب طالبان کے ہاتھوں ٹھیک ٹھاک
مار پڑی تو گوری چمڑی والے دہریت پسند فوجیوں کو بھی خُدا یاد آگیا! اور
پھر اُنہوں نے اُس دن کو کوسنا شروع کیا جب امریکہ کی باتوں پر اعتبار کیا
تھا۔ یعنی
غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا!
اب یورپ مجبور ہوکر امریکہ سے کہہ رہا ہے کہ بھائی! ہمیں تو بخشو۔ تمہارا
کیا ہے، تم تو لڑتے آئے ہو اور لڑتے رہو گے۔ ویت نام نہ سہی، افغانستان سہی۔
جنگ جاری رہتی ہے، صرف میدان بدل جاتا ہے۔ ایک ہی پکچر دکھاتے رہتے ہو، بس
تھیٹر تبدیل کرنے کی زحمت گوارا کرلیتے ہو۔ دنیا کچھ کی کچھ ہوگئی ہے اور
زمانہ بھی بدل گیا مگر امریکہ نہ بدلا۔
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے!
امریکہ سے لاکھ کہیے کہ سب کو ساتھ لیکر چلنے، مل کر کام کرنے میں دُنیا کی
بھلائی ہے مگر اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ کتنا ہی سمجھائیے کہ طاقت کے
نشے میں بدمست نہ ہو رہو مگر وہ خُرّانٹ بھینسے کی نَقّالی کرنے سے باز
نہیں آتا۔ زیادہ زور دیجیے تو امریکی قیادت غالب کے سے انداز سے کہتی ہے۔
جانتا ہوں ثواب طاعت و زُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!
فرانس کے نئے صدر فرانکوا اولاند نے انتخابی مہم میں کئے گئے وعدے کی روشنی
میں افغانستان سے قبل از وقت انخلاءکا اعلان کردیا ہے۔ یہ فوج اور عوام
دونوں کی مرضی کا سودا ہے۔ ایک تیر میں دو نشانے لگائے گئے۔ امریکہ کی
ناراضی کا کیا ہے؟ اگر اُس کی خفگی کا سوچ سوچ کر چلتے رہیں تو پہنچ چکے
منزل تک؟ امریکیوں کو ویت نامیوں نے ناکوں چنے چبوائے مگر اُنہوں نے کوئی
سبق نہیں سیکھا۔ صومالیہ جیسی تباہ حال قوم نے بھی پیٹا مگر عقل نہ آئی،
ہوش کے ناخُن نہ لئے۔ اب افغانستان میں ذِلّت کھا کھاکر پیٹ بھرچکا ہے مگر
نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لے رہی! امریکی خُدا جانے کِس ڈھیٹ ہَڈّی کے
بنے ہوئے ہیں!
جارج واکر بش نے امریکی خارجہ پالیسی کا سَر جنگ و جدل اور قتل و غارت کی
اوکھلی میں دیا اور بعد میں یہ اوکھلی براک اوبامہ کو تھماکر اپنی راہ لی۔
عراق سے تو کِسی نہ کِسی طور پنڈ چھڑالیا گیا مگر افغانستان ایسی دلدل ہے
جس میں شوقین دَھنستے ہی چلے جاتے ہیں! اگر امریکی ڈھیٹ ہیں تو افغان بھی
قول اور ضِد کے پَکّے ہیں۔ امریکی طاقت کے استعمال سے باز نہیں آ رہے اور
دوسری طرف طالبان سَر فروشی کےلیے ہر گھڑی تیار رہتے ہیں۔ یعنی بقول غالب
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟
اور اگر مصطفٰی خاں شیفتہ کی زبان میں کہیے تو
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!
طالبان گفت و شنید پر آمادہ ہوتے ہیں تو امریکی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ فی
الحال مارنا پیٹنا اور چُونا لگانا چھوڑ دیں گے۔ مگر کچھ ہی دنوں میں پتہ
چلتا ہے کہ
ہے مشق سُخن جاری، چَکّی کی مَشقّت بھی
کے مِِصداق طالبان ایک طرف تو مذاکرات کرتے ہیں، دوسری طرف امریکیوں کی
طاقت کا جواب بھرپور خود کش حملوں کے ذریعے دیتے ہیں اور تیسری طرف کوئی
خود کو طالبان کا نمائندہ ظاہر کرکے لاکھوں ڈالر لے اُڑتا ہے!
جس طرح گاؤں میں وڈیرے یا چوہدری کو کمپنی کی مشہوری کے لیے چند چمچوں کی
ضرورت رہتی ہے بالکل اُسی طرح امریکہ یورپ کو حاشیہ بردار کی حیثیت سے ٹریٹ
کرتا آیا ہے۔ مگر اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بے چارے چمچوں کو بھی اندازہ
ہوچکا ہے کہ چوہدری کے لیے ہر اوکھلی میں سَر نہیں دیا جاسکتا! برطانیہ،
فرانس، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، کینیڈا سبھی طالبان کمانڈرز کو مال
دیکر اپنے فوجیوں کی گردنیں بچاتے رہے ہیں۔ فوجیوں کا جانی نقصان یورپ میں
حکومت کی بنیاد ہلا دیتا ہے۔ گوروں کو زندگی اِتنی پیاری ہے کہ مال کھلاکر
فوجیوں کی گردنیں بچانے کی خبر عام بھی ہو جائے تو بُرا نہیں مانتے، بلکہ
اپنی حکومتوں کو سراہتے ہیں کہ عقل اور دولت سے خوب کام لیا! ظاہر ہے اِتنی
دولت اور کِس کام کے لیے ہے؟ طالبان کو اندازہ ہے کہ یورپ کی دُکھتی رگیں
کون کون سی ہیں۔ چار فرانسیسی فوجی موت کے گھاٹ اتارے تو پیرس بلبلا اُٹھا
اور فرانسیسی حکومت بوریا بستر لپیٹ کر انخلاءکے ساحل پر لنگر انداز ہوگئی!
بعض پریمی جوڑے راتوں رات گھر سے بھاگ نکلنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بس
کچھ ایسا ہی حال اب یورپی اقوام ہے جو افغانستان میں امریکہ بہادر کو تنہا
چھوڑنے پر بھی کمر بستہ دِکھائی دیتی ہیں! فرانس کے صدر نے سوچا دسمبر 2014
کِس نے دیکھا ہے۔ پتہ نہیں تب تک دُنیا کیا سے کیا ہو جائے! اوبامہ کو تو
بس دوبارہ منتخب ہونے سے غرض ہے۔ صدارت کے منصب پر مزید چار سال رہنا ممکن
ہو جائے گا تو پالیسی اور مزاج دونوں ہی بدل جائیں گے! اور تب اُنہیں یورپ
سے کچھ خاص غرض نہ رہے گی! یورپ کو تب کی فکر لاحق ہے۔ یورپ کے لیے امریکہ
کمبل سا ہوگیا ہے۔ اب یورپ چاہتا ہے کہ کمبل کو اُتار پھینکے مگر کمبل ہے
کہ جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یورپ کی کئی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں حصہ لینے کی نذر ہوچکی ہیں۔ مگر امریکہ کی نذر و نیاز اب تک مکمل نہیں
ہوئی۔ وہ یورپ سے مزید قربانیوں کا طالب ہے۔ یورپ کے لوگ پاکستان کے انجام
سے سبق سیکھ چکے ہیں کہ بے انتہا قربانیاں دیکر بھی طعنے ہی سُن رہا ہے!
فیشن کے دارالحکومت پیرس نے قبل از وقت انخلاءکا اعلان کرکے جو اسٹریٹجک
فیشن متعارف کرایا ہے اُس کی تقلید کی جانی چاہیے تاکہ امریکہ بہادر
اسٹریٹجک معاملات کے چوراہے پر تنہا رہ جائے اور اُسے اندازہ ہو کہ طاقت کے
نشے میں دُھت ہوکر ہر ایک کو لات مارنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے! |