لیجیے، سپریم کورٹ نے بالآخر
یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا۔ اور راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بن گئے۔
توہین عدالت کیس کے فیصلے کے بعد اسپیکر ریفرنس کیس میں سپریم کورٹ نے وزیر
اعظم کو باضابطہ نا اہل قرار دینے کا فیصلہ دیکر ثابت کردیا کہ ملک میں اب
حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
ایک زمانے کو انتظار تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی وکٹ کب گرتی ہے۔ اور پھر
وکٹ گرگئی۔ مگر سچ یہ ہے کہ گیلانی دانستہ ہٹ وکٹ ہوئے۔ وزارتِ عُظمٰی کے
منصب پر فائز ہونے کی کوئی تو قیمت اُنہیں ادا کرنا تھی سو کردی۔ صدر کے
خلاف سوئس حکومت کو خط لکھنے سے انکار کی پاداش میں اُنہیں وزیر اعظم کے
منصب سے دور تو ہونا ہی تھا۔ جب بندہ خود ہی گڑھے میں گرنے کے لیے نہ صرف
بے تاب ہو بلکہ گڑھے میں گرنے کو خوش بختی اور وفاداری گردانتا ہو تو
دَھکّا دینے والوں کو کِس بات کا کریڈٹ دیا جائے!
چیف جسٹس نے گیلانی کو نا اہل قرار دیکر قانون کا بول بالا کردیا۔ گیلانی
نے اپنے منصب کی بساط لپیٹ گھر کی راہ لی۔ ان کے اہل خانہ نے برملا کہا ہے
کہ جو کچھ یوسف گیلانی نے کیا اس پر اُنہیں فخر ہے! اُنہوں نے (ملک سے نہ
سہی!) پارٹی سے وفاداری نبھادی۔ ثابت ہوا کہ اب پارٹی کی قیادت سے وفاداری
ہی پارٹی سے وفاداری کے مترادف ہے!
مرزا تنقید بیگ خدا جانے کِس دُنیا سے آئے ہیں کہ آج تک ہماری سمجھ میں
نہیں آئے! جب پوری قوم خوشی سے سرشار ہوتی ہے تب وہ تفکرات میں ڈوبے دکھائی
دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کی وکٹ گرنے پر قوم جشن منا رہی ہے، بھنگڑے ڈالے جارہے
ہیں اور مرزا ہیں کہ منہ پُھلائے بیٹھے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اگر کوئی وضاحت
طلب کرے تو کاٹنے کو دوڑتے ہیں! خیر، ایک مرزا کو کیا روئیں، اب یہاں کون
کِسی کی سمجھ میں آتا ہے!
یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم ہاؤس سے بے نیل و مرام نکلے تو قوم نے مسرت
کا اظہار کیا کہ
دِن گِنے جاتے تھے اِس دِن کے لیے
مگر مرزا اُداسی سے ہم آغوش رہے۔ ہم نے سبب پوچھا تو فرمایا ”یہ تو بڑوں کی
لڑائی ہے۔ ایک جائے گا تو دوسرا آ جائے گا۔ آئین کی حُرمت اور پارلیمنٹ کی
بالا دستی کے نعرے خوب ہیں مگر اِن نعروں سے کِس کا پیٹ بھرتا ہے؟ گاڑی سے
جھنڈا اُترا تو یوسف رضا گیلانی کا مُنہ اُتر گیا مگر کیا چار برسوں کے
دوران آسمان پر چڑھے ہوئے نرخ بھی اُترے؟ عدلیہ تو خیر بہت ”چارجڈ“ دِکھائی
دیتی ہے مگر یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اُسے بجلی کہاں سے مل رہی ہے! اور اِس
سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ عوام کو بجلی کب ملے گی؟ لگتا ہے ساری بجلی حالات
میں سماگئی ہے جو عوام کو جھٹکوں پہ جھٹکے دے رہے ہیں!“
سیاست دانوں کے مزاج اور نیت کی طرح مرزا کی نفسیاتی ساخت بھی کبھی ہماری
سمجھ میں نہیں آسکی! اب عدلیہ شاندار اور پُروقار فیصلے دے رہی ہے تو وہ
شِکایات کا پوٹلا کھولے بیٹھے ہیں۔ میمو کیس کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے۔
توہین عدالت کیس میں وزیر اعظم کو سزا ہوئی اور نا اہلی کے بعد اُن کی
رخصتی ہی عمل میں نہیں آئی بلکہ نیا وزیر اعظم بھی آچکا ہے۔ اب مرزا کو کِس
فیصلے کا انتظار ہے؟ مرزا کہتے ہیں ”زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے
والوں کے مقدمات کب فیصل ہوں گے؟ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار تھا سو
آگئے۔ جن پر کرپشن کے الزامات ہیں وہ محض برطرفی کی صورت میں بخش دیئے جاتے
ہیں۔ ’نیب‘ نے بہت سے کرپٹ حکام اور سیاست دانوں سے وصولیاں بھی کی ہیں مگر
اِس وصولی سے عوام کو کیا ریلیف ملا؟ اُن کے لیے تو زندگی سَستی نہیں ہوئی۔
جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت اچھا تو لگتا ہے مگر فریب نظر کے سِوا کچھ بھی
نہیں۔ سب میڈیا کی جنگ ہے۔ عوام کو اِس سے کیا کہ کِس کی پگڑی اُچھلی اور
کِس کی مسند یا گَدّی گئی۔ اُنہیں تو یہ دیکھنا ہے کہ چولہا جلتا رکھنے کا
خرچ کم ہوا یا نہیں۔ عام آدمی کو اِس بات سے کیا غرض کہ کون سا سیاسی بُت
مُنہ کے بل گِرا اور کِس کی گُڈّی اُونچی اُڑ رہی ہے۔ وہ اپنی زندگی کی
پتنگ کو پُرسُکون فضاؤں میں اُڑتی ہوئی دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ اِس سے
زیادہ اُسے کچھ بھی درکار نہیں۔“
ہم نے خُلوص، احترام اور شائستگی کے ساتھ عرض کیا کہ اُدھر قوم کی تقدیر کے
فیصلے ہو رہے ہیں اور آپ کو چولہے اور دال روٹی کی فکر لاحق ہے! میڈیا کے
ذریعے عوام کو اندازہ ہو رہا ہے کہ اُن کے حقوق اور وسائل پر شب خون مارنے
والوں کی گردن ناپی جارہی ہے اور آپ غریبوں کے لیے اظہار مسرت کے موقع کو
تفکرات اور تحفظات سے آلودہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اِتنا سُننا تھا کہ
مرزا غضب ناک اور ہیبت ناک ہوگئے۔ تقریباً پُھنکارتے ہوئے فرمایا ”اِن ساری
باتوں سے کِس کا بھلا ہوا ہے یا ہوگا؟ عدلیہ کی بالا دستی سر آنکھوں پر۔
پارلیمنٹ کی ارفع حیثیت سے بھی کِس کو انکار ہے۔ مگر عدلیہ حالات کی چَکّی
میں پسنے والوں کو زندہ رہنے کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے کیا کر رہی
ہے یا کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ طرح طرح کے سو موٹو نوٹس لیے جاتے ہیں،
غریب کی دال روٹی واقعی سستی کرنے کے لیے سو موٹو نوٹس کب لیا جائے گا؟
کوئی چیف جسٹس صاحب کو بتائے کہ زندگی کی بساط پر ہر بازی ہارنے والے منتظر
ہیں کہ کوئی چال اُن کے بھی حق میں جائے! کبھی تو اُن کی بھی شُنوائی ہو۔
اِس مُلک کے پچھڑے ہوئے لوگ کِسی ایسے فیصلے کے منتظر ہیں جس کے نتیجے میں
اُن کی زندگی کے سر پر بندھی ہوئی احتجاجی سیاہ پَٹّی اُترے اور وہ بھی
واقعی مست ہوکر بھنگڑے ڈال سکیں!
دِن گِنے جاتے ہیں اُس دِن کے لیے! |