ایک خوبصورت تحریر کے عنوان سے
آج جو تحریر راقم نے یہاں نذر قارئین کرنے کا ارادہ کیا ہے وہ راقم کی اپنی
تحریر نہیں ہے بلکہ جی سی یونیورسٹی کے کسی سابقہ طالبعلم یا اس تعلیمی
ادارے سے وابستہ کسی اقبال کے شاہین نے تحریر کی ہے-
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ جو خود اس ادارے کی شان رہے ہیں جنہوں نے یہاں
سے کسب فیض خود بھی حاصل کیا اور آئیندہ نسلوں کے لئے بھی مشعل راہ بن کر
اَبھرے بلکہ آج تک علم کی یہ شمع روشن ہے علم کی وہ شمع جس کا تذکرہ اقبال
کی نظم ‘دَعا‘ میں ملتا ہے بلکہ بھرپور وضاحت سے ملتا ہے
جو کہ آج پاکستان کے بچے بچے کو یاد ہے
ہر تعلیمی ادارے میں تلاوت قرآن پک کے بعد یہ دعا بچوں کو پڑھائی جاتی ہے
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہے اس راہ پہ چلانا مجھ کو
جب یہ دعا ہر روز پڑھی جائے گی تو کیا یہ ممکن ہے کہ دل پہ اثر نہ کریں اور
کوئی ان پر عمل نہ کرے اثر ضرور کرتا ہے یہ پیغام جو دیا ہے علامہ اقبال نے
اپنی قوم کے بچوں کے نام پھر کیا وجہ ہے کہ رفتہ یہ پیغام ہماری آئیندہ
نسلیں فراموش کرتی جا رہی ہیں-
کیوں اضطراب و بےچینی بڑھتی جا رہی ہے کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا
حالات سدھرنے کی بجائے مزید سے مزید تر دگرگوں ہوتے رہیں گے بگڑتے ہی جائیں
گے۔۔۔؟؟؟
نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ہماری قوم ہم جو مسلمان ہیں جس قوم کا رب
تعالٰی پہ ایمان ہے مایوس ہو جائیں ہمت ہار جائیں مایوسی کے اندھیرے کو چیر
کے روشنی نہ پھیلائیں ایسا ممکن ہی نہیں
کہ ‘ذرا نم ہو یہ مٹی تو بہت زرخیز ہے ساقی‘
لیجئے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی خیر تذکرہ ہے یہ اقبال کے ایک شاہین کی
تحریر کا پَرخلوص پیغام ہے یہ ایک درد مند رفیق کا جو اپنے ساتھیوں کو
اقبال کے شاہینوں کو پھر سے یاد دلانا چاہتا ہے وہ سبق جو مخالفین ہمارے
ذہنوں سے رفتہ رفتہ کھرچنے میں لگے ہیں مختلف دلفریب حیلوں میں اَلجھانے کی
کوشش کرتے ہوئے-
تمہید کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی اب آتے ہیں اصل بات اصل پیغام اور اس
خوبصورت تحریر کی طرف جو
جی سی یو لائبریری کی ایک کتاب
“The clash of civilizations and the remaking of world order“ میں سے بہت
ہی خوبصورت خط میں لکھی ہوئی پائی گئی ہے سو آج نظرسے گزری اور آج ہی
قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی جاری آغاز میں یہ لکھا ہے
Dedicated to Great GC 14 Feb.2005
اور تحریر کے اختتام پہ لکھا ہے
Dedicated to Great GC 14 Feb.2005
I dedicated my purest feelings to this Glorious institution GC
“جانتے ہو!خدا کے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ “عاجزی‘ کی ہاں خدا کے پاس صرف اس
ایک واحد چیز ہی کی کمی ہے۔ یہ کہ اس کے ہاں “عجز“ نہیں اس لئے خدا کو اپنے
بندوں کی سب عادتوں، رویوں میں سے عاجزی و انکساری سب سے زیادہ پسند ہے دعا
کا وہ تحفہ جو ہم عاجزی کے گفٹ پیپر میں پیک کر کے اس کی طرف بھیجتے ہیں وہ
اسے سب سے پہلے قبولیت سے نوازتا ہے-
اناء کی خودی کو مار کر تو دیکھو، اس کی جگہ وہ تمہیں اس “خودی“ سے نواز دے
گا کہ تمہیں اس کے پاس جانے کی حاجت نہیں رہے گی بلکہ وہ خود تمہارے پاس چل
کر آئے گا بلکہ آنے کی بھی ضرورت نہیں
کیونکہ خدا اور بندے کے درمیانواحد رکاوٹ حجاب ‘میں‘ یہی تو ہے جب ‘میں‘
نہیں بچتا تو پھر کوئی پردہ نہیں رہتا اور اس ‘میں‘ کے بَت کو صرف ‘عجز‘ کے
ہتھیار سے ہی توڑا جا سکتا ہے-
رونا یقیناً مَسکرانے سے زیادہ افضل ہے۔ تبھی تو خدا کو بھری ہوئی آنکھ بہت
پسند ہے۔ لیکن آنسو وہ نعمت ہیں جو مسکرانے کے بعد عطا کی جاتی ہے-
ابھی تو ہمیں محبت سے مسکرانا بھی نہیں آتا، ہم کیا جانیں کہ اپنے قرب کے
بچھڑے احساس میں رونا کیاس ہوتا ہے“-
سلام ہو اس انجانے گمنام لکھاری پہ جس کی تحریر نے پھر سے بہت کچھ بھَلایا
گیا یاد دلا دیا |