آذر بائیجان کی کہانی
پیارے بچوں ہم جانتے ہیں کہ ملک پاکستان میں بچوں کے لئے بہت کم لکھا جاتا
ہے میں (عبدالرزاق واحدی) نے کوشش کی ہے کہ مختلف ممالک کی لوک کہانیاں اس
فورم پر آپ کے لئے پیش کی جائیں۔ انشاءاللہ یہاں پر آپ کو مختلف ممالک کی
دلچسپ لوگ کہانیاںپڑھنے کو ملے گئی۔ اس سلسلے کی پہلی کہانی پیش خدمت ہے۔ (عبدالرزاق
واحدی)
آپ کا کیا خیال ہے کہ میں آپ کو کیا سنانے والا ہوں؟ ہاں،میں ایک سوداگر کی
کہانی سناؤں گا،جس کا نام فیروز تھا۔وہ مصر میں رہتا تھا اور اُس نے کئی
ملکوں کا سفر کیا اور خوب تجارت کی۔وہ طرح طرح کا مال خریدتا اور بیچا کرتا
تھا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اُسے ایک بہت لمبے سفر پر جانا تھا۔جب وہ مال و
اسباب خرید چکا اور ملازم رکھ لیے تو اُس نے اپنے خاندان کو خدا حافظ کہا
اور قافلہ لے کرروانہ ہو گیا۔وہ چلتے چلتے ایک اجنبی شہر میں جا پہنچا۔وہ
کچھ تھک گیا تھااور یہاں آرام کرنا چاہتا تھا،چنانچہ وہ ایک کاروا ں سرائے
میں جا اُترا۔
جب وہ وہاں اندر بیٹھا کچھ کھا پی رہا تھا تو ایک آدمی اُس کے پاس آیا اور
بولا،”سوداگر میاں!میں دیکھ رہا ہوں کہ تم دور دیس سے آئے ہو اور ہمارے ملک
کے رسم و رواج سے واقف نہیں ہو۔“
”تم کون سے رسم و رواج کی بات کر رہے ہو ؟“ فیروز سوداگر نے پوچھا۔
”رسم یہ ہے کہ جو بھی تاجر یا سوداگر اس شہر میں باہر سے آئے،وہ بادشاہ کو
ایک اعلیٰ و عمدہ تحفہ پیش کرتا ہے۔تحفے کے شکریے کے طور پر بادشاہ سوداگر
کو شام کے وقت ”چوسَر“ کھیلنے کی دعوت دیتا ہے۔“ آدمی نے بتایا۔
بیچارہ سوداگر کیا کرتا؟ وہ مجبور تھا ،چنانچہ اسے تحفہ لے کر بادشاہ کے
پاس جانا پڑا۔اُس نے اپنے مال میں سے سب سے قیمتی شے نکالی،اُسے سونے کی
ٹرے میں سجایا اور بادشاہ کی خدمت میں جا حاضر ہوا۔
بادشاہ نے تحفہ قبول کر لیا اور تاجر سے پوچھا کہ وہ کہاں پیدا ہوا تھا۔اُس
کے پاس کیا کیا سامان تھا اور کون کون سے شہر اُس نے دیکھے اور کون کون سے
ملک اُس نے پھرے ہوئے تھے۔فیروز نے بادشاہ کے تمام سوالوں کا جواب دیا۔آخر
میں شاہ نے کہا ،”تم آج شام میرے ہاں آؤ،ہم دونوں بازی لگا کر ”چوسر“
کھیلیں گے۔“
شام کو فیروز بادشاہ کے پاس پہنچا۔شاہ اپنے سامنے چوسر کی بساط بچھائے اسی
کا انتظار کر رہا تھا۔شاہ نے اسے دیکھتے ہی کہا ،”سوداگر سنو!یہ ضابطے کی
باتیں ہیں۔میرے پاس ایک بلّی ہے ،بہت ہی تربیت یافتہ بلّی۔وہ ساری رات اپنی
دُم پر سات موم بیتیاں رکھے بیٹھی رہتی ہے۔اگر ہمارے کھیل کے دوران وہ بلی
بالکل خاموشی سے بیٹھی رہی تو تمھارا سارا مال اسباب میرا ہوگا اور تمہیں
جیل جانا ہو گا لیکن اگر بلّی نے اپنی جگہ سے حرکت کی تو میرا سب کچھ
تمھارا ہو گا اور تم میرے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق ،جیسا چاہو سلوک کر سکو
گے۔اس کا تمہیں مکمل اختیار ہو گا۔“
بیچارہ سوداگر کیا کرتا؟ وہ بھاگ بھی نہیں سکتا تھا اور نہ ہی احتجاج کر
سکتا تھا۔چنانچہ وہی ہوا جو بادشاہ نے کہا تھا۔سوداگربیٹھا ہوا سوچ رہا تھا
کہ کاش وہ اس شہر میں نہ آتا۔
بادشاہ نے اپنی سدھائی ہوئی بلّی کو پکارا۔وہ آئی اور آکر اُس کے سامنے
بیٹھ گئی۔پھر اُس نے سات موم بتیاں منگوائیں تو نو کر بتیاں لے آئے اور
بلّی کی دُم پر رکھ دیں۔بادشاہ چوسر پر جھکا اور وہ کھیلنے لگے۔
تاجر نے کئی بار بلّی کو دیکھا لیکن وہ بالکل ساکت بیٹھی تھی۔وہ بالکل یوں
لگ رہی تھی جیسے پتھر کی بنی ہو۔اس طرح ایک دن اور ایک رات گزر گئی اور پھر
دو دن اور دو راتیں اور گزریں۔فیروز بادشاہ کے ساتھ چوسر کھیلتا رہا اور
بلّی نے حرکت تک نہ کی۔
تب فیروز زیادہ دیر تک نہ کھیل سکا۔”مجھ سے اب اور نہیں کھیلا جا تا!“ وہ
چلایا۔”تم جیت گئے۔“
بادشاہ اسی وقت کا انتظارکر رہا تھا۔اس نے اپنے نوکروں کو بلایا اور کہا
،”جاؤ اور سوداگر کا سارا مال اسباب،ساری دولت لے آؤ اور اسے جیل میں قید
کردو۔“
فیروز کو جیل میں ڈال دیا گیا اور اس کی ساری دولت اور مال و اسباب بادشاہ
نے لے لیا۔فیروز جیل میں بیٹھا سوچنے لگا کہ وہ کتنا احمق تھا جو اس شہر
میں آ یا تھا۔
تھوڑی دیر کے لیے اب ہم فیروز کو یہیں چھوڑتے ہیں اور اُس کی پیاری بیوی کے
بارے میں تمہیں بتاتے ہیں۔جس کا نام سرینار تھا۔وہ کافی عرصے تک گھر میں
بیٹھی اپنے شوہر کی واپسی کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں
لَوٹا تھا۔دن گزرتے جا رہے تھے اور اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس پر
کیا بیت رہی ہوگی۔وہ جتنا سوچتی اس سے کہیں زیادہ بے چین ہو جاتی۔
ایک روز اچانک فیروز کا ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے اُسے بتایا کہ
ایک بادشاہ نے سوداگر کو قید کر رکھا ہے اور اس کا سارا مال و اسباب اور
دولت اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔ملازم نے بتایا کہ وہ بس اتنا ہی کر سکا ہے
کہ اپنی جان بچا کر یہاں تک بھاگ آیا ہے۔پھر اُس نے ساری کہانی سوداگر کی
بیوی کو سنائی کہ اصل میں ہوا کیا تھا۔”اب ہم کیا کریں؟“ اس نے پو چھا۔
سرینار نے نوکر کی زبانی سارا ماجرا سُنا۔پھر اُس نے اُسے چوہے پکڑ کرلانے
کی ہدایت کی۔”اتنے زیادہ چوہے پکڑ کر لاؤ کہ اُن سے ایک پورا صندوق بھر
جائے۔“ وہ بولی۔پھر اُس نے مردانہ کپڑے پہنے ، اپنے ساتھ سونا اور چاندی لی
اور اپنے شوہر کو بچانے کے لیے روانہ ہو گئی۔چوہوں والا صندوق بھی اُس کے
پاس تھا۔
وہ دوسرے قافلوں کے ساتھ راستے میں کسی بھی جگہ بالکل نہ رُکی۔یہاں تک کہ
وہ اُس شہر میں پہنچ گئی جہاں اُس کے شوہر کو بادشاہ نے قید کر رکھا تھا۔
اُس نے اپنے ملازم سے کہا کہ وہ کاروا ں سرائے میں ٹھہرے جب کہ باقی اُس کے
ساتھ بادشاہ کے پاس جائیں گے۔اُس نے سونے کی ایک ٹرے میں قیمتی تحفے سجائے
اور انہیں لے کر محل کی طرف روانہ ہو گئی۔ملازم اُس کے پیچھے پیچھے چوہوں
سے بھرا ہوا صندوق اٹھائے ہوئے تھے۔جب وہ محل کے دروازے پر پہنچے تو سرینار
نے ملازموں سے کہا،”جب میں بادشاہ کے ساتھ چوسر کھیلنے لگوں تو تم دروازے
میں سے ایک ایک کر کے چوہے اندر چھوڑتے جانا۔“
ملازم صندوق کے ساتھ باہر چھپ کر بیٹھ گئے۔سرینار بادشاہ کے پاس گئی اور
آداب بجا لاتے ہوئے بولی، ”میں یہاں کی رسم کے مطابق آپ حضور کے لیے یہ
تحفے لائی ہوں۔“ اور پھر اُس نے وہ تحفے بادشاہ کو پیش کر دیے۔
بادشاہ نے سرینار کو بڑی عزت دی۔اُسے بہت اچھا کھانا دیا اور پھر اُسے چوسر
کھیلنے کی دعوت دی۔
”کھیل کے قوائد و ضوابط کیا ہوں گے؟“ سرینار نے پوچھا۔
”ہم اتنی دیر تک کھیلیں گے جب تک میری تربیت یافتہ بلّی،اپنی دم پر سات موم
بتیاں جلا کر بیٹھی رہے گی اور بالکل کوئی حرکت نہیں کرے گی۔“ بادشاہ نے
کہا۔
”اور اگر تمہاری بلّی نے کوئی حرکت کی یا اپنی جگہ سے ہلی تو!“ سرینار نے
پو چھا۔
”تو پھر جیت تمہاری ہوگی۔“ بادشاہ نے جواب دیا ۔
”اچھا!“ سرینار نے کہا۔”تو یوں کھیل کھیلا جائے گا۔“
بادشاہ نے بلّی کو آواز دی اور وہ آکر بادشاہ کے سامنے قالین پر بیٹھ
گئی۔اس کے بعد ملازم آئے اور انہوں نے آکر جلتی ہوئی سات موم بتیاں اُس کی
لمبی دُم پر رکھ دیں۔
اب سرینار اور بادشاہ چوسر کھیلنے لگے۔بادشاہ دل ہی دل میں مسکرایا اور
سوچا کہ یہ نوجوان سوداگر کب ہار مانے گا۔“ اسے ابھی تک سرینار کی اصلیت کے
متعلق کچھ بھی خبر نہیں تھی۔
اِدھر انہوں نے کھیل شروع کیا اور اُدھر سرینار کے ملازموں نے جو باہر
دروازے کے قریب چھپے بیٹھے تھے،صندوق کھولا اور ایک چوہا دروازے سے اندر
چھوڑ دیا۔بلّی نے چوہے کو دیکھا تو اس کی آنکھیں چمکیں۔وہ چوہے کے پیچھے
دوڑنا چاہتی تھی لیکن بادشاہ نے غصے سے اُسے دیکھا اور وہ چُپ چاپ اپنی جگہ
پر بیٹھی رہی۔
کچھ دیر بعد نوکروں نے ایک دو اور چوہے کمرے میں چھوڑ دیے۔وہ آگے پیچھے
دوڑتے ہوئے دیواروں پر چڑھنے لگے۔اب بلّی کے صبر کا پیمانہ بھر گیا۔اُس نے
میاؤں کی اور یکدم ایک چھلانگ لگائی جس سے ساری موم بتیاں اُلٹ گئیں اور وہ
چوہوں کا تعاقب کرنے لگی۔بادشاہ نے بڑی آوازیں دیں۔وہ چیخا چلایا مگروہ کچھ
بھی کر سکا۔بلّی اُس کی بات ہی نہیں سُن رہی تھی۔
تب سرینار نے اپنے نوکروں کو آواز دی۔وہ اندر آئے اور بادشاہ کو چابکوںسے
پیٹنے لگے۔یہاں تک کہ وہ گڑ گڑانے لگا،”میں تمام قیدیوں کو چھوڑتا ہوں،بس
میری جان بخش دو۔میں وہ سب کچھ واپس کر دوں گا جو تم سے اور قیدیوں سے لے
چکا ہوں،مجھے معاف کردو ،میری جان بخش دو!“ وہ رو رو کر فریاد کر رہا تھا۔
سرینار کے ملازم اُسے لگا تار مارتے رہے اور وہ روتا،چیختا چلاتا رہا لیکن
اب وہاں اُس کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔
سرینار نے اپنے دوسرے نوکروں سے کہا کہ تمام قیدیوں کو جیل سے رہا کرکے
بادشاہ کو قید کردیا جائے۔ پھر سرینار اور اُس کا شوہر فیروز اپنے ملازموں
کے ساتھ اپنے ملک واپس چلے گئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔ (ترجمہ : نصر ملک ) |