صحافت کی اہمیت

میڈیا کے حوالے سے جو رپورٹس منظر عام پر آئیں ہیں اس سے میڈیا کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ میڈیا کو عام طور پر معاشرے کی نگاہ اور حق تک رسائی کا اہم ذریعہ شمار کیا جاتا ہے۔ یوں تو میڈیا کا مثبت کردار بہت ہے مگر یہاں پر کچھ منفی کردار پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ایک ایسا معاشرہ کہ جہاں غریب اوربے سہارہ لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ جہاں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کوئی پوچھنے والا نہ۔ جہاں ہر کوئی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مقولے پر عمل کرتے ہوں۔ جہاں فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا جارہا ہو۔ حق کو باطل اور باطل کو حق کرنے کی کوشش کی جارہی ہو ایسے میں میڈیا امید کی کرن ہی ثابت ہوا ہے۔ میڈیا ہی ایک ذریعہ ہے کہ جس کے ذریعے گنگے کو زبان، نابینے کو بینائی، بہرے کو قوت گویائی کا سبب بنتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں شروع دن سے ہی میڈیا کو اہمیت حاصل ہے۔ ایک عام سے عام مزدور سے لے کر بڑے سے بڑے بزنس مین تک ہر شخص میڈیا کی افادیت اور اہمیت کا اعتراف کرتا ہے اور میڈیا کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہیں وجہ ہے کہ ملک ریاض کے حوالے سے جو چند صحافیوں پر ”عنایات“ سامنے آئی ہیں ان سے نہ صرف پاکستان میں صحافت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے بلکہ مزدور طبقہ اور عام شہری تک اس سے دل برداشتہ نظر آتے ہیں۔ یہ وہ شہری تھے کہ جن کی اوپر تک رسائی ممکن نہیں ہو پاتی تھی یا کسی بھی وجہ سے ان کی متعلقہ ادارے تک بات نہیں سنی جاتی تھی تو وہ اپنی بات اوپر تک پہنچانے کے لئے اس واحد اور آسان راستے میڈیا کو استعمال کرتا تھا۔ مگر اب وہ بھی میڈیا کے اس فعل سے کافی حد تک دکھی دکھائی دیتے ہیں۔

صحافت کو سلطنت کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے۔ جس کی بنا پر صحافت کو دنیا میں ایک الگ مقام حاصل ہے۔ مگر چند نامور صحافیوں کی وجہ سے پورا میڈیا اور تمام صحافتی برادری کو شرمسار ہونا پڑا اور ہر شخص کو اپنی اپنی صفائی پیش کرنی پڑ گئی۔ اگرچہ اس سارے معاملہ پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس کے حوالے سے بحث جاری ہے، مگر اس کے باوجود بھی صحافیوں کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا ختم نہیں ہوسکے۔ ایک بحث ہے کہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ کیا اب انصاف اور حق کی بات کرنے والے بھی خود کو حق اور انصاف پر قائم نہیں رکھ سکیں گے؟ لوگوں کا مواخذہ کرنے والوں کا بھی اب مواخذہ کیا جائے گا؟ ہزار منہ ہزار باتیں۔

ایک سوال جو اپنی اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں اس قسم کے صحافیوں کے بارے میں کوئی اہم اقدام کیا جائے گا یا پھر قلم کی حرمت یوں پامال ہوتی رہے گی؟ مگر ایک بات ضرور ہے کہ اگر کوئی اہم اقدام نہ کیا گیا تو قلم کا معیار گر جائے گا۔ صحافیوں پر سے قوم کا اعتبار اٹھ جائے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں ایسے لوگوں کو اس پیشے کا راہی بنانا چاہئے کہ جو اس کی حرمت اور عزت کو جانتے ہوں۔ جو قلم اور دوات کی تاریخ سے باخوبی واقف ہوں۔ انہوں نے اس بات کا مطالعہ کیا ہوا ہو کہ صحافت کا پیشہ انبیاءکرامؑ کا پیشہ ہے۔ وہ ذرائع ابلاغ کے لفظی معنی کو سمجھتے ہوں۔ ان کے نزدیک قلم کی اہمیت اس قدر ہو کہ چاہیے سر جاتا ہے جائے پر قلم کی نوک کو کسی غلط مقصد کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

گزشتہ روز جماعة الدعوة میڈیا سیل کے انچارج برادرم احمد ندیم اعوان سے میری ملاقات ہوئی، وہ بتانے لگے کہ انہوں نے نئے صحافیوں کو میدان عمل میں لانے کے لئے ایک میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا ہے۔ جس میں انہوں نے صحافیوں کے حوالے سے موجودہ صورتحال کے پیش نظر مختلف اخبارات سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافیوں کو لیکچر کے لئے مدعو کیا تھا۔ ہمیں بھی انہوںنے پرخلوص دعوت دی جس کو ہم نے یہ سوچ کر قبول کر لیا کہ چلیں ہمیں بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔

مقررہ وقت کے مطابق میڈیا ورکشاپ کا آغاز کردیا گیا۔ مہمان خصوصی بھی موجودہ تھے ہال میں نئے لکھاریوں اور صحافیوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اتنے میں برادر احمد ندیم اعوان نے مہمانوں کاتعارف کروایا اور پھر ورکشاپ کے مہمان خصوصی شاہنواز فاروقی کو اسٹیج پر دعوت دی گئی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں ذرائع ابلاغ کے مثبت انداز فکر کو پروان چڑھانے پر ضرور دیا۔ انہوں نے بہت احسن انداز میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت پربیان کی۔ اس موقع پر سینئر صحافی و کالم نگار مرزا مقصود یار خان، منور راجپوت اور معروف قانون دان و کالم نگار طارق حسین ایڈووکیٹ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ورکشاپ کے اختتام پر مقابلہ مضمون نویسی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو شیلڈز اور انعامات دیئے گئے۔

موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس قسم کی ورکشاپس کا انعقاد یقینا ایک ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ اس سے آنے والی نئی نسل کی تیاری کسی سوچ اور منہج پر کی جاسکے اوردوسرا یہ کہ ان کو صحافت کے رہنما اصول اور قواعد بتائے جائیں اور ان کو قلم کی اہمیت اور اس کے تحفظ سے بھی آگاہ کیا جاسکے۔
یہاں پر اس میڈیا ورکشاپ کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صحافت جیسے عظیم پیشہ جس طرح عوام الناس میں اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے اور اس کے بارے میں لوگوں کی منفی آراءبندھتی جارہی ہیں، تو ایسے میں اس قسم کی ورکشاپس کا انعقاد ضروری ہے۔ تاکہ صحافت کے گرتے معیار کو بچانے اور اس کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے نوجوان تیار کیے جائیں جو چند روپے پیسوں کے عوض اپنی قلم کو بیچنے کی بجائے ایک ٹھوس نظریہ پختہ سوچ اور اعلیٰ افکار کے مالک ہوں۔ جن کی نظر انتہا دنیا کے چند ٹکے نہ ہوں بلکہ منہج نبویﷺ اور اشاعت اسلام ہو۔

نئے صحافیوں میں عالم کفر سے ٹکرانے کا حوصلہ ہو، وہ دنیا میں اپنے قلم کے زور سے حق و صداقت اور انصاف کا بول بالا کرنا چاہتے ہوں۔ جب اس طرح کی سوچ اور فکر رکھنے والوں کے ہاتھ میں اس قلم کو تھمایا جائے گا تو پھر ان پر اعتماد کی فضاءبھی قائم ہو پائے گی اور صحافت سلطنت کے چوتھے ستون کا کھوتا معیار بحال رکھ سکے گی۔ ورنہ عالم دنیا پر چھائے دشمنان اسلام و پاکستان نے میڈیا کی جنگ ہم پر مسلط کردی ہے۔ ان کی توپوں کے دہانے پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کی جانب ہیں۔ اس صحافتی جنگ میں نہ صرف بیرونی قوتیں ہمارے مد مقابل ہیں کچھ اندرونی طور پر بھی وطن عزیز کیخلاف سازشیں کی جارہی ہے۔ جن کا میڈیاکے ذریعے جواب دینا بہت ضروری ہے۔ اس لئے ہر صحافی اپنی اہم ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے کفار کے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے بغیر اسلام اور وطن عزیز کی بقاءو سلامتی کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

بک بکا والی صحافت کو چھوڑ کر خدارا اب اپنی قلم کو مت بیچیں ۔ بس کریں اب بہت ہو گیا صحافت کا مذاق ، صحافیوں کی بدنامی اب مزید ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں تاکہ آئندہ میں کسی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 76201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.