کرکٹ کھلیوں کی عالمی گورننگ باڈی انٹر نیشنل کرکٹ کونسل تواتر کے ساتھ
پاکستان کے ساتھ دیگر ممالک کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا مظاہرہ کررہی
ہے۔آئی سی سی کی جانب سے تعصب برتنے کا ثبوت چیمپنز ٹرافی کی منتقلی کی صورت
میں دیکھنے میں آیا ہے۔اوول کے متنازع ٹیسٹ کو بھی انگلینڈ کے حق میں قرار
دینے سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے۔حالیہ برسوں میں ہمسایہ ملک بھارت جو کرکٹ
بورڈز میں سب سے امیر ترین بورڈ ہے کی اجارہ داری آئی سی سی پر قائم ہوتی
جارہی ہے۔یہ بات میں محض روایتی حریف ملک ہونے کی واجہ سے بیان نہیں کرہا بلکہ
خود انگلینڈ سمیت دیگر ممالک کے کرکٹر نے بھی تسلیم کیا ہے کہ معاملات آئی سی
سی کے ہاتھوں سے نکلتے جارہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی سی سی ایک عالمی
گورننگ بارڈ ہونے کے ناتے کسی کے دباؤ میں نہیں آتا لیکن صورتحال اس کے برعکس
سامنے آئی ہے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آئی سی سی نے اپنے حالیہ اجلاس میں
جہاں پاکستان کو چیمپینز ٹرافی کی میزبانی سے محروم رکھنے کا فیصلہ کیا وہیں
انڈین کرکٹ لیگ جسے عرف عام میں باغی لیگ قرار دیا جارہا ہے(یہ نام دیئے جانے
سے مجھے قطعی اتفاق نہیں ہے) کی وہ درخواست بھی رد کردی جس میں استدعا کی گئی
تھی کہ لیگ کو قانونی قرار دیا جائے تاکہ اس لیگ میں حصہ لینے پر کھلاڑیوں کو
ملکی اور عالمی سطح پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ہوجائے۔تاہم افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ یہ درخواست بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کردی گئی اور ملکی بورڈز کو
فیصلے لینے کا اختیار دیا گیا۔اس تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر آوازیں اٹھیں
کہ درحقیقت عالمی کرکٹ بورڈ بھارت کا اسیر ہوچکا ہےاور ان کی منشا کے بغیر
کوئی بھی فیصلہ لینے کی جرات نہیں کرپارہا ہے
یقیناً یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر انڈین لیگ (آئی سی ایل)میں کوئی ایسی خرابی
ہے تو پھر انگلش کاؤنٹیز پر بھی پابندی عائد کردی جائے جہاں آئی سی سی سالہ
مستقل یا منسلک ارکان کے اکثر و بیشتر کھلاڑی کھلیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔گزشتہ
کئی برسوں ان کاؤنٹیز پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا اور اعتراض اٹھایا بھی
نہیں جانا چاہیے تھا لیکن انڈین کرکت لیگ پر پابندی عائد کردی گئی۔اس پابندی
کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑی ہوئے ہیں جن کے
ساتھ مبینہ طور پر نا مناسب سلوک کی وجہ سے ان کا عالمی کیرئر خطرے میں پڑ گیا
ہے۔ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر ون رہنے والے پاکستان کے ممتاز کھلاڑی محمد یوسف کو ہی
لے لیجئے کہ ان کا کیرئر بھی داؤ پر لگ گیا ہے جبکہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے
رویے سے زیادہ آئی سی ایل کے فیصلے سے متاثر ہوئے ہیں۔آئی سی سی کے اعلیٰ
اہلکار ہارون لوگارت سمیت دیگر اہم حکام ان دنوں تمام اسٹیک ہولڈرز کےساتھ
ملاقات کرنے کی غرض سے دوروں پر ہیں جبکہ ان حکام کی کرکٹ آسٹریلیا کے حکام سے
بھی بات ہوئی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حکام اپنے دورے میں ان ایشوز
پر بھی بات کریں اور ثابت کریں کہ آئی سی سی پر کسی کا دباؤ نہیں ہے۔مستقبل
میں بھی اگر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے تو یقیناً کوئی بھی اس پر اعتبار نہیں
کرے گا کہ اور یہ ادارہ قواعد و ضوابط کے مطابق کام کر رہا ہے اور معاملات
صحیح نہج پر چل رہے ہیں۔آئی سی سی ایل جوائن کرنے والے نیوزی لینڈ کے کرکٹرز
بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرہے ہیں سابق اسپن لیجنڈ شین وارن بھی اپنے بیانات
میں کہہ چکے ہیں کہ عالمی بورڈ کو دباؤ سے باہر نکلنا ہوگا اگر آئی سی سی کے
لیے یہ شعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تازہ ہوا کے شوق میں ائے پاسبان کرکٹ
- اتنے در نہ بنا کہ دیوار آگرے
آئی سی سی کو چاہیے کہ امیر بھارتی بورڈ کے دباؤ میں آنے میں گریز کریں اور
شفاف فیصلے کریں تاکہ اس کے تقدس پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، دوسری جانب زمبابوے
کے وزیر اعظم رابرٹ موگابے کے ظالمانہ اقدام کی وجہ سے زمبابوے کرکٹ بھی زیر
عتاب ہے اور آسٹریلیا نے پرتھ میں ہونے والے اجلاس میں زمبابوے کرکٹ کے چیئر
مین کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ضرور
ہے کہ زمبابوے میں ایک آمرانہ حکومت قائم ہے جہاں افراط زر اور معاشی بدحالی
کا یہ عالم ہے کہ ایک کھرب ڈالر کا نوٹ جاری کیا ہے جو امریکہ کے ایک ڈالر کے
نوٹ کے برابر بھی نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ
دوسروں کو سپوٹس مین اپسرٹ کا درس دینے والے یہ ممالک زمبابوے کرکٹ حکام کو
آنے دیتے اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے تاہم
آسٹریلیا اور انگلینڈ کے دباؤ کے باعث ایک بار پھر آئی سی سی نے اس معاملے پر
چپ سادھ لی حالانکہ جہاں زمبابوے کا اسٹیٹس ختم کیا جاچکا ہے وہیں اس کی حوصلہ
افزائی بھی کیجانی چاہیے تھی تاکہ وہاں نیا ٹیلنٹ سامنے آئے اور عالمی کرکٹ
میں حصہ لے۔
یہ بھی غور طلب ہے اگر کسی معاملے کو سدھارنے کا قصد کیا جا چکا تو اس عمدہ
انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے نہ کہ مزید بگاڑ پیدا کیا جائے اور
معاملات کا حل لوگوں کے درمیان ربط ہی کے ذریعے ممکن ہے نہ کہ انہیں الگ تھلگ
کرنے سے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی چاہیے کہ کسی کے
دباؤ میں نہ آئے اور اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جائز مطالبات کے حق میں
واضح موقف اختیار کرے۔پرتھ کے حالیہ اجلاس میں پی سی بی کے چیئر مین اعجاز بٹ
مقدمہ ہار گئے اور دو اہم فیصلے پاکستان کے خلاف آگئے۔ سابق شہرت یافتہ کرکٹر
جاوید میانداد نے ضرور کہا تھا کہ محمد یوسف، عبد الرزاق سمیت دیگر سابق مایہ
ناز ملکی کھلاڑیوں پر لگی پابندی کے حوالے سے بات ہوگی لیکن افسوس صد افسوس کہ
انہیں ان کے منصب سے ہی ہٹنے پر مجبور کردیا گیا پی سی بی کو چاہیے کہ وہ ایسے
فیصلے کریں معقول اور عوام میں مقبول ہوں نہ کہ ایک فرد واحد کی منشاء کے
فیصلے صادر کیے جائیں جس کا نتیجہ بگاڑ کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ |