خیالوں پر پا بندی نہیں لگائی جا
سکتی۔اسی وجہ سے شہباز شریف صاحب کا خیال ہے کہ وہ پنجاب کے بہترین
وزیراعلیٰ ہیں۔اور میرے خیال میں وہ صرف باتیں کرتے ہیں اور کوئی عملی قدم
نہیں اُٹھا سکتے۔سوچیں ان کی بھی آزاد ہیں۔اور ہماری بھی۔انہوں نے ایک
قانونیت کے فروض کے لیے کوئی 38ایکٹ بنا دیے ۔پولیس کی تنخواہ دگنی کر
دی۔شکائت سیل بنا دیے۔اب ا س سے قوم کا شدید نقصان ہو رہا ہے۔شکایت سیل پر
کام کرنے والے لوگ نتخواہ عوام کے پیسے سے لیتے ہیں مگر کام نہیں کرتے۔نہ
ہی اس شکایت سیل پر لکھائی گئی کسی بھی ایک شکائت کا ہم نے آج تک کوئی
ازالہ دیکھا۔تنخواہ دگنی کر کے انہوں نے پولیس کے محکمے کے اخراجات اور ان
کا معیار بہت ذیادہ بلند کردیا۔اس کا بھی بڑا نقصان عوام اٹھا رہی۔کہ ایک
تو ملکی خزانے سے تنخواہ دی جاتی ہے۔اور پھر جس کام کے لیے پہلے پولیس
مٹھائی کے دو سو روپے لیتی تھی اب اسی کا پانچ سو لیتے ہیں۔آج تک شائد وزیر
اعلیٰ صاحب کے نوٹس میں ےہ بات نہ آسکی کہ ملک میں تھانے کیا کر رہے
ہیں۔اگر تھانے کی کارکردگی کا بغور معائینہ کیا جائے تو اس کے سب سے بڑے
ذمہ دار بھی خود شہباز شریف ہیں۔ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام تر ایم پی
اے اپنے علاقے میں اپنی مرضی سے عملہ لگواتے ہیں۔ایک سپاہی سے لیکر ایک ڈی
۔ایس ۔پی اور ڈی ۔پی۔ او تک سب کے سب ان کے حکم کے پابند بیٹھے ہو تے
ہیں۔نہ جانے کیوں اتنی تنخواہ ہو نے کے بعد بھی ان کا رشوت اور جعلسازی کا
معیار کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔شہباز شریف صاحب کے نعرے بڑے درست لگتے
ہیں۔مگر اس کی ایک شرطِ لازم بھی ہے۔کہ پنجاب کو لاہور کے ایک کونے سے
دوسرے کونے تک گنا جائے۔باقی علاقہ پنجاب میں نہ گنا جائے۔اگر ایسا کیا
جائے تو امن و امان کے لیے ان کی کاوش کو جھٹلانا احمقانہ حرکت ہو گی۔جب
چھاپے مارے تو بھی لاہور ۔کچہریاں لگی تو بھی لاہور۔وہ ملیں بھی لاہور۔ان
کے نمائندے بھی لاہور۔ان کی ایمانداری کی حد بھی لاہور۔ان کے شکایات کی
ازالی بھی لاہور۔تو اب جو لاہو ر تک رسائی نہ رکھتا ہو کیا وہ ملک چھوڑ
جائے۔یا اس کے لیے کوئی اور طریقہ بھی ہے۔ایک ایک کیس کے اندراج کے لیے
پنجاب کے تھانو ں میں 20ہزار سے لیکر لاکھوں میں قیمت لی جاتی ہے۔جس کا
دارومدار کیس کی نوعیت پر ہوتا ہے۔اور پھر اگر ایک پارٹی کے پاس پیسے ہوں
تو وہ کیس کروا بھی سکتی ہے اور رکوا بھی سکتی ہے۔پاکستان کے آئین نے اس
بات کی تشریح کر دی کہ کوئی بھی عہدیدار ملک میں درج ہو نے والی کوئی بھی
ایف آئی آر نہیں روک سکتا۔اس کے بو وجود وہ چند مردہ ضمیر جو پیسے اور کرسی
کے لالچ میں ایمان اور قلم کی حرمت بیچ دیتے ہیں وہ چند مافیا عناصر کے
ہاتھوں استعمال ہوتے نظر آرہے ہیں۔وہ اشخاص جن کے پاس کوئی عہدہ نہیں محض
پیسے اور بلیک میلنگ کے زور پر اگر وہ پولیس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے
استعمال کریں تو پولیس کے اعلیٰ افسران کو چاہیے کہ وہ پولیس کی وردیاں
اتار کر کوئی اور کا روبار شروع کر دیں۔کیوں کہ آزاد ملک کے حصول کے بعد سب
سے زیادہ قربانیاں ملک میں عدل و انصاف اور قانون کے نفاذ کے لیے دی گئی
ہیں۔اور ان کی گھٹیا اور رشوت خور ذہنیت ان شہداءکی قربانیوں اور ان کی
خدمات پر پانی پھیرنے کے تمام تر منصوبوں پر تیزی سے عمل کر رہی ہے۔اور وہ
دن دور نہیں جب گریب اور مظلوم عوام پولیس کی اجارہ داری اور بکنے کی خصلت
سے تنگ آکر تھانوں پر اعتماد چھوڑ دیں گے۔اب بھی جو ایک بار یہاں آتا اس کا
ان پر سے اعتماد اُتھ جاتا ہے اور جو رہی سہی کسر باقی ہے اسے بہت جلد
پنجاب پولیس میں موجود چندکے رشوت خور اور بے ایمان اہلکار ختم کر دیں گے۔ |