اصیل ککڑی

حسب عادت اور بغیر ھیلو ہائے یا سلام دعا کے یہ بیگم چراغ علی بول رہی تھیں ۔ لوجی کیا حال ہے ، کبھی پوچھتے ہی نہیں ، فون بھی کریں تو ہم کریں آخر کرٹسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ جہاں جان پہچان ہو بندہ وہاں کبھی چکر ہی لگا آتا ہے۔ کبھی ناشتہ کھانا یا پھر چائے پر آجاتا ہے۔ ویسے اب تو رواج ہی ختم ہو رہے ہیں کوئی نہ کسی کو گھر بلائے اور نہ کسی کے جائے ہر بندہ بیزی بیزی ہے ۔ سناؤ تسی ٹھیک ہو۔

حسب عادت اور حسب سابق بیگم چراغ علی نے اپنی تقریر ختم کی تو عرض کیا جی میں ٹھیک ہوں آپ اور مسٹر چراغ علی کیسے ہیں ۔ دفع کرو۔ نام نہ لو ایسے شخص کا۔ یہ کوئی بندہ ہے۔ ڈھائی ہزار پونڈ کے سوٹ میں پورا پنڈ بسا کر جیتا ہے۔ نہ منہہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا ۔ میں نے فون اس لیے کیا تھا کہ وہ آپ کا جاننے والا ہے، آپ کی تھوڑی بہت عزت کرتاہے، آپ کی باتیں سنتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسٹر اینڈی راجہ کا فین ہوں۔

ایسی بھی بات نہیں۔ میں نے بیگم چراغ علی کو مخاطب کر تے ہوئے کہا۔ یہ آپ دونوں کا بڑا پن ہے کہ آپ مجھ جیسے عام آدمی کو اہمیت دیتے ہیں ۔ مسٹر چراغ علی خوبصورت آدمی ہیں ، تعلیم یافتہ ہیں، وطن اور اہل وطن سے پیار کرتے ہیں ، وسیع مطالعہ رکھتے ہیں ، باذوق ہیں اور حالات پر نظر رکھنے والے انسان ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی ان سے ملتا ہے ان کی شخصیت سے متاثر ہو جاتا ہے۔

نہیں جناب۔ چراغ علی میں ایسی کوئی خوبی نہیں ۔ ڈرامے باز ہے پکا ڈرامے باز ۔ آپ اسے نہیں جانتے ۔ میں نے فون اس لیے کیا تھا کہ آپ اسے سمجھائیں کہ مجھے محاورے سنانے چھوڑ دے ورنہ میں ایسی ایسی سناؤنگی کہ اسے مطلب کے لیے ڈکشنری بھی نہیں ملے گی۔ آپ سن رہے ہیں ناں۔

جی میں سن رہا ہوں مگر بہت سے معاملات گھر یلونوعیت کے ہوتے ہیں جنھیں دوستوں کیساتھ شیئر کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ میاں بیوی کے معاملات اس سے بھی زیادہ نازک اور حساس ہوتے ہیں جنکا گھر کے اندر ہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔

نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ اب بیگم چراغ علی نے اپنا ٹمپریچر بڑھا تے ہوئے کہا ۔ دیکھیں ۔ دوست یار، جان پہچان والے اور رشتہ دار اسی لیے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ دل کی بات کی جائے اور دکھ درد بانٹے جائیں ورنہ آدمی کڑکڑ کر مر ہی جائے ۔ آخر کوئی تو ہو جو انصاف کرے اور سچ بولے۔

ٹھیک ہے اگر آپ واقعی ہی مجھے دوست سمجھتی ہیں اور مجھ پر بھروسہ کرتی ہیں تو میں کسی مناسب وقت پر چوہدری چراغ علی سے بات کرونگا لیکن پہلے ان کا مزاج دیکھوں گا کہ کیسا مزاج ہے؟ وہ تو پیدا ہی خوش ہونے کے لیے ہوا ہے۔ دکھ تو اس کے قریب سے نہیں گزرا ۔ ہر وقت سوٹ ٹائی میں رہتا ہے، چھری کانٹے سے کھاتا ہے، کتابیں پڑھتا ہے اور فضول تبصرے کرتا ہے۔ مشاعروں اور سمیناروں میں شرکت ایسے کرتا ہے جیسے اس کے بغیر محفل ویران رہے گی ۔ گھر میں بھی دانشوری بکھیرتا ریتا ہے۔ بلڈی کمپلکس۔

ایسا نہ کہئیے ۔ یہ تو سب خوبیاں ہیں ۔ یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ ہر شخص کا خیال رکھتے ہیں ۔ بقول آپ کے مسٹر چراغ کے آپ کے خاندان پر بہت احسانات ہیں ۔ شادی سے پہلے آپ کے خاندان کی مالی حالت اچھی نہ تھی ۔ شادی کے بعد مسٹر چراغ علی نے آپ کے خاندان کو اپنا لیا۔ آپ کی چاربہنوں اور پانچ بھائیوں کو برطانیہ کے مختلف شہروں میں نہ صرف بسایا بلکہ ان کی شادیاں کروائیں ، تعلیم دلوائی اور کاروبار کرنے میں بھی معاونت کی۔ آ پ ہی سوچئیے بھلا ایسا گریٹ آدمی ہر کسی کے نصیب میں ہے۔

میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ یہ سب ان طعنوں اور تکلیفوں کا صلہ ہے جو میں عرصہ دراز سے برداشت کر رہی ہوں ۔ آپ کو کیا پتہ میں نے کیا کیا مصیبتیں جھیلی ہیں اور چراغ جیسے معمولی شخص کی جلی کٹی کس حوصلے اور ہمت سے برداشت کیں ہیں ۔ یہ شخص اوپر اوپرسے جتنا ملا ئم اور معطر ہے اندر سے اتنا ہی کھردرا اور خونخوار ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ اسپر پوری کتاب لکھوں اور پورے برطانیہ میں گھر گھر جاکر مفت بانٹوں ۔

سچ پوچھیں تو میں بھی آپ سے متفق نہیں ۔ جن عورتوں کے خاوند کھردرے اور خونخوار ہوتے ہیں ان کا لائف سٹائل آپ جیسا نہیں ہوتا۔ آپ کے میک اَ پ کا سامان پیرس سے آتا ہے۔ چھٹیاں آپ اٹلی ، سپین اور آسٹریلیا میں مناتی ہیں ۔ آپ کو دوستوں کے ساتھ یا اکیلے باہر جانے اور رہنے کی اجازت ہے۔ لباس آپ کے بھی پیرس سے سل کر آتے ہیں۔ آپ کا رہن سہن یورپ کے امیروں جیسا ہے جبکہ آپ خود کوئی کام کاج نہیں کرتیں ۔ مسٹر چراغ کے بزنس میں آپ کا آدھا حصہ ہے اور یقیناًآدھا پرافٹ بھی آپ لیتی ہونگی ۔ اتنی آسائش اور آزادی کے باوجود آپ کا شکوہ میری سمجھ سے بالاہے۔ کیوں میں نے کچھ غلط کہا ہے؟

میں اسے غلط نہیں کہونگی مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کی آبزرویشن درست نہیں۔ چیزیں جیسے دکھتی ہیں ویسے ہوتی نہیں۔ جسطرح چراغ کے قیمتی لباس میں ایک دیہات چھپا ہے ویسے ہی میری ساڑیوں اور بلاؤزوں میں ایک تندور دھک رہا ہے اور اس کا ادراک ہم دونوں کو ہے۔ میرے معاملات کیا ہیں چراغ جانتا ہے مگر اسے احساس نہیں اوراگر احساس ہے توصلاحیت نہیں ۔ انسان اگر کسی غلطی کااحساس کرلے مگر اسے سلجھا نے کی صلاحیت سے محروم ہو تو اسکا اظہار کرنے میں دیرنہ لگائے۔ مگر یہ ہوتا نہیں۔

شائد آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔ اچھی اور درست جانچ کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ ہم ہر بات کی تہہ تک نہیں جاتے اور نہ ہی کھوج لگاتے ہیں ۔ یہ ایک فطری امر ہے ۔ ہر روز ہم درجن بلکہ سینکڑوں لوگوں کو دیکھتے جو بظاہر خوش وخرم نظر آتے ہیں مگر ان کے احساسات کا ادراک ممکن نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ہم قریبی دوستوں اور ہر روز ملنے ملانے والوں کی خوشیوں اور تکلیفوں کو پرکھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ نتاشہ میری اچھی دوست اور بے لوث مددگار ہے۔ اسے میری تکا لیف کا احساس رہتا ہے۔ کئی بار ایسے ہوا کہ وہ میری خاطر اپنا کام ادھورا چھوڑ کر چلی آئی مگر مجھے اس کی تکلیف کا احساس نہ ہوا کہ اس نے دن بھر مشقت کی ، رات اسے بخار بھی رہا اور دن کو کھانا بھی نہ کھایا ۔ وہ ہمیشہ کی طرح مسکراتی ہوئی آئی ، شفقت بھرا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور حوصلہ دیکر چلی گئی ۔ نتاشہ میں یہ خوبی بھی ہے کہ وہ انسان کا چہرہ پڑھ لیتی ہے۔ وہ اپنے بچوں ، خاندان ، دوستوں اور رشتہ داروں کا لب و لہجہ محسوس کرتی ہے مگر یہ صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی ۔ لوگ اپنے بیوی، بچوں، والدین اور بہن بھائیوں کی حد تک تو حساس ہوتے ہیں مگر خارجی معاملات کی پرکھ اور پہچان ایک الگ اور خاص کیفیت ہے۔ جہاں تک دوستوں کا تعلق ہے انسان ہمیشہ محتاط رویہ اختیار کرتا ہے۔فرض کریں کہ جو کچھ آپ نے اب تک کہا ہے اگر میں من و عن یہ سب مسٹر چراغ کے سامنے بیان کر دوں تو آپ کے درمیان صلح کی جو گنجائش باقی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی ۔ آ پ تعلیم یافتہ ہیں اور ماڈرن سوسائٹی میں گھومنے والی شخصیت ہیں ۔ آپ کئی کلبوں اور سوسائٹیوں کی ممبر ہیں اور سرمائیہ دارطبقے میں آپ کا نام ہے۔ آپ عورتوں کے مسائل پر گھنٹوں گفتگوکرتی ہیں اورشہری دنیا کی عورتوں کے مسائل پر بولنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ دونوں دنیا کے غم سلجھانے کی ہمت رکھتے ہیں مگر باہمی اختلاف کم کرنے میں ناکام ہیں۔

آپ درست کہتے ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے درمیان کوئی اختلافات ہی نہیں۔ ہمارا مسئلہ ذاتی نہیں کلاس کا مسئلہ ہے ۔ کلاس سے میری مراد پاکستانیوں سے ہے جو غربت کی اتھا ہ گہرائیوں سے اُٹھ کر دولت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچے اور کسی نہ کسی طرح راتوں رات بے انتہا دولت کما لی۔ انھیں اعلیٰ ایوانوں اور دیگر دوطبقات کے لوگ اسی کلاس کی پیداوار ہیں ۔ اسلیے انھیں اپنے جیسے لوگوں کو گلے لگانے میں شرمندگی نہ ہوئی۔یہ کلاس اب تین گروپوں میں تقسیم ہے۔ پہلا گروپ الٹررا ماڈ ہے جہاں پینے پلانے، ملنے ملانے، کھانے پینے اور گھومنے گھمانے پر پابندی نہیں۔ اس کلاس کے بچے آپس میں سو شلائیز یشن کرتے ہیں، مخلوط پارٹیاں ارینج ہوتی ہیں ، اندرون ملک اور بیرون ملک سیروسیاحت کے پروگرام بنتے ہیں اور کچھ کی باہمی شادیاں بھی ہوتی ہیں ۔ دوسرا گروپ صرف مردوں کی محفلوں اور کاروبار تک محدود ہے۔مرد ہر طرح کی عیش کرتے ہیں ، حرم سجاتے ہیں اور مال لٹاتے ہیں ۔ عورتوں کوخوبصورت بنگلوں اور کوٹھیوں تک محدود کر دیتے ہیں جہاں قرآن خوانی ، نعت خوانی اور میلاد کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور مردوں کی کامیابیوں کے لیے دعا ئیں مانگی جاتی ہیں ۔ یہ لوگ اپنی سخاوت اور عبادت کا پرچار اپنی عورتوں کے ذریعے کرتے ہیں تاکہ نیک نامی کے پردے میں شیطانی کھیل جاری رہے۔

تیسرا گروپ چراغ جیسے کمپلکس لوگوں کا ہے ۔ وہ محفل میں بیٹھتے تو ہیں محفل سجاتے نہیں ۔ وہ اپنی عورت کو مالی اور سماجی فریڈم تو دیتے ہیں مگر اس سے کو ئی کام نہیں لیتے اور نہ ہی اس کی تعریف کرتے ہیں ۔ کیا آپ میر ی بات سن رہے ہیں ؟

جی سن رہا ہوں ۔ آپ فرمائیے۔

میں کہہ رہی تھی کہ اس ساری کلاس کے مرد عورت کی توھین کرتے ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ کچھ عورتیں اسے ذلت اور توھین تصور نہیں کرتیں چونکہ وہ اسی کلاس میں پیدا ہوئی ہیں یا پھر غربت اور ماضی کے دھچکوں نے انھیں اسقدر بہ حس کیا ہے کہ ان کے نزدیک ذلت اور توھین کے کوئی معنی نہیں۔

ٓآ پ کہنا کیا چاہتی ہیں ۔ آپ کی باتیں فلسفیانہ رخ اختیار کر رہی ہیں ۔چونکہ میں اس کلاس کا نمائندہ نہیں اور نہ ہی مجھے اس لائف سٹائل کا تجربہ ہے ۔ کیا آپ سادہ الفاظ میں کچھ کہہ سکتی ہیں۔

سادہ الفاظ یہ ہیں کہ عورت رفاقت کی بھوکی ہے۔ اسے مرد کیساتھ تنہائی کے لمحات بیتانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ شوکیس میں سجانے اور نمائیش میں لگانے کی چیز نہیں ۔ ہم ذوق بیوی خدا کی نعمتوں میں شمار ہوتی ہے۔ میں جس المیے کا ذ کر کر رہی ہوں ستر سال پہلے خلیل جبران نے اس کا ذ کر ان الفاظ میں کیا تھا۔
Miserable is the woman who arises from inattentiveness and restlessness of youth and finds herself in the home of man showering her with his glittering gold and precious gift and according her all the honour and grace of lavish entertainment but unable to satisfy her soul with the heavenly wine which God pours from the eyes of a man into the heart of a woman.

آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر خلیل جبران یہ بھی تو کہتا ہے کہ۔
If your lot in life is a beautiful bird that you love dearly, you gladly feed to him the seeds of your inner self and make your heart cage and your soul his nest. But while you are affectionately admiring him with the eyes of love, he escape from your hands and flies very high, than he descends and enters into another cage and never comes back to you.

نہیں ۔ایسا نہیں ۔ یہاں معاملات اُلٹ ہیں ۔چراغ کی یہی تو خواہش ہے کہ میں کسی اور کے پنجرے میں رہ کر پھر واپس آجاؤں اوروہ بھی اپنے دل کے پنجرے کھلے رکھے موسمی پرندے آکر دانہ چگیں اور اُڑ جائیں ۔ میں نے تجربہ کر لیا ہے۔ کھلے پنجروں کا دانہ بد ذائقہ اور پانی کڑوا ہوتا ہے۔ یہ پنجرے کسی کا مسکن نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں سکون ہوتا ہے۔ خلیل جبران یہ بھی تو کہتا ہے کہ
Obvious beauty is cause of many hidden distresses and deep suffering.

ہم الجھ رہے ہیں اور سادہ سی بات فلسفیانہ رخ اختیار کر رہی ہے آپ تو جانتی ہیں کہ میں فلسفے کا طالب علم نہیں ہوں ۔

جی جانتی ہوں ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ذومعنی فقرے اور طعنے برداشت نہیں کر سکتی ۔ ہر عورت کی الگ کیمسٹری ہے۔ میں دولت ، شہرت ، امیرانہ ٹھاٹھ اور مکمل آذادی سے اُکتا گئی ہوں ۔ میں نے جن دوستوں سے اس موضوع پر بات کی ہے وہ سب ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیگم چراغ سائیکو ہو گئی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ۔

ہاں میں کہہ رہی تھی کہ چراغ نے مجھے اصیل ککڑی کہا ہے۔پہلے وہ مجھے ہرنی، بلبل ، مینا ، کوئل ، مچھلی ، مرغی ، مصری کی ڈلی ، ناگن اور چھوئی موئی کہہ چکا ہے۔

آپ نے وجہ جانی ؟

کہتا ہے کہ تمہاری آنکھیں غزالی ہیں اور چال ہرنی جیسی ہے۔ تم میرے باغ کی بلبل ہو۔ کبھی کہتا ہے کہ تم مینا ہو اور کبھی کہتا ہے کہ تمہاری آواز میں کوئل جیسی اداسی اور ترنم ہے۔ تمہارا جسم مچھلی کی طرح ملائم ہے۔ تمہارے ہونٹوں کی مٹھاس مصری کی ڈلی جیسی ہے۔

ابھی پچھلے ماہ اس نے نئی سیکریٹری رکھ لی تو میں نے objectکیا کہنے لگا میں حسن پرست ہوں۔ میں نے کہا مجھ میں کیا کمی ہے تو کہنے لگا گھر کی مرغی دال برابر ۔ شروع شروع میں مجھے چھوئی موئی اور ناگن کہتا تھا ۔ پوچھا تو کہنے لگا کہ تیرے حسن نے ڈس لیا ہے اور تمہیں ہاتھ لگا تا ہوں تو مرجھا جاتی ہو۔ یہ سب تو پیار کی باتیں ہیں۔ آپ نے اصیل ککڑی کی وجہ پوچھی ہے؟

ہاں۔ کل میں کسی بات پر ناراض ہوئی تو کہنے لگا معاف کر میر ی اصیل ککڑی ۔ پھر بولا کہ اصیل ککڑ تو بہت دیکھیں ہیں اصیل ککڑ ی نہیں دیکھی تھی ۔ کیا قسمت ہے میں جسے بطخ سمجھ کر لا یا تھا اصیل ککڑی نکلی ۔ کیا یہ میری توھین نہیں ہے۔

اس بات پر بیگم چراغ نے فون بند کر دیا اور مجھے سوچ میں ڈال دیا ۔ کیا یہ ہمارا سماجی المیہ ہے یا نو دولتیہ کلچر کی کہانی ۔ کیا یہ ہر گھر کا قصہ ہے یا نودولتیے سماج کا چہرہ ۔ پاکستانی اشرفیہ کا اسی فیصد نودولتیوں پر مشتمل ہے ۔ بڑے بڑے سرمائیہ دار، سیاستدان اور حکمران اس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جو اپنی خواہشات کے مطابق ملک چلاتے ہیں ۔ یہ لوگ آئین ، قانو ن اور عدالتوں کا مذاق اُڑاتے ہیں اور عام لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے ذیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ ریٹایئرڈ جرنیل MESکے معمولی ٹھکیدارجو لینڈ مافیا کا سر غنہ ہے کی ملازمت کو اپنی عزت افزائی سمجھتے ہیں۔ بقول جنرل حمیدگل کے سیٹھ کے مہمانوں کو بطور ویٹر اور ٹی بوائے کا فی پیش کرتے ہیں۔ نودولتیہ سیٹھ مہمانوں سے پوچھتا ہے کہ بریگیڈیئر کے ہاتھ کی بنی کافی پسند کر ینگے یا جنرل کے ہاتھ کی۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ لینڈ مافیا کے ڈان نو دولتیے کھرب پتی کے تعلقات سبھی سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں سے ہیں۔ میں اپنی کتاب سرزمین بے آئین میں تفصیل سے ذ کر کر چکا ہوں کی سیاسی پارٹیاں ٹریڈ کارپوریشن اور سیاسی لیڈر سیاسی ڈیلر ہیں ۔ وہ ایک ڈیل کے تحت ملک لوٹ رہے ہیں اور عوام کو جمہوریت کی تھپکی دیے جارہے ہیں ۔ چوہدری ، میاں ، گیلانی ،زرداری اور بلورسبھی نودولتیے ہیں اور اپنی اپنی تاریخ سر پر اُٹھائے پھرتے ہیں ۔ اب اگر MESوالے نودولتیے کا ان سے پیار محبت ہے تو یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ قائداعظم کے بعد آپ بھٹو کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں تو کوئی نودولتیا بھٹو کی قربت حاصل نہ کر سکا ۔ وہ نودولتیوں سے نفرت کرتا تھااور انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھااگر کوئی قریب آبھی جائے تو اسے اس کے مقام سے آگے نہیں آنے دیتا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے۔ یہ غلط ہے ۔بھٹو بے نظیر تک زندہ تھا اور پھر اس کے ساتھ ہی مر گیا۔ اب صرف زرداری زندہ ہے اور پاکستان پر زرداری ازم کا راج ہے.یہ بیگم چراغ کا المیہ نہیں پاکستان کا المیہ ہے جہاں اصیل ککڑ اور اصیل ککڑیاں ہیں ان کی زندگیوں کا کل محور ان کی ذات اور ذاتی خود نمائی ہے، یہ ٹی وی شوز اور انٹرنیٹ کی زندگی جیتے ہیں ، ان کا کل حاصل وہ ناکام سی شہرت ہے جو انھیں ان کی دولت سے ملی جو انہوں نے اپنے ضمیر ، قومی عظمت اور خوداری کو رہن میں رکھ کر حاصل کی . آج ہماری پاکستانی قوم ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے اورکسی کو اپنی سماجی بنیادوں اور تہذیب کا احساس نہیں ہے . کیا آپکے آس پاس بھی کوئی اصیل ککڑ یا اصیل ککڑی ہے؟ اگر ہے تو مجھے ضرور بتائیے گا .

-ختم شدہ -
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76400 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More