اسلام اللہ تعالٰی کا پسندیدہ
اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم دنیا و آخرت
میں سرخروئی کی منازل حاصل کرسکتے ہیں ہمیں تاریخ عالم میں ایسی کئی مثالیں
ملتی ہیں جب انتہائی جاہل گنوار اور وحشی قوموں نے دامن ِاسلام میں پناہ لی
توقدرت نے نہ صرف دنیاجہان کے خزانے اُن کے قدموں میں نچھاور کردئیے بلکہ
انہیں دنیا میں ہی جنت کے پروانے عطاکردئیے لیکن یہ مقام حاصل کرنے کیلئے
انہیں بے پناہ مصائب و آلام کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ دنیا میں ازل سے
جاری خیر و شرکی جنگ میں شیطانی قوتوں نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف
مکروہ اور بھیانک سازشوں کے ذریعے اس مبارک مذہب کے پھیلاؤ کو روکنے کی کو
ششیں جاری رکھیں ان کا قتل عام کیا گیا،نسل کشی کی گئی اور سب سے بڑھ کر یہ
کہ قرآن مجید کی توہین تک سے گریز نہ کیا گیا لیکن ان سب کے باوجود
مسلمانوں کے دلوں سے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو نہ نکالا جاسکا اور آج
اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا مذہب بن چکا ہے اور یہی وہ
حقیقت ہے جس نے کفر کے علمبرداروں کی نیندیں اچاٹ کردیں ہیں اور وہ بوکھلا
کر آئے روز مسلمانوں پر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کررہے ہیں حال ہی
میںبرما کے مسلمانوں کا قتل عام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
برما(میانمار)جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کا رقبہ 676577مربع
کلومیٹر اور آبادی چارکروڑ اسی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے یہاں پر 80%بدھ مت کے
پیروکار اور بیس فیصد دوسرے مذاہب کے لوگ قیام پزیر ہیں جن میں زیادہ تر
آبادی مسلمانوں کی ہے جن کی تعداد 1996ءکی مردم شماری کے مطابق تقریباََ
50لاکھ ہے ۔ برما ایک ایسا ملک ہے جس کی سرخ رنگت کی ذرخیزسرزمین سونا
اگلتی ہے اور جس کے وسیع جنگلات صندل اور ساگوان جیسی قیمتی لکڑی سے بھرے
پڑے ہیں جہاں انتہائی اعلیٰ نسل کا پام آئل اور چاول دنیا بھر میں مشہور ہے
لیکن برما کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر شروع سے ہی مغرب کے پروردہ
فوجی حکمرانوں کا راج رہا ہے جنہوں نے تمام وسائل کو خوب دونوں ہاتھوں سے
لوٹا لیکن عوام کے ہاتھ ان تمام وسائل کے باوجودسوائے غربت اوربھوک کے کبھی
کچھ نہیں آیا۔برما 1962ءکے بعد سے ہمیشہ ہی فوجی حکومتوں کے زیر عتاب رہا
ہے جنہوں نے مسلمانوں پر بے شمار ظلم و ستم ڈھائے اور اُن کی مساجد اور
قرآن و حدیث کی کتب تک کو جلا ڈالا 3جون کو برما کے شہر اراکان میں بدھ
بھکشوں نے جب ایک بس سے تبلیغی جماعت کے گیارہ ارکان کو باہر نکال کر شہید
کیا تو اس پر مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیل گیا اور انیوں نے جب اس حکومت
کے خلاف احتجاج کیا تو گویااس پر تو قیامت ہی آگئی برمی فوج اور بدھوں نے
بلاامتیاز مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا وہ مسلح ہو کر مسلمانوں کی گلیوں
میں گھس جاتے اور جو بھی ملتا اس کو تہ تیغ کرڈالتے ہزاروں بستیاں اور محلے
جلاکرراکھ کردئیے گئے بدھ دہشتگردوں نے اس ظلم میں بچوں اور عورتوں کو بھی
نہیں چھوڑا اراکان کا علاقہ خاک و خون سے اٹ گیا فقط ایک ماہ میں بیس ہزار
زندہ مسلمان کو مولی گاجر کی طرح کاٹ ڈالا گیا اور بے شمار نوجوان لاپتہ
ہوچکے ہیں یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اس پر ستم یہ ہوا کہ جب ان مسلمانوں پر
برما میں عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو انہوں نے اس بنیاد پر کہ''مسلمان ایک
جسم کی طرح ہیں جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو اسے پورا جسم
محسوس کرتا ہے'' اپنے ساتھ ملحقہ بنگلہ دیش کی طرف حجرت کی وہاں اُن کے
زخمی دلوں کیلئے کچھ راحت کا سامان کیا جائے گا لیکن تف ہے بنگلہ دیش کی
سیکولر حکومت پر جس نے اپنے ان بھائیوں کو پناہ دینے سے بھی انکار کردیا
اور بعد ازاں جن چند لوگوں کو پناہ دی وہاں بھی ناکافی سہولیات اور خوراک
کی عدام فراہمی کی وجہ سے روزانہ اموات ہورہی ہیں ۔ مسلمانوں پراس ظلم ِ
عظیم کی کوکھ سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے جن میں سب سے پہلا سوال تو اُن
تمام انسانی حقوق کی دعویدار نام نہاد تنظیموں سے ہے جو پاکستان میں جاری
ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جعلی وڈیو پرآسمان سر پہ اٹھالیا
کرتی ہیں آج اُن کی زبانیں کیوں گنگ ہو گئیں ہیںکیا مسلمان انسان نہیں کیڑے
مکوڑے ہوتے ؟دوسرا سوال دن رات جمہوریت اور انسان دوستی کا ڈھنڈورہ پیٹنے
والے امریکہ اور اس کی دسترخوانی حکومتوں سے ہے کہ انہیں برما کی بدترین
ڈکٹیٹر شپ اور اندھیرنگری کیوں نظر نہیں آرہی ؟سوال تو اقوام متحدہ سے بھی
پوچھا جاناچاہئے کہ وہ کسی مسلمان میں عیسائیوںپر ایک حملہ ہونے پر ان
کیلئے آزادی کی بات تو کرتی ہے اور وہاں اپنی امن فوج بھیج دیتی ہے مگر
یہاں اس نے تعصب کی عینک کیوں لگارکھی ہے ؟لیکن مجھے یقین ہے کہ کسی کے پاس
اس سوال کا جواب نہیں ہوگا کیوں کہ یہ جواب ہمیں اسلام نے بہت پہلے ہی دے
دیا تھا کہ ''تمام کفرایک قوم ہے ''لیکن میرااصل سوال تو او آئی سی سے ہے
جو آج سے چالیس سال پہلے اس عہد کے ساتھ بنی تھی کہ دنیا میں جہاں بھی
مسلمانوں پر ظلم ہوا تمام ممبر ممالک اس کا مقابلہ کریں گے لیکن ماس قدر
ظلم و ستم جس پر زمین و اسمان تک رورہے ہیں پر او آئی سی کی جانب سے جاری
ہونیوالی صرف ایک statemenجس میں ان واقعات پر صرف تشویش کا اظہار کیا گیا
ہے نے تو مجھے ہلا کرہی رکھ دیا ہے کہ کیا مسلمان اس قدر بھی بے حس ہوسکتے
ہیں اور ہاں جب بات بے حسی کی ہوتو اس میں ہمارا میڈیا کہاں پیچھے رہ سکتا
ہے جو ہراُس واقعے اور جعلی وڈیو کو جس سے اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک کا
پہلو نکلتا ہو اسے تو بریکنگ نیوز بنانا اپنافرض سمجھتاہے بلکہ بعض چینلز
تو اپنے ٹاک شوز میں باقاعدگی سے ایسے نام نہاد مفکرین اوردانشوروں کو
بلاتے ہیںجو سرِعام اسلام،پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف مغلظات بکتے ہیں
لیکن برمی مسلمانوں پر ٹوٹنے والی اس قیامت پر ان کی یہ لمبی زبانیں خاموش
ہیں اور یقیناََ یہ زبانیں بولیں گی بھی نہیں او آئی سی بھی احتجاج نہیں
کرے گی کہ میرے حضورﷺ کے ارشاد پاک کا مفہوم ہے''جب مسلمان دنیاسے محبت
کریں گے اور جہاد کو چھوڑدیں گے تو کفار ان پر یوں ٹوٹ پڑیں گے جیسے بھوکے
لوگ دسترخوان پر پڑے کھانے پرٹوٹ پڑتے ہیں''اور شائد وہ وقت آچکا ہے۔ |