لکھنے کی وجہ اور مایوس لکھاری

یہ دنیا تضادات کا مجموعہ ہے ،اس میں ہر شخص کے ساتھ مختلف قسم کے حالات و واقعات درپیش ہوتے رہتے ہیں۔جب بھی کسی قسم کے حالات وواقعات کا سامنا ہوتا ہے تو ہر شخص اسے زیب قرطاس کی زینت بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ حالات وواقعات سے دوسروں کو بھی مطلع کرنے کا سوچتا ہے ۔ایک شخص جب کسی حالت یا واقعہ پر قلم اٹھاتا ہے کہ اس حالت سے کس طرح مقابلہ کیا جائے تو اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک یہ کہ اس کا حل پیش کرکے لوگوں کو اس سے آگاہ کرے ،دوسرا یہ کہ تمام دنیا تک اخبارات اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے پیغام پہنچائے اور اس کے حل کے لیے کوئی راہ تلاش کرے۔

اخبارات ، میگزین اور انٹرنیٹ وغیرہ کے قارئین بہت ہوتے ہیں ،اخبار نیا ہو یا پرانا ،سب لوگ پڑھتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ بعض اخبار وں کے قارئین زیادہ ہوتے ہیں اور بعض اخباروں کے قارئین کم ہوتے ہیں۔یہ تو اخبار پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح کی خبریں قارئین کو پیش کرتا ہے اور اس کی خبریں کس حد تک سچی ہوتی ہے۔جس طرح اخباروں کے اندر مختلف صفحات ہوتے ہیں یعنی کھیل ، تجارت، تعلیم وغیرہ ،اسی طرح انسانوں کے اندر بھی مختلف المزاج لوگ ہوتے ہیں ،بعض لوگ کھیل کو پسند کرتے ہیں تو وہ صرف اخباراسی کے لئے خریدتے ہیں ،کسی کو تعلیم کا شوق ہوتا ہے تو وہ تعلیم کے لئے ہی اخبار خریدتا ہے،الحاصل یہ کہ ہر کوئی مختلف الطبع ہونے کی وجہ سے اس کی پسند بھی مختلف ہوتی ہے اور ہر شخص اپنے پسند کو دیکھتے ہوئے اپنا مطلوبہ اخبار یا میگزین وغیرہ خریدتا ہے۔اگر خواتین وحضرات کا موازنہ کیا جائے تو اس معاملے میں خواتین اخبار کی بنسبت میگزین زیادہ پڑھتی ہیں اور مرد حضرات اخبارات کا مطالعہ میگزین کی نسبت زیادہ کرتے ہیں۔

لکھنے کا مقصد نام کمانا یا مشھور ہونا نہیں بلکہ اپنی رائے اور مشوروں کو لوگوں کے قلوب تک پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کسی خاص مضمون پر مواد بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔اکثر لوگوں سے یہ سنا گیا ہے کہ ہم لکھتے ہیں لیکن ہمارا کالم شائع ہی نہیں ہوتا۔بہت کوشش کی مگر کہی بھی اب تک شائع نہیں ہوا، اس لئے لکھنا چھوڑ دیا ہے،یہ غلط فیصلہ ہے اور اپنے آپ پرہی ظلم کرنا ہے اس لئے کہ اﷲ عزوجل نے جب ایک صلاحیت آپ کے اندر رکھی ہے تو اس کا اظہار کسی بھی طریقے سے آپ کو کرنا ہے ۔لکھنے کا مقصدصرف کسی جگہ شائع کرنا نہیں اور نہ ہی اس کے ذریعے بلندی حاصل کرنا ہے۔بلکہ اس کا مقصد اپنی آواز کو اخبارات، میگزین اور انٹرنیٹ وغیرہ کے زریعے دنیا کے لوگوں تک پہنچانا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیت کے اندر نکھار پیدا کرنا ہے اور لکھنے کی جو صلاحیت اﷲ عزوجل نے آپ کے اندر رکھی ہے اس میں ابھار پیدا کرنا ہے۔جہاں تک بات شائع ہونے کی ہے تو ضروری نہیں کہ آپ کا ہر کالم ،ہر جگہ شائع ہوجائے ،بلکہ اس کالم کو اپنے پاس محفوظ کرلیا جائے یہ مستقبل میں آپ کے ضرور کسی کام آئیگا۔ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ میرا لکھا ہواکالم کسی جگہ شائع ہوجائے ،واقعی یہ ایک اعزاز اور خوشی کی بات ہے لیکن ایک ،دوفعہ شائع نہ ہونے کی وجہ سے لکھنا چھوڑ دینایہ غلط طریقہ ہے کیونکہ شائع ہونے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے ،وقت آنے پر آپ کا لکھا ہوا کالم خود بخود شائع ہوجائے گا ،آج نہیں تو ایک ہفتہ یا مہینہ بعد شائع ہوجائے گا،اگر اس کے اندر شائع ہونے کے قابل کوئی مواد موجود ہو۔مایوس نہ ہو اور لکھنا ترک نہ کرو جو کچھ مطالعہ اور دیگر اشیاءسے آپ کو معلومات حاصل ہوئی ہو اسے زیب قرطاس پر لائیں اور مسلسل لکھتے رہیں اور اخباروں کو بھیجتے رہیں، ان شاءاﷲ ایک دن ایسا آئیگا کہ آپ کا کالم ملک کے بڑے سے بڑے اخبار اوربڑے سے بڑے میگزینوں میں شائع ہوگا،مگر اس کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا۔مسلسل لکھنے سے آپ کے لکھنے کی صلاحیت میں نکھار آئیگا جو آپ کے مستقبل کے لئے ترقی کا باعث ہوگا،اور اس ترقی کے بعد ہر اخبار اور ہر میگزین آپ کے کالم کا منتظر رہیں گے۔

ہمیشہ جب بھی کسی چیز کی شروعات کرنی ہو تو اس کی شروعات نیچے سے ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ بلندی کی طرف بڑھنا شروع ہوتاہے ، کوئی بھی شے اک دم اوپر سے شروع نہیں کی جاتی اور نہ ہی ہوتی ہے ،لازمی امر ہے کہ نیچے کا سہارا لیکر وہ آگے کی طرف جائیگا،اگر کاروبار کی شروعات کی ہے تو شروعات شروع ( نیچے ) سے ہی کریں گے نہ کہ اک دم اوپر سے ہی شروعات کریں گے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شروع میں کوئی بھی شے اس معیار کے قابل نہیں ہوتی کہ اس کو فورا ہی اونچا درجہ دیا جائے جیسے کسی دفتر میں کوئی ملازمت کرتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ ایک عھدے سے دوسرے عہدے کی طرف ترقی کرتا ہے۔بالکل اسی طرح اگر مایوس لکھاریوں کے ذہن میں یہ بات صحیح طریقے سے بیٹھ جائے کہ ہر شے ایک وقت لیتی ہے ،تو پھر کسی قسم کا شکوہ یا اشکال ان کے ذہنوں میں باقی نہیں رہے گا۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
Haseen ur Rehman
About the Author: Haseen ur Rehman Read More Articles by Haseen ur Rehman: 31 Articles with 56896 views My name is Haseen ur Rehman. I am lecturer at College. Doing Mphil in English literature... View More