تحریر : محمد اسلم لودھی
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی ہے تمام قوانین اور
ضابطوں کو پاﺅں کے نیچے نہ صرف کچل دیتی ہے بلکہ قومی اداروں میں بھاری
تنخواہوں پر من پسند افراد اور جیالوں کی ایسی برسات کرتی ہے کہ وہ ادارے
اپنا وجود ہی کھو بیٹھتے ہیں ۔ جماعت اسلامی ہند کے سربراہ سید جلال الدین
عمری نے پاکستانی سیاست پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں کے
کریکٹر کا مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص کو ٹین پرسنٹ کہتے تھے اسے ہی اٹھا کر ملک
کا صدر بنا لیا ہے اس سے زیادہ پاکستانی عوام کی سوچ کا اندازہ اور کیسے
لگایاجاسکتا ہے ۔اس وقت پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آئے ہوئے چار سال ہوچکے
ہیں لیکن یہ تمام عرصہ کرپشن ، بد انتظامی اقربا پروری اور عدالت عظمی کی
توہین اور فیصلوں سے انحراف سے ہی لبریز دکھائی دیتا ہے اگر ملک میں چیف
جسٹس افتخار محمد چودھری کی قیادت میں آزاد عدلیہ موجود نہ ہوتی تو اب تک
یہ ملک ( خوانخواستہ ) صفحہ ہستی سے ہی مٹ چکا ہوتا ۔لیکن عدلیہ کی جانب سے
این آر او سمیت جتنے بھی فیصلے کئے گئے ان تمام فیصلوں پر روح کے مطابق عمل
کرنے کی بجائے انہیں غیر ضروری التوا کا شکا ر کردیا گیا ۔ عدالتی فیصلے کے
باوجود سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں سید یوسف رضاگیلانی کو وزارت
عظمی سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن موجودہ وزیر اعظم راجا اشرف پرویز بھی یہ کہتے
ہوئے اسی راستے پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ آئین صدر کے خلاف سوئس حکام
کو خط لکھنے کی اجازت نہیں دیتا ۔قانون کی معمولی سدھ بدھ رکھنے والا ایک
عام شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آئین کی تشریح سپریم کورٹ کا کا م ہے لیکن
حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے مغرور اور خود سر جیالے ایک ہی رٹ لگائے
جارہے ہیں ۔ وزارت عظمی کے لیے نامزد کرتے وقت آصف علی زرداری نے بھی کہا
تھا کہ راجہ اشرف پرویز بھی گیلانی کی طرح بے نظیر کی قبر کا ٹرائل نہیں
ہونے دیں گے ۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ کرپشن کرکے پاکستانی قوم کے
600 کروڑ ڈالر زرداری نے سوئس بنکوں میں جمع کروا رکھے ہیں جن کی واپسی کے
لیے عدالت عظمی بار بار حکومت کو کاروائی کا حکم دے رہی ہے اس میں بے نظیر
بھٹو کی قبر کہاں سے آگئی اور اگر ایسی بات ہے بھی تو کرپٹ انسان زندہ ہو
یا مردہ کرپٹ ہی کہلاتا ہے غریب پاکستانی قوم کے پیسے لوٹ کر ملک سے باہر
لے جانا نہ صرف جرم ہے بلکہ پاکستانی قوم کے ساتھ سراسر زیادتی بھی ہے ۔افسوس
تو اس بات کا ہے کہ پاکستان میں کوئی جتنا بڑا جرم کرتا ہے اتنا ہی بڑا
عہدہ اسے دے دیا جاتا ہے موجودہ حکمرانوں میں آدھے سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی
طرح کرپشن اور لوٹ مار کے مقدمات میں ملوث ہیں اور ان کے مقدمات عدالتوں
میں زیر سماعت ہیں۔جس ملک کا سربراہ سب سے بڑا کرپٹ اور بدعنوان مشہور ہو
اس ملک کی حالت کیسے بدل سکتی ہے ۔اب ضمیروں کے اس سوداگر نے یکے بعد دیگرے
دو آئینی ترامیم پاس کروا کر نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تضحیک اور عدم
پیروی کا لائسنس حاصل کرنے کی جستجو کی ہے بلکہ یہ عملی طور پر عدالتی
دائرہ اختیار کو محدود کرنے کی کوشش ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ دوہری شہریت کی آڑ
میں ملکی سا لمیت کو نہ قابل تلافی نقصان پہنچانے کااہتمام کیاجارہا ہے ۔
سپریم کورٹ پہلے ہی آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے دوہری شہریت رکھنے والوں کی
پارلیمنٹ کی نمائندگی ختم کرچکی ہے۔اگر دوہری شہریت کا قانون نافذ ہوگیا تو
افغان مہاجرین سمیت بھارت یا امریکہ کی شہریت رکھنے والا کوئی بھی شخص (معین
قریشی ، شوکت عزیزکی طرح ) پاکستانی پارلیمنٹ کا نہ صرف ممبر بن سکتا ہے
بلکہ منصب صدارت اور وزارت عظمی پر بیٹھ کر ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچا سکتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دوسرے ملکوں میں روزگار کی تلاش میں
جانے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیئے ۔ آئین کی رو سے دوہری
شہریت کے حامل شخص کو کسی بھی عدالتی ، انتظامی اور آئینی عہدوں پر فائز
نہیں کیاجاسکتا ۔ لیکن زردار ی ٹولہ اپنے ضمیر فروش اتحادیوں کی بل بوتے
پریہ دونوں بل پاس کراکے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا مکمل تہیہ
کرچکا ہے ۔آئینی ماہرین اس بات کااظہار کرچکے ہیں کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے
سے متصادم دونوں ترامیم کو عدالت عظمی ختم کرنے کی مجاز ہے ۔ لیکن حکمران
کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں اور مسلسل تصادم کا راستہ اختیار کررہے
ہیں حالانکہ یہ تصادم جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا باعث بن سکتا ہے ۔ |